Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldڈاکٹر مجاہد الاسلام کی ادبی کاوش

ڈاکٹر مجاہد الاسلام کی ادبی کاوش

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

زیبا خان

ڈاکٹر مجاہد الاسلام اردو ادب کی فہرست میں ایک ایسا نام جو شاید کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ میدان تنقید نگاری ہو یا افسانہ نگاری، ان کے قلم نے دریا کی روانی کے مانند وہ پھول کھلائے ہیں، جو اردو ادب کے گلشن میں ہمیشہ ہی اپنی خوشبو بکھیرتے رہیں گے۔
ادب کی سب سے مشکل سمجھی جانے والی صنف تنقید نگاری پر ان کے بے باک رواں دواں قلم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مشکل پسندی ہی ان کا شغل ہے۔ تنقیدی مجموعہ ’ادب اور ابلاغ‘ میں انھوں نے اپناموضوع ان اکابرین ادب کو بنایا ہے جن پر کہ پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یا ہم یوں کہیں کہ اب کچھ اور لکھنا ان پر ممکن نہیں ہے۔ مگر جب وہ ان موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے ہیں تو اپنی شناخت الگ قائم کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
منٹوکا افسانوی اسلوب نگارش ہو یا پھرکلیم الدین احمد کا تنقیدی اسلوب نگارش،انھوں نے ہر جگہ اپنے کمال فن کا جادو دکھایا ہے۔
منٹو کے افسانوی اسلوب کا جائزہ لینے سے پہلے انہوں نے ان کے ہم عصر افسانہ نگاروں کرشن چندر، راجیندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی کا بھی مختصراًتعارف پیش کیا،تاکہ قاری کو یہ سمجھایا جا سکے کہ منٹو کا افسانوی اسلوب اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کے افسانوی اسلوب سے کیوں ؟اور کیسے مختلف ہے؟ایا پھر ان پر منٹو کو برتری حاصل بھی ہے یا نہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’کہانی کو قاری پسند کرے اس میں افسانے کے ابتدائی جملے اہم رول ادا کرتے ہیں۔ سا ئنس و فلسفے کے موضوع پر کتابیں پڑھنا انسان کی مجبوری تو ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے مطلوبہ معلومات فراہم کرنا مقصود ہوتا ہے لیکن لٹریچر کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہے اس کو قاری اسی وقت پڑھے گا جب وہ دلچسپ ہو اس کے لئے فرحت و انبساط کا سامان مہیا کرے۔اور اس بات کا اندازہ قاری کو افسانے کا پہلا جملہ پڑھنے کے بعد ہو جاتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر مجاہد ا لاسلام کا یہ اقتباس ان کے اپنے افسانوں کی تمہید کا راز بھی عیاں کرتا ہے۔ان کے ایک اہم افسانے’ اصل قاتل ‘کی یہ تمہید یہاں پر ملاحظہ ہو:
’’اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ انسانی زندگی اصل میں حالات و واقعات کا ہی مجموعہ ہے۔ان حالات و واقعات میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ذہن سے محو ہو جاتے ہیں اور کچھ انسان جب تک زندہ رہتا ہے اس کے دل و دماغ پر چھائے رہتے ہیں۔ نندنی کی موت کا واقعہ بھی میرے لئے کچھ ایسا ہی تھا۔ دو سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی میرے دل و دماغ پر ایسے ہی چھایا ہوا ہے جیسے کل ہی پیش آیا ہو‘‘۔
افسانے کی تمہید پڑھ کر ہی قاری پورا افسانہ پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر وہ کون سا واقعہ ہے جو افسانہ نگار کے ساتھ پیش آیا ہے جس کو وہ چاہ کر بھی نہیں بھلا پا رہا ہے۔
افسانے کا فن اور اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ اس کا اختتام ڈرامائی انداز میں ہو۔ ڈاکٹر مجاہد ا لاسلام اس فن میں بھی ماہر ہیں۔اس ذیل میںمتذکرہ افسانے کا ہی اقتباس ملاحظہ فرمایا جاسکتا ہے:
’’جس علاقے کا ہرن ہوتا ہے وہیں کے کتوں کے قابو چڑھتا ہے .۔میں اس محاورے کی نزاکت سے بخوبی واقف تھا اس کے باوجود بھی میں اپنے ذہن و دماغ کو ایک بار پھر مکدر نہیں کرنا چاہتا تھا…… انتطار کی تلخ کامی بھلے ہی مجھے منظور ہے…..۔مگر میں انیتا کا اصل قاتل نہیں بننا چاہتا‘‘۔
ان کے افسانے کو پڑھ کر قاری پر یک بارگی تذبذب کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔حالانکہ وہ جلد ہی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔ جس کی مثال میں ان کے افسانے ’نہار ی‘ سے دینا چاہوں گی:
’’مسعود ابھی سیما بھارتی کے سراپا کی ادھیڑ بن میں گم ہی تھا کہ اچانک اس کے ذہن کے پردے پر سلیم نہاری والے کا خیال کوند گیا۔سلیم کی چاندنی چوک پر نہاری کی دکان ہے اکثر وہ کل کی تیاری میں آج ہی جٹ جاتا ہے اسے ایسے کسی کولہے یا پائوں کی تلاش ہوتی ہے جو اس کی دیگ کو فورا لبالب بھر دے‘‘۔
یہ تو تھی ان کی افسانہ نگاری، اب ہم آتے ہیں ان کی تنقید نگاری کی طرف،اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’ادب اور ابلاغ‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’’شاعر یا ادیب اپنے خیالات کو قاری تک پہنچانے کے لیے ایسا انداز بیان اختیار کرے جس میں مشکل،دفیق،پیچیدہ الفاظ و تراکیب کا استعمال نہ ہو بلکہ اس کے لیے وہ عسیرالفہم الفاظ و تراکیب کا استعمال کرے، اس سے جہاں ابلاغ کا مقصد حاصل ہوگا وہیں تخلیق سے قاری کی دلچسپی بنی رہے گی‘‘۔
یہ اپنی جگہ حقیقت بھی ہے کہ چاہے وہ ان کی تنقید نگاری یا افسانہ نویسی انہوں نے ہر جگہ سادہ وعام فہم الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ویسے بھی سادہ مزاجی ہی ان کی شخصیت کی پہچان ہے ۔وہ آج بھی خود کو طالب علم ہی سمجھتے ہیں اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں:
’’علم اس دل میںاپنا مسکن نہیں بناتا ہے جہاں غرور ،گھمنڈ ہ اور تمرد ہو‘‘اور چیز ان کی ان کی شخصیت میںبدرجہ اتم موجود ہے۔
اگر یہ بات سچ ہے کہ’ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے‘تو میں بلا تامل یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ ڈاکٹر مجاہد الاسلام کی تخلیقات چاہے وہ تنقیدی یا تخلیقی اس کا عطر ہیں اس کا خلاصہ ہیں۔
شعبہ اردو،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،لکھنؤ کیمپس،لکھنؤ
ضضضض

 

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular