Thursday, May 2, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldڈاکٹر جہاں آراسلیم کی کتاب رہین ادب

ڈاکٹر جہاں آراسلیم کی کتاب رہین ادب

[email protected] 

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر ہارون رشید

’’رہین ادب ‘‘کی مصنفہ ڈاکٹر جہاں آرا سلیم کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب میں لکھنؤ یونیورسٹی میں ایم اے اردو کا طالبعلم تھا۔وہ شاید اپنی پی ایچ ڈی کی مصروفیتوں سے فارغ ہو چکی تھیں لیکن شعبہ میں اکثر ان کا آنا جانا تھا۔بعض ادبی تقریبات میں بھی ان سے ملاقات ہو جایا کرتی تھی (اس وقت شعبہ اردو کے طلبہ و طالبات شہر میں ہونے والی ا دبی تقریبات میںاکثر شریک ہوتے تھے)۔ایسی ہی ایک ادبی تقریب مشہور فکشن نگارڈاکٹر غضنفر،پرنسپل اردو ریسرچ سینٹر(پی کے بھون کے سامنے مدن موہن مالویہ روڈ حضرت گنج) نے اپنے ادارے میں منعقد کی ۔موضوع تھاڈاکٹر غضنفر کے دوست پروفیسر علی احمد فاطمی(شعبہ اردوالہٰ آباد یونیورسٹی) کی کتاب’’جڑیں اور کونپلیں‘‘یہ کتاب اصلاً دہلی میں منعقد ہونے والے ایک سمینار کے رپورتاژ پر مشتمل تھی۔چونکہ میرا غضنفر کے ہاں آنا جانا تھا اس لئے انھوںنےمجھے بھی کتاب کا ایک نسخہ دے کر اپنے تاثرات قلمبند کرنے کی فرمائش کی۔یہ پہلا موقع تھا جب میں نے اپنا کوئی مضمون با قاعدہ کسی ادبی تقریب میں پڑھا تھا ۔اس تقریب میں غضنفر کے علاوہ اسٹیج پر رام لعل،عابد سہیل،پروفیسر علی احمدفاطمی اور ناظم تقریب ڈاکٹر شیمہ رضوی جلوہ افروز تھے۔میں نے کتاب میںحیات اللہ انصاری اور آل احمد سرور کے سلسلے میں مصنف کے بیان پر اعتراض وارد کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہاں مصنف کے ہاتھ سے احتیاط کا دامن چھوٹ گیا ہے۔چونکہ میں سب سے جونئیر تھا اس لئے سب سے پہلے مجھے ہی ناظم نے پیش کیا تھا۔بعد میں آنے والے مقررین کی تقاریربشمول صدر اسی ایک جملے کے گرد گھومتی رہی۔یہ تو نہیں یاد کہ ڈاکٹر جہاں آرا سلیم نے اس تقریب میں کوئی مضمون یا مقالہ پیش کیا تھا یا نہیں لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں نے بعد میں اس تقریب کے حوالے سے ایک رپورتاژ لکھا تھا۔جو اتفاق سے شامل کتاب ہے ۔اس رپورتاژ میں انھوں نے میرا ذکر بھی کیا تھا ۔میرے حلیہ اور لباس کا خاکہ بھی انھوں نے کھینچا تھا۔ملاحظہ فرمائیں:۔
’’ شیمہ(ڈاکٹر شیمہ رضوی) کی آواز پر ایک ریسرچ اسکالر پھرتی سے ڈائس پر حاضر ۔اجلا کرتا پاجامہ اورایک واسکیٹ زیب تن کئے ہوئے۔۔۔۔۔دبلا پتلا جسم،سوکھی ہوئی ہڈیاں،چہرے اور جسم پرگوشت کی انتہائی کمی کو محسوس کراتے ہوئے گویا کوئی کرانتی کاری ہو۔۔۔۔جی ہاں ایک ریسرچ اسکالر ایک کرانتی کاری ہی تو ہوتا ہے۔۔۔۔واسکیٹ کی جیب سے ایک تحریری نوٹ باہر نکالتا ہے،مسکراتا ہے ،آنکھوں پر چشمہ چڑھاتا ہے ۔۔۔بے باکی لائق تحسین اور قابل نصیحت بھی ہے لیکن ساتھ ہی احتیاط بھی ضروری ہے ۔ چند دو ٹوک باتیں ،نہ لگی نہ لپٹی، ہارو رن شید نے کہیں اور ڈائس سے الگ ہو گئے‘‘
تب سے میری ان کی ملاقات بھی ہوگئی۔کچھ رسائل میں ڈاکٹر جہاں آرا سلیم کے افسانے اور ان کی تخلیق کردہ نثری نظمیں بھی نظر سے گذر چکی ہیں۔یعنی وہ بیک وقت افسانہ نگار اور شاعرہ بھی ہیں اسی لئے ان کی تنقیدی صحافتی اور تاثراتی تحریروں میں ایک خلاقانہ وصف ڈرامائی عنصر کے ساتھ نمایاں رہتا ہے۔جو’’ رہین ادب‘‘ کے تمام مضامین میں بھی کارفرما ہے اور جس کی ایک جھلک اوپر ان کے رپورتاژ کے اقتباس میں دیکھی جا سکتی ہے۔کتاب کے مقدمہ میں رضوان فاروقی نے بھی اس طرٖف واضح اشارے کئے ہیں۔
’’رہین ادب‘‘ڈاکٹر جہاں آرا سلیم کی تازہ ترین تصنیف ہے جس میں ان کے شائع شدہ اور غیر شائع شدہ چھوٹے بڑے ۲۳؍مضامین شامل ہیں۔جن شخصیات پر جہاں آرا نے قلم اْٹھایا ہے ان میں صحافی حسن واصف عثمانی،صحافی منظر سلیم،بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز،عالمی شہرت یافتہ ادیب،شاعرو ناظم مشاعرہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد،مشہور فکشن نقادوارث علوی،جدید لہجے کے منفرد شاعرعرفان صدیقی،فکشن نگار اور فکشن نقاد وصحافی عابد سہیل،خاکہ نگار و شاعرغلام رضوی گردش،شاعرو اردو سماج کے روح رواںڈاکٹر سلمان عباسی،دبستان لکھنؤ کے استاد شاعروالی آسی،البیلے شاعر اور خاکہ نگارانور ندیم،مشوہر شاعر اور اردوشاعری میںگیتا کے مترجم انور جلال پوری،عوام کے مخصوص شاعرنظیر اکبراآبادی،شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی،مصنفہ کے والد ماجد فیاض علی اوراردو میں ’’شمیم اور انور‘‘جیسے ناولوں کے خالق منشی فیاض علی شامل ہیں۔ان کے علاوہ ’’ہمارے مشاعرے جو پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کا انٹر ویو ہے جس میں ملک زادہ صاحب نے ازمنہ قدیم کے مشاعروں اور اپنے اخیر وقت کے مشاعروں پر اظہار خیال فرمایا ہے۔ان کا یہ خیال بہر حال اپنی معنویت کھوتا جا رہا ہے کہ ’’میں مشاعروں کو اردو کا ایک تہذیبی ادارہ سمجھتا ہوں جس سے اگر ہم دانش مندی سے کام لیں تو بہت ہی معنی خیز نتائج نکل سکتے ہیں‘‘۔۔کیونکہ آج مشاعروں کی صورت حال کیا ہے وہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔یادش بخیرلکھنؤ ،ایک ایسا مضمون ہے جس میں لکھنؤ کے شعر و ادب اور دیگر علوم و فنون پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ لکھنؤ کے پیپر مل کالونی میں رہنے والے ڈاکٹر سلمان عباسی سے ایک ملاقات میں برطانیہ میں اردو زبان و ادب کی سمت و رفتار قاری کے سامنے آتی ہے نیز لکھنؤ یونیورسٹی سے نکلنے والے بعض نامورناقدین شاعر ادیب اور صحافیوں کے بارے میں معلومات فراہم ہوتی ہے۔الہ باد کا ایک یادگار سفر مصنفہ کا سفر نامہ ہے جو الہ آ باد یونیورسٹی میں منعقدہ غالب کے دو سو سالہ جشن ولادت کے تعلق سے ہونے والے ایک سمینار میں شرکت کی غرض سے کیا گیاتھا۔لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سفر بلا ٹکٹ کیا گیا تھا کیوں اور کیسے یہ جاننے کے لئے سفرنامہ پڑھیے۔مضمون پڑھنے کے لئے کتاب حاصل کیجئے۔یہ سفرنامہ صرف اس لئے ہے کہ مصنفہ نے اس سمینار میں شرکت کی غرض سے سفر کیا تھا لیکن اصلا یہ سمینار کا رپورتاژ ہے ۔اور آخر میں وہ دلچسپ رپورتاژ جس کا ذکر ابتدائی حصہ میں ہی آچکا ہے۔اس رپورتاژ میں جہاں آرا کی نثر اور طرز بیان ان کے ذاتی اسلوب بیان سے بالکل جدا نظر آتی ہے۔ساتھ ہی رپورتاژ میں کچھ ایسے سوال بھی اٹھائے گئے تھے جن کے جواب آج تک نہیں مل سکے۔مثال کے طور پر پروفیسر محمود الحسن اپنے کس شاگرد کی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے تھے اس کا علم مجھے آج تک نہیں ہو سکا جبکہ میں اس وقت با ضابطہ شعبہ کا طالب علم تھا۔یہ چٹکی بھی لی گئی ہے:۔
’’ کہ مقررین کی فہرست میں پروفیسرملک زادہ منظور احمد،پروفیسر نیر مسعود،ڈاکٹر انیس اشفاق اور فضل امام صاحب کے نام بھی شامل تھے مگردور دور تک ان کا پتہ نہیں تھا۔کیوں نہیں آئے یہ وہ جانیں ،ان کی مصروفتیں جانیں یا پھر ان کی مصلحتیں۔
دراصل آخری فقرہ ہی وہ چٹکی ہے جسے وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس وقت کے لکھنؤ کے ادبی ماحول کو سمجھتے ہیں اور خود جہاں آرا صاحبہ بھی سمجھتی ہیں لیکن میں یہ آج عرض کردوں کہ ڈاکٹر انیس اشفاق صاحب ان دنوں لکھنؤ میں نہیں تھے۔یہ تو انیس اشفاق صاحب کو بھی یاد نہیں ہوگا کہ وہ تھے کہ نہیں تھے لیکن مجھے اس لئے یاد ہے کہ میں نے اپنا پہلا مضمون ہونے کی وجہ سے ان کا آخری دن تک بہت انتظار کیا تھا کہ انھیں دکھا سکوں جب وہ مذاکرہ کے دن تک لکھنؤ نہیں آئے تو میں نے اپنا مضمون ڈاکٹر شیمہ رضوی صاحبہ کو دکھایا تھاجو اس مذاکرہ کی نظامت کرنے والی تھیں۔
اس کامیاب اور دلچسپ رپورتاژ کے بعد جہاں آرا کا کوئی دوسرا رپورتاژ آج تک نظر سے نہیں گذرااگر وہ اس سلسلہ کو جاری رکھتیں تو لکھنؤ کے حوالے سے ہی بہت اہم ادبی رپورتاژ تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہو گئے ہوتے۔اب سے یہ سلسلہ وہ شروع کر سکتی ہیں۔کتاب کے تمام مضامین پر پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ مضامین تنقیدی نہیں ہیں بلکہ تاثراتی ہیں جس شخصیت کو جیسا انھوں نے پایا اسے ویسا ہی پیش کرنے کی انھوں نے کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتی ہیں۔
یہ قابل قدر امر ہے کہ ڈاکٹر جہاں آرا سلیم باقاعدہ اردو کی درس و تدریس سے وابستہ نہیں ہیں اور نہ ہی اردو کے کسی منفعت بخش منصب پر فائز ہیں پھر بھی اردو کی خدمت میں سرگرداں ہیں۔ایسے ہی لوگ اصلا ارو زبان و ادب کے سچے خادم ہیں۔’’رہین ادب‘‘ میںانھوں نے جن شخصیات پر قلم اٹھایا ہے ان شخصیات پرجب بھی ادبی تحقیق کی جائے گی تو اس کتاب کے مشمولات کارآمد ثابت ہوں گے۔ادب اور ادبیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے کتاب اپنے دلچسپ انداز بیان اور بعض اہم معلوماتی حوالوں کی بنا پراہمیت کی حامل ہے۔ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل کتاب ڈاکٹر جہاں آرا سلیم نے خود اپنے صرفے سے چھپوائی ہے پھر بھی کتاب کی قیمت صرف ۱۰۰؍روپے رکھی ہے۔جبکہ اکادمیوں اور کمیٹیوں سے مالی تعاون ملنے کے بعد بھی کسی کتاب کی قیمت دو سو روپے سے کم رکھاجانا اب چلن میں نہیں ہے۔ امید کی جانا چاہئے کہ جہاں آرا کی اس دتاویزی حیثیت کی حامل کتاب کو علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کی پذیرائی حاصل ہوگی۔
9956779708
[email protected]


RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular