Tuesday, May 7, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldپروین شاکر کی رسومیاتی انفرادیت

پروین شاکر کی رسومیاتی انفرادیت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

اطہر حسین

پروین شاکر اردو کی محبوب اور مقبول عام شاعرہ ہیں۔اردو شعرو ادب سے دلچسپی رکھنے والے ایسے کم ملیںگے جنھیں پروین شاکر کے ایک دوشعر یاد نہ ہوں۔اس مقبولیت کا کوئی ایک سبب نہیں بیان کیا جاسکتا ۔اس میں ان کے انداز شعر گوئی بطور خاص ان کا منفرد انداز شعر خاص اہمیت رکھتا ہے ۔انھوں نے جن مضامین کو اپنے شعری تجربے کا حصہ بنایا وہ غز ل کے عام مضامین تو تھے مگر اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے بعض نسائی جذبات و احساسات کی اس طرح ترجمانی کی کہ وہ انھیں کا حصہ بن گئے ۔پروین شاکر کا مشہور شعر ہے
لڑکیوں کے دکھ عجب ہوتے ہیں سکھ اس سے عجیب
ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
یہ شعر پروین شاکر کے منفرد انداز و اسلوب کی بہت عمدہ نمائندگی کرتا ہے ۔ نسائی جذبے کی ترجمانی جس اندازسے کی گئی ہے وہ پروین شاکر کی پہچان بن گیا ہے ۔جذبہ واحساس کے ساتھ ساتھ بھر پور پیکر کی صورت میں شعر خلق کیا گیا ہے ۔آنسو دکھ اور سکھ دونوں کا ساتھی ہے مگر کاجل کی رعایت نے شعر کو بہت بلیغ کردیا ہے ۔اس شعر سے لڑکیوں کی چھوئی موئی طبیعت کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔اور یہ بھی کہ ان کے دکھ اور سکھ باہم مربوط ہیں ۔شعر میں’’ کاجل بھیگتا ہے‘‘کا فقرہ بہت بھرپور ہے ۔
پروین شاکر کی غزلوں کی رسومیاتی دنیا منفرد ہے اردو غزلوںمیں عموماً محبوب مرد ہوتا ہے اور عورتوں کی طرف سے اظہار عشق کیا جاتا ہے مگر پروین شاکر نے اردو کی روایتی شاعری میں اس قدر بے باکی سے اپنے محبوب کو ظاہر کیا ہے ۔اس کے علاوہ اردو کی روایتی شاعری میں عورت(محبوب) کو بے وفا اور سنگدل ٹہرایا جاتا رہا ہے مگر پروین شاکر نے پہلی دفعہ مرد کا ہرجائی پن اور اس کا بے وفا ہونا ثابت کیا ہے۔ہماری اردو شاعری کا رقیب عموما مرد ہوتا ہے مگر یہاں بھی پروین شاکر نے نئے پہلو نکالے ہیں اور ایک عورت کو اردو شاعری کا رقیب ثابت کیا ہے۔اسے پروین شاکر کی انفرادیت نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔
اسی تناظر میں پروین شاکر کے ایک اور مشہور شعر کو یاد کرلینا چاہیے جس میں بیان کی ندرت بھی ہے اور مضمون کا انوکھا پن بھی ۔
ریل کی سیٹی میں کیسی ہجر کی تمہید تھی
اس کو رخصت کرکے گھر لوٹے تو اندازہ ہوا
ریل کی سیٹی کو ہجر کی تمہید قرار دیا گیا ہے ۔بے بسی اور لاچاری کی ایک الگ دنیا ہوتی ہے مگر یہاں اس لاچاری میں کسی طرح کا سبب نہیں بتایا گیا بلکہ صرف ایک لفظ رخصت کا رکھ دیا گیا ہے۔شعر کے پورے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ (رخصت )ناگزیر تھا ۔
پروین شاکر نے روایتی شاعری کے مروجہ استعاروں اور علامتوں بلبل ،پروانہ ،شمع،برق ،خرمن، صید وصیاد اور دانہ ودام کی بجائے خوشبو، تتلی،جگنو ،مہندی،چوڑی اور رات کی رانی سے غزلوں کو آراستہ کیا ۔ دھوپ،سورج،شفق،چاند،بادل ،روشنی قوس وقزح ،ہوا اور پانی جیسے الفاط سے انہوں نے اپنی شاعری کی امیجری تیار کی۔جس سے ان کی شاعری میں فطرت کے رنگوں ،تتلیوں ،پھولوں اور پرندوں کی چہچہاہٹ شامل ہوگئی ہے۔احمد ندیم قاسمی جو پروین شاکر کی شاعری کے قدر دان رہے ہیں وہ لکھتے ہیں:
’’میں نے اردو ،پنجابی،انگریزی ،فارسی اور کسی حد تک عربی شاعری کا مطالعہ کیا ہے مگر آج تک پروین کی سی امیجری شاز ہی دیکھی ہے کہ اس کے یہاںتو بادل کے ہاتھ کو تھام کر چلنے والی خوشبوئیں ہیں،سناٹون کے تہ خانے ہیں ،کھڑکیوں پر چاند کی دستکیں ہیں،نکہتوں کے عکس ہیں۔بچپن میں ساتھ کھیلی ہوئی برکھارتیں ہیں۔فصل بہار کے پہلے گلاب کی ٹھنڈکیں ہیں،اشجار کی سبز پوش ہوتی ہوئی برہنگیاں ہیں ،اڑانوں کی گرمی سے اپنے پرندوں کو جلا لیتی ہوئی تتلیاں ہیں اور شاخ گل کی صلیبوں پر بالیوں کی طرح لٹکتے چاند ہیں اتنی پر جمال امیجری اگر اور بھی کہیں دستیاب ہے تو پھر میرا مطالعہ محدود ہے۔‘‘(مضمون پروین شاکر کی خوشبو احمد ندیم قاسمی)
پروین شاکر نے روایتی غزل میں استعمال ہونے والی تشبیہات واستعارات میں بھی جدت پیدا کی ہے جس سے انسانی نفسیات سے بھی آگہی ہوتی ہے۔
اک حجاب تہ اقرار ہے مانع ورنہ
گل کو معلوم ہے کیا دست صبا چاہتا ہے
شعر کے استفہام برائے اثبات ہے ۔
اردو غزل میں ہجر یاجدائی کا سبب محبوب کو گردانا جاتا ہے۔البتہ اس عام مضمون سے اگر کوئی انحراف کرتاہے تو شعری رسومیات کی رو سے اسے کوئی نہ کوئی دلیل لانی پڑتی ہے ۔پروین شاکر نے دلیل کے ساتھ ساتھ روایتی شاعری سے انحراف کرتے ہوئے ترک رفاقت کا الزام اپنے سر لیا ہے۔
کچھ تو تھی میری خطا ورنہ وہ
کیوںاس طرح ترک رفاقت کرتا
اور اس سے نہ رہی کوئی طلب
بس میرے پیار کی عزت کرتا
پروین شاکر نہ صرف غزل کی روایت سے واقف تھیں بلکہ عورت ہونے کی وجہ سے وہ نسائی جذبات و احساسات کے سلسلے میں اب تک جو شعری روایت رہی ہے اسے بھی جانتی تھیں اسی لیے انھوں نے جو کچھ کہا اس میں اعتماد اور یقین دونوں تھا ۔وہ خود لکھتی ہیں۔
’’شاعری اپنے ماحول اور زمین سے پھوٹتی ہے ۔ہمارے یہاںمیرابائی کی روایت تو تھی جہاں عورت شعر کہتی ہے اور اسے اپنے عورت ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے وہ اپنے محبوب کی شخصیت اس کے لباس اس کے مزاج اور اس کے طور طریقے سبھی کچھ شعر میں بیان کرتی ہے ‘‘ ( اردو غزل کی ماہ تمام ،پروین شاکر صفحہ27)
پروین شاکر نے بے باکی کے ساتھ اپنے محبوب سے دلفریبی اور محبت کا اظہار کیا ہے ۔جذبوں کی یہ بیباکی مہذب بھی ہے اور اپنی شعری روایت سے قریب تر بھی ۔ایسے موقعوں پر ہی پروین شاکر کے انداز اور اسلوب کو دیکھا جاسکتا ہے جہاں جذبات کی شدت بھی ہو اور عام شعری مضامین سے الگ کچھ کہنے کی کوشش ۔
اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا
مگر تمہاری طرح مجھ کو کون چاہے گا
تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا
روایتی شاعری کے برعکس پروین شاکر کے یہاں ان کا محبوب انسانی صفات سے لبریز ایک گوشت پوست والا انسان ہے ۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان کے یہاں عشق ،عشق مجازی ہے ۔پروین شاکر وصل کی آرزؤ ں کا بیان بہت سرگرمی سے کرتی ہیں ۔
کوئی رات میرے آشنا مجھے یوں بھی تو نصیب ہو
نا خیال ہو لباس کا وہ اتنا میرے قریب ہو
بدن کی گرم آنچ سے میری آرزو کو آگ دے
میرا جوش بھی بہک اٹھے میرا حال بھی عجیب ہو
تیرے چاشنی وجود کا میں سارا رس نچوڑ لوں
پھر تو ہی میرا مرض ہو پھر تو ہی میرا طبیب ہو
پروین شاکر کے یہاں وصل وفراق کی کیفیت بار بار نظر آتی ہے چونکہ پروین شکر اپنی خود کی زندگی میں اس سے دوچار ہوئی ہیں ۔ان کے یہاں ہجر سے زیادہ وصل کی تڑپ نظر آتی ہے۔ان کے یہاں وصل وفراق کے الگ الگ استعارے ملتے ہیں عموماً ہجر کی راتوں میں جب انہیں اپنے محبوب کا قرب حاصل نہیں ہوتا تو چاند تاروں میں اس کا وجود نظر آتاہے۔
وہ چاند بن کے میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
میں اس کے ہجر کی راتوں میں کب اکیلی ہوئی
چاند آمل کے منائیں یہ شب
آج کی رات میرے ساتھ کٹے
جس نے شب وروز ہجر میں تڑپ تڑپ کر گزارے ہوں ان کے یہاں وصل کا اور ہی مزا ہوگا۔ہماری کلاسیکی شاعری میں اس نوع کے بے شمار اشعار ہیں ۔ان شعرا نے اپنے اپنے انداز ہنر کی خوب داد دی ہے مگر ان سب کے باوجود پروین شاکر کے شعر کی معنویت یہی ہے کہ اتنا سب کچھ کہنے کے باوجود اس شعر میں تازگی بھی ہے اور بیان کا حسن بھی ۔
وصل میں تیرے خرابے بھی لگیں گھر کی طرح
اور تیرے ہجر میں بستی بھی ویرانہ ہمیں
سچ تمہارے سارے کڑوے تھے مگر اچھے لگے
پھانس بن کر رہ گیا بس ایک افسانہ ہمیں
پروین شاکر کے یہاں تجدید وفا کی کیفیت بھی ملتی ہے اور یہ تجدید وفا عموماً یک طرفہ ہی نظر آتی ہے ۔تجدید وفا میں پروین شاکر پہل کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اسے پروین شاکر کا اجتہاد بھی کہا جاسکتا ہے۔
تجھ کو خواہش تھی کہ گہری رات کا تارا بنے
آ کہ اب پہلے سے بھی تاریک ہیں گیسو گھر کے
انسانی فطرت میں انا کو بڑی اہمت حاصل ہے انسان اپنی انا کی خاطر کچھ بھی کرتا ہے مگر اس کو ٹھیس نہیں پہونچنے دیتا ہے ۔پروین شاکر کے یہاں اس کے برعکس نظر آتا ہے وہ یہ کہ وہ اپنی ذات اور اپنی انا کو اپنے محبوب کے ساتھ کمتر درجہ دیتی ہیں یہی عشق کی انتہا بھی ہے جو ان کے یہاں بار بار نظر آتی ہے ۔وہ ایک شعر میں اپنے محبوب کو چاند سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں :
مجھکو تسلیم میرے چاند کہ میں
تیرے ہمراہ ہوں گہن کی طرح
پروین شاکر اپنے آپ کو سیفو اور میرا بائی کے ہم پلہ گردانتی ہیں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ دونوں کی شاعری کا محور عشق ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ میرا کے یہاں عشق حقیقی ہے اور پروین شاکر کے یہاں عشق مجازی ہے مگر عشق ومحبت کی کیفیت کے بیان میں دونوں کے احوال یکساں ہیں۔عشق کی بے تابی اور بے قراری دونوں کے یہاں ملتی ہیں :
کوئی سیفو ہو کہ میرا ہو کہ پروین اسے
راس آتا ہی نہیں چاند نگر میں رہنا
پروین کی غزلیں سادگی و پرکاری کا عمدہ نمونہ کہی جاسکتی ہیں۔ ان کے یہاں لفظوں کے انتخاب کا ایک سلیقہ ہے ۔ان کی شاعری میں نغمگی اور موسیقیت پائی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ ان کی شاعری میں گہرا تفکر ،سنجیدگی اور عصری حسیت بھی موجود ہے ۔پروین شاکر کی شاعری میں جو جرأت پسندی ملتی ہے وہ کسی اور خاتون شاعرہ کے یہاں نہیں ملتی ۔کشور ناہد کی طرح پروین شاکر کے یہاں بھی ورکنگ لیڈی کا کردار ملتا ہے جو گھر سے باہر نکل شب وروز محنت ومشقت کرتی ہیں۔تانیثی ادب میں نسائی لب ولیجے کی ترجمانی اور ان کے مسائل کی حمایت میں پروین شاکرکو انفرادیت حاصل ہے ۔ان کے لہجے میں ایک کرب ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان شاعری کا بیشتر حصہ عورت اور اس کے حقوق ،محبت اور اس کے لوازمات کے اردگرد گردش کرتا ہے ۔ان کی غزلوں کی دنیا پامال مضامین مستعمل رسومیات پر قانع نہیں ہے بلکہ ان کی منفرد طبیعت بہت کچھ نیا کرنے چاہتی ہے اور کرتی بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پروین شاکر کو مختصر سی زندگی میں جو شہرت حاصل ہوئی وہ ان کی ہمعصر شاعرات کو حاصل نہیں ہوسکی۔
مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی(لکھنؤ کیمپس)
8074378435

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular