Friday, May 3, 2024
spot_img

پرائی

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

اسریٰ رضوی

ایک لڑکی تھی جو بہت امیر باپ کی بیٹی تھی ماں باپ کی محبت گاڑی بنگلہ پیسہ اسکے پاس سب کچھ تھا۔۔ مگر اکثر وہ یہ سنتی تھی کے اسے پرایا کہا جاتا ہے ۔۔۔ کبھی الھڑ چال چلتی تو گھر کے کسی کونے سے آواز آتی او لاڈلی تھم کے چل تو اور کی امانت ہے ۔۔ کبھی زور سے کسی بات پر تالی پیٹ کر ہنس دیتی یا سر سے آنچل سرک جاتا تو کوئ سخت لہجے میں کہتا ہوش کر ۔۔۔۔ پرائ ہے تو سمبھل کے رہ ۔۔۔ بچپن تو ناسمجھی میں گزر گیا تھا لیکن اس کے شعور میں پرایا لفظ جیسے چبھ سا گیا تھا ۔۔۔ پھر رفتہ رفتہ وہ اِس لفظ کی اہمیت سے بھی آگاہ ہو چلی تھی سو تھم سی گئ تھی ۔۔گزرتے وقت کے ساتھ اسے یہ بات سمجھ میں آگئ تھی کہ وہ اس گھر اور گھر کے لوگوں کے درمیاں ایک مہمان ہے جسسےی لوگ بے پناہ قدر بے لوث محبت کرتے ہیں ۔۔۔ مگر اسے یہ سب کچھ چھوڑ کر دوسرے گھر جانا ہے جو اسکا اپنا ہوگا ۔۔۔ جہاں کے لوگ اسے پرایا نہیں کہیں گے بے خوف وہ زندگی سے لطف اندوز ہو سکے گی وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا اور وہ دن بھی آگیا جب اسے اس گھر کو وداع کہنا تھا بائیس سال سے جس دہلیز کے اندر اس نے خود کو محفوظ جانا تھا اج اسے اسکے اُس پار جانا تھا ۔۔۔۔ سر پر دبیز گھوگھٹ ڈالے رہ جانے والوں سےدوری کے احساس سے دل ملول پلکین ڈھیروں خواب کے بوجھ تلے جھکائے۔۔۔ اپنے گھر جانے کے احساس سے سرشار ۔۔ نئے لوگوں کو اپنا سمجھے۔۔۔ مدھم چال سے وہ رخصتی کے آخری پڑاو سے گزر کر نئے گھر میں آگئ تھی ۔۔۔۔۔ ایک اپنا ہونے کا احساس اسے اترائے پھرنے پر مجبور کر رہا تھا ۔۔۔۔ آج بھی وہ صبح سے نئ سر گرمیوں میں مشغول تھی۔۔۔ ہر چند کے 17 کمروں کے بنگلے سے 5کمرےکے گھر میں منتقل ہوئ تھی مگر اس کا کوئ ملال نہ تھا۔۔۔ اسنے کچن میں جاکر جھانکا تو کھانا تیاری کے قریب تھا عادتاً اُسنے زوردار سانس لی اور کھانے کی تعریف کرکے کچھ ایک چیز مذید بنانے کا کہہ کر پلٹی تھی کہ آواز نے اسکے قدم روک لیے او بی بی زرا تھم کے یہ تمہارا گھر نہیں ہے جو مذید پکوان بنانے کا کہہ کر چلیں دوجے گھر سے آئ ہو زرا ہوش سے رہو۔۔۔۔ ذہن پر یہ الفظ جیسے کوڑے کی طرح پڑے تھے ۔۔۔ بھاگتی ہوئ کمرےمیں ائ اور بیڈ پر دراز ہوگی ۔۔۔۔بابا کے گھر پر تو ایسی کسی بات پر پرایا نہیں کہا جاتا تھا مگر تھی تو پرائ ہی نہ اگر میں یہاں بھی پرائ ہوں۔۔۔ ۔۔ تو آخر میرا گھر کہاں ہے ۔۔۔۔ یہ سوال ٹوٹ کر اسکے اندر بکھر گیا جسکی کرچیا اسکے وجود میں سرائیت کرگئ ۔۔۔اوہ میرے خدایا کیا سب لڑکیاں بے گھر کی ہوتی ہیں یا صرف میں بد نصیب ہوں۔۔۔۔ نہیں نہیں خدا نہ کرے کوئ بے گھر ہو ۔۔۔۔ بدائ کی رسمیں تو سبھی لڑکیوں کے لیے ایک جیسی ہے تو پھر ۔۔۔۔وہ گھبرا کر اٹھی اور اپنے خواب اور خیال کے تمام ملبے سمیٹ کردل کے کسی کونے میں دفن کر دیے۔۔۔۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular