Sunday, May 5, 2024
spot_img

ٹفن

[email protected] 

9807694588(موسی رضا۔)

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


ہاشمی فاطمہ

جنوری کا مہینہ اورسرد ہو ا کے عالم میں آج پھر ایک بار تعطیل کے اختتام کے بعد کالج کھل گیا ۔سردیوں کے موسم میں سب سے مشکل کا م ہے رضائی سے نکل کر امور خانہ داری کو انجام دینا ۔میں نے امی کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ صبح چھ بجے مجھے بیدار کردیتی ۔اگر اٹھنے میں زرا کسالت کی تو نئے سال کی نئی امید کے راپ الاپنے لگتیں ۔اکتس دسمبر کی رات میں بیٹھ جو عہد کیا گیا تھا حریم کیا تم کو کچھ یاد ہے ؟؟؟
اٹھو حریم اپنے مقصد کی تلاش میں اپنے چین سکون کو بالاے طاق رکھنا ہوگا ۔
ہاں مجھے معلوم ہے سردیوں میں کمبل رضائی کے علاوہ کچھ بھاتا نہیں ہے ۔تم کو معلوم ہے نو بجنے والے ہیں اس وقت تک وہ تمام لوگ اپنے روز گار سے جڑ چکے ہونگے جو روزانہ کنواں کھودتے ہیں اور پانی پیتے ہیں ۔
امی اب بس بھی کریں میں اٹھ جاتی ہوں ۔مہربانی کرکے آپ خاموش رہیں ۔حریم نے جز بجز ہوکر بڑ بڑاتے ہوئے کمبل سے باہر نکل آئ ۔
جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر وضوء کیا نماز فجر ادا کی، مختصر طور پر تلاوت بھی کرلیا ۔
نیا سال شروع ہوچکا تھا اتفاق سے اس وقت کالج بند ہو گیا تھا ۔جس کی وجہ سے حریم کی دوستوں سے ملاقات نہیں ہوئ تھی ۔اب اسے کالج جانے کی جلدی تھی گھر میں رہتے ہوئے اسے اب بیذارگی ہونے لگی تھی ۔کچن میں چائے بناتے ہوئے یہ ساری باتیں اس کے ذہن میں گردش کررہی تھیں ۔کچھ وقت گزرنے کے بعد اچانک اس کی نگاہ گھڑی پر پڑ گئ ۔دیکھا گھڑی میں نو بجنے والے ہیں ۔
کالج کا پہلا دن تھا اور اس نے وعدہ کیا تھاکہ رفیق اگلی بار آوں گی تیرے لئے پاستہ بنا کر لاوں گی ۔
یہ بات حریم بھول چکی تھی کالج جانے کے لئے تیار ہورہی تھی آئینہ دیکھتے ہوئے اسکارف کی پن کان کے اوپر چبھاتے ہوئےحریم کو یاد آگئی ۔
کیا کروں اب تو امی نےٹفن بنادیا ہوگا ۔خیر کوئی نہیں دل ہی دل میں سوچا باہر سے بریانی لےلوں گی۔
حریم برق رفتاری کے ساتھ بیگ لے کر گھر سے باہر نکل گئی ۔
اسکارف پہننے حریم آج کچھ زیادہ ہی پر کشش لگ رہی تھی۔آنکھوں میں باریک سرمہ کی سلائ پھیرنے سے خوبصورتی کی دیوی معلوم ہورہی تھی ۔بڑی بڑی کٹورے جیسی آنکھیں دیکھ کر رفیق کے دل کو ٹھنڈک ملتی تھی ۔
بیس منٹ میں وہ کالج پہونچ گئی گھر سے کچھ فاصلے پر کریم ہوٹل کی بریانی حریم نے ٹفن میں رکھ لیا تھا اور تیزی کے ساتھ کالج چلی گئی ۔صدر دروازے سے دائیں جانب رفیق کا ہاسٹل تھا حریم اکثر گیٹ کے داخل ہوتے ہی پہلی نگاہ ہاسٹل کی پر ڈالتی تھی ۔اونچے بلند وبالا جھاڑ ہونے کی وجہ سے ہاسٹل کے کمروں کی پوشیدگی کبھی کبھی حریم کو بہت تڑپادیا کرتی تھی ۔
خیر دل سے جس کہ چاہ ہوتی ہے اسے کسی کی محتاجگی نہیں ہوتی ۔پہلی نظر میں رفیق نے حریم کو دیکھتے ہی بائیں ہاتھ کو لہراتے ہوئے اشارے سے سلام کیا ۔رفیق صبح ناشتہ کرکے چھت پر چائے لیکر چلاجاتا تھا ۔یہ وہی کپ تھا جسے حریم رفیق کے برتھڈے پر تحفے میں دیا تھا ۔
نظر سے ملی نظر اور دل کو ملا سکون۔پھر حریم نے جلدی سے رفیق کو واپس آنے کو کہا ۔
رفیق جھٹ پٹ تیار ہوکر کلاس کی طرف چل پڑا ۔مرکزی کتب خانے کے سامنے میر تقی میر پارک میں حریم رفیق کے انتظار میں بیٹھی تھی ۔
کاٹے نہیں کٹتے ہیں لمحے انتظار کے ۔۔۔۔۔۔۔
رفیق نے آتے ہیں حریم کو سلام کیا ۔سلام علیکم
وعلیکم السلام ،اور کیسے ہو بابو
شکر ہے تمہاری دعا ہے حریم کو دیکھتے ہوئے رفیق نے جواب دیا ۔
اور بتاو کیسا رہا چھٹیوں کا دن تمہارا؟؟؟؟
کچھ خاص نہیں یار گھر پر میں بور ہورہی تھی ۔
بور ہونے کی وجہ جان سکتا ہوں ۔یا میری یاد آرہی تھی اس بار ہسنتے ہوئے رفیق نے پوچھا؟؟
ہاں یار کیا بتاوں ایسا ہی سمجھو ۔حریم رفیق کو بغور دیکھ رہی تھی ۔
رفیق اپنے بیگ کو دیکھ رہا تھا اور اس کو خبر نہیں کہ حریم مجھے دیکھے جا رہی ہے ۔
نظر جھکائے رفیق نے پھر پوچھا اور گھر پر امی ابو سب بخیر ہیں ؟؟
اس بار حریم گھبراہٹ کے عالم میں بولی ہاں سب لوگ ٹھیک ہیں
رفیق کے اچانک سوال پر حریم کے تخیل میں شرارے اٹھنے لگے تھے ۔اس کی خواہش تھی کہ وہ جی بھر کے دیکھے ۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ کچھ بات ہو ۔شاید وہ آج اسے کچھ کہنا چاہتی تھی ۔
دل میں بہت ساری باتیں تھیں ۔
اچھا بتاو آج کھانے میں کیا لائی ہو میرے لئے ۔
تم کو کیا پسند ہے بولو؟؟؟
ارے یار بتاونہ کیا لائی ہو ۔اس بار رفیق جلد بازی میں اس کا بیگ چھیننے لگا ۔
حریم مضبوطی سے اپنے بیگ کو پکڑ لیا ۔نہیں بتاو تم کو کیا کھانا ہے ۔تمہاری پسند کا کھانا لائی ہوں حریم اس بار اٹھ کھیلیاں کرتے ہوئے بولی تھی ۔
حریم لو اچھی طرح معلوم تھا کہ رفیق لو بریانی بہت پسند ہے ۔
کبھی کبھی تو یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی تھی رفیق کو میں زیادہ پسند ہوں یا میری ٹفن کا کھانا ۔
نہیں بتاوں گی پہلے بتاو تب ملے گا ۔
یار سچ بتاؤں مجھے کیا پسند ہے؟؟
ہان ایک دم سچ بولو ۔
تو سنو مجھے تم پسند ہو ۔
اتنا سننا تھا کہ حریم کی گرفت اب کمزور پڑ گئی ۔
دونوں کی آنکھیں چار ہو گئیں ۔
کافی دیر تک دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے ۔
نہ کھانے کی سدھ تھی نہ بولنے کی بس دیکھنا کھانے سے بیشتر لازم ٹھہرا ۔
رفیق ایک بات کہوں؟؟
رفیق ۔۔۔۔۔۔سنو ایک بات کہوں
ہان بولو رفیق نے ہاتھ پر ہاتھ رکھے ساکت ہوکر آہستہ سے بولا
۔حریم بولو نہ تم کو کیا بولنا ہے ۔
آج بریانی لائی ہوں ۔
ایک دم سے دونوں ہنس پڑے ۔
حریم نے فورا ٹفن کھولا اور بریانی رفیق کے سامنے رکھ دیا ۔
رفیق بریانی کھانے میں مصروف تھا ۔ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ بہت دنوں سے اسے اچھا کھانا نصیب نہیں ہوا ہے ۔یا اسے میرے کھانے کا انتظار تھا ۔
اب سنو میری بات ۔
ہاں سناؤ۔
میرے اور قریب آؤ ۔
اوکے یہ لو آگیا ۔
اتنا قریب کی حریم کے کندھے رفیق کے کندھے میں ضم ہوگئے ۔
بے پرواہی میں کبھی کبھی حریم کے بدن میں جھر جھری سی آجاتی تھی مگر ظاہر نہیں کرتی تھی ۔
میں نے تم کوآج کچھ کہنا ہے سنو ۔

کسی کمزور لمحے میں
اگر میں کہہ پڑوں تم کو
مجھے تم سے محبت ہے
تو ہنس کر ٹال دینا بات میری اور بتانا کہ
محبت جن سے ہوتی ہے
انہیں آگاہ نہیں کرتے
کہ آگاہی محبت میں گویا موت ہوتی ہے
محبت نام ہے خاموش جذبے کا
سسکنے کا
تڑپنے کا
سلگنے کا
اگر بتلاؤ گے محبوب کو چاہت کے بارے میں
وہ تم سے دور جائے گا
وہ تم کو چھوڑ جائے گا
وہ تم کو خاص سے یکدم ہی بالکل عام کردے گا
وہ تم کو عشق کے بازار میں بےدام کردے گا
سو اے ہمدم
لگاؤ دل کو تم سو بار لیکن دھیان یہ رکھنا
تمہارے دل میں جو ٹھہرے
اسے یہ مت بتانا کہ وہ تمہارے دل کا باسی ہے
اسے یہ مت بتانا کہ بغیر اسکے اداسی ہے
اسے بالکل نہ جتلانا کہ تم کو اسکی چاہت ہے
اسے بالکل نہ بتلانا تمہیں اس سے محبت ہے
رفیق یہ باتیں سن رہا تھا ختم ہو چکا تھا ۔مگر رفیق کے دل میں وہ ساری باتیں بیٹھ گئی تھی ۔
شام ہوئی تو رفیق حریم کو گیٹ تک چھوڑ کر ہاسٹل روانہ ہوگیا ۔
دن مہینے سال گزرتے رہے مگر کبھی دوستی میں کوئی درار نہیں آئی ۔دو سال ختم ہو گئے کیسے وقت نکل گیا معلوم نہیں ۔
ادھر رفیق کے گھر والوں نے بڑی امید لگا رکھی تھی ۔بیٹا ملازمت کرے گا تو گھر میں آسانیاں ہونگی ۔سماجی حالات کا اندازہ گھر والوں کو نہیں تھا کہ اس عہد جدید میں ایم اے کرنے کے بعد بھی نوکری نہیں ملتی ہے ۔
رفیق بھی اپنے کیریئر کے چکر میں خاک چھان ہی رہا تھا ۔
ادھر حریم کی شادی کہیں طئے کردی گئ جس سے حریم خوش نہیں تھی ۔بڑے بھائی کہ ضد تھی کہ حریم کے ایم اے کرنے کے بعداس کی شادی کردینی ہے۔مگر حریم کی خواہش کی ابھی پڑھائی کرے شاید رفیق کی نوکری کا کوئی بندو بست ہو جائے تو وہ اپنے گھر میں بات کرے ۔
مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
حریم کی شادی اس کے آبائی وطن جاکر کردی گئی ۔
آخری مرتبہ بات رفیق سے حریم نے الوداعی تقریب میں کی تھی ۔اس کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ۔کیونکہ رفیق ایم فل میں داخلہ لے چکا تھا ۔اور اس وقت سے حریم کا نمبر بھی مسلسل بند آرہا تھا ۔
حریم شادی کے بعد لکھنو میں مقیم ہو گئ تھی ۔ایک طرف رفیق سے دوری جو دل میں گاہے بہ گاہے کچوکے لگا رہی تھی اور دوسری طرف شوہر کی بد اعتنائی حریم کو اندر سے کھاے جا رہی تھی ۔گھر کے حالات خراب چل ہی رہے تھے کہ ملک کے اندر کرونا جیسی بیماری نے بھی اپنا پاوں پسارنا شروع کردیا تھا ۔
ہر طرف سے گھر بھاگنے کی خبریں موصول ہورہی تھیں ۔کوئی کسی کا پرسان حال نہیں تھا۔حریم بھی اپنے وطن واپس جانے کی ضد پر اڑی تھی کلیم اسے بار بار سمجھاتا رہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے یہ سب افواہ ہے ۔
مگرحریم کو یقین تھا کہ ایسی ناگہانی ہونے والی ہے ۔
شادی کے بعد حریم گھر کے خرچ سے تنگ آکر ایک اسکول میں ٹیچر ہو گئی تھی ۔
اسکول والوں نے جب سارے بچوں کی اچانک سے چھٹی کردی تو حریم اور زیادہ پریشان ہوئ ۔کیونکہ کلیم جو کچھ کماتا تھا سب پینے میں صرف کردیتا تھا ۔
ہر باپ اپنی اولاد کو شہزادی بنا کر پالتا پوستا ہے اس کی زندگی کی تمام خوشیوں کے لئے دن رات دعائیں کرتا ہے کہ اللہ ہماری بیٹی کا نصیب اچھا کرے ۔
ایک طرف باپ کے سارے ارمان ملیا میٹ ہو گئے، دوسری طرف حریم کی محبت کا جنازہ نکال کر بے موج زندگی کی بارات نکال کر تپتے صحرا میں شادی کردی گئی ۔
لاک ڈاؤن لگ چکا تھا ۔چاروں طرف سنناٹا چھایا ہوا کوئی گھرسے باہر نہیں نکل رہا تھا ۔
رفیق بھی گھر پہونچ گیا تھا ۔گھر میں وقت گزاری کا کوئی سامان نہیں تھا ۔اچانک اسے خیال آیا کہ لاو کچھ لکھتے ہیں
مگر اکثر جب لکھنے بیٹھتا تو اسے حریم کے ساتھ گزارے پل یاد آنے لگتے تھے ۔رفیق سے رہا نہیں جاتا تھا وہ بند کمرے میں خود کو کوستا آ ہیں بھرتا سسکیاں لیتا ۔سامنے کوئی راہ نہیں ملتی تھک ہار کر پھر لیپ ٹاپ پر بیٹھ جاتا ۔
ایک سال کے اندر گھر بیٹھے بیٹھے اس نے کتاب تیار کرلی تھی ۔
گھر کے آس پاس کے تمام پبلیشر ز سے بات کرلی مگر کوئی راستہ نہیں ملا کہ کتاب شائع ہوسکے ۔
سب کہ ایک ہی فرمائش تھی پیسے چاہیئے کتاب شایع کرنے کے لئے ۔اور رفیق کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی ۔
بہر حال کافی مشقت تگ ودو کے بعد ایک پریس نے کتاب چھاپ دی ۔
کتاب کی اشاعت کے بعد اور سخت مرحلہ طے کرنا تھا ۔یہ بات ابھی حریم کو نہیں معلوم تھی کیونکہ ایک مرتبہ کالج کے پروگرام میں رفیق نے باتیں کرتے ہوئے حریم سےکہا تھا کہ مجھے ایک کتاب لکھنی ہے تمہارے دماغ میں کوئی نام ہوتو بتاو ۔
حریم نے اس وقت پارک میں بیٹھے بیٹھے بتا دیا تھا “روحِ کاںٔنات ” ہاں یہ نام بہت اچھا رہے گا۔
رفیق نے اسی نام سے حریم کی یاد میں اس کتاب نام رکھا ۔تاثرات بھی اسی کے نام سے کردیا ۔
حریم بھی بہت پریشانی کی عالم میں گزر رہی تھی ۔شرابی شوہر نے اسے طلاق دیدیا تھا ۔اب وہ گھر پر بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہی تھی ۔اللہ اللہ کرکے چھ مہینے بعد لاک ڈاؤن کھل گیا ۔مگر اسکول کالج مسلسل بند رہے ۔
حریم کی عادت کی جب وہ زیادہ پریشان ہوتی تو ڈائری لکھنا شروع کردیتی تھی ۔یہ عادت حریم کو رفیق نے دلائ تھی ۔
حریم قلم اور ڈائری سے سچا دوست اس دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔یہ تم کو کبھی دھوکہ نہیں دیں گے یہ تمہاری ہر بات بڑی خموشی سے سنیں گے ۔یہ دونوں جسم اور روح کے مانند ہے جب کوئی بات پر بوجھ لگنے لگے تو اس پر لکھ لینا بہت سکون ملے گا روح کو ٹھنڈک ملے گی ۔
شام ڈھل رہی تھی حریم چھت پرآسمان پرندے چہچہاتے ہوئے اپنے آشیانے کی طرف کی گامزن تھے ۔حریم ان پرندوں کو دیکھ کر دور بہت دور اپنے ماضی میں کھو چکی تھی اور پھر ڈائری کے ورق بھرتے چلے گئے ۔
کچی عمر میں پکے مرد کی بے وفائی اور دوسری عورت کا وجود ذہنی کرب میں مبتلا کرتا رہا میں اپنا کردار کہیں دفن کر بیٹھی اور دوسری عورت بننے کی چاہ اوڑھ بیٹھی شاید میں اس عورت جیسی بن جاؤں تو مجھے بھی اس عورت جیسی محبت مل سکے مگر اس عورت کے جیسا بنتے بنتے اپنا وجود ہی کھو بیٹھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ایک دن کوئ ملا اچانک سے زندگی تبدیل ہوئی اس نے مجھے جس روپ میں دیکھنا چاہا میں بلکل ویسی ہی بن گئ ایک بار پھر خود کو کھو بیٹھی ۔۔۔۔۔پہلے مرد نے فائدہ میری کم عقلی کا اٹھایا ۔۔۔۔۔مگر دوسرے مرد نے مجھ سے میرے ٹوٹی ہوئ ذات اور گھائل روح دیکھ کر میرے آنسوؤں سے اپنے وقت کے دیپ جلائے اور جب دیپ بجھ گئے وہ تو بھی چل دیا ۔
انسان جب بے بسی کا شکار ہوتا ہے تو ہیجان میں مبتلاہوتا ہے ۔وہ ہیجان جس کی امید نہیں کرسکتے، طبیعت میں خاموشی کی جلوہ نمائی ہوتی ہے قلبی ٹیسیں ذہن میں منجمد ہوجاتی ہے ۔ایسے وقت میں بہتر ہے خود کو مصروف کرلینا ۔
حریم نے بھی خود کو مصروف کرلیا ۔ڈائری لکھنا اپنا مشغلہ بنایا ۔دن بھر کی واردات کو قلم بند کرنا شروع کردیا ۔یہ وہ باتیں تھیں جو حریم کے قلب و ذہن پر سلطنت کرنے لگی تھی ۔بے بسی کے عالم میں خود کو ایسے ڈھالنا شروع کیا کہ وقت کا پتہ نہیں چلتا ۔
دوسرا لاک ڈاؤن ختم ہوچکا تھا حریم نے عزم مصمم کرکے ایک اسکول میں تدریس کے لئے عرضی لکھی ۔مگر وہ عرضی ناقابل دید تھی، اصلاح کی سخت ضرورت محسوس ہوئی ۔آج پھر اسے رفیق کی بہت یاد آئی ۔کاش اگر رفیق ہوتا تو مجھے اتنے کرب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔اسی طمطراق میں وہ موبائل اٹھا یا نمبر تلاش کرنے لگی ۔مگر کہیں کوئی سراغ نہیں ملا مایوس ہو کر پھر اپنے کمرے میں آگئی ۔
صبح صبح اخبار والے نے صدا بلند کی حریم بڑی سرعت کے ساتھ نیچے گئی دروازہ کھولا اخبار لیا اور واپس اپنے کمرے میں آگئی ۔
اخبار پڑھنا حریم کا معمول تھا زمانہ طالب علمی سے وہ ہر صبح اخبار پڑھنے کی عادی تھی ۔آج اسے بڑی شدت سے اخبار کی چاہت ہوئی کہ شاید کوئی اشتہار ملازمت کے لئے آیا ہو ۔پورا اخبار چھان مارا مگر کہیں سے کوئی ایسا اشتہار نظر نہیں آیا ۔
ادب کی طالب علم ہونے کے ناطے وہ اکثر ادب و ثقافت والا صفحہ ضرور پڑھتی تھی ۔لکھنو آنے کے بعد سے اس نے صرف اودھ نامہ اردو اخبار کو ترجیح دی ۔اس اخبار کی جو خصوصیات ہیں وہ لکھنؤ کے کسی اخبار کی نہیں ہیں ۔
حریم نے آج ایک افسانہ پڑھنا ضروری سمجھا نہایت بہترین افسانہ “کالج گرل ” جیسے جیسے افسانہ پڑھتی جاتی اس کے دل میں یاد ماضی کے اشکال ابھرنے لگے ۔افسانہ ختم کرنے کے بعد افسانہ نگار کے نام پتہ اور موبائل نمبر دیکھا ۔
پڑھنے کے بعد اس سے رہا نہیں گیا کیونکہ افسانے میں کہیں نہ کہیں اس کی کہانی نظر آنے لگی تھی ۔نمبر نکال کر واٹسپ مسج کیا ۔ادھر سے جواب ندارد۔حریم کی بے چینی کہ انتہا نہ رہی کال کردیا۔اس دورن حریم کہ دلی حرارت بہت تیز چلنے لگی ۔اللہ اللہ کر کے فون اٹھا ۔
ہیلو السلام عليکم ۔
وعليکم السلام ۔
جی آپ کون ۔
میں حریم آج آپ کا افسانہ پڑھا تھا تو سوچا آپ سے بات کروں ۔
ضرور ضرور بولیں، اچھا یہ بتائیں کس اخبار میں شایع ہوا ہے مجھے تو خبر بھی نہیں ہوئی اس کی ۔
جی اودھ نامہ اخبار میں جو میرا پسندیدہ اخبار ہے ۔
اوہ اچھا اچھا ۔
آپ کہاں رہتے ہیں ؟؟
ویسے تو میں بھی لکھنؤ میں رہتا ہوں ۔
کیا مصروفیات ہیں آپ کی؟؟
ایسے ہی کچھ خاص نہیں ایک اکیڈمی میں کوارڈینٹر ہوں۔
اچھا اچھا، یہ بتائیں یہ افسانے، کہانیاں کہاں سے اتنے الفاظ لاتے ہیں ۔
یہ تو مشکل سوال ہے نثار نےہنستے ہوئے جواب دیا،،
خیر ٹھیک ہے آپ سے بات کرکے خوشی ہوئی ۔
اللہ حافظ۔۔حریم ابھی اور کچھ باتیں کرنا چاہتی تھی مگر نثار نے زیادہ بات کرنا ضروری نہیں سمجھا ۔بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے سے احتراز کیا ۔
کسی کے زخم پر مرہم لگانا بھی ایک نیکی ہے بسا اوقات دل میں بہت کچھ باتیں ہوتی ہیں کسی ایسے شخص کی خواہش ہوتی ہے جو ہماری باتوں کو سنے دلاسے دے ۔
حریم فون کٹنے کے بعد نثار کے بارے میں تجسس کرنے لگی کہ آخر اس نے فون کیوں کٹ کردیا؟ ہم نے تو کوئی ایسی ویسی بات بھی نہیں بولی تھی جس سے اس کی دل آزاری ہو۔
اسی شش وپنج میں مبتلا تھی کہ امی نے آواز دی ،حریم بارہ بجنے والا ہے کھانے کا کچھ انتظام ہوگا یا آج ہم سب کا روزہ ہی رہے گا؟؟
حریم نے جلدی سے اخبار ایک طرف رکھا اور باورچی خانے میں داخل ہوئی۔
رفتہ رفتہ حریم کو نثار کے افسانے کا انتظار رہنے لگا سارے افسانوں کو جمع کرنا شروع کردیا ۔اس امید پر تھی کہ کبھی ملاقات ہوگی تو میں اسے دکھاؤں گی ۔
حریم کی زندگی میں وہ وقت بھی آیا بڑی تلاش کے بعد ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا داخلہ امتحان ہونے والا تھا ۔حریم نے بھی اب سارے راستے مسدود ہونے کے بعد پڑھائی کی طرف اپنا رجحان کرلیا ۔داخلہ فارم بھردیا تھا ۔
امتحان کے دن یونیورسٹی کیمپس میں پہونچی جہاں بہت طلبہ وطالبات کا جمع غفیر لگا ہوا تھا ۔
نقاب میں ملبوس رخ کی کشش دوبالا ہوتی ہے ۔گھنے سایہ دار کے نیچے حریم بالکل ساکت کھڑی تھی اچانک کسی نے پیچھے سے آکر حریم سے پوچھا ۔
کیا یہ ایم بی اے کی بلڈنگ ہے سامنے کھڑا شخص ایک ہاتھ میں ہال ٹکٹ لئے بہت پریشان سا کھڑا تھا ۔
مئی کا مہینہ تھا گرمی اپنے شباب پر تھی، پسینے سے شرابور نثار کی قمیض نصف تر تھی ۔پسینہ بہتے ہوئے اس کی گردن پر چمک رہا تھا ۔میانہ قد، گھمی مونچھیں، گٹھا ہوا بدن، دھنسی ہوں آنکھیں سفید شرٹ اور سیاہ پینٹ بالکل کوئی آفیسر کے مانند شباہت تھی۔
حریم نے کہا جی ہاں یہی بلڈنگ ہے ۔حریم نے جھجھکتے ہوا سوال کیا، کیا آپ کا بھی امتحان ہے؟؟
جی ہان میرا بھی اردو کا ہے ۔
اوہ اچھا ۔
اس کے بعد نثار وہاں سے آگے بڑھ کر رول نمبر کی لسٹ دیکھنے لگا ۔
حریم وہیں پر کھڑی اسے بار بار دیکھے جارہی تھی ۔حریم کی آنکھیں شاید نثار کو تلاش نے لگی ۔اتنے میں گھنٹہ بج گیا سارے بچے ہال میں داخل ہوگئے ۔
امتحان ختم ہوا حریم گھر واپس آکر سب سے پہلے اخبار کی کٹنگ نکالی ۔کہیں پر اس کی تصویر نظر نہیں آئی ۔سب کھنگال لیا مگر ناکامی ہاتھ آئی ۔
حریم نے کبھی کسی کے بارے میں اتنا نہیں سوچا تھا ایسا کیوں ہوا؟ کب ہوا؟ اس کی خبر حریم کو نہیں ہوئی ۔
جب کبھی تنہائی میں بیٹھتی تو اسے رفیق کی یاد ستانے لگتی بے چینی کے عالم میں اپنی ڈائری اٹھاتی اور اپنی تحریر پڑھنے لگتی ۔۔۔۔۔۔
ایسی لڑکی چاہیے
جو مجھے چھوڑ کے کتاب میں دلچسپی لے
پھر جب کتاب پڑھ لے تو میری طرف متوجہ ہو
اور تجسس سے بھری ایک نظر مجھ پر ڈالے
اس میں محبت کی ہلکی سی ملاوٹ ہولفظوں کی خوبصورتی
خیال کی جادو گری
تخیل کی حشر سامانی اور تازہ تازہ پڑھی کتاب کی ذہانت شامل ہو
زندگی بغیر توقعات کے خوشی دیتی ہے
کوئی توقعات نہیں کسی سے
نہ زندگی سے
نہ ان لوگوں سے جو آپ کے قریب ہوں
نہ اپنے آپ سے
سب انسانوں میں سے ہم سب سے زیادہ خود کو دھوکہ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں
میں نے اک دھوکے میں عمر گزار دی
اور اسے محبت سمجھا
اس طرح کے معصوم دھوکے تھوڑے سے دکھ کے ساتھ آپ کو خوشی دیتے ہیں
آخر میں آپ اس کی خوشی میں زندہ رہتے ہیں
ایک پڑھی ہوئی کتاب کی طرح چاہے گئے لوگ آپ کو بھولتے نہیں
ایک کتاب کو پڑھ کر خاموشی سے سائیڈ پہ رکھ دو
محبت زدہ لوگوں کے پاس کچھ دیر بیٹھو
اتنی دیر
جتنی دیر ایک مکھی پھول سے رس لینے آتی ہے
کوئی تمہیں لالچی کہے گا
کوئی خود غرض
کوئی جسم کا بھوکا
سب کو بتا دو تم بس خود کے سگے ہو
اپنے آپ سے مخلص
جو شخص اپنے ساتھ سچا نہیں وہ کسی کے ساتھ کیسے نباہ کر سکتا ہے
ایک لڑکی کے آنسوؤں میں نہ آؤ
سب کچھ اس کے لئے ایک کھیل ہے
ایک کھلونے کی طرح وہ کبھی بھی تمہیں توڑ سکتی ہے
یا ایک کتاب کی طرح
بغیر پڑھے تمہیں ایش ٹرے کے پاس پھینک سکتی ہے
صرف تمہارا جی چرانے کو
تمہیں جلانے کو
تم کتاب سے زیادہ اہم نہیں ہو
دل کالا نہ کرو
ابھی وہ کتاب چھوڑ کر تم سے محبت کرے گی
پہلا بوسہ ہی سب کچھ بھلا دیتا ہے
مرد سیکس کا بھوکا ہے
ایک عورت جانتی ہے اسے کتنی ڈوز پہ زندہ رکھنا ہے
تم بستر پہ پڑے ایک مکھی کی طرح تڑپ رہے ہو
اس نے تم پر اپنی زہر آنکھیں کھولی ہیں
ایسی لڑکی چاہیے
مجھے ان ہاتھوں سے تھامے جن سے اس نے کتاب تھامی ہو
ایسی لڑکی چاہیے جو بغیر کسی توقع کے مجھے چاہے
جو بغیر توقع کے جیتے ہوں خوشی ان کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے
نیم موت
نیم بے ہوشی
ان میں سے ایک چن لو
موت اور کتاب سرہانے کے پاس ہونی چاہیے
یہ وہ بات تھی جب رفیق سے حریم کہ شناسائی تھی ۔لکھنےکا شوق نہیں تھا مگر افسانہ پڑھتے پڑھتے اسے لکھنے شوق ہوا ۔
یہ شوق اسے ایک اچھا انسان بنادیا ۔ایک ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی ۔اس کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ صاحب تصنیف ہوگئی۔۔۔۔۔رفیق کی جدائی نے نثارکے روپ میں پرانے زخم کو تازہ کردیا ۔آہستہ آہستہ وہ زخم بھی مند مل ہوگیا ۔پی ایچ ڈی میں داخلہ ہوا نثار کا داخلہ نہیں ہوا ۔افسانے کی ایک بہتر قاری بن گئی تھی ۔ہر افسانے کے بعد اسے مسج کرکے شکریہ ادا کرتی رہی ۔آج حریم نے کہا کہ۔مجھے آپ سے ملنا ہے کیسے ملاقات ہوگی؟؟
نثار نے ایک مسج میں جواب دیا، زندگی اگر باقی رہی تو انشاءاللہ ضرور ملیں گے ۔نثار کو ملنے کی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ۔ہاں دل میں یہ بات ضرور کھٹکتی تھی کہ۔ایسا کیا ہے کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتی ہے ۔کیوں میرے زخم تازہ کرنا چاہتی ہے؟؟
میں اپنے ماضی کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کررہا ہوں میں دوبارہ ان زخموں کے گھونسلے میں نہیں جانا چاہتا ہوں میرے لئے یاد ماضی عذاب بن چکا ہے ۔
رمضان کی چھٹیاں ہونے والی تھیں ۔سارے طلبہ و طالبات گھر کی طرف روانہ ہو چکے تھے ۔حریم بھی اپنے سامان کے ساتھ چار باغ اشٹیشن پہونچ چکی تھی ۔پلیٹ فارم نمبر دو پر کھڑی تھی ۔سلطان پور کی ٹرین چار گھنٹے لیٹ تھی ۔حریم باہر ٹہلنے لگی تو دیکھا کہ سامنے سے وہی لڑکا پھر اپنے سازو سامان کے ساتھ وارد ہوا ۔وہ سیدھا پلیٹ فارم کی طرف بڑھنے لگا تو حریم اس کے پیچھے پیچھے آنےلگی ۔جب وہ رکا تو حریم بھی رکی اور سلام کیا ۔
السلام عليکم
وعليکم السلام نثار نے تعجب سے جواب دیا ۔
آپنے پہچانا؟ حریم نے چہکتے ہوئے جواب دیا
نہیں بالکل نہیں ویسے آپ ہیں کون؟؟
جی میں حریم۔۔۔ آپ سے میری ملاقات ایک بار ہوچکی ہے ۔
کہاں پر؟؟
یونیورسٹی میں..
اچھا اچھا ۔
اچھا میں آپ کا نام جان سکتی ہوں ؟؟؟
جی ا س ناچیز کو نثار کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔
حریم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔سکوت ایسا طاری ہوا گویا اس کی کسی نے روح قبض کی ہو۔آنکھیں نمناک ہوگئیں، چہرہ سرخ ہوگیا ۔
پیشانی پر بل لاتے ہوئے کہا آپ نثار صاحب ہو ۔
جی میں نثارہوں ۔کیوں اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟
اچھا تو آپ افسانہ نگار ہیں ۔؟؟
خدا کا شکر ہے تھوڑا بہت لکھ لیتا ہوں ۔
تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں ۔کچھ دیر کے بعد ٹرین آگئی حریم نے جلدی سے اپنا سامان اٹھایا اور پوچھا آپ کو نسی ٹرین پکڑنا ہے ۔جی مجھے سلطان پور جانا ہے ۔
اوہ اچھا تو چلیں ہم بھی اسی جگہ کے ہیں ۔
ٹرین میں دونوں ہم سفر ہوگئے ایک ہی ڈبے میں سوار تھے ۔
کچھ وقفہ کے بعد حریم نے ٹفن نکالا اور نثار کو بولا آئیے آج ہمارے ساتھ لنچ کریں ۔
دونوں ایک ساتھ لنچ کرنے لگے ریل نے سیٹی بجاتے ہوئے ہوا سے باتیں کرتے ہوئے منزل مقصود کی طرف گامزن رہی
٭٭٭

گولہ گنج لکھنؤ

9795883405

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular