Thursday, May 9, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldوکیل صاحب

وکیل صاحب

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

شہاب الدین شفیق

میںنے بچپن سے جس لفظ کو سمجھنے میں دماغی مشقت کو کھپایا، ذہنی گھوڑا دوڑایا، اور عملی طور پر اس کے معانی ومطالب کو پرکھنے کی کوشش کیا وہ تھا”وکیل صاحب” اس لفظ کو پہلی بارجب سنا تھا تو اس کے تئیں میرے دل میں نیک تاثرات قائم ہوگئے تھےاس کی وجہ صرف ایک تھی وہ لفظ وکیل کے آگے لگی لائق تکریم صفت صاحب تھی،وکیل لفظ کے ساتھ میں اکثر نہیں بلکہ ہمیشہ صاحب کی شکل میں اس کی صفت سنا کرتا جس کی وجہ سے ایک پروقار چہرہ میرے ذہن کے پردہ پر آنکھیں کھولنے لگتا تھا البتہ اس لفظ کی گہرائی و گیرائی میں جانے کا موقع میسر نہیں ہوا تھا کیونکہ میری قسمت کی کتاب میں اتنے اونچے درجے کی بدمعاشی نہیں لکھی ہوئی تھی جو مجھے عدالت تک کھسیٹ لے جاتی بلکہ نہایت ہی معمولی اور ادنی قسم کی شرارت کرنے ہی پر اکتفا کرتاجس کی ڈوری سلجھانے، اور رفع دفع کرنے کیلئے گاوں کے کچھ خود ساختہ سرکردہ لوگ ہمیشہ میری آواز پہ لبیک کہنے کوتیار رہتے جس کو میں پان سگریٹ کیلئے اکثر کچھ روپیوں سے استقبال کیا کرتا اور اگر کسی وجہ سے بھولے بھٹکے اس کامنحوس سایہ میری چوکھٹ پر دستک دے دیتاتو چار و ناچار فورالذیذ قسم کے کھانہ سے ضیافت کرتاکہ اس کے اندر کی بڑکپن کا بھرم باقی رہے ویسے اس قسم کے لوگ انسانی رشتوں کی ڈوری جوڑنے سے زیادہ توڑنے میں ماہر ہوتے ہیں، وقت کی رفتار کے ساتھ جب میری بھی عمر کے اندراضافہ ہوا ذہن کے اندر بالیدگی پنپنے لگی، شعور کے اندر پختگی آگئی، چھوٹے بڑے معاملات میں واہ واہی بٹورنے کی غرض سے نمایا ںچہرہ بننے کی کوشش کی، ایک دو تعلیمی و سیاسی میٹنگ میں بن بلائے مہمان کی طرح پیش قدمی کے دامن کو تھامے ہوئے زندگی کے تلخ اور حقیقت پر مبنی تجربات کو جمع کرنے کی کوشش کیا تو لفظ وکیل کو کچھ نئے زاویوں سے سمجھنے کا موقع ملا اور جیسے جیسے اس لفظ کی تہ میں جانے کی کوشش کیا اس کی تہ بتہ پرتیں کھلتی گئیں اوروکالت کے پیشہ کے تعلق سے میری سوچ و فکر کے اندر خاصی تبدیلی بھی آئی ورنہ اس لفظ کے آگے کی پر معزز صفت سن سن کر میں وکیلوں کو درویش صفت لوگوں میں شمار کرنے لگا تھا اس لفظ کی تحقیق نے میرے طلسماتی خیال کوتوڑکر میری سمجھ کو یہ پیغام دے گیا کہ کسی بھی چیز کے بارے میں محض سن کر کسی طرح کی مثبت رائے قائم کر لینا نہایت ہی ادنی درجہ کی بےوقوفی ہے
بہرحال میں نے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کیا کہ وکالت کے سرٹیفیکٹ کے حصول کے بعد اس پیشہ میں کامییابی کے دھول پیٹنے کیلئے ہنرمندی کی کون سی قسم کی ضرورت پڑتی ہے تو میرے ایک بہی خواہ جو خود بھی پیشہ سے ایک کامیاب وکیل ہے اور لوگوں سے پیسہ جھیٹنے میں قابل تقلید شخص مانے جاتے ہیں نے بتایا کہ وکالت جیسے عظیم پیشہ میں کامرانی کی قندیل روشن کرنے کیلئے بہتان تراشی، دروغ گوئی، کذب بیانی، زبان درازی کا سہارا لے کر سامنے والے کو زیر کرنے کا فن اور چھوٹ کو حقیقت کا جامہ پہنا کر جذباتی انداز میں پیش کر نے کی اداکاری سے مسلح ہونا نہایت ضروری ہے بصورت دیگر اس میدان میں دور دور تک کامرانی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی وکیل کے سلسلہ میں یہ تفصیلی اور معلوماتی بات جاننے کے بعد میں نے کسی بھی وکیل کا منحوس اور قبیح چہرہ تک نہ دیکھنے کی قسم کھا رکھی تھی اور اپنے کسی بھی معاملہ کیلئے کورٹ کا دروازہ نہ کھٹکھٹانے کی تہیہ کرلیا تھا پر مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ جس چہرہ کو میں قابل نفرت سمجھتا ہوں اور جس کا سامنا کرنے سے میں ہمیشہ کتراتا ہوں ایک لمبا عرصہ تک اپنی زندگی کے بیشتر اوقات اسی کا درشن کرکے گزارنا پڑے گا ہوا یوں کہ جب میں والد صاحب کے ساتھ بطور معلم ایک سرکاری مڈل اسکول میں جوائن کرنے کیلئے گیا تو اسکول کے گیٹ پر قدم رکھتے ہی میرے پاوں پھسل گئے اور میں اوندھے منہ زمین پر گر گیا والد صاحب کھڑا کرنے میں میری مدد کرنے کے بجائے نیچے دیکھ کر اچھی طرح سے نہ چلنے کی بات کہہ کر مجھے دانٹ پلانے شروع کر دیئے اور میں قربانی کے بکرے کی طرح گردن نیچے کئے رہا پر مجھے یہ سمجھنے میں تاخیر نہیں لگی کہ میرے ساتھ ہوا یہ چھوٹا ساحادثہ کوئی بڑے حادثہ کا پیش خیمہ ہے جو بہت جلد معرض وجود میں آنے والا ہے،میں شرافت کی ٹوپی پہنے اپنےکپڑے میں لگے دھول کو چھاڑتے ہوئےاسکول کے آفس میں داخل ہوا جو آفس کم ہومیوپیتھی کی دوکان زیادہ لگ رہی تھی میری نظر اسکول کے پرنسپل پر پڑی جو اپنی کرسی پر ایسے براجمان تھے گویا وہ پرنسپل نہیں کسی کمپنی کا سیٹھ ہو میرا سلام سنتے ہی اپنے جسم کی ساخت کو درست کرتے ہوئے جواب دیئے اور کرسی کی طرف بیٹھنے کو اشارہ کئے،اور مجھے یوں نہارنے لگے گویا میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہوں اپنا مکمل تعارف پیش کرنےکے بعد جب میں اپنی آمد کی غرض و غایت سے ان کو آگاہ کیا تو فورا چائے بسکٹ سے ہماری ضیافت کی اور تمام اساتذہ کو آفس میں بلاکر ایک چھوٹا سا تعارفی پروگرام کا انعقاد کیااساتذہ سے روبرو ہونے کے بعد سب سے پہلے مجھے اپنا تعارف پیش کر نے کو کہا گیا میں ان لوگوں کی باتوں کو سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے اپنا تعارف پانچ پشتوں تک کردیا جس سے وہ لوگ میری ذہانت پر حیرت زدہ تھے میرےبیٹھنے کےبعد تدریس کے پاک پیشہ سے منسلک اساتذہ میں سے ایک استاذ اپنا تعارفی جدول ہاتھ میں تھامے، اپنے دانت تلے ہنسی دبائےبڑے منورانہ لہجہ میں یو بولے! میرا نام تنویر عالم ہے قبل اس کہ کے وہ اپنے تعارف کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ان کا ایک ہم پیشہ ساتھی دوٹوک انداز میں فرض کفایہ سمجھ کر یوں دخل اندازی کی! ان کانام تنویر عالم عرف وکیل صاحب ہے وکیل لفظ سنتے ہی میں ہکا بکا رہ گیا میری پیشانی سے پسینہ چھوٹنے لگا کیوں کہ کسی بھی ؛وکیل صاحب؛ کا سامنا کرنے سے مجھے اس بات کا خدشہ تھا کہ کہیں میں اس شعر کا مصداق نہ بن جاؤں
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
سنڈوارہ باجپٹی سیتامڑھی
موبائل=8229855992

Previous article
Next article
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular