Tuesday, May 7, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldواجد علی شاہ کی مرثیہ نگاری: ایک مطالعہ

واجد علی شاہ کی مرثیہ نگاری: ایک مطالعہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

شاہد رضا

اقوام عالم کی ہر تہذیب وتمدن کا ہمیشہ سےشیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے مذہب وملت، اپنے رہنمائوں یا اپنے عزیزوں پر گزرنے والے حادثات وواقعات پر غم کا اظہار کریں، اور اسی غم کے اظہار کرنےکو مرثیہ کہاجاتا ہے۔ مرثیہ کے معنی ہیں’’وصف میت‘‘۔ اظہار غم یا میت کے اوصاف کا یہ بیان بغیر کسی سبب کے نہیں ہوتا، اس کے پیچھے بڑی بڑی مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ اس کے ذریعہ سارے واقعات وحادثات آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ واقعات تو تاریخ کے اوراق میں بھی مل جاتے ہیں لیکن یہی واقعات اگرنظم کی صورت میں لکھے جائیں تو بہت جلد عوام وخواص کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔ سبق آموز واقعات، مرکۂ حق وباطل میں، حق اور باطل دونوں طرف کےکرداروں کا رویہ، خیروشر کی جنگ میں، خیر اور شر کے نمائندوں کا کردار جب کھل کر عوام کے سامنے آتا ہے توعوام فطری طور پر نیکی، خیر، حق اور مظلومیت کی طرف جھکنے لگتی ہے اور اس طرح اس جنگ کے مثبت کردار عوام کے لیے آئیڈیل بن جاتے ہیں۔
اردوادب کی تاریخ میں مرثیے کو ایک بڑی اہمیت اور انفرادیت کی حیثیت حاصل ہے یہ اس لیے نہیں کہ اس کا تعلق مذہب یا عقیدے سے ہے ۔ دنیا کے ادب میں جن نظموں کا آج تک کوئی ثانی ہے ان میں بیشتر نظموں کے محرک مذہبی واقعات اور عقائد تھے اس لیے یہ بات معذرت کی نہیں ہے کہ مرثیے مذہبی واقعات سے متعلق ہیں لیکن در اصل نہ مرثیوں کی عظمت کا سبب مذہب و عقائد ہیں اور نہ ان عالمی ادب کے عظیم رزمیوں کی عظمت کا سبب ان کے لکھنے والوں کے عقائد تھے، عظمت ان واقعات کی انسانی قدروں میں ہے۔ ان واقعات کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھالنے میں اور اظہار کے ان طریقوں میں ہے۔ اور ان سب چیزوں نے مل کر اسے عالمی کلاسیک یا کسی ادب کی عظیم تخلیق کا درجہ دیا ہے۔
اُردومیں مرثیہ نگاری کے ذکر کے ساتھ ہی ذہن میں جو دو نمایاں تصویریں ابھرتی ہیں وہ میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔکی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انیس ؔو دبیر ؔنے اپنے بے پناہ زورِ تخیل اور جدتِ طبع سے مرثیے کے فن کو اس قدر بام ِعروج پر پہنچایا کہ اب اس میں مزید ترقی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اسی طرح اگر یہ کہاجائے تو بے جانہ ہوگاکہ جوش ؔاور وحید اخترؔ کے بعد مرثیہ نگاری کا فن زوال پذیر ہوگیا۔مرثیے کے ذکر کے ساتھ جو دوسرا تصور ا بھر تا ہے، وہ ہے میدانِ کربلا میں شہادتِ حسینؑ کا ’’جانکاہ اور دل سوز‘‘ سانحہ۔ واقعہ یہ ہے کہ اُردو کا تقریباً تمام رثائی ادب کربلا ئی مرثیوں پر مشتمل ہے۔ شخصی مرثیوں کی طرف ہمارے شعرائے کرام کی نظرِ التفات بہت کم رہی ۔ اردومیں شخصی مرثیے جتنے لکھے گئے ہیں انھیں بہ آسانی انگلیوں پر گناجاسکتا ہے ۔ کچھ تو شہادتِ حسینؑ کے واقعے سے جذباتی وابستگی کی بنا پر ‘ کچھ تقدس وکارِثواب کی خاطر۔بہر حال وجوہات جو بھی رہی ہوں ‘ اردو شاعری کے آغاز سے لے کر جدید دور میں جوشؔ اور وحید اخترؔ تک ہر دور میں کربلا ئی مرثیوں کی روشن روایت نظر آتی ہے ۔ا س کے بر خلاف شخصی مرثیوں کی طرف خاطر خواہ تو جہ نہیں دی گئی ۔
جہاں دیگر شعرا نے مرثیہ نگاری میں جوہر دکھائے وہاں واجد علی شاہ نے بھی اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا۔ وہ مکمل یقین رکھتے تھے کہ آل محمدؐ نے میدان کربلا میں جو کردار پیش کیا وہی انسانی زندگی کے رہنما اصول ہیں۔ واجد علی شاہ کی طبیعت اتنی مواج ومضمون خیز تھی کہ دوکاتب ان کی ’’آمد‘‘ کو احاطۂ تحریر میں نہ لاپاتے تھے۔ مولوی عبدالحلیم شررؔ کا چشم دید بیان ہے:
’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اپنے درِ دولت سلطان خانے سے بوچے پر سوار ہوکر امام باڑہ سبطین آباد کی مجلس میں شریک ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔ اورجو مرثیہ وسلام وہاں پڑھیں گے انہیں راستے میں تصنیف کررہے ہیں۔ دوکاتب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک کو مرثیے کا بند تصنیف کرکے لکھواتے ہیں، اور دوسرے کو سلام کے اشعار۔ مرثیہ لکھنے والا جب تک مرثیہ کا بتلایا ہوا بند لکھے، سلام لکھنے والے کو سلام کا شعر بتلاتے ہیں اور دونوں کو اس قدر جلد جلد بتاتے ہیں کہ ایک کا بھی قلم رکنے نہیں پاتا۔ امام باڑہ دوفرلانگ بھی نہ ہوگا۔ مگر وہاں تک پہنچتے پہنچتے پورا سلام اور مرثیے کے چند بند لکھوادئیے۔ دو مختلف بحروں پر ایک ساتھ طبع آزمائی کرنا جس قدر دشوار امر ہے، اسکا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو شعر کہنے کی مشکلوں سے واقف ہیں۔‘‘
(حزن اختر (مقدمہ) ص؍۱۳)
واجد علی شاہ کے مرثیوں کا رنگ رواجی انداز سے الگ ہے۔ چہرہ سے بین تک جو آٹھ ادوار تھے ان پر انہوں نے زیادہ زور نہیں دیا اور آخری حصے یعنی ’’بین‘‘ پر زیادہ توجہ دی۔ ممدوں کے اوصاف بیان کرنے کے ساتھ ہی وہ اکثر ’’بین‘‘ کی طرف گریز کرجاتے ہیں۔ شاید انہیں آنے والے وقت کا احساس تھا کہ مرثیے کے متعدد اجزا کی طوالت، وقت کی تنگی کے تقاضے نہ پورے کرسکیں گے۔ یوں بھی مرثیے کی معنوی حقیقت، واقعہ شہادت اور بین ہے۔ جس کے لیے واجد علی شاہ مطلع ہی سے اس کا اظہار کردیتے ہیں کہ وہ کس کی شہادت کا ذکر کرنے جارہے ہیں۔ نمونہ کے طور پر چند مطلعے پیش ہیں:
دنیا میں کوئی بھائی سے بھائی جدا نہ ہو
مسلم کے پسر ضیغم اندوہ وبلا ہیں
آئی جو خبر قتلِ شہنشاہ زمن کی
وابستہ ہے خدائی امام رضا کے ساتھ
جب حرم شاہ کے زنداں میں کھلے سر آئے
آنکھیں ہوئی شیریں کی پسند اشرف جاں کو
اس کے علاوہ ایسے اور بھی بہت سے مرثیے ہیں جن کے مطلع ہی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کس کے حال میں کہے گئے ہیں۔
واجد علی شاہ کے مرثیوں میں انفرادیت کا ایک اور رنگ تمام راگ راگنیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان میں غم کا اظہار ہے۔ اور یہ ایسا مشکل بیان ہے جس کے لیے راگ راگنیوں اور ان کے اثرات سے بھی واقفیت ضروری ہے۔
واجد علی شاہ نے اپنے مرثیوں میں اکثر نئے تجربات بھی کیے ہیں اور ایسی بحریں استعمال کی ہیں جو عام طور پر غزلوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً:
بہار غم سے گلوں کا دامن مثال خارچمن عیاں ہے
اندھیری راتوں میں دل ہے روشن غم والم کی یہ داستاں ہے
(توشۂ آخرت، ص؍۶۲۱)
اس کے علاوہ انہوں نے ایک مرثیہ مثنوی کے طرز پر بھی کہا ہے اور وہ اتنا مقبول ہوا کہ آج بھی گائوں اور دیہاتوں میں پڑھا اور پسند کیاجارہا ہے۔اس کا ایک شعر نمونہ کے طور پر ملاحظہ فرمائیں:
عجب غم کی آندھی نے گھیرا ہے مجھ کو
اگر رات بھی ہو سویرا ہے مجھ کو
(دفتر غم وبحرِ الم، ص؍۶۹)
واجد علی شاہ کے مرثیوں میں لفظ ومعنی کا رکھ رکھائو، شاعری اور عقیدے کی مناسبت، غزل کا امتزاج، مثنوی کا بیانیہ حسن، قصیدے کی جلالی شان اور مرثیے کا سوگواری انداز ایسا ملا ہواہے کہ قارئین کے دلوں پر بلاواسطہ اثر انداز ہوتا ہے۔
واجد علی شاہ نے اپنے مرثیوں میں نیکی اور بدی، محبت اور نفرت، جنگ اور صلح کے وہ تمام تقاضے پورے کیے جو روز ازل سے آدم کی سرشت میں داخل ہیں۔ بدی اور خیر کی شکلیں اپنے اپنے انداز میں ان کے مرثیوں میں موجود ہیں اور یہی سب ان کو کامیاب مرثیہ گو کہنے کی ضمانت ہیں۔
واجد علی شاہ کی اگر کوئی آرزو تھی تو وہ صرف مرثیے میں نام آواری کی۔ جس کا اظہار وہ اکثر کرتے رہتے تھے۔
یہ دعا رہتی ہے اللہ سے ہو نیک انجام
مرثیہ گوئی میں ہر آن بڑھے میرا نام
(توشۂ آخرت، ص؍۱۳۲۰)
ان تمام خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے واجد علی شاہ کا درجہ مرثیہ نگاروں میں متعین کرتے وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ انیسؔ ودبیرؔ کی مرثیہ نگاری کی میراث مونسؔ، انسؔ اور نفیس کے بعد واجد علی شاہ ہی پر ختم ہوگئی۔اور واجد علی شاہ کی شخصیت، ان کے مراثی بحیثیت مجموعی مرثیے کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی اور یہ موضوع ذہنوں سے اوجھل ہو گیا۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular