Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldنوجوان قلم کار محمد نہال افروز کی ادبی خدمات کا ناقدانہ جائزہ

نوجوان قلم کار محمد نہال افروز کی ادبی خدمات کا ناقدانہ جائزہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

علی ظفر
اس حقیقت سے بالکل بھی انکار نہیں کہ دور حاضر میں جہاں معروف اور قدآور شخصیتوں پر بے شمار مقالے یا مضامین لکھے گئے وہیں ہم نے کچھ نوجوان قلم کاروں کو نظر انداز بھی کیا ہے۔جنہوں نے ہمارے ادبی کارواں کو آگے بڑھانے میں خون جگر صرف کیا ہے۔اکیسویں صدی کے انہیں اسکالروں میں نوجوان قلم کار محمد نہال افروز کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔انہوں نے نہایت ہی کم عمری میں اپنی عمدہ تصنیفوں سے اردو عوام کے دلوں کو دھڑکایا ہے۔ اور موجودہ عہد کے نوجوان قلم کاروں میں منفرد شناخت رکھتے ہیں۔
محمد نہال جن کا قلمی نام محمد نہال افروز ہے قصبہ پھول پور ضلع الہ آباد میں6جولائی 1988ءکو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ ہائر سیکنڈری اسکول دیوان گنج پھول پور  سے حاصل کی۔مزید تعلیم کے لئے الہ آباد تشریف لے گئے  جہاں الہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ الہ آ باد یونیورسٹی سے فرسٹ ڈیویژن میں  ایم۔اے پاس کیا۔ان کی ذہنیت کو دیکھتے ہوئے ان کے اساتذہ نے انہیں نیٹ /جے۔آر۔ایف کی تیاری کرنے کے لئے کہا جسے انہوں نے ایک چیلنج کے طورپر لیااور بہت جلد جے۔آر۔ایف کوالیفائی کر کے جونیئر ریسرچ فیلوشپ کے مستحق قرار پائے۔ اس کے بعد مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ایم۔فل(اردو)  میں داخلہ لیا۔ ان کی لگن اور محنت کو دیکھتے ہوئے صدر شعبہ اردو پروفیسر ابولکلام صاحب نے انہیں اپنی نگرانی میں لیا ۔ پروفیسر ابولکلام کی نگرانی میں خالد جاوید کےمنتخب افسانوں کا  تنقیدی مطالعہ کے عنوان سے ایک شاندار مقالہ لکھ کر ایم۔فل۔ کی ڈگری حاصل کی اور فی الحال مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے” اردو اور ہندی کہانیوں میں موضوعاتی اور فنی تجربات کا تقابلی تجزیہ (1980 تا 2015)  “  کے عنوان پر پی ایچ۔ڈی کی ڈگری کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔
فی زماننا اردو ادب میں نوجوان قلم کار کی حیثیت سے ابھرنے والےاسکالروں میں بہت سے نام گردش کر رہے ہیں جو تنقید ، تحقیق یاتخلیق کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں مگر محمد نہال ایک ایسا نام ہے جنہوں نےتنقید، تحقیق ، تخلیق اور تراجم کے میدان میں پوری لگن محنت اور دیانت داری کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ جن کی کتابیں اور مضامین دیکھنے کے بعد امید نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے کہ یہ نوجوان اسکالر جہاں ادب کے کارواں کو نئی منزلوں سے روشناس کرائے گا وہیں دور حاضر کے ممتاز قلم کاروں میں اپنا مقام بھی پیدا کر لے گا۔ان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ انہیں ہندی اور اردو دونوں ادبیات پر یکساں عبور حاصل ہے۔جو بہت کم ہی لوگ میں ایسی صلاحیت دیکھنے کو ملتی ہے۔
 محمد نہال کا پہلا ادبی کام جو منظر عام پر آیاوہ ان کے تراجم ہیں۔ترجمہ نگاری نے ہی انہیں اردو دنیا میں روشناس کرایا اور ادبی حلقوں میں ان کی ترجمہ نگاری کو کافی سراہا گیا۔
اردو زبان و ادب کے ارتقا میں دوسری زبانوں سے ترجمہ ہونے والے فن پاروں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔اور ترجمہ نگاری بڑی ہی جانفشانی اور دور بینی کی متقاضی ہوتی ہے۔کیوں کہ ترجمے میں دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھنا اس کی شرط اولین ہے۔جو محمد نہال کے وہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔ایک کامیاب مترجم کے طور پر انہوں نے سب سے پہلے جس اہم شخصیت کا انتخاب کیا وہ ہندی ادب کی مشہور و معروف مصنفہ زیبا رشید صاحبہ ہیں۔
“کیوں کہ عورت نے پیار کیا”   زیبا رشید کا دوسرا ناول ہےجسے محمد نہال نے اردو  زبان میں ترجمہ کر کے اردو ادب میں ایک بیش بہا اضافہ کیا ہے۔زیبا رشید 1968 ء سے ہندی میں متواتر کے ساتھ لکھ رہی ہیں اور اب تک ان کے پانچ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ” لمحے کی چبھن ” 1996 میں منظر عام پر آیا جس نے ادبی حلقوں میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ ان کا دوسرا ناول  “کیوں کہ عورت نے پیار کیا”   2009ء میں شائع ہوا جس نے عوام و خواص کے ہر طبقے کو اپنا گرویدہ بنایا۔ اس ناول کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے زیبا رشید نے اردو میں ترجمے کے لئے محمد نہال کو یہ ذمہ داری سونپی اور انہوں نے اس ذمہ داری کو کما حقہ نبھایا۔
زیبا رشید ایسی مصنفہ ہیں جن کا بنیادی موضوع ” عورت ”  ہے یعنی وہ نسائی ادب تخلیق کرتی ہیں ۔وہ عورتوں کے گھریلو جنسی مسائل اور ان کے استحصال کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کا یہ ناول بھی نسائی مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں ایک ایسی لڑکی کی زندگی پیش کی گئی ہےجو تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی اپنے غیر یقینی زندگی اور مستقبل کی صبر آزما جنگ لڑرہی ہے۔
ترجمہ کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ ہر شخص ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ نہیں کر سکتا اس کام میں طبیعت کا میلان اور شوق ہونا ضروری ہے۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں صرف لفظی مفہوم بیان کر دینے کو ترجمہ نہیں کہتے ہیں ۔ ترجمے میں مترجم کی سوجھ بوجھ ، خوش ذوقی اور دونوں زبان کے الفاظ کی معنوی اور صوتی خوبیوں کا علم بھی ضروری ہوتا ہے۔ جو محمد نہال کے یہاں واضح طور پر نمایاں ہے۔ترجمہ کرتے وقت مترجم مصنف کی شخصیت ،فکر اور اسلوب سے بندھا ہوتا ہے۔ایک طرف اس زبان کا کلچر جس کا ترجمہ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اس زبان کا کلچر جس میں ترجمہ کیا جا رہا ہے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ مترجم کو دونوں زبانوں کے کلچر کا بخوبی خیال کرنا پڑتا ہے۔محمد نہال اس مشکل مرحلے کو بخوبی عبور کر جاتے ہیں۔
محمد نہال نے اس ناول کا اردوترجمہ 2017 ء میں اسی نام  “کیوں کہ عورت نے پیار کیا”    سے کیا اس ترجمہ کو دارلاشاعت مصطفائی دہلی نے شائع کیاہے۔ایک طرف جہاں مترجم نے ترجمہ نگاری کے اصول و ضوابط کو بر قرار رکھتے ہوئے اردو زبان کی شیرینی اور اس کی خوش سلیقگی کا بھر پور استعمال کیا ہے وہیں دوسری طرف انہوں نے ہندی کے ثقیل الفاظ کا سلیس اور شستہ زبان میں ترجمہ کر کے ہندی اور اردو زبان کے بیچ ہم آہنگی کے نئے دریچے کھول دیے ہیں۔
ناول کے اردو ترجمے کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں ان کے ترجموں میں اسالیب کا بڑا تنوع دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اردو زبان کو بھی مجروح نہیں کرتے بلکہ اکثر جگہوں پر اردو کے بنیادی مزاج میں ہندی زبان کی جھلکیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔
ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع ہونے والی ایک اور ترجمہ شدہ کتاب ” پہچا ن “  محمد نہال کا اردو ترجمہ نگاری کے میدان میں ایک اہم کارنامہ ہے۔ ہندی زبان کے معروف ادیب اور ناول نگار انور سہیل کا ناول  ” پہچا ن “  تسلط کی سیاست میں پہچان کی لڑائی کو اجاگر کرتا ہے۔یہ ناول بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اپنے ارد گرد ہورہی تبدیلیوں کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ انور سہیل نے اس ناول کے ذریعے زمانے کی بہت بڑی سچائی کو ہمارے سامنے اجاگر کیا ہے۔یہ ناول یونس کی پہچان کے بہانے انسان کی پہچان کے بڑے ہدف کو سامنے رکھتا ہے۔انور سہیل نے یوروپین ناول کی طرز پر اس ناول کو لکھنے کی کوشش کی ہے۔
ناول کے اردو تراجم کے مطالعے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ محمد نہال نے یہاں بھی ناول کے اصل موضوع اس کی ہیئت اور ترجمہ نگاری کے فن کے ساتھ انصاف کیا ہے۔مترجم نے پورے ترجمے میں اپنے فن کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے پوری دیانت داری سے کام لیا ہے۔اور ساتھ ہی ترجمہ نگاری کے تقاضوں کو پوری طرح ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی بھی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑتے ہیں۔انہوں نے ضرورت کی بنا پر بہت ہی سلیس اور آسان زبان میںترجمہ کے فرائض کو انجام دیا ہے تاکہ ناول کا اصل مفہوم اجاگر ہوسکے۔انہوں نے ترجمے کے لئے بالکل صحیح مترادف الفاظ کا استعمال کیا ہے۔جس سے اس ترجمے کا مزہ اصل تصنیف جیسا ہی ہے۔اردو ترجمے کے مطالعے سے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ محمد نہال نے جذبات ، احساسات اور آہنگ وغیرہ کا بہت تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ مختلف جذبات کی تشریح میں باریک بینی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔انہوں نےترجمے میں جس فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہےاس سے دونوں زبانوں پر ان کی گرفت کا پتہ چلتا ہے۔ایک اچھا ترجمہ کسی تخلیق سے کم نہیں کبھی کبھی ترجمے کو اصل تخلیق سے زیادہ شہرت حاصل ہوجاتی ہےاور یہ چیز ہمیں یہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔جب تک پہچان اپنی اصل شکل میں تھی اس کی شہرت اتنی نہیں تھی مگر جیسے ہی محمد نہال نے اسے اردو کے سنہرے حرفوں کا جامہ پہنایا اس کی شہرت دوگنی ہوگئی۔انہوں نے اپنے لفظوں میں جس طرح ڈھالا ہے وہ اور بھی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ان ڈھیر ساری خصوصیات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یقیناََ یہ نوجوان قلم کار غیر معمولی صلاحیت کا مالک ہے۔
محمد نہال کا تیسرا ادبی ترجمہ  ”جدید ہندی کہانیاں“  کے نام سے شائع ہوا۔جو فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی حکومت اتر پردیش لکھنؤ کے مالی تعاون سے شائع ہوا ہے۔اس تصنیف کو بھی دیگر کی طرح کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔اردو میں ہندی کی بیس جدید کہانیاں وہ کہانیاں ہیںجو ہندی داں طبقوں کے درمیان موضوع بحث رہی ہیںان میں اکثر کہانیوں کو انعامات و اکرام سے نوازا جا چکا ہے۔ان کہانیوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے موضوعات مختلف ہیں۔ساری کہانیاں ایک دوسرے سے الگ زندگی کے الگ الگ تجربات پیش کرتی ہیں۔مثلاََ اس کتاب کی پہلی کہانی  ” رکو انتظار حسین “  راجی سیٹھ کی ایک اہم کہانی ہےجس کا موضوع تقسیم ہند ہے۔جسے انتظار حسین کےناول بستی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔
راجی سیٹھ ایسی مصنفہ ہیں جنہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔قریب 35 سال کی عمر میں انہوں نے اپنی پہلی کہانی  ” سمانتر چلتے ہوئے “  کے عنوان سے لکھی جو ہندی رسا لہ ”نیا پریتک “  میں شائع ہوئی۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کی کہانیوں کے 13 مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔
دوسری کہانی ‘ ”اکیسویں صدی کا پیڑ ‘“  مردلا گرگ کی ایک علامتی کہانی ہے۔مصنف نے ایک پیڑ کے ذریعہ سے انسانی قدروں کو پیش کرنے کی جو کوشش کی وہ قابل داد ہے۔مردلا گرگ ہندی فکشن نگاروں میں ایک ایسا معتبر نام ہے جنہوں نے اپنی صلاحیت کی بنا پر ہندی زبان و ادب میں ایک اہم مقام پر فائز ہیں۔ ان کا تخلیقی سفر 1970ء سے 2006ء تک کے عرصے پر محیط ہے۔انہوں نے اپنی پہلی کہانی کشمیر کی وادیوں میں لکھی جو  ”گلیشیرسے “ کےعنوان سے چھپی۔ان کی کہانیوں کے متعدد مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔فی الحال ان کا قلم خاموش ہے کہیں یہ خاموشی طوفان کے پہلے والی تو نہیں۔
محمد نہال نے جتنی بھی کہانیوں کا انتخاب کیا ہے ان کے مطالعے کے بعد بے ساختہ منھ سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں کہ اس نوجوان اسکالر کا انتخاب بہت اچھا ہے۔تخلیق کار کے بجائے تخلیق کو چننے کا ان کا فیصلہ بھی قابل ستائش ہے۔اس کتاب میں جتنی بھی کہانیاں ہیں سب اپنی اپنی جگہ سماج میں پھیلے مختلف مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ چاہے وہ رویندرکالیا کی کہانی “نو سال چھوٹی پتنی،، ہو یا شمع خان کی کہانی”اور بولو گے سچ “ ،  گیتا شری کی کہانی  ” بہہ گئی بیگن ندی“  ، عبدل بسم اللہ کی  ” جینا تو پڑے گا “، ناصرہ شرما کی ” دوسرا تاج محل“ ، ممتا کالیا کی   ” تھوڑا سا ترقی پسند“   ، انور سہیل کی ” گیارہ ستمبر کے بعد“ یا ترون بھٹناگر کی ” گل مہندی کی جھاڑیاں“  وغیرہ سماجی زندگی کے اہم مسائل کی طرف ہمیں سوچنے پرمجبور کرتی ہیں۔
جہاں تک ان کہانیوں کے اردو تراجم کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مترجم نے اس ترجمے پر کافی محنت کی ہے ۔ انہوں نے ہندی اور اردو کے مروجہ الفاظوں کا استعمال کیا ہے۔عبارت کو مقفیٰ و مسجیٰ بنانے سے گریز کیا گیا ہے۔انہوں نے حتی الامکان یہ کوشش کی ہے ہے کہ ترجمے کی زبان عام بول چال کی زبان سے قریب رہے۔ اکثر جگہوں پر زبان اتنی سادی ہوگئی ہے کہ پریم چند کا خدشہ ظاہر ہوتا ہے۔ سب سے اہم چیز جو ان کے تراجم میں نظر آتی ہے وہ یہ کہ انہوں نے لفظ بہ لفظ ترجمہ نہیں کیا ہے۔ بلکہ خود اپنے آپ کو اس تخلیق سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے ترجمے کے عمل کو انجام دیا ہے۔انہوں نے ترجمہ کے لئے بالکل صحیح اور مترادف الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے ہر جگہ ترجمے کی فنی باریکیوں کو پیش نظر رکھا ہے ساتھ ہی اصل متن میں پوشیدہ معنی و مفاہیم کو بھی ہر جگہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ قاری کے سامنے اجاگر کیاہے۔انہوں نے اردو زبان کی مٹھاس میں ہندی کہانیوں کو پیش کر کے ہندی اور اردو زبانوں کے ادب میں قربت کو نیا مقام دیا ہے۔انہوں نے دونوں زبانوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے دونوں کو معقول جگہ دی تاکہ زبان کی اہمیت بھی برقرار رہے اور تصنیف کے ساتھ نا انصافی بھی نہ ہو سکے۔ان کی یہ پرکھ حیرت انگیز اور قابل قدر بھی ہے۔
گزشتہ صفحات میں ہم نے محمد نہال افروز کے تراجم کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا جو اردو ادب میں بیش بہا اضافہ ہے۔اگرچہ ابتدا میں یہ بطور مترجم پہچانے گئے مگر جب ان کی افسانوی نثر یا اردو فکشن کی تنقید ہو یا تنقیدی نگارشات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان کی تنقید بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنی کہ ان کی ترجمہ نگاری۔
” مضامین افروز “  محمد نہال کے تنقیدی مضامین کا ایک اعلیٰ و ارفع مرقع کہا جا سکتا ہے۔ جس میں انہوں نے متقدمین ادیبوں اور ان کی تحریروں کا وسیع و دقیع تناظر میں مطالعہ کر کے ان کے مختلف ابعاد کا احاطہ اور پرت در پرت معلومات سے قاری کو فیض یاب کیا ہے۔
 اس کتاب میں انہوں نے اپنی وہ تمام تحریریں یکجا کر دی ہیں جو مقالات یا مضامین کی شکل میں مختلف موقعوں پر لکھے گئے یا سیمیناروں میں پڑھے گئے ہیں۔تاکہ آنے والی اردو نسل کے لئے ایک دستاویز رہے۔ اس کتاب کے اندر کل چودہ مضامین ہیں اور ہر مضمون اپنے آپ میں ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔
” مضامین افروز“ کے اول الذکر مضمون ”  معاصر اردو ناولوں میں موضوعاتی اور فنی تجربے“  میں مصنف نے اپنی بات کا آغاز ترقی پسندیوں کے قول ”  ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے “  اور ”  ادیب سماج کی عکاسی کرتا ہے“  کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے معاصر اردو ناولوں میں غربت، افلاس، اخلاقی بے راہ روی، قتل و غارت گری، نا انصافی، جنسی استحصال جیسے موضوعات پر لکھنے والے حسین الحق، شموئیل احمد، پیغام آفاقی، مشرف عالم ذوقی، غضنفر، عبدالصمد، خالد جاوید وغیرہ کے ناولوں کا موضوعاتی و فنی تجربہ پیش کیا گیا ہے۔
دوسرے مضمون  ”فیض کی زنداں سے فیض یابی “ میں فیض احمد فیضؔ کے زندانی ادب پر ایک سیرحاصل بحث کی ہے۔ مضمون کی ابتدا چکبست کے اس شعر سے کرتے ہیں
قید خانہ کی سیاہی میں وہ تارا چمکا
جس سے انسان کی ہستی کا ستارا چمکا
مذکورہ بالا شعر فیضؔ کی شخصیت کی پوری طرح نمائندگی کرتا ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ فیضؔ کو فیض بنانے میں زندان کا رول نمایاں رہا ہے ۔ پورے مضامین میں مصنف کا عالمانہ اور مفکرانہ انداز نمایاں ہوتا ہے اور ان کی فکری و فنی بصیرت کا احساس ہوتا ہے۔
تیسرا مضمون وہاب اشرفی اور ان کے ادبی کارنامے پر لکھا گیا ہےجس میں مصنف نے وہاب اشرفی کی شخصیت اور فن پر ایک عالمانہ گفتگو کی ہے۔انہوں نے ان کی اہم اہم کتابوں کی اہمیت کو بھی ادبی حلقوں میں اجاگر کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ وہاب اشرفی کے تنقیدی نظریات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
”کشمیری لال ذاکر حیات اور ادبی کارنامے “کے عنوان سے ان کا چوتھا مضمون ہے۔ اس مضمون میں کشمیری لال ذاکر کی مختصر سوانح حیات کے ساتھ ان کی ادبی خدمات پر ایک ناقدانہ گفتگو کی گئی ہے۔یہ مضمون ہمیں کشمیری لال ذاکر کی ہمہ جہت شخصیت سے متعارف کراتا ہے۔
” نیر مسعود : حیات اور ادبی کاوشیں “ اس کتاب کا ایک اور معلوماتی مضمون ہے۔اس مضمون میں نیر مسعود کے افسانوی مجموعے( سیمیا، عطر کافور ، گنجفہ، طاؤس چمن کی مینا)تراجم، اور دیگر ان کی ادبی تصانیف کا تعارف بڑی عمدگی سے کیا گیا ہے۔(جاری)
ریسرچ اسکالر ،لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ
اس کے علاوہ اس کتاب میں جو دیگر مقالے ہیں یہاں میں ان کا عنوان لکھنے پر اکتفا کروں گا کیوںکہ
” بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی“۔ جن تنقیدی مضامین کو اس کتاب میں جگہ ملی ہےوہ کچھ اس طرح ہیں۔
” اسرار گاندھی کے افسانوں میں جنسی عمل کی پردہ داری “،  ” صادقہ نواب سحر کی افسانوی فکر: خلش بے نام سی کے تناظر میں “ ، ”  خالد جاوید کے افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ“، ” خالد جاوید کی نظم گوئی “ ، ”  ہندی کہانی کے ابتدائی نقوش“ ،  ” ہندی فکشن میں مسلم تخلیق کاروں کا حصہ  “ ،  ” ہندی کہانی میں خواتین کا حصہ “،  ”  ہندی ادب کے وہ چراغ جو بجھ گئے “ ، اور آخری مضامین ”  سکھویندرسنگھ کی گلوکاری“ ۔یہ کل چودہ مضامین اس کتاب کی زینت ہیں لیکن سب ایک سے بڑھ کر ایک کسی مقالے کو کسی پر فوقیت نہیں دی جا سکتی ہے۔
مضامین افروز  اپنے مواد کے اعتبار سے ایک اہم کتاب ہے جس میں تنقید و تجزیہ کےسارے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔زبان و بیان سادہ اور عام فہم ہے۔بلکہ تنقید میں جس طرح کی زبان و بیان کی ضرورت ہوتی ہے مصنف نے زبان و بیان کے اسی انداز کو اپنایا ہے۔ساتھ ہی ان مضامین میں مصنف کے سلیس و فصیح اسلوب ،اظہار خیال کی قوت و وسعت، موضوعات کے تنوع اور بالغ نظر تنقید کا پہلو بھی صاف نظر آتا ہے۔
2017ء میں محمد نہال کی ایک اور تحقیقی و تنقیدی کتاب ”خالد جاوید: شخصیت اور فن “ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے خالد جاوید کی شخصیت اور فن کے متنوع پہلوؤں پر بہت ہی عمیق انداز میں لکھا ہے۔در اصل یہ مصنف کے ایم۔فل کا مقالہ ہے جسے انہوں نے کتابی شکل عطا کی ہے۔اس کتاب میں ان کا اسلوب تحریر گٹھا اور سلجھا ہوا ہے۔تحریر میں اتنی روانی ہے،سلاست،فصاحت، شگفتگی اور چاشنی ملتی ہے کہ پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے موصوف خود اپنی زبانی خالد جاوید کی روداد زندگی بیان کر رہے ہوں۔ مصنف نے قارئین کے لیے خالد جاوید کی زندگی اور کارناموں سے متعلق ہر گوشےکو منور کرنے کی بے حد کامیاب کوشش کی ہے۔
مصنف نے اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے اور ہر باب کو پانچ ذیلی ابواب میں منقسم کیا ہے۔ مصنف کے پیش گفتار سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔اس کے بعد ”  نہال افروزی، جرات مندی کی ایک مثال“ پروفیسر عتیق اللہ کا ایک مختصر مگر جامع مضامین خالد جاوید کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ہے۔جن میں انہوں نے خالد جاوید کے ساتھ ساتھ محمد نہال کے قلم کی بھی تعریف کی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ
” نہال افروز کی اس طالبانہ کوشش میں ان کے بہتر مستقبل کی جھلک
مجھے صاف نظر آرہی ہے۔انہوں نے بےحد صبر و استقلال کے ساتھ
اس مقالے کو مکمل کیا ہے وہ مشکل پسند ہیں اور نئےچیلنج
قبول کرنے میں ان کی طبیعت زیادہ مائل ہے۔“
(محمد نہال افروز، خالد جاوید :شخصیت اور فن، ص 12)
فی زماننا اردو فکشن کی دنیا میں خالد جاوید کا نام نمایاں اہمیت رکھتا ہے۔ ان کا شمار پائے کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانے زندگی کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان کی تحریر تھوڑی مشکل ضرور ہوتی ہے پھر بھی ان کی طرز تحریر کے شیدائی ہندوستان ہی میں نہیں ہندستان کے باہر دوسرے ملکوں میں بھی ہیں۔ ان کی کہانیوں کے ترجمے ہندستانی زبانوں کے علاوہ یوروپی زبانوں میں بھی ہوچکے ہیں۔
محمد نہال نے دور حاضر کے اردو زبان و ادب میں ایک رنگارنگ حیثیت رکھنے والے ایک اہم فکشن نگار کی شخصیت اور کارناموں کو مذکورہ کتاب میں منظر عام پر لاکر ایک اہم اور مدلل کارنامہ انجام دیا ہے۔
کتاب کا پہلا باب ”  خالد جاوید کی ساخت و پرداخت میں کارفرما عوامل “ کے عنوان سے ہے۔اس باب میں موصوف نے خالد جاوید کے خاندان، آباؤاجداد، والدین ، ان کی پیدائش،تعلیم، ازدواجی زندگی اور تخلیقی زندگی کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔اور ساتھ ہی خالد جاوید کی شخصیت اور سیرت کو جن خصائص نے مثالی اور بہترین بنانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے ان سب کے بارے میںبھی اچھی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔
کتاب کا دوسرا باب  ”  خالد جاوید کے ادبی کارنامے “  کے عنوان سے ہے۔اس باب کو بھی پانچ ذیلی ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا ذیلی عنوان خالد جاوید کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ہے۔اس باب میں ان کی افسانہ نگاری کا مختصر مگر جامع انداز میں ناقدانہ تجزیہ کیاگیا ہے۔خالد جاوید نے افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز 1991 ء  میں کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ” تابوت سے باہر “  رسالہ” نیا دور “  لکھنؤ میں جولائی 1991ء میں شائع ہوا۔ یہ افسانہ رومان اور حقیقت کا سنگم ہے۔اس کا موضوع خالد جاوید کی گذشتہ زندگی سےبھی ملتا جلتا ہے۔
خالد جاوید کا دوسرا افسانوی مجموعہ ” آخری دعوت “ کے نام سے 2007ء میں دہلی سے شائع ہوا۔اس مجموعے  نے ادبی دنیا میںکافی مقبولیت حاصل کی ۔اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئےاسی مجموعے کو پاکستان میں ” تفریح کی ایک دوپہر “ کے نام سے 2008ء میں شائع کیا گیا۔اس میں نو کہانیاں شامل ہیں۔
خالد جاوید کے افسانوں پر بات کرتے ہوئےمحمد نہال نے افسانوں کے موضوع ، اس وقت کے ماحول، ہندوستانی معاشرے، رجحانات، تفریح سازی اور طبقاتی کشمکش وغیرہ کو زیر غور رکھا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے خالد جاوید کے عشقیہ افسانوں ، نفسیاتی کہانیوں، واقعات اور حقیقت پسندی پر مبنی کہانیوں، نچلے متوسط اور اعلیٰ طبقے کی کہانیوں پر بھی طائرانہ نظر ڈالی ہے۔انہوں نے خالد جاوید کے موضوع، فن، تکنیک اور اسلوب پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف دلیلیں اور مثالیں دے کر ان کے فنی، فکر ی ا ور تخلیقی اعتبار کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
ددسرےذیلی باب میں موصوف نے بحیثیت شاعر خالد جاوید کی شخصیت کا جائزہ لیا ہے۔خالد جاوید کی شاعری ادبی حلقوں میںوہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکی جو ان کےافسانوں کو حاصل ہے۔ ان کی شاعری 1987ء سے لے کر 1998ء کے عرصہ پر محیط ہے۔خالد جاوید نے زیادہ تر نثری نظمیں لکھی ہیں۔جس کا تجزیہ محمد نہال نے بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے کیا ہے۔
” بحیثیت مضمون نگار “  اس باب کا تیسرا ذیلی عنوان ہے۔ مضمون نگاری خالد جاوید کی نمایاں عنصر رہی ہے۔خالد جاوید کی مضمون نگاری پر محمد نہال کی ناقدانہ گفتگو سے ان کی مضمون نگاری کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔
” بحیثیت تنقید نگار “ اس باب کا چوتھا ذیلی عنوان ہے۔ اس باب میں ان کی دو اہم تنقیدی کتاب ” گابرئیل گارسیا مارکیز: فن اور شخصیت “  اور  ”میلان کنڈیرا “  پر مصنف نے ناقدانہ گفتگو کرتے ہوئے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ مارکیز اور میلان کنڈیرا کو اردو دنیا میںروشناس کرانا خالد جاوید کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ محمد نہال نے ان دونوں کتابوں کو تنقیدی میزان پر پرکھتے ہوئے ان کے معیار کو متعین کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ اور ساتھ ہی ایک بڑے تنقیدنگار کی طرح ان کتابوں پر عالمانہ گفتگو کی ہے۔
”  بحیثیت ناول نگار “  اس باب کا پانچواں اور آخری ذیلی باب ہے۔ اس باب میں خالد جاوید کے نالوں کا مختصر مگر قطعیت کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔ خالد جاوید کے اب تک دو ناول منظر عام پر آچکے ہیں۔ایک  ” موت کی کتاب “ جو 2011ء میں منظر عام پر آیااور دوسرا  ”  نعمت خانہ “ جو 2015ء میں پاکستان سے شائع ہوا۔مصنف نے موضوع ، تکنیک اور پیشکش کے اعتبار سے ناولوں کا خوبصورت تعارف کرایا ہے۔ گویا تحقیق کرنے والوں کے لئے انہوں نے راہ صاف کر دی ہے۔
”  خالد جاوید کے افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ“ اس کتاب کا تیسرا باب ہے۔ہر باب کی طرح اس کو پانچ ذیلی ابواب(سماجی و سیاسی پہلو، تہذیبی و ثقافتی پہلو، جنسی و نفسیاتی پہلو، المیاتی پہلو اور فلسفیانہ پہلو) میں تقسیم کیا گیا ہے۔
سماجی و سیاسی پہلو پر بات کرتے ہوئے مصنف نے خالد جاوید کے ان اہم افسانوں کو گفتگو کا مرکز بنایا ہے جن افسانوں میں سماجی و سیاسی حقیقت نگاری کو پیش کیا گیا ہے۔ افسانہ ” آخری دعوت “  میں خالد جاوید نے ایک ایسے سماج کی عکاسی کی ہے جس میں ہر شخص اپنے آپ کو اعلیٰ اور بہتر ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح افسانہ ” روح میں دانت کا درد “ سماجی تشدد کے خلاف لکھا گیا ہے۔ افسانہ ” تفریح کی ایک دوپہر “ بھی سماجی برائی کو ظاہر کرتا ہے۔اسی طرح ان کے دیگر افسانوں پر محمد نہال نے سماجی و سیاسی پہلو کے زاویہ نظر سے ایک ناقدانہ بحث کی ہے۔انہوں نے اپنی تحریر سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے افسانے مختلف النوع سماجی رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔
خالد جاوید نے جس طریقے سے سماجی و سیاسی مسائل کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے اسی طرح اپنے سبھی افسانوں میں ہندستانی مذہب اور ہندستانی تہذیب و ثقافت کی بھی شاندار عکاسی کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں اکثر اسلامی تہذیب و ثقافت کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔
جنسی و نفسیاتی پہلو بھی ان کے افسانوں کا ایک اہم جزہے۔ قریب قریب ان کے سبھی  افسانوں میں جنسی بے راہ روی کا کھلے طور پر اظہارملتا ہے۔ان کے افسانے ” برے موسم میں “  ،  ” قدموں کا نوحہ گر “، ” پیٹ کی طرف مڑے ہوئے گھٹنے  “، ”  آخری دعوت“  ، ” تفریح کی ایک دوپہر “ ، ”  مٹی کا تعاقب“ ، ”ہذیان “ ، ” کوبڑ “ اور ” کنگارو “  وغیرہ میں جنسیاتی پہلو کی عکاسی صاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوںمیں عورت کے کسی نہ کسی نفسیاتی پہلو کو بھی پیش کیا ہے۔ عورت کی ذات مختلف حیثیتوں سے ان کے افسانوں میں نظر آتی ہے۔ جنسی و نفسیاتی پہلو کے علاوہ ان کے سارے افسانوں میں المیاتی پہلو بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ان کا ایک بھی افسانہ ایسا نہیں ہے جس کے کردار دکھ درد، مصائب و آلام، اور پریشانیوں میں مبتلا نہ رہے ہوں۔ ان کے تقریباََ تمام افسانے میں دکھ درد کا ہونا لازمی ہے۔انہوں نے انسان کے باطنی درد کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
خالد جاوید کے افسانوں میں نفسیاتی و المیاتی پہلو نظر آتا ہے وہیں فلسفیانہ پہلو بھی جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے ۔ خالد جاوید نے انسان کے ظاہری اور باطنی وجود سے بحث کی ہے۔ انہوں نے انسانی نفسیات، ذہنی کشمکش ، کرب و مصائب ، باپ بیٹی کا رشتہ ، شوہر بیوی کی نفسیات ، بہن بھائی کی محبت، جیسے تعلقات کو اپنے افسانوں میں فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے فلسفہء وجودیت اور مابعد الطبیعات کو اپنے افسانے میں جگہ دی ہے ۔
 ” خالد جاوید کے اہم افسانوں کا فنی مطالعہ “ اس کتاب کا چوتھا اور آخری باب ہے۔ ہر باب کی طرح اس باب کو بھی پانچ ذیلی عنوان یعنی پلاٹ، کردار نگاری، عنوان اور نقطہ نظرمیں رشتہ، زبان و بیان  اور تکنیک میں تقسیم میں کیا گیا ہے۔
خالد جاوید کے افسانوں کا فنی تجزیہ کرتے ہوئے محمد نہال نے غیر جانب دارانہ رویہ اپنایا ہے۔انہوں نے اپنے تنقیدی تجزیے میں وہی زبان استعمال کی ہے جو تنقید کےلیے موزوں اور مناسب سمجھی جاتی ہیں۔ وہ اس معاملے میں کسی بھی طرح کے تصنع و تکلف سے کام نہیں لیتےہیں۔ انہوں نے جو بھی کہا ہے قاری کے ذہن کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا ہے تاکہ قاری کو اس کی تفہیم میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
محمد نہال نے خالد جاوید کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے اہم اہم افسانوں کو تلاش کر کے اپنی گفتگو کا محور بنایا ہے۔انہوں نے ان افسانوں میں پوشیدہ فنی محاسن و ہندستانی تہذیب وغیرہ کی نشاندہی کرتے ہوئے تفہیم و ترسیل کے نئے نئے پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ساتھ ہی فنی مطالعہ کرتے ہوئےیہ ثابت کیا ہے کہ ان کے افسانوں کے پلاٹ میں واقعات کی ترتیب و تنظیم کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔کچھ کہانیوں میں پلاٹ پیچیدہ نظر آتا ہے تو کچھ میں سپاٹ مگر تسلسل برقرار رہتا ہے۔اسی طرح کردار نگاری کے حوالے سے بھی ان کے افسانے کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کے کردار جیتی جاگتی دنیا کو ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان کے
کردار ہی افسانوں کی جان ہوتے ہیں۔محمد نہال نےان کے افسانوں میں برتی گئی تکنیک (شعور کی رو، فلیش بیک ،مکالماتی ، خود کلامی، اور بیانیہ تکنیک)کو بھی مثالوں کے ساتھ واضح کر دیا ہے۔عنوان اور نقطہ نظر کی بات کریں تو ان کے بیشتر افسانوں میں عنوان اور نقطہ نظر میں رشتہ دکھائی دیتا ہے۔زبان و بیان کے اعتبار سے بھی ان کے افسانے کامیاب نظر آتے ہیں۔خالد جاوید کی افسانوی زبان بھی موزوں اور مناسب ہے جو قاری کو متاثر کرتی ہے۔
المختصر ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد نہال نے خالد جاوید کے افسانوں کے فنی مطالعہ پر کافی محنت کی ہے۔کتاب کی سب سے اہم بات یہ کہ مصنف نے بہترین محقق و ناقد کی طرح اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کوئی بھی تحقیق حرف آخر نہیں ہوتی لیکن ہر تحریر میں نئے نکات اور نئے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے۔ لہذا اس کتاب میں بھی خالد جاوید کے فکر و فن کی تعبیر و تفہیم کی کوشش کی گئی ہے۔فنی گفتگو کے بعد ضمیمہ میں اکرم نقاش کے ذریعہ لیا گیا خالد جاوید کا انٹرویو شامل کیا گیا ہے جس میں خالد جاوید نے اپنے تخلیقی سفر اور افسانہ، کہانی کے بابت کئی اہم نکات پر جامع گفتگو کی ہے۔ اس کے بعد حواشی اور کتابیات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
کتاب کے تفصیلی مطالعہ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے بھر پور ہے۔جس میں خالد جاوید کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ پیش کش کا انداز نہایت دلکش ہے۔انہوں نے الفاظ کا خاص خیال رکھا ہے۔مصنف کی نثر نگاری کا بھی منفرد انداز ہے۔ وہ تحقیق کی روشنی میں نہایت غیر جانب دارانہ انداز میں اپنی بات اور نظریے کو پیش کرتے ہیں ۔ یہ کتاب افسانوی ادب بالخصوص خالد جاوید شناسی میںاہم اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔جس سے اس میدان میں تحقیقی کام کرنے والے بھر پور استفادہ کریں گے۔کتاب پڑھتے وقت ایک معمولی منفی تاثر یہ تھا کہ خالد جاوید کو کچھ حد سے زیادہ معصوم اور کامل دکھایا گیا ہے بہتر ہوتا انہیں انسان ہی رہنے دیا جاتا ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی شخصیت کے منفی پہلوؤ ں کو بھی کتاب میں شامل کیا جاتا تاکہ ان کی مکمل شخصیت اجا گر ہوتی۔اس کتاب کی ایک مفید بات یہ ہے کہ خالد جاوید کے اہم اہم افسانوں کے مختصر تجزیے پیش کیے گئے ہیں جو طالب علم اور ریسرچ اسکالروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور امید کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھ کر اردو ادب اور ہندستان کی ایک نمایاں ادبی شخصیت کے بارے میں نہ صرف جانیں گے بلکہ اس کا ادب بھی پڑھنے کے شوقین ہو جائیں گے۔
مجموعی طور پر اس کتاب کے ذریعے خالد جاوید کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو جس طرح سے واضح کیا گیا ہے اس سے بلاشبہ خالد جاوید کی تفہیم بہت آسان ہوگئی ہے۔اور مصنف اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں۔مادیت پرستی کے اس دور میں جس نے عوام الناس کو ادب اور اخلاقی اقدار سے بے حد دور کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نئی نسل کو ان ادبا اور محققین سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔آسان اور سہل اسلوب میں تحریر کی گئی یہ کتاب اپنی جانب ان کی توجہ مبذول کرنے میں ضرور کامیاب ہوسکتی ہے۔ایوان ادب میں اس کتاب کا خیر مقدم ہونا چاہیے، ہم مصنف کی اس تحقیقی کاوش کی ستائش کرتے ہیں۔
محمد نہال افروز کی ادبی خدمات کا اعتراف بڑے بڑے نقادوں نے کیا ہے۔ان کی کئی کتابوں کا اجرا دہلی ، جامعہ ملیہ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآبادمیں وقت کے جید نقادوں کے ہاتھوں ہوچکاہے۔ان کی ایک اور کتاب ”ہندی کہانی کے ابتدائی نقوش اور چند اہم کہانیاں “ زیر طبع ہے جس کا مسودہ اترپردیش اردو اکیڈمی میں گرانٹ ایڈکے لیے جمع ہے۔ایک ساتھ اتنا بڑا ادبی سرمایہ ادبی دنیا کے ہاتھوں لگایہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔اتنی کم عمری میں اتنےکمالات کا مظاہرہ وہ بھی اتنی سادگی ، سعادت مندی اور ایمانداری کے ساتھ قابل ستائش ہے اردو دنیاکا یہ روشن ستارہ اپنی تابناکی کے ساتھ جلوہ گری کرتا رہے میری یہی دعا ہے۔
تمہارا عزم سلامت تمہاری عمر دراز
زمانہ تم سے بڑا کام لینے والا ہے
۔۔۔۔۔
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular