Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldنوجوان قلمکار پر ایک نظر

نوجوان قلمکار پر ایک نظر

مصباحی شبیر

یہ وہ تاریخی کالم ہے جو اتر پردیش کے ایک موقر روزنامہ اودھ نامہ لکھنو میں شائع ہوتا ہے موسی رضا کی دیکھ ریکھ میں یہ کالم چل رہا ہے۔ اس کالم پر میری پہلی نظر فیس بک میں کسی محترم کے پوسٹ سے پڑی میں نے فوراً اس کالم کے اشتہار میں دئیے ہوئے موبائل نمبر پر فون کیا تو وہ شخص بھی بڑا ملنساز اور ادب دوست نکلا ، میری باتوں کا جواب انھوں نے بڑی محبت سے دیا اور مجھے بھی لکھنے کی دعوت دی اور ساتھ میں حوصلہ افزائی کی گارنٹی بھی انھوں نے مجھے دے دی۔ تب سے آج کا دن ہے میری متعدد تحریریں اس کالم کے تحت چھپ چکی ہیں۔ اودھ نامہ لکھنو میں چھپنا اپنے آپ میں بڑے بڑے قلمکاروں کا سپنا ہوتا ہے اس ناچیز کی تو بات الگ ہے ۔ آج کے دور میں نہ صرف نوجوان قلم کار بہت سارے ماہرین قلم کی بھی یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی بڑے بڑے اخبار انہیں جگہ نہیں دیتے ہیں ایسے میں اس کالم کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اس اخبار کی ایڈیٹوریل ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ لیکن جہاں تک بات اس کالم کی ہے اگر تھوڑا تنقیدی اعتبار سے اس کا ایک جائزہ لیا جائے تو میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس کالم پر ہم تنقید کرنے میں مجاز نہیں رکھتے ہیں کیونکہ اس کالم کے ذریعے صرف اور صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کالم میں کچھ افسانے، انشائیے اور تحریریں ایسی بھی چھپ چکی ہیں جو واقعی اصناف سخن کی صفات کے اعتبار سے دیکھی جائے تو بہت ہی کم ہی معیاری تھیں اب ان میں یہ ناچیز خود بھی شامل ہے اس لیے کوئی محترم میری اس بات سے کوئی تنقید برائے تخریب کا پہلو نہ نکالے۔ اس میں ایڈیٹوریل ٹیم کی بھی غلطی نہیں ہے کیونکہ وہ اگر ہماری حوصلہ افزائی نہ کریں تو پھر سے وہیں تقریر کہ ہمیں جگہ نہیں ملتی۔۔۔۔۔ لیکن یہ واقعی ایڈیٹوریل ٹیم کی اس کالم کے تئیں بے رخی کہیں یا کہ کچھ اور کہ جملوں کی ساخت اور تذکیر و تانیث اور املا کی جانب کچھ خاص توجہ نہیں دی جاتی یا کم دی جاتی ہے کہ جو ای میل ملے اسے ہی کاپی پیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس سے قلم کار کی اصلاح نہیں ہوپاتی ہے اس لیے اگر ایڈیٹر اس جانب تھوڑی توجہ دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ قطع نظر ان باتوں کے اس کالم نے اردو ادب کی فروغ و اشاعت میں بہت اہم کردار نبھایا ہے کیونکہ اس کالم کے تحت کچھ تحریریں بہت ہی عمدہ اور اہمیت کے حامل رہی ہیں اور ہمارے چند قلمکاروں نے اعلیٰ معیار کے افسانے و انشائیے بھی پیش کئے ہیں۔ اس کالم کے تحت ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ، کچھ کام ہمیں یعنی قلم کاروں کو کرنا ہے تو کچھ ذمہ داری ایڈیٹوریل ٹیم کی بنتی ہے۔ جو کام ہمیں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس کالم کے لیے جو بھی لکھیں حتی الامکان معیاری لکھنے کی کوشش کریں تاکہ ہم کو عزت دینے والے کا بھی فائدہ ہو اور قوم و زبان کا بھی فائدہ ہو۔ ہمیں چھپنے کی جلدی نہ ہو بلکہ دیر صحیح تحریر اچھی ہو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے خصوصاً ایسے نوجوان قلم کار جو ادبی ماحول میں رہتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ آپ سے فائدہ اٹھائیں۔ اور جو کام اس کالم کے ذمہ دارن کو کرنا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس کالم کو تصحیح و ان نوجوان قلمکاروں کی مزید حوصلہ افزائی سے نوازتے ہوئے یہ انتظام اگر تھوڑی سی مشقت کر کے بھی کرلیں کہ ایک کہنہ مشق قلم کار ان نوجوان قلمکاروں کو ان کی فنی کمیوں کو اجاگر کرنے میں مدد کرے اور یہ کام قلم کاروں کے ساتھ پرسنل آئی ڈی پر ہی کیا جائے تاکہ وہ اپنی خامیاں دور کریں۔ کیونکہ آج اصلاح اور حوصلہ افزائی کے جذبے کا جتنا فقدان ہے اتنا تاریخ میں شاید کبھی ہوا ہوگا۔ ہر کوئی صرف اور صرف تنقید برائے تخریب کے جذبے سے سر شار نظر آتا ہے ایسے میں روز نامہ اودھنامہ نے اگر حوصلہ افزائی کی مہم چلائی ہے تو زبان ادب کے لیے اسے اور تھوڑی محنت کرنی پڑے گی اس کے علاوہ اگر اس کالم کے تحت ہی کچھ موضوعات دے کر لکھوایا جائے تو اس میں نوجوانوں کو محنت بھی کرنی پڑے گی اور اس طرح سے چند بہترین تحریروں کے منظرِ عام پر آنے کی امید بھی زیادہ ہوگی اور ان کو ترتیب وار شائع کیا جائے۔ لیکن ایسا صرف مہینے یا دو مہینے میں ہو اور ان میں بھی صرف پانچ کو انعام یا کوئی سند ہی اخبار کی جانب سے ملے۔ اور ایک ہی ہفتے میں مسلسل وہ پانچ تحریریں، افسانے یا انشائیے شائع ہوں۔ میں آخر میں پھر سے ایک بار اودھ نامہ کے ذمہ دارن و بالخصوص موسی رضا کا اس کالم کی شروعات و نوجوانوں کی ترتیب وار حوصلہ افزائی کے لیے شکر گزار ہوں کیونکہ اس کالم نے میرے جیسے قلم کاروں کو ایک نئی زندگی بخشی ہے اور میرے پاس اس کالم کی اہمیت وافادیت کو بیان کرنے کےلیے الفاظ نہیں ہیں اور یہیں وجہ ہے کہ آپ لوگوں سے بہت دور ہندوستان کے آخری کونے چین اور پاکستان کی سرحد سے ایک پہاڑی علاقے لداخ کارگل کےایک چھوٹے سے گاؤں دراس سے صرف اور صرف نیٹ کی بدولت میں اس اخبار سے جڑا ہوں کہ میں اپنی اصلاح کروں اور اردو ادب کی کچھ خدمت مستقبل قریب میں کرلوں۔ ہمارے جموں وکشمیر میں بھی یوں تو بہت سارے اخبارات ہیں جن میں سے چند معیاری بھی ہیں لیکن صنف سخن کے جو لوازمات ہیں ان میں جو مقام اترپردیش و بہار کے اخبارات کو حاصل ہے ان میں ہندوستان کی دیگر ریاستیں کافی پیچھے ہیں۔ اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی میں تو پورے ہندوستان کے اخبارات میں فقدان پایا جاتا ہے۔
ایسی بات نہیں ہے کہ مجھے جموں وکشمیر کے اخبارات جگہ نہیں دیتے ہیں تو یہ باتیں کہہ رہا ہوں نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ میں یہاں بھی بہت ہی بہترین جگہ پاتا ہوں لیکن مجھے اپنی نہیں بلکہ میں ایسے نوجوان قلم کاروں کی بات کر رہا ہوں جو حوصلہ افزائی کے حقدار ہیں۔۔۔۔۔۔ اس لیے میں ہمارے دیش کے دوسرے اخبارات سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ اردو ادب کی جانب نوجوان قلم کاروں کو راغب کرنے کےلیے آپ کو بھی اودھ نامہ کے نقشِ قدم پر چل کر کچھ کاوشیں کرنے کی ضرورت ہے۔
دراس کارگل جموں وکشمیر

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular