Sunday, April 28, 2024
spot_img

می ٹو

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

فیاض حمید

مجھے گرلز اسکول کے بجائے لڑکوں کے اسکول میں درج کیا گیااور مڈل تک آتے آتے میں نے خالی مولوی صاحب کے لڑکے’’منیر‘‘کو ہی اپنے بلے کا بکرا بنایا تھا ۔اُ س کے پاس جو کچھ بھی ہوتا تھا میں اُس کا آدھا آدھا کرلیتی تھی اور میرے پاس جب کچھ ہوتا تو میں غصہ کا بہانا بنا کر اکیلے کھا لیتی تھی اور پھر sorryکہہ دیتی جس کے بعد منیر خوشی سے پھولے نہیں سما پاتا تھا۔لڑکا اچھا تھا اور قابل بھی بہت تھا لیکن جیب سے غریب تھا لہذا کچھ خرچ نہیں کر پا رہاتھا۔وہ مجھ سے شاید پیار کرنے لگا تھا اور میں بھی ہنسی ہنسی میں اُس کا ساتھ دیتی تھی تاکہ اُس کی لگام اچھے سے پکڑ سکوں لیکن خالی جیب اور پرانی پگڈندی میری منزل نہ تھی۔مڈل کے بعد ہائی اسکول میں آئی تو یہ دو سال میری زندگی میں کسی واردات سے کم نہ تھیں کیونکہ لڑکیوں کے درمیان میں اتنا بھور ہوگئی تھی کہ کبھی کبھی لگتا تھا کہ کسی لڑکی کو ہی پرپوز کرلوں۔میری نظر آخر کھیل کود والے سر پر پڑی لیکن کمینے نے بیٹی کہہ کر اس رشتے کو مکمل ہونے نہیں دیا اور میرے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔تبھی گھنٹہ بجانے والے سر کی طرف میں متوجہ ہوئی اظہار بھی میں نے کیا لیکن سب بے سودوہاں سے کوئی جواب نہیں آیا بعد میں پتہ چلا کہ وہ کانوں سے بحرے تھے جسکی بناء پر اُن کونوکری ملی تھی۔دل نے چاہا اُس کا بھی گلہ گھونٹ لوں۔یہ دوسال کیسے گذرے ہیں میں بیان نہیں کرسکتی لیکن میری دعا اُس وقت قبول ہوئی جب میں نے ہائر سیکنڈری میں لڑکوں کے اسکول میں گیارہویں جماعت میں داخلہ لیا۔پھر کیا تھا ۔۔مزے ہی مزے۔اتنے پرپوز آئیں کہ کوئی شمار نہیں ۔میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرکے ہسٹری سر کے بیٹے ’’ندیم ‘‘ کو سب میں سے چُن لیا ایک تو میراسبجیکٹ بھی ہسٹری تھا اور ندیم کے والد ہی پڑھاتے تھے اور دوسری ندیم کے پاس اسکورٹی بھی تھی جو مجھے سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اُس کے ساتھ میرا رشتہ زیادہ دیر تک نہیں رہا ایک تو وہ کنجوس تھا اور دوسرا پڑھنے کا شیدائی تھا اور I.A.S کرنا چاہتا تھا۔میں نے بھی تب تک نہیں چھوڑا جب تک اسکورٹی نہیں سیکھی۔اس کے بعد ’’رئیس‘‘ جو کہ سائنس کا اسٹوڈنٹ تھا سے میری ملاقات ایک رشتہ دار کے شادی کے موقع پر ہوئی ،بندہ صیحح تھا ۔اور اُس کی باتوں میں بھی کشش تھی کہ میں خود پر کنٹرول نہیں کر پارہی تھی جتنی قریب اس کے ساتھ میں ہوئی کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔اگر اس کے والد کا تبادلہ یہاں سے دوسرے شہر میںنہ ہوجاتا ممکن ہے میں جنسی تعلقات بھی قائم کیا ہوتے ۔وہ تو یہاں سے چلاگیا لیکن مجھے بھی اپنی لت لگا گیا اس کے اور بہت سارے لڑکے میری زندگی میں آئیں لیکن میں ان کا استعمال موقع اور مناسب کے وقت ہی کرتی تھی۔جس سے ٹائم پاس بھی کہتے ہیں۔پر ہاں کالج میں گریجویشن کے دوران میں میرا افئیر انگریزی پڑھانے والے سر سے دو سال رہا، وفا اُس سے بھی نہیں ہوئی لیکن زندگی میں بہترین تجربہ حاصل ہوا۔۔۔۔سن رہی ہو نہ آکانشا‘‘
ہاں !ہاں!
تم نے بھی تو کسی سے پیار کیا ہوگا۔۔۔۔رضیہ نے کہا
نہیں !نہیں! میں نے نہیں کیا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی ہیں۔۔۔آکانشا بولی
ارے! جھوٹی ! ڈرتی کیوں ہو؟۔۔
نہیں ! میں کیوں ڈروں۔
وہ جو ضمیر تمہارے ساتھ ہوتا ہے ۔تمہارے آگے پیچھے ہمیشہ گھومتا رہتا ہے ۔تمیں لگ رہا ہے کہ کسی کو پتہ نہیں۔۔۔رضیہ نے کہا
ارے! ہم تو سمپل simpleدوست ہے اور کچھ نہیں ۔۔آکانشا بولی۔
ہاں ! ہاں! مجھے بھی پتہ ہے اُس کے ساتھ کیا کیا گلُ کھلاتے ہوں۔اتنا ہینڈ سم لڑکا جو ہے ۔کیا تمہیں وہ پسند نہیں؟
پسند کی بات نہیں۔۔پسند تو ہے لیکن ابھی کوئی decisionنہیں لے پاتے ہیں۔۔
کیوں ؟
کیونکہ وہ مسلم ہے اور میں ہندو ۔ہمارے بیج زمین آسمان کا فرق ہے۔
ارے یار! پیار اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔۔رضیہ بولی
لیکن کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔۔۔آکانشا نے دیمی آوازجواب دیا۔
اللہ سب کا بھلا کرے میں تو اب بس شادی کرنے والی ہوں۔مجھے جس کی تلاش تھی آخرکار وہ مجھے مل ہی گیا؟ ۔۔رضیہ نے کہا
کون ہے وہ؟ ۔۔۔
ہے کوئی ۔۔
پھر بھی ۔۔نام تو بتاؤ؟نظر نہیں لگے گی ۔۔
لگ گئی تو۔۔۔۔ظفر؟۔۔
ہو۔۔پروفیسر کا لڑکا۔۔
ہاں۔۔رضیہ نے خوشی سے کہا۔۔
لیکن۔۔آکانشا نے دیمی آواز میں کہا اور چپُ ہوگئی۔
کیا۔۔
کچھ نہیں۔۔۔
کچھ تو ہے ؟ ۔۔پلیز بولو ۔۔
نہیں !نہیں کچھ نہیں ہے۔۔۔
پلیز ۔یہ عمر بھر کی زندگی کا سوال ہوتا ۔۔اگر کوئی بات ہے تو بتاؤ ۔۔رضیہ بولی
پتہ نہیں کچھ ۔۔لیکن میں نے سُنا ہے کہ وہ یونیورسٹی کی ہر لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بناتا ہے اور اپنے باپ جو کہ پیشہ سے پروفیسر ہے کے پوزشن کا غلطہ استعمال کرتا ہے۔وہ لڑکیوں کو پہلے خواب دیکھاتا ہے اور پھر اس کے بعد خواب کیا دل بھی توڑ دیتا ہیں۔وہ ہر لڑکی کو الگ الگ سمجھاتا ہے کہ تم فلاں فلاں لڑکی کے ساتھ بات نہیں کرؤں گی کیونکہ اگر یہ ہمارے پیار کے بارے میں سنے گے تو جل جائیں گے۔لہذا تم ہمیشہ چپُ رہوں گی میں تمہارا ماسٹرس ختم ہونے کے بعد پاپا کے انڈر تمہارا پی ۔ایچ۔ڈی کراوں گا ۔پھر شادی کرلیں گے ۔یہ خواب دکھا کر وہ کب باہوں میں بھرتا ہے کچھ پتہ نہیں چلتا ۔اور اپنی ہوس مٹاتا رہتا ہے۔۔آکانشا نے رونے والی آواز میں کہا۔۔
تمہیں یہ سب کیسے پتہ ہے ۔یہ تو میرے اور ظفر کا پرسنل ہے ۔یہ باتیں تو میں ظفر کے ساتھ سیکریٹ میں کرتی ہوں۔۔۔رضیہ نے غصہ میں بولا۔
پرسنل ۔۔۔!
ہاں!
نہیں ! می ٹوبھی تو اس کا شکار ہوئی ہوں۔۔۔
آکانشا نے سرجھکا کر کہا۔۔اور زور زور سے رونے لگی ۔
ریسرچ اسکالرشعبہ اردو وفارسی
ڈاکٹر ہری سنگھ گورسینٹرل یونیورسٹی ساگر ایم پی
7006148112

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular