Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمہندی تیرے نام کی

مہندی تیرے نام کی

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

نگینہ ناز منصور ساکھرکر

نوری سر جھکائے بیٹھی تھی۔ پاس ہی پھوپھو اور امّی بیٹھی اسے پیار سے شادی کے لیے رضامند کر رہی تھیں۔ وہ شرمائی ہوئی گھٹنوں میں منہ چھپائے خود کو کسی طرح نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ’’دیکھو نوری، تم عاصم اور قاسم دونوں کو اچھی طرح جانتی ہو دونوں میرے جڑواں بیٹے ہیں۔ دیکھنے میں ہم شکل ہیں پر عادتوں سے ایک دم مختلف۔ ایک ہنس مکھ اور چنچل تو دوسرا بھولا بھالا۔ میں چاہتی ہوں تم جسے بھی پسند کرو تمہیں اپنی بہو بناکر گھر لے جاؤں۔ وہ دونوں تو میری کوئی بات رد نہیں کریں گے۔ بس جس کھونٹی کو چن لو بندھ جائیںگے۔ تم میرے بھائی کی لاڈلی ہو۔ میرے کسی بیٹے سے بیاہ ہوجائے تو میں بھی خوش ہو جاؤں۔ ہم دو بھائی بہنوں کا رشتہ اور بھی مضبوط ہو جائے گا۔‘‘ پھوپھو نے اپنی بات پوری کی امّی بولیں ’’نوری تم اچھی طرح سوچ لو اور کل اپنا فیصلہ سُنا دینا ۔کوئی جلدی نہیں۔‘‘
دونوں اٹھ کر چلی گئیں عاصم اور قاسم پھوپھو کے جڑواں بیٹے ہیں ۔شوخ، چنچل عاصم بچپن سے ہی شرارتی آمنے سامنے گھر ہونے کے باعث ہمیشہ ہی کھیلنا پڑھنا لکھنا ساتھ ہوتا ۔قاسم بہت سمجھدار مگر کم گو ہیں۔ عاصم کی شرارتیں اسے بڑی پیاری لگتی اس کا ساتھ اچھا لگتا۔ عاصم کے بہ نسبت وہ قاسم سے ہلکی پھلکی گپ شپ یا کبھی صرف مطلب کی بات کرتی۔ قاسم بہت ہی ذمہ دار انسان ہیں عاصم کوکسی سے کچھ پڑی نہیں تھی۔ نوری سوچتے سوچتے نیند کی آغوش میں چلی گئی بنا کسی نتیجے پر پہنچے ۔صبح کی کرنوں نے سنہری دھوپ سارے آنگن میں پھیلا دی تب کہیں جاکر نوری کی نیند کھلی۔ اتنی دیر تک سوتی رہی تھی۔ وہ اٹھ کر کچن میں پہنچ گئی امّی ناشتے کی تیاری کر رہی تھیں جاگ گئی’’ تم! میں نے جان بوجھ کر تمہیں نہیں اٹھایا ۔جانتی تھی تم رات بڑی کشمکش میں سوئی ہوگی۔‘‘ امّی نے مسکرا کر لاڈ سے کہا۔ وہ بنا کچھ بولے فریش ہونے چل دی۔ ناشتے کی ٹیبل پر سب ساتھ بیٹھے تھے ۔تب ابّو نے پوچھ ہی لیا ’’ہاں تو بیٹا نوری، تم نے کیا فیصلہ کیا ہے؟‘‘نوری کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دے۔ ’’ابّو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔‘‘
’’بیٹا ساتھی وہ چُنو جوتمہیں سمجھے اور تم اسے۔ جس کے ساتھ تم زیادہ کمفرٹیبل محسوس کر سکتی ہو، خوش رہ سکتی ہو۔میرے خیال میں تم عاصم سے بہت زیادہ قریب ہو ، بہ نسبت قاسم کے۔‘‘
’’جی ابّو۔‘‘ نوری نے جواب دیا’’مگر قاسم بہت ہی نیک اور ذمہ دار بچہ ہیں زیادہ خوش رکھے گا‘‘نوری کی کشمکش کم نہیں ہو پا رہی تھی۔ ۔نہ جانے کیا خیال آیا اور نوری نے عاصم کے لیے حامی بھر لی۔ وہ زیادہ خوش اسکے ساتھ رہ سکتی ہے۔ اس کی خوشی میں سب خوش تھے۔ پھوپھو بھی واری واری جا رہی تھیں۔ شادی کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔ شاپنگ کا پلان بنا تو سبھی نے ممبئی جانے کا پلان بنایا۔ دونوں فیملی ایک ساتھ شاپنگ کے لئے نکلیں۔ قاسم کے لیے جو لڑکی دیکھی گئی تھی وہ ممبئی سے تعلق رکھتی تھی۔ زویا سے مل کر نوری کو بڑی خوشی ہوئی شاپنگ کے دوران نوری نے کئی بار نوٹس کیا کے عاصم بڑے ہی غیر ذمہ دار ہیں۔ انہیں تو نوری کا خیال رکھنا شاپنگ بیگ ہاتھ سے لینا بھی یاد نہیں رہتا ۔۔ ۔ قاسم بڑے ہی پیار سے اس کا خیال رکھتے ساتھ ساتھ زویا سے خلوص اور محبت کا اظہار کرتے۔ آرزو پر کچھ اکھڑی اکھڑی رہتی ہیں جس کا احساس سبھی کو ہونے لگا تھا۔ شاپنگ ختم ہوئی اور سبھی اپنے اپنے گھر لوٹے۔ شادی کے دن نزدیک آ رہے تھے ،گھر میں رنگ و روغن ہو رہا تھا۔ دونوں گھروں کو ملا کر منڈپ ڈالنے کی تیاری ہو رہی تھیں۔ عاصم بہانے بہانے اسے تاک جاتے۔ کبھی چپکے سے کوئی چاکلیٹ بھجوا دیتے ، تو کبھی پھول ،نوری خوش تھی کہ عاصم کو بھی وہ پسند تھی۔ دوستانہ شادی کے رشتے میں بدلنے والاتھا۔ شام ہونے کو تھی کہ قاسم پھوپھو کو لے کر ابّو سے ملنے چلے آئے ’’کیا بات ہے بیٹا ماموں سے ملنے کے لیے آج اپائنمنٹ لے کر آئے ہو ‘‘ابّو نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’ میں نے سوچا آپ مصروف ہیں اور بات کچھ ایسی تھی کہ وقت سازگار ہو تو کہوں‘‘ قاسم نے دھیرے سے جواب دیا۔پھوپھو آج خلاف توقع خاموش تھیں۔ ’’تم کچھ کہو گے مجھے توہول آ نے لگا ہے، بڑی دیر سے برداشت کیے بیٹھی ہوں‘‘ پھوپھو ناراضگی سے بولی ۔’’جی وہ زویا سے میں شادی نہیں کرسکتا‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں اپنی بات کہہ دی ۔۔ ۔ ۔ ۔ ’’کیا! کیا!‘‘ ابو اور پھوپھو دونوں ایک ساتھ مانو چیخ پڑے’’تمہارا دماغ خراب ہے؟ شادی میں صرف ایک ہفتہ بچا ہے اور تم یہ اب کہہ رہے ہو‘‘ پھوپھو غصّہ سے اٹھ کھڑی ہوئیں مگر ابّو نے دھیرے سے قاسم کے پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور بولے ’’کیا بات ہے بیٹا ؟اچانک تمہارا فیصلہ بدلنے کی کیا وجہ ہے؟ جب کہ تم اس رشتے سے بڑے خوش تھے۔‘‘
’’ماموں زویا کسی اور سے محبّت کرتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ میں خود انکار کردوں۔‘‘ وقت کی کمی اور شادی کی تیاریاں دیکھ اس کے ابّو اسکی شادی اسکے پسندکے لڑکےسے کر دیںگے۔‘‘ تھوڑا رک کر قاسم نے دونوں کی جانب دیکھا ۔وہ دونوں خاموشی سے اسے ہی دیکھ رہے تھے، جیسے سوچ رہے ہو اب کیا کیا جائے! ‏’’امّی جو لڑکی مجھے پیار نا کرے میں اسکے ساتھ زندگی کیسے گزار سکتا ہوں؟ ۔ ۔ ۔ آپ عاصم کی شادی کر دیں میں اب شادی نہیں کرنا چاہتا۔ جب صحیح وقت آ ئے گا میں بتا دوں گا۔‘ خاموشی پھیل گئی تھی۔ قاسم کی بات سے سبھی متفق تھے۔ زویا کے گھر فون کر کے حالات کی آگاہی دے دی گئی تھی۔ وہ اپنی بیٹی کی حرکت سے بہت شرمندہ تھے معافی بھی مانگی ۔گھر کا ماحول بگڑ گیا تھا مگر قاسم خوش تھے اور سب سے یہی کہہ رہے تھے ،زندگی بھر رونے سے اچھا ہے کہ تھوڑا سا سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا جائے۔ سب نارمل ہونے لگے تھے۔ نوری بہت خوش تھی کہ امّی ابّو کو چھوڑ کر پرائے دیس نہیں جانا تھا اور سسرال بھی جانی پہچانی تھی اور خاوند بھی پیار کرنے والا۔کھڑکیوں اور دروازوں پر دبیز پردے ڈال دیے گئے کہ اب عاصم کے اور اس کے درمیان نکاح تک ایک پردہ رہے۔ دو دنوں سے ایک دوسرے کو دیکھا نہیں تھا۔ دونوں کےگھروں میں گہما گہمی تھی۔ لڑکیاں اسے گھیرے بیٹھی تھیں۔ ہلدی کے بعد مہندی سے ہاتھوں اور پیروں میں نقش و نگاری کی جا رہی تھی۔ سبھی چھیڑچھاڑ، ہنسی مذاق اور گپ شپ میں مصروف تھے۔ رہ رہ کر قاسم کا ذکر نکل آتا اس کی اچھائی کے گن گنوائے جاتے۔ اسکی شادی ٹوٹنے کی بات نکل آتی اور سبھی لڑکیوں کو لگتا کے اگر ایسے لڑکے سے انکی نسبت پکّی ہوتی تو وہ کبھی بھی ایسا قدم نا اٹھاتی۔ دولہے کا کیا نام ہے مہندی لگوانے والی نے پوچھا وہ دھیرے سے بولی عاصم ۔۔۔وہ پھر باتوں میں مگن ہو گی اتنے میں امّی کمرے میں داخل ہوئی بچیوں کھانا کھا لو تم ،تو سنگیت کی رسم چلے ورنہ دیر ہو جائے گی۔ چلو جلدی جلدی نپٹ لوں۔۔۔ اور وہ نوری کی طرف بڑھی ’’لاؤ دکھاؤ تو مہندی ‘‘۔۔۔کہہ کر انہوں نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اس کے دونوں ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے غصے سے بولی کمبخت یہ کیا کر دیا’’ دولہے کا نام عاصم ہے قاسم نہیں، تم نے مہندی میں قاسم لکھا ہے۔ سبھی لڑکیاں بھی چونک پڑھیں اور نوری حیران تھی اس نے تو نام بھی بتایا تھا ارے کیسے ہو گیا۔ سبھی قاسم کے بارے میں بات کر رہے تھے تو نام ذہن سے سلیپ ہو گیا شاید اور غلطی سے قاسم لکھ دیا۔ مہندی والی شرمندہ ہو گئی کوئی بات نہیں ابھی ٹھیک کر دیتی ہوں۔ کہہ کروہ قاسم کو مٹاکر عاصم لکھنے لگی لیکن قاسم میں رنگ نکھر آیا تھا اس نے جیسے تیسے عاصم لکھ دیا۔’’ بھاگو !بھاگو !کوئی ڈاکٹر کو بلاؤ! گاڑی نکالو‘‘۔۔سن کر سبھی کھڑکی کی طرف دوڑیں، تو کوئی دروازے کی طرف۔ نوری سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا ہوا؟ پھوپھو کی چیخنے کی آواز آنے لگی۔ امّی ابّو سب کےسب دوڑ کر منڈپ میں جمع ہوئے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ اچانک ایک سہیلی اندر آکر بولی ’’نوری عاصم زخمی ہوگئے ہیں‘‘
’’کیسے؟‘‘ اس نے تڑپ کر پوچھا کیا کروں باہر جاؤں کیا؟وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کرے تو کیا کرے۔ اس سے رہا نہیں گیا تو دوڑ کر باہر چلی آئی سبھی عاصم کو گھیرے کھڑے تھے ۔رمیز بھائ گاڑی نکالنے چلے گئے۔ وہ عاصم کے قریب جا پہنچی خدا یا!!! عاصم کی حالت بہت خراب تھی! سر سے خون بہہ رہا تھا سارا جسم مٹی سے اٹا پڑا تھا۔ وہ وہیں اس کے پاس بیٹھ گئی۔ عاصم کے سر کو اپنی گود میں رکھا ۔مہندی بھرے ہاتھ لہور رنگ رنگ گئے تھے ۔جسم میں جگہ جگہ زخم تھے۔ نماز کے بعد مسجد کے باہر کھڑے دوستوں سے باتیں کر رہے تھے کہ کچھ گائیں آپس میں لڑ پڑیں اور لڑتے لڑتے وہاں پہنچ گئیں۔ جو ملا اس کو روندھ ڈالا۔ان کی چپیٹ میں عاصم بھی آ گئے اور بری طرح زخمی ہو گئے۔ ان کے سر پر گہری چوٹ آئی تھی اور سینے کی پسلیاں بھی ٹوٹ گئی تھی قاسم انہیں اپنے بازوں میں اٹھا کر گھر تک لے آئے مگر حالت بہت نازک تھی عاصم نے اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور بہت تکلیف اور درد سے بولے ’’نوری ۔ ۔ ۔ ۔ نوری ۔ ۔ ۔ مجھے معاف ر دو نور!‘‘ انہوں نے قاسم کی طرف ہاتھ بڑھائے’’ قاسم ،قاسم میرے بھائی! میری نور کا خیال رکھنا۔ اسے کبھی محبت کی کمی محسوس نہ ہو، اس کی ہر بات کا خیال رکھنا ۔اس کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دینا۔‘‘ مہندی رچے خون سے لت پت ہاتوں کو قاسم کے ہاتھوں میں دے کر اس نے اپنی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیں۔ شادی کے گھر میں ماتم چھا گیا چیخ و پکار آہ و بکا۔ نوری کو کچھ یاد نہیں ۔ آنکھیں سوکھ گی دھڑکنوں پر ہزارہا کلو کا بوجھ آ پڑا۔ پتھرائی نظروں سے اس نے قاسم کی طرف دیکھا ۔وہ بت بنا بھائی کی لاش کو ہاتھوں میں لیے بیٹھا تھا۔ تدفین سے پہلے عاصم کے کہنے کے مطابق قاسم اورنوری کا نکاح خاموشی کے ساتھ پڑھا گیا۔ غلطی سے مہندی میں لکھا گیا نام اس کے مقدر میں لکھ دیا تھا۔ایک نیک صفت شوہر اس کا مقدر بن چکا تھا۔ مگر عاصم کے جانے سے جو زندگی میں خلاء پیدا ہو گیا تھا اس کا پورا کرنا ناممکن تھا۔ عاصم رخصت ہو کر دنیا سے چلے گئے اور وہ رخصت ہوکر پھوپھو کے گھر پر چلی آئی۔ زندگی کے سفر میں قاسم ایک اچھے شوہر ثابت ہوئے پر چپکےسے خیالوں میں عاصم چلے ہی آتے ہیں۔۔۔۔
واشی نوی ممبئی 9769600126

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular