Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمولانا آزاد کی 130ویں یوم ولادت اور ملک بھر میں چھائی بےحسی

مولانا آزاد کی 130ویں یوم ولادت اور ملک بھر میں چھائی بےحسی

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

شاہد حبیب

گزشتہ اتوار کو محسن قوم مولانا ابوالکلام آزاد (11 نومبر 1888 تا 22 فروری 1958) کی 130 ویں یوم ولادت آئی اور چلی گئی. اس طرح کے خاص موقعوں پر جس طرح سے کوئی زندہ قوم اس سطح کے اپنے محسنین کو یاد کرتی ہے، اس طرح کی گہماگہمی کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آیا. سؤال یہ ہے کہ آخر ہم نے ان کی وفات کے محض 60 سالوں کے اندر انہیں کس طرح بھلا دیا؟ ہندوستانی مسلمانوں کے اس طبقے نے اگر بھلایا تو بات سمجھ میں آتی ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا آزاد نے اپنی اس سوچ سے دستبرداری کی راہ اختیار کر لی تھی جس کے تحت وہ 1912 کے آس پاس امارت شرعیہ قائم کر کے مسلم نشاۃ ثانیہ کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے. لیکن روشن خیال اور قوم پرست مسلمان اور ملک کا سیکولر طبقہ بھی اتنی جلدی مولانا کو بھلا دے گا، اس کی توقع نہیں تھی. بہت کم جگہوں پر 11 نومبر کو پروگراموں کا انعقاد کر کے ان کی تعلیمات کا استحضار کیا گیا. باقی پورے ہندوستان بھر میں سناٹا پسرا تھا. سرکاری سطح پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے حیدرآباد، لکھنؤ اور سرینگر سمیت ان کے مختلف کیمپسز میں ان کو ضرور یاد کیا گیا. یہاں تو وہ اپنے فرض کی ادائیگی کر رہے تھے لیکن بقیہ سرکاری اداروں، دفاتر اور یونیورسٹیوں نے اس موقع کو درخور اعتناء نہ سمجھا. یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں منعقد اجلاس میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے کل 778 میں سے صرف تین ہی ممبران پارلیمنٹ نے حاضری کو ضروری سمجھا. غلام نبی آزاد، پارلیمانی امور کے وزیر وجے گوئل اور اجین سے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ستیہ نارائن جَتیا، بس. اپنے سرکردہ رہنما اور اولین وزیر تعلیم کے تئیں اس بےحسی کو دیکھنے کے بعد برے برے خیالات کا آنا تو لازمی ہے.
جب وطن عزیز کو آزادی کی دولت نصیب ہوئی، مولانا آزاد کانگریس کے صدر کے عہدے پر فائز تھے. کیا مولانا کے خیال میں بھی کبھی یہ بات آئی ہوگی کہ ان کی وفات کے محض 60 سالوں کے اندر خود ان کی پارٹی ان کو بھلا دے گی اور ان کی تعلیمات اور نظریات کو پس پشت ڈال دے گی. یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ مولانا نے لاکھ مخالفتوں کے باوجود نظریہ پاکستان پر شدید تنقید کرنا جاری رکھا تھا اور اپنی پارٹی کے سیکولر کردار کو ہمیشہ نمایاں رہنے دیا تھا. لیکن آج جب کانگریس سافٹ ہندتوا کی پالیسی پر چل پڑی ہے، ایسے میں ظاہر ہے مولانا آزاد جیسے سیکولر رہنما کو ان کی پارٹی یاد کر کے خود اپنی الیکشن اسٹریٹجی کو کیوں ناکام ہونے دے گی!! حالانکہ یہی مولانا آزاد ہیں جنہوں نے ہر طرح کی متشددانہ پالیسیوں پر سخت تنقید کی تھی اور اپنی اسی سوچ کے تحت انہوں نے پاکستان بننے کے بعد بھی نظریہ پاکستان کی نکتہ چینی کی تھی. انہوں نے “چٹان”کے ایڈیٹر شورش کاشمیری کو دیے اپنے انٹرویو میں دس وجوہات بتائی تھیں کہ کیوں پاکستان 25 سال بھی اپنی اصل حالت میں قائم نہیں رہے گا. بلآخر 1971 میں پاکستان کے دو لخت ہونے پر ان کی باتیں سچ ہوتی نظر آئیں. اس طرح کی سیکولر سوچ کے حامل قائد کو آج کی سافٹ ہندتوا کی پالیسی پر چل پڑی کانگریس اگر بھول رہی ہے تو مجھے اس پر کوئی تعجب قطعی نہیں ہے. لیکن ملک کی کروڑوں عوام جو ملک کے سیکولر کردار کو باقی دیکھنے کے متمنی ہیں، ان کے لئے کانگریس کی موجودہ الیکشن اسٹریٹجی کو لے کر سوچنے کا مقام ضرور ہے.
میں بات ان سیکولر عوام کی کر رہا ہوں جو خود اپنی نئی نسل میں مولانا آزاد کی قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کی پالیسی اور فکر کو منتقل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے اور اپنے بچوں کو فرقہ پرستوں کا آلہ کار بنتے دیکھ کر ذرا بھی بے چین نہیں ہوتی. کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ مولانا آزاد کی مذہبی رواداری کی پالیسی کو بھول کر وہ ماب لنچنگ جیسے گھناؤنے فعل میں اپنے بچوں کو ملوث دیکھنے کے باوجود حرکت میں نظر نہیں آتی!
میڈیا گھرانوں نے بھی اس موقع سے ایک بار پھر مایوس کیا. چند اردو اخبارات نے تو ضمیمے نکال کر اپنے فرض کو نبھایا. لیکن پرنٹ کی ہندی و انگریزی میڈیا میں خبریں شاذ و نادر ہی دکھیں. ٹی وی میڈیا نے تو رپورٹ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا. اے بی پی نیوز نے اپنے ماسٹر اسٹروک اور این ڈی ٹی وی نے اپنے پروگرام میں اس کا ذکر کر کے گھاؤ پر مرہم رکھنے کا کام ضرور کیا ہے، اس کے لیے ان کی تعریف ضرور کی جانی چاہیے. اس کے علاوہ ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا. مولانا آزاد ایک بےباک صحافی بھی تھے. الہلال اور البلاغ جیسے اخبارات نکال کر جس طرح سے انہوں نے اپنے وقت کی حکومتوں سے سوالات پوچھے، ظاہر ہے اس طرح کے سوالات آج کی میڈیا اپنی حکومتوں سے پوچھنے کی جرأت جب اپنے اندر نہیں پاتی تو وہ کس منہ سے اپنے ایک پیشرو انقلابی صحافی کو یاد کرے گی!!
مجھے شکایت ہے ایچ آر ڈی منسٹری اور یو جی سی سمیت ان یونیورسٹیوں اور کالجوں سے بھی، جو مولانا آزاد کی مرہون منت ہونے کے باوجود وہ مولانا آزاد کو ایک مسلم رہنما مان بیٹھی ہیں اور اپنے یہاں پڑھ رہی ملک کی نئی قیادت کو ان کی زندگی کے فلسفے اور روشن خیالی سے واقف کرانے کو رجعت پسندی خیال کرنے لگی ہیں. ہمارے انٹلیکچولس بھی نہ جانے کس عالم میں جیتے ہیں کہ انہوں نے مولانا آزاد کی حیات و خدمات پر چھوٹی کتابوں کی تیاری کو بالکل غیر ضروری سمجھ رکھا ہے. حالانکہ معروف ماہر قانون ظفر یاب جیلانی نے یوم آزاد کے موقع سے منعقد ایک پروگرام میں کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مولانا آزاد کی وراثت کے موضوع پر آٹھ دس صفحات پر مشتمل کتابچے ہر زبان میں تیار کیے جائیں تاکہ نہ صرف اقلیتی اداروں میں بلکہ ملک کے تمام اداروں میں مولانا آزاد کی وراثتوں پر بات ہو سکے. پھر اس کے بعد مولانا کے دیگر رفقاء جیسے حسرت، جوہر اور شیخ الہند وغیرہ سے نئی نسل کو متعارف کرایا جائے. تاکہ مولانا کے خوابوں کے ہندوستان کی تعمیر کی راہ کو آسان بنایا جا سکے.
آج حالات اتنے دگرگوں ہیں اور ناموں کی تبدیلی کی مہم اتنی تیزی سے چل پڑی ہے کہ کئی لوگ اندیشہ ظاہر کرنے لگے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مولانا آزاد کی وراثت کو بھولنے کی تحریک چلانے والے مولانا آزاد سے منسوب اداروں کا نام بھی تبدیل کر دیں. اگر اگلے چند سالوں میں یوم آزاد کے موقع سے ملک کے سیکولر عوام اور خود مسلمانوں کے بیچ مولانا آزاد کو لے کر اسی طرح کی بےحسی دیکھی گئی تو اس قیاس کو دور کی کوڑی بھی نہیں کہا جا سکتا.
ریسرچ اسکالر(شعبہ اردو) مانو لکھنو کیمپس
[email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular