Friday, May 3, 2024
spot_img

معافی

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں

 

 

فیاض حمیدؔ

میٹرک کے نتائج کا اعلان ہونا بھی ایک بڑی مصیبت ہے ۔کیا آج ہی کا دن ملا تھا اس کے اعلان کو؟صبح صبح نیند کے ساتھ ساتھ گھر کا ماحول بھی تباہ ہوجاتا ہے ۔کچھ لڑکے لڑکیاں تو اتنے نمبر لاتے ہیں کہ پڑوسی بچوں کا جینا حرام کردیتے ہیں ۔سال سال بھراِن کے مثالیں دے کر پھرٹونکا جاتا ہے۔عمر کی بہن ’’انم ‘‘نے تو اس بار ۴۹۰ لیکر پوری ریاست میں دوسری پوزشن حاصل کی ہے اور اس پر بھی خوشی کے بدلے آنسوں بہارہی تھی کہ پورے کے پورے نمبر کیوں نہیں آئیں؟۔ اگر ’’انم ‘‘ کے نمبروں کا تیسرا حصہ بھی مجھے مل جاتا تو بھی اچھا تھا اتنے نمبروں میں تو ہم تین لڑکے پاس ہوجاتے اور خوشی سے پھولے بھی نہیں سما پاتے۔لیکن اب تو سب کچھ اُلٹا ہو گا ہے اب گھر والوں کو کیا جواب دینگے۔۔عالم نے گوہر کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
ارے! میں نے کون سے گھوڑے دوڑایا ہے۔میری بھی تو پانچ میں تین کتابیں فیل ہے۔۔گوہر بولا
پھر بھی تو اچھا ہے میری تو ساری کتابیں واپس آئیں ہے جیسے میں فیل نہیں بلکہ میرے منہ پر طماچہ مارے ہے ۔پانچوں کے پانچ ؟
کوئی نہیں ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوگا۔۔۔گوہر بولا
خاک ٹھیک ہوگا ؟ اب تو گھر والے چھوڑے گے نہیں اس بار پکا مار ڈالیں گے۔۔عالم بولا
ہم گھر والوں کو یہ کہہ دینگے کہ پرچہ بہت مشکل تھا اور سیلبس سے باہر کا آیا تھا ان کو تھوڑی پتہ ہیں؟۔۔گوہر بولا
ارے واہ! اور’’ انم‘‘ جس نے اتنے نمبرلائیں ہے اس کا نہیں پوچھے گے ۔کہ اُس نے لڑکی ہوکر اتنے نمبرات کہاں سے لائیں ہے۔؟عالم بولایہی کہ اس کے باپ جو کہ ایک امیر آدمی ہے نے پرائیوٹ ٹیوشن کا انتظام کرکے اور آخر کار سفارش کرکے پہلے ہی پیپر کا پتہ لگا کر اُس کو بتایا تھا۔۔
نہیں مجھے سے تو نہیں ہوسکتا ہے میں اب اور جھوٹ نہیں بولوں گا ۔ڈر بھی بہت ہے کاش ہم نے پڑھائی کی ہوتی آج ہمارا یہ حال نہیںہوتا۔۔ْہاں گوہر بولا۔۔
اس اثنا میں عالم کا بھائی وہاں سے گذرا اور عالم کو گھر آنے کے لئے کہا۔۔عالم گھر والوں کا آخری امید تھا اس کے کسی بھائی بہن نے مڈل سے آگے تعلیم حاصل نہیں کی تھی ۔یہ خاندان کا واحد بندہ تھا جو پہلے بار میٹرک کے امتحان میں بیٹھا تھا۔لیکن ناکامی کے ساتھ گھر واپس آناپورے خاندان کی شرمندگی کا باعث تھا۔گھر میں پہنچ کر عالم کی تفتیش اس قدر ہوئے کہ پانی پینے میں بھی اس کو دشواری ہونے لگی۔ماں نے تو یہ کہہ کر اُس سے اور شرمندہ کردیا کہ اب لڑکوں کو گھر کے کام کرنے چاہیے اور لڑکیوں کو اسکول جانا چاہے اس کا اشارہ ’’انم ‘‘ کی طرف تھا۔ تم ہمارا نام روشن کرنے کے بجائے اور ڈوباؤں گے۔ابھی پاپا کو آنے دو تمہاری اچھے سے خبر لینگے ۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے کسی رشتہ دار کے یہاں تعزیت میں چلی گئی۔
اتنی تفتیش کیا کم تھیں ؟ گھر میں کسی نے تو چھوڑا نہیں ؟ ماں کے آخری الفاظ کہ پاپا اب تمہاری خبر لینگے کی وجہ سے عالم اس قدر ڈر گیا کہ مرنے سے نہیں بلکہ اب اس کو زندہ رہنے سے ڈر لگنے لگا۔اُس نے ڈر کی وجہ سے گھر میں رکھی ہوئی کوئی زہریلی شے کھالی جو عام طور پر یہ باغوں میں دوائی کے لئے استعمال کرتے تھیں۔ابھی یہ زہر حلق تک ہی پہنچ گیا تھا کہ اس کو قے آنے لگی اس کے انکھیں باہر کی طرف نکلنے لگی ۔گھر میں موجودہ افراد نے اس کی یہ حالت دیکھ کر رونے لگے چیلانے لگے۔پڑوسیوں نے گاڑی کا انتظام کرکے اُس کو ہسپتال میں بھرتی کردیا۔ہسپتال میں اُس کو لائف سیونگ انجکشن دیتے رہے اور اس کے حلق سے زہر نکالنے لگے۔دو گھنٹوں کی کوشش کے بعدہوش آیا۔ہوش آنے کے بعد ساتھ والے افراد اس کے آس پاس کھڑے ہوئے اور اس کو ہمت اور حوصلہ دیتے رہے کہ فیل ہونا کوئی بات نہیںان شاء اللہ اگلے بار پاس ہو جاؤں گے۔عالم نے سر جھکا کے سب سے معافی مانگتا گیا اب کبھی ایسا نہیں ہوگا۔وہ ہر کسی سے کہتا رہا ۔اور ضد کرتا رہا کہ اس کوماںکے پاس جانا ہے ۔چونکہ ہسپتال کا یہ رول رہا ہے کہ کسی بھی خودکشی کے لئے ایف آے آار درج کیا جاتا تھا۔لیکن عالم اپنے ماں باپ کا نام اور بدنام نہیں کرناچاہتا تھا۔لہذا ڈرپ خود نکال کر ہسپتال سے بھاگ نکلا ۔اس کے ساتھ والے بھی ایک ایک کر کے ہسپتال سے گھر کی طرف نکل گئیں۔گھر پہنچا تو دیکھا سارے رشتہ دار جمع ہوگئے تھے۔ماں کے پاس دوڑتے گیا اور گلے لگ کر اس کے سامنے رونے لگا ۔مجھے معاف کرو ؟ اب کبھی آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ پلیز مجھے معاف کروں ؟! اب پوری محنت کروں گا ۔روتے روتے عالم کہتا رہا۔
ماں اور باپ دونوں نے اسکے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا ۔اور ماں نے یہ کہہ کر ہمت دیتی رہی کہ ہمارا کیا ہوتا اگر تمہیں کچھ ہوتا۔
ان شاء اللہ سب کچھ ٹھیک کرے گا اور وہی سب کا خیال بھی رکھتا ہے۔۔عالم بولا گھر میں چونکہ رشتہ دار آئیں ہوئے تھے سب عالم کے اردگرد گھوم رہے تھے اور ہر کوئی حوصلہ دیتا ہوا جارہا تھا۔لیکن عالم کے ہونٹوں میں شرمندگی سے معافی کے الفاط ہر کسی کے لئے موجود تھیں ۔جو وہ ہر کسی سے کہتا رہا۔پلیز معاف کرنا۔۔۔۔
وہ کھڑا ہوا اور بات روم کی طرف چلا گیا سب اس کا انتظار کرنے لگے ۔کچھ ٹائم کے بعد باہر نکلا توسب حیران رہ گئے وہ نماز کے لئے وضو بنایا تھا ۔اُس نے نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ قران کی بھی تلاوت کی۔تلاوت کے دوران رونے کی بھی آوازیں آتی رہی۔واپس آیا تو سب مہمان اور گھر والے اُس پر ہنسنے لگے کیونکہ وہ کبھی نماز نہیں پڑتا ۔جمعہ کے دن بھی اُس کو زبردستی نماز کے لئے بیجھنا پڑتا تھا۔لیکن اج اُس نے نماز کے ساتھ قران کی تلاوت بھی کی۔اس کے جواب سن کر سب حیران ہوگئے۔کاش میں نے پہلے سے ہی یہ کام کیاہوتا آج خودکشی نہیں کرتا میں نے بس اللہ کا شکریہ ادا کیا اور توبہ کرکے یہ دعا کی کہ آج کے بعد کبھی غلط قدم نہیں اُٹھاوں گا۔
وقت بھی کافی ہوگیا تھا مہمانوںکو مختلف کمروں میں ُسلایا گیا لیکن عالم اج ماں باپ کے ساتھ کمرے میں سونے لگا۔پھر معافی مانگ کر ماں باپ سے وہ دل میں خوش ہونے لگا کہ شکر اللہ کا کہ اب میں بچ گیا آج کے بعد ہمیشہ اچھے کام کروں گا اور ماں باپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کروں گا ۔یہ سوچتے سوچتے اُس کو کب نیند لگی کچھ پتا نہ چلا۔
صبح سب جاگ چکے تھے ۔مہمان گھر کی طرف روانہ ہورہے تھے تبھی کسی نے یہ آواز دی کہ عالم بستر پر بے ہوش پڑا ہوا ہے ۔منہ پر پانی بھی مارا گیا لیکن کوشش ناکام ہوئے ۔جلدی جلدی ہسپتال پہنچایا گیا ۔۔۔۔تو ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر ان کو حیران کر دیا کہ۔۔
کہ ہم کل شام سے ہی اس انتظار میں ہے کہ یہ بندہ ابھی تک واپس کیوں نہیں آیا ؟ کیونکہ اس کے جسم سے پورا زہر نکلا نہیں تھا؟ اور اس کو خود بھی پتہ تھا۔اس کو تو ہم نے بولا بھی تھا کہ بارہ گھنٹے لگے گے اپ کے جسم سے پورا زہر نکالنے میں !یہ بچ سکتا تھا آخر یہ کیوں بھاگاتھا ۔۔۔کیا کرنے کے لئے بھاگا تھا۔۔
یہ سن کر اس کے ساتھ والے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور اُن کی آنکھوں کے سامنے عالم کا معصوم چہرہ معافی مانگتا ہوا نظر آتا گیا۔۔۔۔اور ان کی آنکھوں سے آنسوں ٹپکتی رہے۔۔۔۔
ریسرچ اسکالرشعبہ اردو وفارسی
ڈاکٹر ہری سنگھ گورسینٹرل یونیورسٹی ساگر ایم پی
7006148112

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular