Tuesday, May 7, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمسرور جہاں اور انکی افسانوی تخلیقات

مسرور جہاں اور انکی افسانوی تخلیقات

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

پرویز شکوہ

مسرور جہاں اُردو افسانہ میں ایک معتبر نام ہے۔ علم و ادب مسرور جہاں کو وراثت میں ملا ہے۔ انہوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک تعلیم یافتہ اور مہذب گھرانہ تھا۔ انکے دادا شیخ مہدی حسین ناصری لکھنوی کا شمار معروف شعراء و ادباء میں ہوتا تھا۔ انکے شاگردوں میں فراق ؔگورکھپوری اور ڈاکٹر پروفیسر اعجاز حسین مرحوم کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ شاعری کے ساتھ ہی ساتھ درس و تدریس ان کا معاش ہی نہیں بلکہ محبوب دائرہ عمل تھا۔
مسرور جہاں کے والد ماجد کا نام نصیر حسین تھا جو بلند پایہ شاعر تھے اور خیال ؔتخلص کرتے تھے وہ بھی تدریس کے پیشہ سے وابستہ تھے انھوں نے برسوں اسلامیہ کالج، لکھنؤ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دئے۔
انکے شوہر نواب سید محمد مرتضیٰ علی خاں کا تعلق آغامیرکے خاندان سے تھا لیکن انھوں نے تمام نوابین کے برخلاف اپنے قوت بازو پر بھروسہ کیا۔
ابتداء ہی سے مسرور جہاں حساس ذہن کی مالک تھیں اس لئے اپنے گرد و پیش رونما ہوئے حادثات اور سماجی کش مکش کو انہوں نے شدت سے محسوس کیا اور اپنے خیالات اور جزبات کو تحریری شکل دی اس طرح ان کے افسانوں کی ابتداء ہوئی۔
انکے افسانے شمع، بانو، بیسویں صدی اور بیرون ملک پاکستان، کنیڈا وغیرہ کے جرائد میں شائع ہوتے رہے۔
مسرور جہاں کی حساس طبیعت نے زندگی کے مختلف حادثات اور مشاہدات کو کاغذ پر منتقل کیا۔
’’اَنْ دیکھا ہاتھ‘‘ مسرورج جہاں کا ایک علامتی افسانہ ہے ۔ افسانہ کی کامیابی اسکے کہانی پن میں مضمر ہے جب کہ اکثر علامتی کہانیوں میں کہانی پن مفقود ہو جاتا ہے جسکی وجہ سے افسانہ گنجلک ہو جاتا ہے او رقاری کے ذہن تک اُسکی رسائی نہیں ہوتی۔
معاشرے میں ہونے والی تبدیلیاں انکے افسانوں کا عنوان بنی۔
اگر مسرور جہاں کی افسانوی تخلیقات کا جائزہ لیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ انکے افسانوں میں انکے تخلیق کردہ کردار مختلف کش مکش مین مبتلا تو ہیں لیکن نتیجتاً انسانی اور تہذیبی رشتوں کا عکس کسی نہ کسی رنگ میں اپنے بدلے ہوئے انداز میں نظر آ ہی جاتا ہے۔
عہد حاضر میں مادہ پرستی کا بول بالا ہے۔ زندگی میں ہر طرف ایک انتشار کی کیفیت نظر آتی ہے بہت سی ایسی قوتیں سراُٹھا رہیں ہیں جو برادرانہ میل میلاپ اور رواداری پر اعتقاد نہیںرکھتی ہیں وہاں آج ایسے تخلیقات کی ضرورت ہے جسکے اندر ایسے صحت مند تصورات ہوں جو انسانی قدروں کی بقاء کے ضامن ہوں۔
مسرور جہاں کا ایسا ہی ایک تخلیق کردہ افسانہ ’’امام ضامن‘‘ ہے جو قومی یکجہتی کی مثال ہے۔
افسانہ امام ضامن میں گوتم کا باپ سرحد پر جنگ میں اپنا ایک ہاتھ گنوا دیتا ہے۔
مسرور جہاں لکھتی ہیں:
’’میں تو ادھورا ہو کر بھی مکمل ہوں۔ کیونکہ میں نے ایک بڑے مقصد کے لئے جنگ کی تھی۔
اور اپنے ملک سے وفاداری اور محبت کے ثبوت میں ایک ہاتھ تو کیا اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے تو دُکھ نہ ہوتا— دُکھ تو ان کے لئے ہیں جو مکمل ہو کر بھی نا مکمل اور ادھورے ہیں—میں اس جنگ کے خلاف ہوں، جو بھائی بھائی سے کر رہا ہے—
میں اس لڑائی سے نفرت کرتاہوں —جو اپنے اپنوں سے کرتے ہیں۔ میں مذہب ، نسل،زبان اور فرقوں کے نام پر جنگ کرنے کو بزدلی سمجھتا ہوں……
لیکن یہ جنگ ہر جگہ ہو رہی ہے۔
اَن دیکھے ہاتھ اس جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ میراجی چاہتا ہے کہ میں ان ہاتھوں پر فاطمہ موسی کا دیا ہوا امام ضامن باندھ دوں اور تب ان سے پوچھوں کہ کیا اب بھی یہ ہاتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں؟
بھائی کا گلا کاٹنے کے لئے آمادہ ہیں؟ اور کیا یہ ہاتھ اب بھی اپنوں کے خلاف تلوار اُٹھانے کی جرأت کر سکتے ہیں–؟‘‘
فرقہ وارانہ فساد اور قومی یکجہتی پر مسرور جہاں کے کئی افسانے منظرِ عام پر آئے ہیں جن میں ’’بشارت‘‘ ، ’’خواب در خواب سفر‘‘، ’’گڑیا‘‘، ’’اندھیارے میں ایک کرن‘‘، ’’چراغوں کا سفر‘‘ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
لکھنؤ کی پرانی تہذیب کے پس منظر میں کچھ خواتین افسانہ نگاروں نے بہت بھونڈے طریقے سے معاشرے کی بدلتی اور مٹتی ہوئی قدروں کو افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کے رؤسا میں اخلاقی پستی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی جو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنی۔
یہ کہنا درست نہیں ہے چند انسانی کمزوریوں کے باوجود اس وقت کے رؤسا میں شرافت، سخاوت، رحم دلی اور رواداری کی کمی نہیں تھی۔ جس کا ثبوت مسرور جہاں کے افسانے ’’اللہ تیری قدرت‘‘ ، ’’نور بے نور‘‘، ’’ نامحرم‘‘، پیش بندی‘‘، ’’سُہاگن‘‘، اور ’’کُنجی‘‘ میں نظر آتا ہے۔
انکے افسانوں کا مختلف زبانوں تامل، تیلگو،کننڑ اور پنجابی وغیرہ میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
قزاخستان کے ایک اسکالر جاوید خولو نے مسرور جہاں کے افسانوں پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر ’پی ایچ ڈی‘ کی ڈگری حاصل کی انکی کہانیوں کا روسی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔
مسرور جہاں کا افسانہ ’’سلیب پر ٹنگی زندگی‘‘ بھی خاص طور سے قابل ذکر ہے جو اُردو دہلی دودرشن سے ڈرامے کی شکل میں دو قسطوں میں ٹیلیکاسٹ ہوا تھا اور مقبولِ عام ہوا ۔
مسرور جہاں کے افسانے نابینا لوگوں کے پڑھنے کی زبان بریل(Brail) میں بھی دہرا دون سے شائع ہونے والے نین رشمی نامی رسالے میں چھپ چکے ہیں۔
مسرور جہاں کے اِدھر چند برسوںمیں جو افسانے شائع ہوئے ہیں ان میں ’’تلاش‘‘ ، ’’پچھتّر برس کی ایک لڑکی‘‘، ’’ہمیں جینے دو‘‘، ’’انتظار کی صدی‘‘، خواب در خواب سفر‘‘، ’’جلاوطن‘‘، گڑیا‘‘ اور ’’کھوئے ہوئے لمحے‘‘ وغیرہ آج کے سماج کی بنتی بگڑتی صورتِ حال کی عکاسی کرتے ہیں۔
ابھی انکا افسانوی سفر جاری ہے اور ہمیں ان سے کافی توقعات ہیں۔
۴۴، مقبرہ گولہ گنج، لکھنؤ
موبائل:7505299219
ای میل: [email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular