Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمحمد نہال افروز کی کتاب’جدید ہندی کہانیاں‘‘ ایک جائزہ

محمد نہال افروز کی کتاب’جدید ہندی کہانیاں‘‘ ایک جائزہ

ایم۔ مبین 
محمدنہال ا فروز ایک نوجوان ریسرچ اسکالرہیں جن کو اردو اور ہندی دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہے نہ صرف عبور حاصل ہے بلکہ وہ دونوں زبانوں کی تہذیب کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور دونوں زبانوں کے ادب پر ان کی بہت اچھی نظر ہے۔
ٍ حال ہی میں ان کی کتاب ’’ــجدید ہندی کہانیاں ‘‘  منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے عصری ہندی کہانیوں کا ایک انتخاب پیش کیا ہے اور ان کہانیوں کا ہندی سے اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔
اس کتاب میں ہندی زبان کی کل بیس کہانیاں شامل ہیں۔ انہوں نے کتاب کی ابتدا میں ترجمہ کے تعلق سے اپنے خیالات پیش کیے ہیں اور ہندی اردو زبان میں ترجمے کی ضرورت اور مسائل پر اچھی روشنی ڈالی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ کتاب میں ڈاکٹر سید محمود کاظمی نے کتاب کا تعارف بھی پیش کیا  ہے، جو ایک مقدمے کی شکل میں ہے۔
کیونکہ محمد نہال افروز کی ریسرچ کا موضوع بھی اردو ہندی افسانہ ہے۔ اس لحاظ سے ان کا اس موضوع پر عمیق مطالعہ ہے اور اس کتاب میں انہوں نے اشاعت کے لیے جن کہانیوں کو منتخب کیا ہے وہ ہندی زبان کی اہم کہانیاں ہیں اورجن کہانی کاروں کا انتخاب انہوں نے کیا ہے آج وہ ہندی زبان میں ہندی کہانی کی آبرو کہے جا سکتے ہیں۔
اردو ہندی زبانوں کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے بلکہ آج کے دور میں یہ کہا جائے کہ دونوں زبانیں ایک دوسرے کے بنا ادھوری ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ ہ آج کے دور میں جو تبدیلی ان دونوں زبانوں میں آئی ہیں اس کی وجہ سے دونوں زبانیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئی ہیں۔ ماضی میں بھی یہ رشتے بہت گہرے تھے لیکن دونوں زبانیں تعصب اور سیاست کا شکار ہوگئیں اور اس سیاست کی وجہ سے دونوں زبانوں نے ایک دوسرے سے اپنے رشتے توڑنے کی کوشش کیے لیکن فطرت کے خلاف کوئی بھی کام کیا نہیں جا سکتا تھااس لیے  کوشش کرنے کے بعد باوجود رجعت  پسند طاقتوں کو شکست ہوئی اور آج پھر دونوں زبانیں ایک دوسرے سے قریب ہیں۔
بلکہ آج کل تو پوری شدت سے اردو زبان کی شاعری،تراکیب شیرنی اور اس کے الفاظ کو ہندی میں استعمال کرکے، ہندی کوبھی ایک شیریں زبان بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
 بالکل اسی طرح جس طرح اردونے ہندوستانی تہذیب سے وابستہ الفاظ کو مکمل طور پر اپنے اندر سمو لیا تھا سمو لیا گیا تھا کہ وہ الفاظ ہندوستانی تہذیب کے ساتھ ساتھ اردو زبان کا ایک حصہ بن گئے تھے۔
جہاں تک دونوں زبانوں کے ادب کا تعلق ہے اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اردو زبان کا ادب بہت ہی مالا مال ہے اور خصوصی طور پر شاعری میں تو ہندوستان کی کوئی بھی زبان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے اردو زبان کی شاعری خاص و عام کی زبان پر آج بھی ہے اسی طرح ترقی پسند تحریک کے دور میں اردو افسانے نے جو عروج حاصل کیا ہوا تھا اس وجہ سے آج دنیائے ادب میں اردو افسانے کا نام   عزت و وقار کے ساتھ لیا جاتا جاتا ہے۔
جہاں تک ہندی زبان و ادب کا تعلق ہے ہندی زبان و ادب بھی کسی سے کم نہیں ہے ہندی میں ادب کی روایت کافی قدیم ہے اور اس میں جہاں تک فکشن کا تعلق ہے فکشن کی عمر دونوں زبان کی ایک سی ہے وہ تمام دور جو فکشن کے دنیائے ادب میں فکشن میں گزرے ہیں دونوں زبان میں یکساں ملتے ہیں۔
 پریم چند کے زمانے میں بھی ہندی میں فکشن لکھا جا رہا تھا اور آج بھی فکشن لکھا جا رہا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ترقی پسندی کے زمانے میں ہندی میں بھی فکشن لکھا جا رہا تھا، کہانیاں لکھی جا رہی تھی،لیکن جو بلندی اردو کے افسانہ نگار پریم چند، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، راجندر سنگھ بیدی ،خواجہ احمد عباس، قرہ العین حیدر نے اردو کہانیوںکو جو بلندی عطا کی اس زمانے میں جو ہندی کہانی کار تھے باوجود لاکھ کوشش کے وہ بلندی ہندی کہانی کو عطا نہیں کر سکے۔
 لیکن آزادی کے بعد اچانک فضا بدل گئی،کیوں کہ ہندی ملک کی قومی زبان بنا دی گئی اس وجہ سے ہندی کے سامنے بے شمار مواقع پیدا ہوگئے اوروہ لوگ بھی جو ہندی زبان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے جن کا ہندی زبان سے معمولی سا رشتہ تھا کیوں کہ ہندی روزگار کی زبان بن گئی تھی۔اس وجہ سے ایک بہت بڑا طبقہ اب اس سے وابستہ ہوگیا تھا ان میں ہندی زبان کے لکھنے والے بھی تھے۔
 سرکاری مراعات کی وجہ سے  ہزاروں رسائل شائع ہونے لگے تھے ہزاروں کتابیں شائع ہو رہی تھیں اور رسائل کتابوں کی ترسیل کا ایک بہت بڑا مرکزسرکاری مراعات بن گئی تھیں۔ اس وجہ سے ہزاروں لوگ ہندی زبان سے جڑے اور انہوں نے اپنے تخلیقی ادب اس زبان میں پیش کیا۔ جس سے ہندی زبان کا دامن وسیع ہوتا گیا ترقی پسندی کے زمانے میں اردو افسانے نے جو عروج حاصل کیا تھا آزادی کے بعد ہندی کہانی کو وہی عروج حاصل ہوا اور ہندی کہانی کاروں کی ایک ایسی نسل پیدا ہوئی ،جس نے ہندی کہانی میں تجربات کیے اور ہندی کہانی کوبین الاقوامی معیار تک پہنچانے کی پوری کوشش کی۔
اس کتاب میں راجی سیٹھی، مردولا گرگ، رویندر کالیا، گنگا پرساد ومل، ممتا کالیا، سوریہ بالا، اصغر وجاہت،شمع خان، ناصرہ شرما، عبدل بسم اللہ، مدھو کنکریا، محمد عارف وغیرہ کہانی کاروں کی کہانیاں شامل ہیں۔
اس سے اندازہ سکتا ہے کہ یہ تمام ہندی کے جدید کہانی کار ہیں اور محمد نہال افروز نے اپنے انتخاب میں پرانی کہانی لکھنے والوں کی کوئی کہانی شامل نہیں کی ہے۔ اس لیے اس کتاب کے موضوع کے لحاظ سے انہوں نے موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے جو لوگ ہندی زبان سے شد بد بھی واقف ہیں اور جن کی ہندی افسانے پر ہلکی سی بھی نظر ہے وہ ان ناموں سے ہی اندازہ لگا لیں گے کہ یہ جدید ہندی کہانی کے کتنے اہم نام ہیں اس لیے اس انتخاب میں ان ناموں کو شامل کرنا تو بے حد ضروری تھا لیکن ان کی سیکڑوں کہانیوں میں سے کسی اہم کہانی کومنتخب کرنا بہت مشکل کام تھا لیکن اس کے باوجود محمد نہال افروز نے اس انتخاب میں ان کہانی کاروں کی جو کہانیاں منتخب کی ہیں وہ ان کی اور ہندی زبان کی نمائندہ کہانیاں ہیں یہ تمام کہانیاں زبان وبیان، اسلوب، پلاٹ ،زمان ومکان کے لحاظ سے واقعی لاجواب ہیں۔ ان کہانیوں کو پڑھ کر اردو کے قارئین ہندی کہانی کا ان میں ایک اچھا  تصور بنا سکتے ہیں اور افسانہ نگار کہانیوں کے مطالعے سے فن ،اسلوب تکنیک،کردار نگاری کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
303، کلاسک پلازہ، تین بتی
بھیونڈی 421302
ضلع تھانہ ،مہاراشٹر
موبائل 9322338918
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular