Thursday, May 9, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمحمدسراج الدین سیفؔ کی شاعری پر ایک نظر

محمدسراج الدین سیفؔ کی شاعری پر ایک نظر

ڈاکٹر ہارو ن رشید
محمد سراج الدین سیفؔسے ملاقات گولہ گنج(لکھنؤ) میں نسیم کے چائے خانے میں ہوئی جہاں خالی وقت میں کچھ مقامی شعرا ایک دوسرے سے ملاقات کی غرض سے آ جاتے ہیں ۔کچھ غیر شاعرانہ ذوق کے حضرات بھی یہاں پابندی سے تشریف رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کی غیر شاعرانہ گفتگو کا اندازاس چائے خانے کی چائے کی ہی طرح شعری ذوق پر گراں گذرتی ہے لیکن دوستوں سے ملاقات کی لالچ وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونے نہیں دیتی۔کبھی کبھی یہاں کی چائے پر کچھ لوگ یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ ہم چائے نہیں پیتے۔ ہم تو یہاں بیٹھنے کا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔سراج الدین سیف کے بارے میں معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش پانچ جون ۱۹۴۷ء کو لکھنؤ ہی میں ہوئی اور یہیں پرورش و پرداخت بھی۔تعلیمی مراحل سے گذر کر انکم ٹیکس محکمہ میں ملازم ہوئے اورانکم ٹٰکس افسر ہو کر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔شاعری کاشوق کیسے لگا یہ پردۂ راز میں ہے لیکن وہ بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ ادبیات کی شوقین تھیں۔جب ان کی طبیعت گراں ہوتی تو سراج کو پاس بلاکر ان سے اپنی پسندیدہ کتابیں سنتیں اور شاعری وہ سراج سے ترنم سے سنتی تھیں۔اسی طرح پڑھتے اور سناتے ان کے اندر کب شاعری کے جراثیم پیدا ہو ئے اور کب وہ خود مصرعوں سے کھیلنے لگے انھیں خود پتہ نہیں چلا۔ لیکن جب ملازمت کے دوران ان کا تبادلہ سیتا پور ہو ا ا تو ان کا شعری شوق بالغ ہو چکا تھا۔چنانچہ ذوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر انھوں نے اس وقت کے استاد شاعر جناب اللہ بخش مجاز حنفی (مرحوم)کا دامن تھام لیا اور باقاعدہ ان کے شاگرد ہو گئے ۔اور غزلوں نظموں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔گاہے گاہے مشاعرے بھی پڑھنا شروع کر دئے ۔ اس طر ح ان کا شعری ذوق جلا پانے لگا۔ دوران ملا زمت اردو سے ایم اے بھی کر لیا ۔
سراج الدین سیف سے ملاقاتی سلسلہ اس لئے نہیں بڑھا کہ وہ بہت اچھے شاعر ہیں ۔کیوں کہ انھیں اشعار سنانے کا ہیضہ نہیں ہے۔(جس کے لئے شعرا برادری بدنام ہے )اسی لئے ان کی شاعری سے ناواقفیت ،واقفیت میںبہت بعد میں بدلی۔لیکن وہ اخلاقی طور پر ایک عمدہ انسان ثابت ہوتے چلے گئے تو عمروں میں تفاوت کے باوصف تعلقات میں استحکام آتا چلا گیا۔سراج سیف یوں بھی لکھنؤ کی شعری نشستوں میں شرکت نہیں کرتے تھے اور نہ مشاعرے پڑھ رہے تھے۔یہ ان کی شخصیت کا سحر ہی تھا کہ نسیم کے چائے خانے میں ان سے ملاقات کا اشتیاق باقاعدگی سے اندرا نگر سے گولہ گنج تک کا سفر کرانے لگا۔اسی دوران ان کی شاعری سے روبرو ہونے کا موقع بھی ملتا رہا ۔پھر انھیں طرحی مصرعوں پر طبع ّآزمائی کے لئے احباب نے اکسایا تو وہ لکھنؤ کی قدیم ادبی تنظیم ’’بزم شمس ‘‘ کے طرحی مشاعرے میں شریک ہوئے جو ایک عرصہ سے مولانا محمد علی جوہر فاؤنڈیشن (امین الدولہ پارک کے سامنے )امین آباد میں منعقد ہوتے آ رہے ہیں۔یہ ادارہ محمد وصی صدیقی اپنی ذاتی عمارت میں چلاتے ہیں اور جگہ کشادہ ہونے کی وجہ سے یہاں دوسرے لوگ بھی اپنے پروگرامز کرتے رہتے ہیں۔جس کے لئے صرف وصی صدیقی کو فون کرنا ہی کافی ہوتا ہے ۔بعضے تو براہ راست پروگر ام کے وقت پہنچتے ہیں کہ وصی بھائی آج آپ کے یہاں ہم نے پروگرام رکھا ہے۔وہ ہر شخص کو یہی جواب دیتے ہیں کہ فاؤنڈیشن آپ کا ہے۔شوق سے کیجئے ۔اپنے پہلے ہی طرحی مشاعرے میں سراج الدین سیف کی شخصیت اورشاعری نے شعرا کواپنی جانب متوجہ کر لیا ۔ان کی طر حی شاعری میں بھی ان کی زندگی کے تجربات کا عکس صاف محسوس کیا گیا۔کچھ خاص کھوجی فطرت کے شعرا کو یہ کھجلی بھی ہوئی کہ سراج صاحب کس کے شاگرد ہیں۔کسی نے دبے لفظوں میں راقم السطور کا نام لیا(جب کہ میرا ان کا اس قسم کا رشتہ دور دور تک نہیں ہے) تو ایک صاحب نے ایک مشاعرے میں ڈاکٹر معراج ساحل کا شاگرد بتا دیا لیکن سیف صاحب نے فوری احتجاج درج کرایا کہ آپ اپنے الفاظ واپس لیں۔اگر خدا نخواستہ سیفؔ اس وقت ذرا بھی تامل کرجاتے تو زندگی کا طویل وقفہ اس داغ کو دھونے میں صرف کر نا پڑتا۔بہر حال بزم شمس کے اس مشاعرے کے بعدوہ شعرا کے رات کے ملاقاتی اڈے مولوی گنج والے عزیز ہوٹل پر بھی پابندی سے ّآنے لگے۔اب ان کی شاعری کا رنگ بھی نکھرنے لگا تھا اور اس میںایک قسم کی دھار اور چاشنی دونوں پیدا ہو رہی تھی ۔ آہستہ آہستہ سراج سیف صاحب شہر کی دوسری بزموں کے مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے نہ صرف شرکت کرنے لگے بلکہ بزم شمس کے علاوہ ،بزم احساس ادب،دبستان اہل قلم،اور کئی د و سری جگہ انھیں مسند صدارت پر جلوہ افروز ہوتے بھی دیکھا گیا۔مسند ِصدارت سونپے جانے کا مطلب لکھنؤ نے سراج لدین سیفؔ کی اہمیت کو تسلیم کر لیا۔
سراج الدین سیف کی شاعری میں عصری حسیت ،اور سماجی مسائل کی عکاسی اور ترجمانی بھرپور انداز میں ملتی ہے۔ ان کا طرز اظہار کہیں روایتی ہے اور کہیں ترقی پسندانہ اور کبھی کبھی وہ بالکل اس لہجہ میں شعر کہنے لگتے ہیں جسے لوگ طنزا جدید کہتے ہیں۔لیکن سچ یہ ہے کہ سیف کی شاعری میں لہجہ اصل نہیں ہے بلکہ خیال اور فکر اصل ہے۔ان کا لہجہ خیال کا پابند ہے۔نہ کہ خیال لہجہ کا پابند۔یہی وہ مقام اور منزل  ہے جسے تنقید کی زبان میں’’ موضوع اپنا اسلوب خود چن لیتا ہے‘‘سے تعبیر کیا جاتاہے۔
اور چالیں ابھی چلے گا وہ
کیسے کیسے ہمیں چھلے گا وہ
کوئی دشمن نہیں کہ دور بسے
آستینوںمیں ہی پلے گا وہ
اس میں ’’وہ‘‘کون ہے جو ابھی اور چالیں چلے گا اور اسی طرح چھلے گا۔دوسرے دو مصرعوں میں جواب موجود ہے کہ وہ کوئی دشمن نہیں ہے بلکہ ایسا دوست ہے جو ہمارے بالکل قریب رہتا ہے ۔یہاںلفظ ’’وہ‘‘ایک شعری استعارے کے روپ میں ابھرتا ہے جس کا مستعار الیہ قاری کے ذہن میں کسی خاص مشقت کے بغیر ابھر آتا ہے اور شعر کی ترسیل اپنی معنویت کے ساتھ ہو جاتی ہے۔
جانے کب وہ بھی سمندر سے ملائے ہاں میں ہاں
سوچ کر یہ بات اب ڈرنے لگے ساحل سے ہم
یہاں ’’ساحل‘‘ بھی ایک شعری استعارہ ہے جوشعر کے صوری حسن میں اضافے کا سبب ہونے کے ساتھ ساتھ معنی میں وسعت  پیدا کرنے میں بھی معاون ہے۔
 نا پختہ ان ذہنوں پر سیف نہ کیونکر حیرت ہو
معنی مطلب ڈھونڈھیں معمولی سی ان بن کے
اس شعر کا فاعل یا مرکزی کردار غیر واضح ہوتے ہوئے بھی واضح ہے۔تعلق میں ذرا نوک جھو نک یا کسی بات پر اختلاف عام سی بات ہے لیکن کچھ لوگ ذرا ذرا سی بات میں گہرے معنی تلاش کرنے لگتے ہیں ۔یہ متلاشی کبھی تو وہ خود ہوتے ہیں جن کا تعلق براہ راست ان بن سے ہوتا ہے اور کبھی وہ لوگ ہوتے ہیں جو براہ راست ملوث تو نہیں ہوتے لیکن معانی کے نئے نئے پہلو نکال کر آپسی تعلقات میں دراریں پیدا کرنے کی مذموم حرکت میںملوث نظر آتے ہیں۔سیف ؔ کا یہ شاعرانہ حسن ہے کہ ایسے ذلیل لوگوں کو صرف ’’نا پختہ ذہنوں ‘‘کہہ کر اپنی بے نیازی کا خوبصورت اظہار کر دیا ہے نیز بجائے ’’افسوس ‘‘کے ’’حیرت ‘‘کا استعمال بھی سیف کی شاعرانہ حسن کاری پر دال ہے۔
سورج ہو تو سورج جیسا دکھنا لازم ہے
اگتے اگتے ،چلتے چلتے،ڈھلتے ڈھلتے بھی
سادہ الفاظ میں ایک اور خوبصورت اور با معنی شعر ہے صرف نام سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ نام کی تاثیر بھی ہونا چاہئے۔یعنی دعوی بغیر دلیل کے  قابل قبول نہیں ہے۔اور اس کے لئے ’’سور ج‘‘کا استعارہ بھی لائق ستائش ہے جو طلوع تا غروب کئی مرحلوں سے گذرتا ہے لیکن اس کے سورج ہونے کی شناخت متاثر نہیں ہونے پاتی۔
سبھی نے سی لئے لب مصلحت کے دھاگوں سے
اب ایسے دور میں حاضر جواب کیا ہوں گے
ظاہر مرا باطن،مرا باطن مرا ظاہر
میں بے درو دیوار مکاں جیسا کھلا ہوں
ان دونوں اشعار میں عصری حسیت کا بیان قابل غور ہے۔حاضر جوابی ایک فن ہے لیکن ایسے دور میں جہاں مختلف تقاضوں کے تحت لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی ہو جہاں لوگوں نے زبان کھ ولنا ہی بند کر دی ہو وہاں حاضر جوابی کا فن بھی معدوم کیوں نہ ہو ۔’’لبوں کو مصلحت کے دھاگوں سے سینا ‘‘کس قدر خوبصورت ترکیب ہے جس کے لئے شاعر خصوصی داد کا مستحق ہے۔دوسرا شعر اگرچہ ددوسری غزل سے ہے لیکن معنوی لحاظ سے مربوط ہے پہلے شعر سے۔جہاں مصلحت کے دھاگوں سے لوگ لب سئے بیٹھے ہیں وہاں شاعر اپنے بارے میں کہہ رہا ہے کہ ایسے دور میں رہ کر بھی اس کا ظاہر اور باطن شفاف ہے ۔باطن میں جھانکنے کے لئے کسی در ودیوار کی ضرورت نہیں ہے۔یہ شاعرانہ تعلی بھی ہے اور آپ بیتی کے پیرائے میں جگ بیتی کا اظہار بھی کہ ایسے دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ضرور مل جاتے ہیں کہ جن کے لب مصلحت کے دھاگوں سے سلے ہوئے نہیں ہیں۔اور ان کا ظاہر اورباطن دونوں شفاف آئینہ کی طرح ہیں۔جسے شاعر نے بغیر در و دیوار کے مکان سے تشبیہ دی ہے۔
میرے ہمرا ہ اگر چلئے تو زندہ چلئے
ورنہ کہہ دیجئے دو ٹوک کہ تنہا چلئے
اس طرح کے اشعار اکثر شعرا نے کہے ہیں لیکن سیف کا انداز یہاں بھی منفرد ہے ۔وہ بھی کیفیؔ کی طرح اپنے محبوب سے مخاطب ہیں اور سفر سے پہلے ہی آگاہ کر دینا چاہتے ہیں کہ میرے ساتھ زندہ چلئے ورنہ صاف کہہ دیجئے کہ تنہا چلئے۔’’زندہ چلئے‘‘ میں جو تفصیل مضمر ہے زندگی کی وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔وہ زاہد خشک نہیں ہیں۔بلکہ بقول دردؔ
سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
زندگی گر کچھ رہی تو نوجوانی پھر کہاں
زندگی ملی ہے تو زندگی اور اس کے لوازمات جن سے زندگی عبارت ہے ان سے لطف اندوز بھی ہونا چاہئے۔اور اگر مسائل راہ میں آتے ہیں تو انھیں بھی خوش دلی سے حل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے نہ کہ مردنی اوڑھ لی جائے۔سیف کی اپنی شخصیت بھی اسی ’’زندہ چلئے ‘‘کی تعبیر ہے۔جو لوگ ان سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ سراج الدین سیف نے زندگی اور زندہ رہنے کے احساس کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔پروفیسر شارب ردولوی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ شاعری انسانی زندگی کے تجربات اور واردات کو بیان کرتی ہے۔شارب ردولوی کا یہ  قول سراج الدین سیف کی شاعری پر بھی صادق آتا ہے۔زندگی کے جن تلخ تجربوں کا بیان ذیل کے دو شعروں میں کیا گیا ہے وہ کوئی تجربہ کار اور پختہ انسان ہی کر سکتا ہے۔کسی نوجوان شاعر کے یہاں یہ تجربے اگرآتے ہیں تو یقینا اس کی شاعری مشکوک سمجھی جائے گی:۔
اے دور امتحاں ترے آنے کا شکریہ
اپنا پرایا کون ہے پہچان ہو گئی
اب باہمی رشتوں کی صداقت ہے بس اتنی
ہم یار بھی اغیار بھی دونوں ہی بیک وقت
کسی طرح تو موزونیت کے تار جڑیں
اس ایک فکر میں اکثر ہی خوں جلاتا ہوں
یہاں سیف شعوری یا غیر شعوری طور پراپنا شعری نظریہ بیان کررہے ہیں۔اگر آتش نے کہا تھا کہ
کھینچ دیتا ہے شبیہ ِشعرکاخاکہ خیال
فکر رنگیں کام اس پر کرتی ہے پرواز کا
 سیف یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے اندر فکر کا دریا موجیں مار رہا ہے خیال کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے مگر موزونیت سے اس کے تار نہیں جڑ رہے ہیں۔ یعنی اسے اپنا اسلوب اظہار نہیں مل رہا ہے۔ وہ خیال وہ فکر موزوں نہیں ہو پارہے ہیں ۔اصل میں یہی وہ نکتہ یا مرحلہ ہے جہاں سے شاعری اپنی اوریجنلٹی میں داخل ہوتی ہے۔ خیال اور فکر کا بہاؤ اپنے اظہار کا سانچہ تلاش کرتا ہے۔ کبھی یہ سانچہ بآسانی مل جاتا ہے اور کبھی گھنٹے، دن، ہفتے، مہینے اور برس بھی گذر جاتے ہیں کہ مصرعہ نہیں لگتا اور جب تک مصرع ڈھل نہیں جاتاتب تک شاعر کا خون جلتا رہتاہے۔سیف کا ایک تخلیق کار کی اس کیفیت کو بھی گرفت میں لے لینا ان کے کمال فن کی دلیل ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ وہ انکم ٹیکس افسر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں ۔لیکن وہ عہدے اور منصب کواپنے لئے اتنا اہم نہیں مانتے بلکہ اپنی شاعری کو اپنا اثاثہ اور اپنا شناخت نامہ مانتے ہیں:۔
سیف منصب اور دولت سے نہیں
ہے ہمارا نام کچھ اشعار سے
متذکرہ بالا اشعار بلا تخصیص یہاں پیش کئے گئے ہیں لیکن جب ان شعار کو غور سے پڑھیں تو سیفؔ کی شخصیت ان کی فکر اور شعری اسلوب کی گرہیں کھلنے لگتی ہیں۔ان اشعار میں وہ تمام عوامل کارفرما ہیں جو ایک زندہ اور حساس شاعر کی فکرمیں ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں اور وہ تمام عناصر بھی موجود ہیں جو ایک اچھی اور پختہ شاعری کے لئے ضروری تصور کئے جاتے ہیں ۔کبھی کبھی سراج الدین سیف پر شعر گوئی کا جنون بھی سوار ہو جاتا ہے اور وہ ہر وقت اسی میں کھوئے رہتے ہیں۔واقف کار جانتے ہیںکہ ایک مرتبہ سیف صاحب پر یہ جنون سوار ہوا کہ وہ اردو شاعری میںمستعمل تمام مروجہ اور غیر مروجہ بحروں میں اشعار کہیں گے ۔چنانچہ انھوں نے یہ سلسلہ شروع کر دیا اور مشکل مشکل بحروں میں ایسے ایسے اشعار نکالے کہ حیرت ہونے لگی ۔اور یہ بھی ہوا کہ بسا اوقات موزونیت کے چکر میں شعر تباہ بھی ہوگیا۔جس کی طرف کچھ خاص دوستوں نے اشارہ کیا تو صرف مسکرا کر رہ گئے اور لوگ ان کی مسکراہٹ کے معنی تلاش کرتے رہ گئے۔۔لیکن انھوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا اور ایک طویل راستہ طے کر لیا ۔منزل قریب ہی تھی کہ ان کی آنکھ کے آپریشن کا مرحلہ سامنے آ گیا اور مجبورا انھیں شاعری چھوڑنا پڑی اور جب دوبارہ شروع کی تو وہ جنون اتر چکا تھا ایک بار پھر وہ اپنی فطری شاعری کی طرف واپس آچکے تھے۔سیف صاحب نے کبھی حمد اور نعت کی طرف توجہ نہیں کی اس بارے مین ان کا کہنا ہے کہ وہ احتیاطا اس طرف نہیں جاتے کہ کہیں کوئی لغزش نہ ہوجائے۔ایک حمدیہ مشاعرے کے لئے بہت اصرار کیا گیا تو وہ تیار ہوئے اور حمد کہنے بیٹھے تو پہلی حمدکی شکل میں اللہ نے ان کے قلم سے سورہ فاتحہ کا منظوم ترجمہ لکھوایا۔جسے مشاعرے میں انھوں نے پڑھا تو داد و تحسین کے غلغلے بلند ہوئے۔اس کے باوجود وہ حمد اور نعت سے پرہیز کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ ان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اگر ان کے کسی شعر میں کوئی چھوٹا بھی کسی خامی کی طرف اشارہ کرے ۔خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو پھر بھی وہ اس کی بات کو احترام اور غور سے سنتے ہیں۔اگر کبھی کوئی مسئلہ پھنس جائے تو اسے دوستوںسے مشورہ کر کے حل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔اکثر یہ مسئلے عروضی ہوتے ہیں۔
سراج الدین سیف کی مکمل شاعری کا تجزیہ کیا جائے تو قاری اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ وہ کسی نظریہ یا کسی ازم کے پابند نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے موڈ کے پابند ہیں۔تبھی تو ایسے اشعار بھی ان کے قلم سے نکلتے ہیں۔
جا کے مچھلی سے دوستی کر لی
یہ کوئی ڈوبنا نہیں ہوتا
چائے تھی گرم اور اچھی بھی
لمس ان کا مگر۔۔ ارے توبہ
بات کوئی واہیات کہہ دو نا
ایسا کرو دن کو رات کہہ دو نا
اور کبھی سماجی حالات انھیں یہ لہجہ اختیار کرنے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں۔
آشیاں بیچ دو گلستاں بیچ دو
ناچتی جھومتی تتلیاں بیچ دو
قبر میںسو رہے ہیں کہیں گے وہ کیا
اپنے پرکھوں کے سارے نشاں بیچ دو
اور کبھی شاعر کا یہ احساس بھی جاگ اٹھتا ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ
اپنی بستی ہزاروں خداؤں بھری
پھر بھی دیکھو تو کتنی گناہوں بھری
کیسی دنیا ہمیں چاہئے کیا کہیں
کیسی بھی ہو، نہ ہو دل کے کالوں بھری
کتنے بچے اسی آس میں مر گئے
ہو نصیب ایک تھالی نوالوں بھری
مختصرا کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی دبستان لکھنؤ کے آخری دور کی شاعری کی تاریخ مرتب کی جائے گی تومحمد سراج الدین سیفؔکی شاعری اپنے اسلوب اور لہجہ کی بنا پرنظر انداز نہیں کی جا سکے گی۔
9956779708ٔ
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular