Monday, May 6, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمحبتوں کے موسم کی باتیں

محبتوں کے موسم کی باتیں

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

خان احمد فاروق

اٹھارہ ستمبر دو ہزار سترہ ۔۔۔ کیفی اکاڈمی ،لکھنو،۔۔۔ہماری میڈم پروفیسر شمیم نکہت پر ایک مہتم بالشان سمینا رکا دوسرا دن ۔۔۔ سمینار کا اختتام۔۔۔سب مندوبین اوپر کے کمرے میں ماحضر تناول فرما رہے ہیں۔۔۔دو دو۔۔۔ تین تین۔۔۔ چار چار ۔۔۔ پانچ پانچ ۔۔۔ چھ چھ۔۔۔ کے گروپ میں سب گپ شپ کر رہے ہیں۔۔۔بہت سے دوست ،ساتھی ، زمانے کے بعد مل رہے ہیں۔۔۔میڈم کو یاد کر رہے ہیں۔۔۔خوش ہیں۔۔۔ غم زدہ ہیں۔۔۔خوش اس لیے کہ سمینار بیحد کامیاب ہوا اور وہ سارے لوگ جو کبھی شالیمار باغ اور مورس روڈ والے گھروں میں اکٹھا ہوتے تھے ۔آج تقریباً سب موجود ہیں۔۔۔غم زدہ، اس لیے کہ سب تھے صرف میڈم نہیں تھی۔۔۔وہ ہوتیں تو یہ خوشی دوبالا ہوتی۔یہ بات سب کے ذہنوں میں ہوگی ،میرے منھ سے نکل گئی۔۔۔میں اور امتیاز ۔۔۔سب سے الگ ۔تھوڑی دور ۔۔۔کھانے کی پلیٹیں ہاتھوں میںلیے ان ہی دنوں میں کھوئے ۔۔۔کچھ گفتنی نا گفتنی ۔۔۔ کچھ خوباں سے چھیڑ۔۔۔کچھ تصویریں بتاں کا ذکر۔۔۔دو دوست ملتے ہیں تو نیک ساعت ہوتی ہے۔دو مبارک ستاروں کے ایک ہی برج میں جمع ہونے کی ساعت ہے۔۔۔قران السعدین۔۔۔منھ سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔۔۔’’ آج میڈم ہوتیں تو کتنا خوش ہوتیں‘‘میرے منھ سے بات نکلی۔امتیاز نے اپنے انداز میں کہا ۔۔۔ہاں ! یار ۔۔۔فاروق،بہت اچھا لگتا۔۔۔ان کی ساری شفقتیں ۔۔۔محبتیں۔۔۔تربیت کے طور یاد آنے لگے۔ہمیں ان کی زندگی میں ہی کچھ کرنا چاہیے۔۔۔ہاں یار ۔۔۔ہمیں شارب صاحب پر کوئی جلسہ کرنا چاہیے۔دونوں کے منھ سے نکلا۔لیکن سر منع کر دیں گے ۔کرنے ہی نہیں دیں گے جلسہ۔اس خوف نے بھی سر اٹھایا۔اور اگر سر نے منع کر دیا پھر کس کی ہمت۔۔۔ایک دس قدم پر وقاربھائی (رضوی) سمینار کی کامیابی سے سرشار کھانے کی پلیٹ ہاتھ میں لیے کسی سے اپنی مسکراہٹ کے ساتھ محو گفتگو تھے بلکہ سن رہے تھے اور پلیٹ پر تھکن اتار رہے تھے۔ہم ان کوگھسیٹتے ہوئے الگ لائے اور اپنا بوجھ ان پر ڈال دیا۔ابھی تک جو وہ تھکے تھکے لگ رہے تھے۔ بشاش لگنے لگے۔بس طے ہوگیا کہ سر کو نہیں بتانا ہے اور آپ لوگ مضامین لکھوایئے ،میںتیاریاں شروع کرتا ہوں۔ہم تو اپنا بوجھ وقار بھائی پر ڈال کر سمجھ رہے تھے کہ پالا مار لیا۔ انھوں نے مضامین لکھوانے کی ذمہ داری ہم پر ڈال کر ایک نیا بوجھ ہم پر ڈال دیا۔ہم کندھے جھکائے وہیں اسی کھانے کے کمرے میں ظفر بھائی (پروفیسر محمد ظفرالدین) کی خدمت میں حاضر ہوے اور اب تک کے خفیہ پروگرام سے واقف کرایا۔وہ چہک اٹھے۔معلوم ہوا یہ تو ان کی دیرینہ خواہش ہے۔ضرور کرو ۔۔۔میں ہر طرح تم سب کے ساتھ ہوں۔جی نہیں ۔۔۔ساتھ نہیں ۔۔۔سر پرستی فرمایئے۔اپنا سارا بوجھ ظفر بھائی کے سر ڈال کر ڈاکٹر ریشما ںپروین اور ڈاکٹر محمد کاظم کو اس خفیہ مشن سے آگاہ کرایا۔ان کے چہرے بھی خوشی سے دمکنے لگے۔اور انھوں نے اس جلسہ کے لیے جو محنت کی ہے ’حق ادا کرنا‘‘ اسے کہتے ہیں۔ہوٹل تک آتے آتے یہ خفیہ مشن صرف اتنا خفیہ رہا کہ شارب صاحب کے علاوہ سب کو خبر ہوچکی تھی۔عطیہ ،کہکشاں لطیف اور عرشیہ جبیں کے ساتھ بہت دیر تک تیاریوں کے متعلق بحث ہوتی رہی۔فون نمبر اور ای۔میل نوٹ کیے جاتے رہے۔اور ہم سب لکھنو سے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر واپس اپنے اپنے ٹھکانوں کو آگئے اور پھر اسی طرح اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ پلان بنتے رہے ۔ترمیم ہوتی رہی۔ظفر بھائی نے ضرو رجشن شارب کو حیدرآباد میں کرنے کی خواہش ظاہر کی۔پھر کاظم اور امتیاز نے دہلی میں جلسہ کی تجویز رکھی۔۔۔پھر سب مٖصروف ہوجاتے ۔۔۔ایک سناٹا ۔۔۔چھا جاتا۔وقار صاحب ضرور مہمیز کرتے رہتے۔ ہم سب بھی بکھرے تھے ۔آخر فروری کی چھببیس تاریخ کو یہ موقع آیا کہ کاظم ،امتیاز اور میں دہلی یونیورسٹی میں امتیاز کے کمرے میں جم کر بیٹھ گئے کہ آج تمام معاملات طے کر کے ہی اٹھیں گے۔ شارب صاحب کے قریبی دوستوں اور شارگردوںکی فہرست بنائی گئی۔ ان سے رابطہ کیا جانے لگا اور وہ فہرست ریشماں اور وقار صاحب کے ملا حظے ،حذف و اضافہ کے لیے میل کر دی گئی۔ ۔۔ پروفیسر شمیم نکہت دوسر ے یادگاری خطبہ کی تاریخ بھی نزدیک آگئی ا ور ایک بار پھر لکھنو میں اکٹھا ہوکر جشن شارب کا خاکہ بنانے کی بات ہونے لگی۔گیارہ مارچ دو ہزار اٹھارہ کا دن بھی آگیا اور سب لکھنو میں جمع ہیں ۔کاظم اور امتیاز نہیں آسکے۔ ریشماں اور وقار صاحب مایوس اور ہم شرمندہ۔ایک بار پھر سرا پکڑا گیا اور تیرہ مئی دو ہزار اٹھارہ کا دن طے ہوگیا۔ظفر بھائی ہر حال میں تیار۔کام تو شروع کرو۔لوگوں سے رابطہ کرو۔ اس احتیاط کے ساتھ کہ شارب صاحب کو خبر نہ ہو۔ میں نے اقبال مجید صاحب سے رابطہ کیا۔بہت زور زور سے بول کر ان کو ساری بات بتائی اور شارب صاحب کو قطعی خبر نہ ہو اس بات کی کئی بار گزارش کی۔ریشما ںنے عارف نقوی صاحب سے جرمنی میں رابطہ کیا۔اور ایک کھینچ تان ادھر مچی کہ جلسہ کا کنوینر کون ہوگا۔کاظم،امتیاز ،ریشماں اورمیں اس پر اڑے کہ ظفر بھائی اور وقار صاحب کمان سنبھالیں اور ظفر بھائی مسکراکر کہتے کہ میں بھلا اتنی دور سے کیا کر پاوں گا۔وقار صاحب جانے۔وقار صاحب اس بات پر اڑے کہ مجھ سے سمینار سے کیا مطلب۔میں شارب صاحب کا خادم ۔آپ لوگ حکم کریں۔بس۔۔۔اسی درمیان اقبال مجید صاحب کا مضمون بھی آگیا اور شارب صاحب کا فون بھی۔۔۔ فون ریشماں کے نمبر سے تھا اس لیے اطمینان سے ہیلو کہا۔ ادھر سے بلا تمہید ریشماں نے کہا ۔۔۔لو! فاروق بابا سے بات کر لو۔جی سر السلام علیکم ۔۔۔ دوسری طرف سے ایک ٹھنڈی آواز ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ۔۔۔کچھ نہیں سر ۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔نہیں یہ غلط بات ہے۔بالکل غیر مناسب۔۔۔معلوم ہوا وقار صاحب اور ریشما ںوہاں سر جھکاے بیٹھے ہیں۔کاظم ڈانٹ کھا چکے ہیں۔۔۔اب میری باری ہے۔ اقبال مجید صاحب سے اتنی زور زور سے چیخ چیخ کر کہنے کے با وجود انھوں نے سب باتیں سنی اور جو بات تاکید کے ساتھ خاص طور پر کہی گئی وہی نہیں سنی۔انھوں نے سمینار میں حاضر نہ ہو پانے کے لیے معذرتی فون کیا ۔ادھر عارف نقوی صاحب نے مئی کی گرمیوںمیں نہ آپانے اور سمینار کی تاریخ بڑھانے کے لیے فون کیا۔بہرحال دونوں صورتوں میںیہ خفیہ پروگرام شارب صاحب سے مخفی نہ رہ سکا ۔ شارب صاحب اچمبھے میں،حیران !پریشان ۔۔۔یہ سب کیا ہورہا ہے۔یہ فون کیوں آنے لگے ۔ہماری پیشی ہونی تھی ۔۔۔ہوئی ۔۔۔ان کی تاکید اور تنبیہ کے باجود ہم مسکوٹ کرتے رہے۔جب ان کو لگا کہ اب یہ سب حکم عدولی پہ آمادہ ہیں تو ایک بوڑھے باپ کی طرح خاموش ہو، چپ بیٹھ رہے۔ باپ ہی تو ہیں وہ ہم سب کے،۔۔۔استاد تو بہت ہیں ہم سب کے ۔اور ایسے کہ علمی و ادبی دنیا فخر کرے ہے اور ہم ناز اور اپنے آپ کو مفتخر۔لیکن شارب صاحب میں جو موہنی سی ہے اس سے تو ہم ہی واقف ہیں۔ پھر تاریخ بڑھی ۔۔۔پھرمصروفیت۔۔۔وقفہ۔۔۔خاموشی۔۔۔سناٹا۔۔۔ وقار صاحب کی جھنجھلاہٹ۔ریشماں کی عجلت۔۔۔ ظفر بھائی کی بار بار تاکید۔وقار صاحب نے جشن شارب کے معاملات کو اور وسعت دی۔ شارب صاحب کی مادر علمی لکھنو یونیورسٹی ۔۔۔اس کا اردو شعبہ ۔۔۔پروفیسر عباس رضا نیر۔۔۔ایک اور جان نچھاور کرنے والے شاگرد ۔۔۔عبدالسمیع۔۔۔ جوادب سے نہیں کتابوں سے رابطہ رکھتے ہیں۔۔۔ سب کو شامل کرلیا۔۔۔گورنر صاحب رام نائک جی کی رضامندی مل گئی۔دو،تین اور چار دسمبر دو ہزار اٹھارہ کو ہم لکھنو میں جمع ہورہے ہیں۔ ۔۔کاظم اور امتیاز دہلی سے اپنی موٹر کار اڑاتے ہوئے لکھنو پہنچے۔۔۔ہم بھی آدھمکے۔۔۔نہاری کلچے،کھیر،گاجر کا حلوا ،ٹنڈے کباب اور وقار صاحب کا گھراوربھابھی کے ہاتھ کا بنایا پر تکلف کھانا۔۔۔ ریشماں۔کاظم ،امتیاز اور میں ۔۔۔ جشن شارب کا خاکہ۔۔۔ ترمیم۔۔۔ اضافہ۔۔۔صرف کام کی باتیں۔۔۔شارب صاحب خاموش ۔۔۔ایک چپ ۔۔۔ہزار چپ۔۔۔ان بے ہودوں سے بولیں بھی تو کیا بولیں۔نا فرمانی کی حدیں پار کر رہے ہیں۔
دو دسمبر دو ہزار اٹھارہ ۔۔۔ سہ پہر ۔۔۔تین بج رہا ہے۔۔۔ لکھنو یونیورسٹی کا مالویہ ہال ۔۔۔ اردو کے ہندوستان بھر سے درخشاں ستارے جمع ہیں۔مالویہ ہال میں ایک کہکشاں میں روشن ہے۔ اس کا ایک ستارہ مہتاب بن کر ہزاروں ستاروں کو روشن کر رہا ہے۔آج کا دن تاریخ بننے کو ہے۔اس کی شہادت کے لیے لکھنو کے آفتاب ومہتاب تشریف لا رہے ہیں۔ہم سب کو شارب صاحب کا انتظار ہے۔ وہ آتے ہیں۔ہم سب کے چہرے مسرت اور شادمانی سے لال ہیں۔۔۔شارب صاحب کی آنکھیں۔ ہم ان کی طرف نہیں دیکھ رہے ہیں۔ہماری نظریں ان قدموں پر ہیں۔۔۔ سر !بہت معذرت ، ہم نے آپ کی بات نہیں مانی۔۔۔مگر ۔۔۔آپ نے ہماری بات مان لی۔سر!آپ کی یہی محبتیں تو ہم کو یہاں تک لائی ہیں۔ سر! آپ ہم سب سے پوچھ رہے تھے کہ آپ پر جلسہ کیوں ہونا چاہیے۔۔۔ ان تین دنوں میں پوری اردو دنیا یہی ثابت کرے گی کہ پروفیسر شارب ردولوی پر جلسہ کیوں ہونا چاہیے۔
(صدر ،شعبہ اردو،حلیم مسلم پوسٹ گریجویٹ کالج،کانپور)

ٍٍ

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular