Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldماہِ ستمـــبــر کا ماہتابِ خیـــر

ماہِ ستمـــبــر کا ماہتابِ خیـــر

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

صغیر افراہیم

علی گڑھ تحریک کا سب سے فعال ترجمان ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی اشاعت میں جولائی ۱۸۸۱ء کے بعد جب رخنہ پڑا تو نہ صرف ڈپٹی نذیر احمد نے ماہ ستمبر میں سرسید سے شکوہ کیا، بلکہ بار بار اس کی اشاعتِ نو کے سلسلے میں یاددہانی کراتے رہے۔ بالآخر اُن کے بے حد اصرار پر سرسید نے اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے لیے نکالا۔ پھر زمانے نے دیکھا کہ یہ رسالہ جرأت مندانہ اظہار کاموثر اعلان نامہ ثابت ہوا ۔ رفقاء اوربہی خواہانِ سرسید نے اپنی اپنی استعداد کے اعتبارسے ’’محمڈن سوشل ریفارمر‘‘ کو اپنی نگارشات کے ذریعے رونق بخشی اور پھر اِس مجلہ کی مشمولات کی مقبولیت سے متاثر ہوکردیگر نافع تخلیقات قلم بند کیں۔ ایسے متحرک اور قدآور ادیبوں میں ایک نام راشد الخیری کا ہے۔ انھوں نے اپنے پھوپھا ڈپٹی نذیر احمد سے قوم کی رہبری اور ترجمانی کاسبق سیکھا، بغیر کسی تخصیص وتمیز کے مساوات کادرس لیا، برابری کے مقام ومرتبہ کو سمجھا اور پھر ان سب نکات کو افسانوی ادب میں پیش کرنے کاہُنربھی مستعار لیا، وہ بھی اِس طرح کہ ورثے میں ملے نقش پا کو اور بھی اُبھارا، اس میں رنگ روغن بھرے،ورنہ ماضی قریب یعنی ۱۸۵۷ء کے آس پاس افسانوی ادب کا مقصد روتوں کو ہنسانا اور جاگتوں کوسُلانا بن گیاتھا۔ ڈپٹی نذیر احمد اور پھر اُن کے نقشِ قدم پر چلنے والے شاگردِ رشید، راشدالخیری نے سید والا گُہر سے متاثر ہوکر زندگی کے مفروضات اور واقعات کوحقیقی صورت میں متشکل کیا اور اُن کی تاویلات کو عقلی جامہ پہنا کرپیش کیا۔
علامہ راشد الخیری نے اپنی پہلی تحریر ماہ ستمبر ۱۸۹۵ء میں’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں شائع سیدکرامت حسین کے مضمون سے متاثر ہوکرقلم بند کی جوبریلی کے اخبار ’’روہیل کھنڈ گزٹ‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس تحریر کو پڑھ کر ڈپٹی نذیر احمد نے راشدالخیری کو کئی مشورے دیئے جن کی روشنی میں انھوں نے ایک سے بڑھ کر ایک فن پارہ تخلیق کیا۔ اتفاق کہ انھوں نے اپنا پہلا ناول ’’صالحات‘‘ بھی ستمبر (۱۸۹۷ء) میں لکھنا شروع کیا جسے وہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں قسط وار شائع کراناچاہتے تھے مگر سرسید کی علالت کی وجہ سے رسالہ شائع نہیں ہورہا تھا۔ چند ماہ بعد سید والا گُہر کی رحلت کی خبر اُن پر بجلی بن کر گری جس کا اظہار انھوں نے دہلی میں منعقد تعزیتی جلسہ میں کیا۔ دل ودماغ پر چھاجانے والے سانحہ کے سیاہ بادلوں کے چھٹنے کے دو سال بعد، جب ۲۸؍ستمبر ۱۹۰۰ء کو بیٹا رازق ا لخیری پیدا ہوا تو انھوں نے احباب کی محفل میں مُسکراتے ہوئے کہا کہ ماہ ستمبر تو مجھ پر ستم ڈھاتا رہا ہے مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پروردگار نے مستقل رزق کا بندوبست کردیا ہے۔
نصف صدی پر مشتمل راشد الخیری کے ادبی سفر کامطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ موصوف نے اٹھائیس افسانوی مجموعے، گیارہ اصلاحی ومعاشرتی اور دس اسلامی ناول قلم بند کیے ہیں۔ تاریخ وسیرت پر آٹھ، شاعری پر دو، نیز مختلف مضامین کے نو مجموعے دست یاب ہیں۔ صحافتی میدان میں دیکھیں تو موصوف نے ’عصمت‘، ’تمدن‘، ’بنات‘، ’جوہرِ نسواں‘اور ’سہیلی‘ کے نام سے رسالے اور اخبار نکالے، مدرسے اور تربیت گاہیں قائم کیں۔ اُن کی فکری، علمی اور عملی جدوجہد میں رفقائے سرسید کی سرپرستی اور رہبری کا عکس نظر آتاہے۔ موصوف کی کسی بھی تحریر کو اُٹھا کر دیکھ لیجیے، محور مشرقی روایات اور اُس کی صالح قدروں کو قائم رکھنے کاجتن جھلکتا ہے۔ اُن کو اپنے ملک، اپنی تہذیب اور اپنے معاشرے سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ ملک و ملت کی بدحالی اور تعلیم وتربیت سے چشم پوشی پر اشکبار رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے کبھی بھی اپنے ادب میں ان موضوعات کو رونے رُولانے کا حربہ نہیں بنایا ہے بلکہ وقت، ضرورت اور حقائق کو منفرد اور موثر انداز میں پیش کیا ہے۔
راشدالخیری کے ناول ہوں یا افسانے، مضامین ہوں یا اداریے یا پھر قلم کی تربیت گاہیں، ہر ایک کے توسط سے قوم میں محبت ومروت، ضبط وتحمل، علم وعمل کی تعلیم وترغیب دی ہے اور شدّتِ جذبات سے اخوت وہمدردی کے بھُولے ہوئے سبق کو یاد دلایا ہے۔ معاصرین نے اُنھیں ’مصورِ غم‘ اور ’محسنِ نسواں‘ کے خطاب سے نوازا، سرآنکھوں پر بٹھایا، مگر جدید نسل نہ جانے کیوں اپنی زمین پر پاؤں جمانے سے غافل ہوتی جارہی ہے ۔ وہ اُن بزرگوں کے بے لوث کارناموں سے چشم پوشی برت رہی ہے جن کے مصلحانہ عمل میں زبردست استدلال موجود ہے اور جنھوں نے نصیحتوں اور طنز ملیح سے خوب کام لیا ہے۔ راشدالخیری نے چھوٹے چھوٹے جملوں میں، مقامی محاوروں اور کہاوتوں کوجذب کردیا ہے۔ ایسا انھوں نے اس لیے کیا کہ اُن میں قومی اور ملّی تڑپ تھی۔ تبھی تو اُن کی وفات (۱۳؍فروری ۱۹۳۶ء) پر جوشؔ ملیح آبادی کہہ اُٹھتے ہیں ؎
شمع راتوں کو بہاتی تھی جو آنسو اُٹھ گئی
دہر سے وہ کیا اُٹھا، دہلی سے اردو اُٹھ گئی
مشرق کے عروج وزوال کو ذہن نشین کرتے ہوئے راشدالخیری نے اپنی تحریروں میں اِس نکتہ کو تحلیل کردیا تھا کہ جو قومیں وقت کے بدلنے کے ساتھ خود کوبدلنا جانتی ہیں ، ترقی کے منازل طے کرتی ہیں۔ جن کے اندر سعئ مسلسل، عزم، جستجو اور فکروعمل کی استقامت پائی جاتی ہے اور جو نئے مثبت اندازِ فکر کو اپنانے سے گریز نہیں کرتیں وہی زندگی کے ہر میدان میں کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہیں، لیکن جوقومیں توہم پرستی اوردقیانوسیت کو گلے لگائے رکھتی ہیں وہ پس ماندگی کاشکار ہوکر ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوجاتی ہیں ۔ جانے انجانے طور پر صارفیت کے اِس سرابِ زندگی بھرے دورمیں ہم ذہنی تناؤ، تضاد اورکشمکش سے دوچار ہوتے جارہے ہیں اورشاید اِسی بنا پر آج ہمیں پھر اُسی ماہِ ستمبر کے ماہتاب اور اُس کی ضوپاش کرنوں کی شدّت سے کمی اور ضرورت محسوس ہورہی ہے جس کا واضح نصب العین قوم کی فلاح وبہبودتھا۔ اوروہ عاشقِ سید تمام عمر اس پر سختی سے کاربند رہا۔
سابق پروفیسر شعبۂ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular