Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldلکھنو کے باغات

لکھنو کے باغات

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

(سید خورشید انور(رومی نواب

نواب آصف الدولہ کی آمد سے پہلے لکھنو کی کوئی قابل ذکر حیثیت نہیں تھی۔جو کچھ تھاوہ مچھی بھون اورپنچ محلا تھا۔ یہاں کی زمین کہیں پست تو کہیں بُلند تھی۔ بازار گلی کوچے تنگ تھے۔چند بستیوں پر مشتمل لکھنو میں جب میر ببر علی انیسؔ کے دادا میر حسنؔآئے تو انہوں نےلکھنو کے حالات کا ذکر اپنی مثنوی ’’سحرالبیان‘‘ میں کچھ یوں کیا ہے:
جب آیا میں دیار لکھنو میں
نہ دیکھا کچھ بہارِ لکھنو میں
زبس یہ ملک ہے بیہڑ پہ بستا
کہیں اونچا کہیں نیچا ہے رستہ
سوائے تودۂ خاک اور پانی
یہاں ہر جنس کی دیکھوگرانی
مگر لکھنو کی یہ کیفیت زیادہ دنوں تک برقرار نہ رہی۔ نواب آصف الدولہ بہادر کی لکھنو آمد نے جنگل میں منگل کردیا۔جہاں ایک طرف امام باڑہ آصفی تعمیر ہوا وہیں گومتی کنارےعالی شان عمارت دولت خانہ آصفی بھی تعمیر ہوئی۔نواب آصف الدولہ کو عالی شان عمارتیں بنوانے کا شوق تھا۔اُنہوں نے ’’بیلی گارد‘‘ (ریزیڈینسی) جیسی وسیع و عریض عمارت بنوئی تو وہیں لکھنو کو باغات کی سوغات بھی دی۔جن میں رہائشی عمارتیں، نہریں، بارہ دری ،خادمین و محافظین کے رہائشی مکانات وغیر بھی بنائے جاتے تھے ۔ آج جو سیر و تفریح کے لئے ’’ریزاٹس‘‘(Resort) بنائے جا رہے ہیں وہ عہد قدیم کے باغوں کی نقل ہیں۔لکھنو میں والیان اودھ کے علاوہ امراء اور روسائے شہرنے بھی باغات لگوائےجن کےنام تو ملتے ہیں مگر تفصیل نہیں ملتی تمام باغات محلّوں میں تبدیل ہو چکے ہیں جیسے’’ سجّادباغ، انگوری باغ، عبّاس باغ،جمُنیہ باغ،وزیر باغ، خورشید باغ وغیرہ ہیں۔چند باغات کی تفصیل جوکہ کُتب تواریخ سے مل سکی انکو یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
پسند باغ :دولت خانہ آصفی(شیش محل) کے قریب پسند باغ واقع تھے۔ یہ باغ عہد آصفی کی یادگار تھا۔ قصر التواریخ کے مطابق ’’ نواب سعادت علیخان اپنی مسند نشینی کے بعد پانچ برس تک دولت خانہ میں رہے جب جی گھبراتا تھا تو سیر تفریح کے غرض سے نشاط باغ یا پسند باغ چلے جایا کرتے تھے۔آپ نے راجہ مہرا کی معرفت کوٹھی’’کلاں‘‘ دولت خانہ سے ملحق دریا کنارے تعمیر کروائی‘‘۔پسند باغ کے بارے میں ملتا ہے کہ اس باغ کو مرزا ہما یوںشاہ نے دولت خانہ آصفی کے قریب بنوایا تھا۔ مرزا ہمایوںکا تعلق ٹیپو سلطان کے خاندان سے تھا۔
نشاط باغ :یہ باغ بھی نواب آصف الدولہ کی ایک یادگار تھاجو کہ موجودہ کربلا تال کٹورہ کے پاس واقع تھا۔یہ باغ نواب آصف الدولہ بہادر کے وزیر راجہ ٹکیت رائے کی ملکیت میں تھا۔نواب سعادت علیخان اکثر سیر و تفریح کے ئے نشاط باغ رونق افروز ہوا کرتے تھے۔ایک دن وقت صبح نواب صاحب کی سواری آم کے باغ سے گزری تونواب صاحب نے سواری روک کر نواب قاسم علی خان سے فرمایا کہ اس مقام پر اہل شہر تعزیہ دفن کریں تو بہتر ہوگا کیونکہ یہاں پر صحرائیت زیادہ ہے۔ جو لوگ آپ کے ساتھ تھے سب نے ایک زبان ہو کر عرض کیا کہ سبحان اللہ حضور نے کیا جگہ تجویز کی ہے۔اسکے بعد اس جگہ کربلا الماس علی خان تعمیر ہوئی۔
باغ مرزا جمعہ: شیخ تصدق حسین نے ’’بیگنات اودہ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ ’’شاہ نصیر الدین حیدر کی بیگم ’’تاج محل‘‘ کی ہڑوارکٹرہ بزن بیگ میں باغ شوکت الدولہ مرزا جمعہ موجود ہے‘‘۔ نواب شوکت الدولہ کون تھے ؟ انکا تعلق شاہی خاندن سے تھا یا نہیں معلوم نہ ہوسکا۔
موسیٰ باغ:لکھنو سے کاکوری،ملیح آباد جانے والی شہرا پر واقع موسیٰ باغ اودھ کے چوتھے فرمان رواں نواب آصف الدولہ کی ایک یادگار ہے۔جہاں لوگ سیر و تفریح کے لئے جاتے ہیں۔ یہ باغ پوری طرح ختم ہو چکا ہے تمام عمارتیں منہدم ہوگئی ہیں۔ حکومت وقت نے ایک مختصر سا باغ بنوا دیا ہے جسے موسیٰ باغ کہا جاتا ہے۔
موسیٰ باغ نواب آصف الدولہ بہادر نے ۱۷۷۵؁ء میں گومتی کنارے اپنی آرام گاہ کے لئے تعمیر کروایا تھا۔ اس باغ کے بیچ میں رومن طرز تعمیر کی ایک خوبصورت عمارت تھی جسکی تصویر تو موجود ہے مگر کسی بھی تاریخ نگار نے اسکی تفصیل نہیں لکھی اور ناہی اس باغ کے نام کی وجہ تصمیہ بیان کی۔اس عمارت کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ نواب آصف الدولہ سے لے کر آخری تاجدار اودھ نواب واجد علی شاہ بہادر تک موسیٰ باغ کی عمارت اچھی حالت میں موجود تھی۔۱۸۵۷؁ء انقلاب کی آگ نے اس خوبصور باغ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیااور موسیٰ باغ کی عمارتیں کھنڈہر میں تبدیل ہوگئیں۔
قیصر باغ کی جنگ کے بعد ۱۵؍مارچ ۱۸۵۸؁ء میں لکھنو پر انگریزوں کا قبضہ ہوچکا تھا۔ لکھنو سے بھاگی ہوئی فوج موسیٰ باغ میںاکٹھا ہونے لگی اور اُسنے موسیٰ باغ میں مورچہ بنا لیا۔ اسکی خبر جب انگریزوں کو ہوئی تو انہوں نے موسیٰ باغ کی طرف فوجیں روانہ کیں۔ انگریزی فوج کی موسیٰ باغ کی طرف پیش قدمی کی خبر ملتےہی ہندوستانی فوجیوں نے بیگم حضرت محل کوایک فوجی دستہ کے ہمراہ۱۶؍مارچ ۱۸۵۸؁ء کو موسیٰ باغ سے کسی محفوظ مقام کی طرف رونہ کردیا ۔ موسیٰ باغ میں ہندوستانی فوج کی قیادت مولوی احمد اللہ شاہ کے ہاتھ میں تھی۔۱۹؍مارچ کو’’ کالین کیمپویل ‘‘ اور ’’جنرل اؤٹرم‘‘ اپنی اپنی فوجوں کے ہمراہ موسیٰ باغ پہنچے جنرل اؤٹرم نے سامنے سے تو کالین کیمپ ویل نے ہندستانی فوج پر پیچھے سے حملہ کیا۔ گھمسا ن کی لڑائی کے بعد مولوی احمد اللہ شاہ کو شکست ہو گئی۔ اس جنگ کے بعد اودھ پر انگریزوں کا پوری طرح قبضہ ہو گیا۔
اس لڑائی میں ہندوستانی فوجیوں کے ساتھ سیکڑوں انگریز بھی مارے گئے۔جن میں’’ کیپٹن ویلس‘‘ بھی تھا۔ کیپٹن ویلس کی ہلاکت کے بعد اُسکے ایک انگریز ساتھی’’ کیپٹن جے:بی:جونس‘‘نے اُسکو موسیٰ باغ میں ہی دفن کروا دیااور قبر پر اُسکے نام کا ایک کتبہ بھی لگوایا جس پر ۲۱؍مارچ ۱۸۵۸؁ء تاریخ درج ہے۔وقت گُزرتا گیا اور کیپٹن ویلس صاحب پیرو مرشد بن گئے۔یہ کب ہوا ؟کیسے ہوا؟ کوئی نہیں جانتا مگر آج بھی سیکڑوں افراد ہرجمعہ رات کو کیپٹن ویلس کی قبر پرحاضری دینے ضرور جاتے ہیں۔ عرف عام میں یہ سگریٹ بابا کے نام سے مشہور ہیں۔کہا جاتا ہے کہ کیپٹن ویلس کو سگریٹ کا بڑا شوق تھا اسلئے یہاں آنے والے لوگ کیپٹن ویلس کی قبر پر نظرانہ عقیدت کی شکل میں سگریٹ چڑھاتے ہیں۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ سگریٹ چڑھانے سے بابا خوش ہوں گے اور اُنکی مراد جلد پوری ہوگی۔
چار باغ:چار باغ بھی نواب آصف الدولہ نے بنوایا تھا۔عہد قدیم سے ہی شاہی باغات کی شکل میں چار باغ بنوانے کی رسم چلی آرہی ہے۔اسمیں چوسر پچیسی کی طرح دو نہریں بنائی جاتی تھیں جو ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی ’’کراس‘‘ کی شکل اختیار کرتی تھیں۔کراس کی جگہ ایک خوبصورت ’’حوض‘‘ بنایا جاتا تھا جس میں فوارے بھی لگے ہوتے تھے۔پیڑ پودوں کا انتخاب بھی بادشاہ کے مزاج کے مطابق کیا جاتا تھااوراسکے چاروں حصوں میں باغوں کی خوبصورتی کو مد نظر رکھتے ہوئے عمارتیں بھی تعمیر کی جاتی تھیں۔اس طرح بنائے جانے والے باغ کو فارسی زبان میں ’’چہار باغ‘‘ کہا جاتا تھا۔ مغل شہنشاہوں نے بھی اپنے عہد میں چہار باغ بنوائے تھے۔لکھنو کا چہار باغ جو کہ چارباغ کے نام سے مشہور ہوا نواب آصف الدولہ کی دین ہے۔
جس وقت نواب آصف الدولہ نے اپنے بیٹے نواب وزیر علیخان کی شادی نواب اشرف علیخان کی لڑکی سے تئے کی تو انہوں نے نواب اشرف کو عیش باغ اور چار باغ کی ایک کوٹھی رہایش کے لئے دے دی تھی۔ کیونکہ نواب اشرف علیخان یہیاگنج میں ایک چھوٹی سے حویلی میں رہا کرتے تھے جہاں شاہی بارات کو آنے میں دقّت ہوتی۔نواب آصف الدولہ کے بعد اُنکے بیٹے نوان وزیر علیخان تخت شاہی پر بیٹھے مگر غاصب انگریزوں نے ایک سازش کے تحت اُنکو معزول کر کلکتہ کے فورڈ ولیم میں قید کردیا جہاں سے اُنکی میّت ہی باہر نکلی۔اسکے بعد نواب سعادت علیخان اودھ کے تخت پر بیٹھے۔ ۱۸۲۲؁ء میںنواب سعادت علیخان کے تعلقات حکیم مہندی سے قائم ہوئےتو انہوں نے بڑہ ہوشیاری اور چالاکی سے نواب صاحب کو شیشہ میں اُتار لیا اور نواب نے انہیں اپنا وزیر اعظم مقرر کیا۔ جسکے بعد حکیم مہندی کوچارباغ کی ایک کوٹھی رہائش کے لئے نواب سعادت علیخان نے دے دی ۔
۱۸۵۸؁ء کے بعد غاصب انگریزوں نے ملک اودھ میں اپنے مزاج کے مطابق تعمیرات کا کام شروع کیا جسمیں لکھنو کی بہت سے عمارتیں مسمار کر دی گئیں۔ تمام باغات اُجڑ گئے۔جہاں ۱۹۲۲؁ء میں ’’قونسل ہاؤس‘‘ کی بنیاد رکھی گئی وہیں ’’ریلوے اسٹیشن کے لئے چار باغ کا علاقہ چنا گیااور وہاں کی تمام شاہی عمارتیں منہدم کروا دی گئیں۔ وہاں کے مکینوں کو لکھنو میں دوسری جگہ بسا دیا گیا۔ حکیم مہندی کےاہل خاندان شیش محل میں آبسے۔اب چار باغ ایک محلّہ اور ریلوے اسٹیشن کا نام ہے۔
عیش باغ: عیش باغ بھی نواب آصف الدولہ نے بنوایا تھا ۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ نواب آصف الدولہ نے عیش باغ نواباشرف علی خان کو دے دیا تھا۔عیش باغ عہد شاہی میں ہی ختم ہو گیا تھا۔عیش باغ کے ایک حصّہ پر کربلا ملکہ آفاق واقع ہے۔ اس کربلا کو دروغہ میر عاشق علی نے تعمیر کروایا تھا جسکو بادشاہ محمد علی شاہ کی اہلیہ بیگم ملکہ جہاں نے میر عاشق علی کو پونے دو لاکھ روپئے ہدیہ دے کر حاصل کیا تھا۔ بیگم صاحبہ نے عیش باغ کے ایک حصّہ کا نام ’’چک حیدری‘‘ رکھا تھا جو کہ کربلا کی ملکیت تھا۔ بیگم صاحبہ کا انتقال ۱۸۴۹؁ء میں ہوا اور وہ اسی کربلا میں سُپرد خاک کی گئیں۔اب ناتو عیش باغ ہے اور ناہی چک حیدری۔عیش باغ کے ایک حصّہ پر رام لیلا کا میدان بھی ہے۔ یہ علاقہ عیش باغ کے نام سے مشہور ہے۔
الماس باغ: میاں الماس نواب آصف الدولہ کے وزیر تھے۔ انہوں نے بھی لکھنو سے کاکوری ملیح آباد جانے والی سڑک کے کنارےایک باغ بنوایا تھا جسکی چہار دیواری میلوں پھیلی ہوئی تھی جسکے چاروں کونوں پر چار عالیشان بُرج بھی تھے۔چہار دیواری کے اُپر کنگورے بنے ہوئے تھے ۔باغ میں داخلہ کے چار بڑے بڑے بھاٹک چاروں سمت تعمیر کئے گئے تھے جن پر مچھلیاں بنی ہوئی تھیں۔ باغ کے اندر ایک تالاب، بارہ دری اوررہائشی کوٹھی کے علاوہ ایک مسجد بھی تھی۔الماس علیخان کی محل سرا اور امام باڑہ سرائےمالی خان میں تھی جسکو اُنکے وارثان نے بیچ دیا اب سرف مسجد بچی ہے۔
بادشاہ غازی الدین حیدر کی اہلیہ بادشاہ بیگم اسی باغ میں افضل محل اور نواب رفیع الدین حیدر منّاجان کے ساتھ رہتی تھیں۔ بادشاہ بیگم نے اپنی حفاظت کے نام پر امام بخش کی کمان میں ۹۰۰ہتھیار بند سپاہیوں کا ایک دستہ بھی تیار کروایا تھا۔ اُنکے اس فوجی دستہ پر ریذیڈینٹ نے احتاج بھی کیا تھا۔ بادشاہ نصیر الدین حیدر کے انتقال کے بعد بادشاہ بیگم اپنی فوج کے ہمراہ الماس باغ سے برامد ہو کر کوٹھی فرح بخش پہنچیں۔ ادہر ریذیڈینٹ نے لال بارہ دری پر پہرا بیٹھا دیا۔تھوڑی دیر میں بادشاہ بیگم اپنی فوج کے ہمراہ لال بارہدری پہنچی انہوں نے دروازہ کھولنے کا حکم دیا کیپٹن جیمس پاٹن نے دروازہ کھولنے سے انکار کردیا۔بیگم کا حکم ملتے ہی اُنکے ایک فوجی نے ہاتھی کی مدد سے گیٹ توڑدیا اور بادشاہ بیگم منّا جن کے ہمراہ لال بارہ دری میں داخل ہو گئیں۔ انگریز فوجیوں نے مزاہمت کی کوشش کی مگر اُنکی ایک نہ چلی۔ الغرض بادشاہ بیگم نے نواب رفیع الدین حیدر کوتخت شاہی پر بیٹھا دیا۔اسکے بعد انگریزوں اور بیگم صاحبہ کے سپاہیوں کے بیچ خونریز جنگ شروع ہو گئی ۔ اس لڑائی میں بادشاہ بیگم کو شکست ہوئی ۔ بادشاہ بیگم، امام بخش اور منّاجان کو گرفتار کر کےبیلی گارد بھجوادیا گیا۔بیلی گارد میں پرمٹ کوٹھی میں تین ماہ قید میں رہنے کے بعد ان قیدیوں کو ۱۵؍اکتوبر ۱۸۳۷؁ء میں کانپورکے راستے چُنار گڑہ کے قلعہ میں قید کردیا گیا جہاں سے ان لوگوں کوموت کے بعد بھی رہائی نصیب نہ ہوئی۔ موت کے بعد انکو قلعہ چنار گڑہ میں ہی کسی کونے میں دفنا دیا گیا۔۱۱؍فروری ۱۸۴۶؁ء مین نواب رفیع الدین حیدر منّاجان کا انتقال ہوا اُس وقت اُنکی عمر پچیس سال تھی۔ انکے انتقال کے ایک سال بعد بادشاہ بیگم کا بھی انتقال فرما گئیں۔بادشاہ بیگم کے قید ہونے کے بعد الماس باغ کا تمام سامان لوٹ لیا گیا اور یوں یہ باغ ویران ہوگیا۔الماس باغ میں زمانہ دراز تک کھیتی ہو تی رہی اسکے بعد یہاں اینٹ گمّے کے بھٹّے قائم ہو گئے تھےاسکے باوجود اس باغ کے آثار ۱۹۸۰ء کی دہائی تک موجود تھے۔ اب تمام علاقہ میں مکانات تعمیر ہو چکے ہیں۔کہیں کہیں پر آثارقدیمہ آج بھی موجود ہیں۔
بادشاہ باغ:۱۸۱۴؁ء میںنواب سعادت علیخان کو دھوکےباز غاصب انگریزوں نےایک سازش کے تحت جب زہردیکر قتل کردیا تو اُنکی جگہ اُنکے بیٹےغازی الدین حیدر بہادر تخت شاہی پر جلوہ افروز ہوئے۔ صوبہ داری شاہی میں تبدیل ہو گئی۔ بادشاہ غازی الدین حیدر کے انتقال کے بعد ۱۸۲۷؁ء میں اُنکے بیٹے نصیر الدین حیدر تخت شاہی پر بیٹھے۔ انہوںنے چھتر منزل کے سامنے دریائے گومتی کے پار شاہی دیوان بختاور سنگھ کی نگرانی میں دس لاکھ راپئے کی لاگت سےاپنی بیگم ’’بادشاہ بیگم‘‘ کے نام سے ایک عالی شان باغ بنوایا جس میں ایک شاندار کوٹھی، بارہ دری اوربارہ دری کے سامنے خوبصوت نہر بھی تعمیر کی گئی تھی۔۱۸۵۷؁ء میں دوران غدر بادشاہ باغ پامال ہوگیا بادشاہی کوٹھی کا تمام قیمتی سامان نگریزوں نے لوٹ لیا۔ ۱۹۰۵ ؁ء میں بادشاہ باغ کی آراضی پر لکھنو یونی ورسٹی قائم ہوئی۔
سکندر باغ: لکھنو کا ’’بوٹینکل گارڈن‘‘ در اصل عہد شاہی کا سکندر باغ ہے۔ جسکو اودھ کے اخری تاجدار نواب واجد علی شاہ نے بنوایا تھا۔جو کہ اُنکی بیگم ’’سکندر بیگم‘‘ کے نام سے منصوب تھا۔موجودہ زمانہ میں آمام باڑہ شاہ نجف اور قدم رسولؐ سے ملحق’’ بوٹینکلگارڈن‘‘ اور اُسکے بعد سڑک اور سڑک کے اُس پارجو آثار قدیمہ ہیں در اصل سکندر باغ کا صدر دروازہ ہے۔ ان تمام آراضی کو ملا کر گومتی ندی کے ساحل تک یہ باغ پھیلا ہوا تھا۔بادشاہ واجد علی شاہ گرمیوں کا موسم اسی باغ میں گُزارتے تھے۔ اس باغ میں ایک عالی شان رہائشی عمارت تھی جسکے سامنے ایک بارہ دری اور نہر بھی تھی ۔
۱۸۵۷؁ میں سکندر باغ کا خوش نما ماحول میدان جنگ میں تبد یل ہوگیاجب ۱۴؍نومبر ۱۸۵۷؁ء کو انگریز جنرل ’’کالین کیمپ ویل‘‘ عالم باغ سے ہوتا ہوا دلکشا پہنچا اور وہاں سے اُسنے لکھنو میں داخل ہونے کے لئے سکندر باغ کو چنا۔کیونکہ اُسکی خبر ملی تھی کہ اس وقت سکندر باغ میں صرف دو ہزار سپاہی موجود ہیں۔۱۶؍نومبر کو کالین کیمپ ویل نے سکندر باغ پر حملہ کردیا۔ گھمسان کا رن پڑا۔ سکندر باغ کی فصیل سے بندوقیں چلنے لگیں۔ گر ّابون کی بوچھار نے انگریزوں کے قدم روک دئے۔ لیفٹینٹ ’’فرڈرک‘‘کہتا ہے کہ ’’انگریز فوجی گھنٹوں میںایک ایک انچ آگے بڑہ رہے تھے‘‘ ۔ کالین کیمپ ویل کا بیان ہے کہ’’ سکندر باغ کی دیوار کو توڑنے کے لئے کیپٹن ٹریورس کی کمان میں ایک بڑی توپ مگائی گئی اور سکندر باغ کی دیوار کو اُڑا دیا گیا‘‘۔ اسکے باوجود انگریزی فوج کو سکندر باغ کے مورچہ پر کامیابی نہیں مل رہی تھی۔کالین کیمپ ویل نے ’’برگیڈیر ایڈرسن ‘‘ کی گُھڑ سوار فوج کو حکم دیا کہ وہ قرب و جوار کے گائوں اور آبادیوں کو آگ لگا دے بستیوں میں لوٹ مار مچائےتا کہ ہندوستانی فوجیوں کو اُس طرف الجھایا جا سکے۔دیوار ٹوٹنے سے انگریزی فوج کو سکندر باغ میں گھسنے کا راستہ تو مل گیا تھا۔ مگر وہ گھس نہیں پارہے تھے۔دوسری طرف بستیوں میں لگی آگ سے عورتوں اور بچوں کو بچانے کے لئے ہندوستانی فوج کے کچھ جوان اس طرف بڑھے۔ جسکی وجہ سے مورچہ کمزور پڑگیا۔ اس طرح ۲۰۰۰ کی قلیل فوج کا دوطرفہ لڑنا آسان نہ تھا۔ تمام ہندوستانی فوجی اس خوں ریز جنگ میں شہید ہو گئے مگر قدم پیچھے نہ ہٹائے۔ سکندر باغ میں لاشوں کا انبار پانچ فٹ تھا۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔ جو ہندوستانی فوجی زخمی تھے اُن کو انگریزوں نے سنگینوں سے کونچ کونچ کر مار دیا۔ جب لاشیں سڑنے لگیں تو انگریزوں نے ایک بڑا گڑھا کھدوا کر اسمیں لاشوں کو پٹوا دیا۔
۱۹۰۳ ؁ء میں انگریزوی حکومت نے سکندر باغ کو ’’بوٹینکل گارڈین‘‘ قرار دیا جو کہ ٓج تک چلا آتا ہے۔آج بھی بُزرگ افراد اسکو سکندر باغ ہی کہتے ہیں۔انگریزوں نے جب ’’اوٹرم روڈ‘‘ نکالی تو سکندر باغ کا ایک حصّہ الگ ہو گیا۔ یہی اوٹرم روڈاب ’’اشوک مارگ‘‘ کہلاتی ہے
عالم باغ:نواب واجد علی شاہ جب سولہ سال کے ہوئے تو ۱۸۳۷؁ء میںاُنکی والدہ بیگم کشور جہاں صاحبہ نے اپنے بیٹے کی شادی نواب علیخان کی بھتیجی عالم آرا سے کردی۔۱۸۴۷؁ءمیں تخت شاہی پر بیٹھنے کے بعدبادشاہ واجد علی شاہ نے بڑے انہماک سےاپنی بیگم کے نام پر عالم باغ بنوایا۔جسکی تویل چہار دیواری کے بیچ انگریزی ترز تعمیر کے مطابق ایک عالی شان دومنزلہ رہائشی عمارت تعمیر ہوئی۔
۱۸۵۷؁ء کی جنگ آزادی میںجب ہندوستانی فوجیوں نے پیلی گارد کا محاصرہ کیا توانگریز بیلی گارد میں مقید ہوگئےشدید گولی باری میں ’’چیف کمشنر لارینس اور میجر بیکسن‘‘ مارے جا چکے تھے۔انگریزی فوج دھیرے دھیرے مقتول ہوتی چلی جارہی تھی۔ ایسے حالات میںانگریزوں کے وفادار ’’انگد‘‘ نامی ایک ہندوستانی مخبرنے ان مقید انگریزوں کی خبر کانپور میں ’’ہنری ہیولاک‘‘ کو پہنچادی ۔جنرل ہیولاک اورمیجر اؤٹرم کانپور سے چل کر ۲۳ ؍ستمبر کو عالم باغ پہنچے۔
ہندوستانی فوج کو لکھنو کی طرف بڑھتی ہوئے انگریز فوج کی خبر مل چکی تھی اسلئے ہندوستانی فوجویوں نے عالم باغ میں مورچہ سمبھال لیا۔کوٹھی عالم باغ فوجی چھائونی میں تبدیل ہو گئی۔ رہائشی کمرے گولہ بارودکے گودام بن گئے۔
یہنری ہیولاک نے عالم باغ پہنچتے ہی حملہ کردیا۔ دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگیں توپوں نے آگ اُگلنا شروع کردیا۔خون کی ندیاں بہنے لگیں ، لاشوں کے انبار لگ گئے۔ اس لڑائی میں بیگم حضرت محل ہاتھی پر سوار اپنےفوجیوں کی حوصلہ افزائی کر رہی تھیں۔بیگم حضرت محل کی رکاب میں راجہ سہج رام،خان علیخان، راجہ رام بخش، دوارکا داس، علی حسین خان اور وزیر خان جیسے جاں باز اپنے اپنے رسالوں کے ہمراہ جنگ میں مشغول تھے۔ اس لڑائی میں انگریزی فوج کے افسرکپتان مذرسن اور کرنل بارکلے مارے گئے۔ ہندوستانی فوج کا جوش و خروش دیکھ کر انگریزوں کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ عالم باغ کی جنگ ہار جائیں گے۔ انہوں نے ایک چال چلی جسکے تحت عالم باغ کے آس پاس کے تمام گائوں اور بستیوں کو آگ لگوادی۔عورتوں اور بچوں کی چیخ پکار سُن کر ہندوستانی فوجی اُنکی مدد کو دوڑ پڑے جسکا فائدہ اُٹھا کر انگریزی فوج عالم باغ میں گھس گئی۔ہندوساتی فوجی انگریزی چال میں پھنس کر عالم باغ کا مورچہ ہار گئے۔ اس لڑائی میں عالم باغ پوری طرح نیست و نابود ہوگیا۔ لکھنو سے کانپور جانے والی سڑک کنارے عالم باغ کا گیٹ آج بھی موجود ہے۔اب یہ علاقہ محلہ عالم باغ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قیصر باغ: قیصر باغ بھی اودھ کے آخری تاجدار نواب واجد علی شاہ نے ۱۸۴۷؁ء میں بنوانا شروع کیا اور ۱۸۵۶؁ء میں مکمل ہوا ۔ موجودہ قیصر باغ اور اسکی عمارتیں جو کہ تعلقہ داران اودھ کے قبضہ میں ہیں۔ عہد واجد علی شاہ کے قیصر باغ کا زنان خانہ ہے۔ موجودہ قیصر باغ کے بیچ سفید بارہ دری در اصل نواب واجد علی شاہ کا بنوایا ہوا امام باڑہ ہے جسکا نام ’’قصر العزا‘‘ تھا۔ جسمیں دوران محرم ماتم مجلس ہوتی تھی۔ ۱۸۵۸؁ء میں اس عمارت پر انگریزوں کا قبضہ ہونے کے بعد سےیہ عمارت ’’برٹش انڈیا یسو سیشن آف اودھ‘‘ کے قبضہ میں چلی آرہی ہے۔
موجودہ دور کے قیصر باغ کے مشرقی اور مغربی سمت جو دو بڑے گیٹ موجود ہیں ان کو لکھی دروازہ کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی تعمیر میں لاکھ راپئے خرچ ہوئے تھے۔ اب بُلند و بالا پھاٹک میں تین در ہیں بیچ کا در اہلوپہلو کے دروں سے بُلند ہے اس کے اوپر چار برج بنے ہیں اور بیچ میں سیڑھی دار چوپڑ بنی ہے جو اس دروازے کے حُسن کو دوبالاکرتی ہے ۔ اسکے اُپر سنہری گنبد اور چھتر تھا جس پر سلطنت اودھ کا پرچم لہراتا تھا۔ دونوں لکھی دروازوں کے اہلو پہلو کے دروں پر ناجائز قبضہ ہو گیا ہےبیچ کے در سے عوامی آمد و رفت جاری ہے۔موجودہ ’’بھات کھنڈےناٹیہ کلا کیندر‘‘ کی عمارت پری خانہ کے نام سے موسوم تھی۔
عبدالحلیم شرؔرلکھنو ی نے اپنی کتاب ’’گُزشتہ لکھنو‘‘ میں قیصر باغ کاآنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ’’ بادشاہ کو عمارتوں کا بے حد شوق تھا۔ اسلئے تخت نشیں ہوتے ہی قیصر باغ کی عمارت بنوانا شروع کردی……… اس میں بہت سی خوش نما اور باشان و شوکت دو منزلی عمارتوں کا ایک مربع میل رقبہ دور تک چلا گیا ہے جس کا ایک رخ جو دریا کی جانب تھا غدر کے بعد کھودڈالاگیا۔ اور تین ضلعے اب تک قائم ہیں۔ جن کو مختلف قطعات پر بانٹ کر گورنمنٹ نے تعلقہ داران اودھ کے حوالے کردیاہے اور حکم دیا ہے کہ ان میں رہیں اور ان کو اسی وضع میں قائم و برقرار رکھیں۔
قیصر باغ کا اندرونی صحن جس میں چمن بندی تھی ’’جلوخانہ‘‘ کہلاتا تھا درمیان میں بارہ دری تھی جو آج کل کا’’ٹاوٗن ہال‘‘ ہے۔ اس سے متصل ہی بہت سی شاہی عمارتیں تھیں جنھوں نے اس قطعہ زمین کو اعجوبہ روزگار بنا دیا ہے۔ یہ عمارتیں قیصرباغ کے مشرقی بھاٹک کے باہر تھیں۔لوگوں کو اس پھاٹک سے نکلتے ہی دونوں جانب چوبی اسکرینیں ملتی تھیں جن میں سے گُزر کے وہ چینی باغ میں پہنچتے ۔ وہاں سے بائیں ہاتھ کی طرف مُڑ کر آپ جل پریوں کے ایک عالی شان بھاٹک پر پہنچتےہیں۔ جس پر مدارالمہام سلطنت نواب علی نقی خان کا قیام رہتا تھاتا کہ ہر وقت جہاں پناہ سے قریب رہیں اور بہ وقت ضرورت فوراً بلا لیئے جا سکیں۔ اس پھاٹک کے اُس طرف حضرت باغ تھا اور اندرہی داہنی طرف چاندی والی بارہ دری تھی۔ یہ ایک معمولی اینٹ چونے کی عمارت تھی۔ مگر چھت میں چاندی کے پتّر جڑے ہونے کی وجہ سے چاندی والی بارہ دری کہلاتی تھی۔ اسی سے ملحق کوٹھی خاص مقام تھی جس میں خود جہاں پناہ دہتے تھےاور وہیں نواب سعادت علی خان کی بنائی ہوئی پرانی کوٹھی بادشاہ منزل تھی۔ پھر ان چوبی اسکرینوں کے گلیارے سے نکل کر دوسری طرف مڑیے تو پیچیدہ عمارتوں کا ایک سلسلہ دور تک چلا گیا تھا۔ جو چولکھی کے نام سے مشہور تھیں۔ ان عمارتوں کا بانی عظیم اللہ تھا۔ جنھیں بادشاہ نے چار لاکھ روپئے میں مول لیا تھا۔ نواب خاص محل اور معزز محلات عالیات اس میں رہتی تھیں۔ اسی کے اندر غدر کے زمانہ میں بیگم حضرت محل کا قیام رہا اور وہیں ان کا دربار ہوا کرتا تھا………..قیصر باغ کے مغربی پھاٹک کے باہر روشن الدولہ کی کوٹھی تھی۔ اسے واجد علی شاہ نے ضبط کر کے اسکا نام قیصر پسند رکھ دیا تھا……….. اب اس میں صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی عدالت ہے‘‘۔
۳۱؍ مارچ ۱۸۵۸؁ء میں قیصر باغ ڑائی کے میدان میں تبدیل ہوگیا۔ انگریزی فوجیں بیلی گارد سے نکل کر قیصر باغ کی طرف بڑھیں۔ دوسری طرف چارباغ میں موجود انگریزی فوج ا مین آباد ہوتی ہوئی قیصرباغ کی طرف بڑھیں۔ ۱۴؍مارچ کو گوری پلٹن امام باڑہ سبطین آباد میں داخل ہوئیں۔ امام باڑہ میں پناہ لئےبے گناہ اور کمزور افراد کو انگریزی فوجیوں نے سنگینوں سے گود گود کر مار دیا۔ اسکے بعد انگریز بشیر الدولہ کے مکان میں داخل ہو گئے اور وہاں سے سیدھے قیصر باغ کے دروازے پر پہنچ کردروازہ توڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ گھمسان کا رن پڑا ہزاروں لاشیں ڈھیر ہو گئیں۔ ہندوستانی فوج پر سکھ اور گورکھا رجمنٹ جو انگریزوں کی مدد کو آئی تھی نے حملہ کردیا ۔ تمام ہندوستانی فوہی ہلاک ہوگئے۔ پھاٹک توڑ دیا گیا انگریز قیصر باغ میں داخل ہو گئے۔ دوسری طرف جنرل ائوٹرم کو ٹھی مارٹین میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر رہا تھا کہ اسکو خبر ملی کہ میجر ہڈسن دو کمپنی انگریزی فوج لے کر دلکشا سےپہلے دیوار رمنا توڈ کر کوٹھی حیات بخش میں داخل ہوتا ہوا وہاں سے میر فودا حسین کےمکان سے ہو کرقیصر باغ تک پہنچ چکا ہے۔ قیصر باغ بھاتک کو کلہاڑیوں سے توڑ کر انگریز اندر گھس گئے ہیں اور بارہ دری میں لوٹ مار جاری ہے۔
قیصر باغ میں انگریزوں کی لوٹ مار جاری تھی کہ خان علیخان اسی وقت کئی ہزار فوجیوں کے ہمراہ قیصر باغ میں داخل ہوئے اور انگریزوں پر ٹوٹ پڑےانگریز گھبرا کر بھاگے اور سنگی بارہ دری کے پیچھے چھپ گئے۔ ادھر جنگ بہادر تھاپا کی نیپالی فوج نے خان صاحب کی فوج پر گولیاں برسانا شروع کردیں۔ سیکڑوں فوجی گولی کا نشانہ بن کر ہلاکہوگئے۔ انگریز بھی بارہ دری کی اوٹ سے نکل ائے اور گولیاں برسانے لگے۔اس طرح انگریزوں نے قیصر باغ پر قبضہ کر لیا۔ قیصر باغ میں ہر طرف لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے راستہ خوان سے لل تھی قیصر باغ کا کوئی بھی درخت ایسا نہ تھا جسکے پتّے خون سے لال نہ ہوگئے ہوں۔
یہ تمام باغات اب ختم ہو چکے ہیں
اب انکی جگہ انکے نام سے محلّہ آباد ہیں
9839480898

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular