Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldلکھنؤ جو کبھی تھا اردو ادب کا گہوارہ

لکھنؤ جو کبھی تھا اردو ادب کا گہوارہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ  سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

 

ڈاکٹر محمدظفر حیدری

سر زمینِ لکھنؤ کو بر صغیرِ ہند میں یہ امتیازی شان حاصل ہے کہ اسے اردو ادب کا گہوارہ کہا گیا ہے۔ اس کی گود میں بے شمار مسلم اور غیر مسلم شاعر، ادیب اور صحافی پروان چڑھے۔ یہاں اگر ایک طرف میرؔ، سوداؔ، میر حسن، انیسؔ، ناسخؔ، آتشؔ، سرورؔ اور جوشؔ وغیرہ نے زمینِ اردو کو آسمان بنادیا تو دوسری جانب نسیمؔ، سرشارؔ، چکبستؔ، نگمؔ، شاکرؔ، افقؔ، نظرؔ اور ملا ؔوغیرہ نے اس زبان کو سینے سے لگا کر وہ بے مثال کارنامے انجام دئے جو ہمیشہ دنیائے ادب میں یادگار رہیں گے۔ ان حضرات نے بلا تفریق مذہب و ملت اور تعصب و امتیاز کے اردو گنگا جمنی تہذیب کو اپنے کاوش افکار سے اس بلندی پر پہنچایا جس پر اردو دنیا بجا طور فخر کر سکتی ہے۔ لکھنؤ ہی ایسا خطۂ زمین ہے جہاں سے اردو حقیقی معنوں میں بر صغیر میں پھلی پھولی اور ترقی کی منزلیں طے کرتی گئی۔ مثل مشہور ہے کہ ’’ہر کمالے را زوال‘‘ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آزاد ہندوستان میں جہاں علاقائی زبانیں ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں اب اسی ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالخلافہ میں اردو کا چراغ بادِ مخالف کے جھونکوں سے گل ہو رہا ہے اور روز بروز زوال پذیری کی آماجگاہ میں دم توڑ رہی ہے۔ راقم حروف نے لکھنؤ میں دو ماہ کے قیام کے دوران اردو کے زوال کے اسباب کا کھوج لگایا جو پیشِ خدمت ہے۔
لکھنؤ میں اُردو کی زوال پذیری کا اہم سبب ریاست کے حکمران اردو مخالف پالیسی ہے۔ چونکہ پرائمری سے لے کر ہائی اسکول تک اردو کی تعلیم کا مناسب انتظام نہیں ہے اس لئے خاص کر نئی نسل اردو سے بہت کم واقف ہے۔ لکھنؤ کی کم و بیش اسی (۸۰) فیصد آبادی کی مادری زبان اردو ہے۔ حکومت محض تعصب کی وجہ سے یہاں کے لوگوں پر ہندی مسلط کرنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ آئینی طور پر حکومت کا یہ طرزِ عمل اردو اور صرف اردو کے ساتھ غیر منصفانہ ہے۔
ہندی میں مذہبی کتابوں کی اشاعت بھی اردو کی تنزلی کا ایک اور سبب ہے۔ کثیر تعداد میں ہندی میں قرآنِ مجید، احادیث رسولؐ، نہج البلاغہ، دینیات، دعائوں کے مجموعے، نوحے، مرثیے اور دیگر مذہبی کتابیں بغیر کسی روک ٹوک کے شائع ہو رہی ہیں۔ ہندی کتابوں کی اثرپذیری کا دائرہ اس قدر وسیع ہوتا رہا ہے کہ اہلِ لکھنو اردو سے چشم پوشی کر کے ہندی کی طرف دیدہ و دانستہ متوجہ ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں مسجدوں، خانقاہوں، درگاہوں، عزاخانوں اور مقبروں میں ہندی کے اشتہارات، پوسٹر، کلینڈر، بینر وغیرہ اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ یہاں کے لوگ اردو سے کس قدر نا آشنا ہو رہے ہیں۔ایک وقت آئے گا جب کفن پر شہادت نامہ بھی اردو کئے بجائے، ہندی یا انگریزی میں لکھا جائے گا اور نام نہاد ملّا کہیں گے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ’’ایشور ‘‘اور ’’گاڈ‘‘ اللہ ہی کو تو کہا جاتا ہے۔اور اگر ایسا شروع ہوگیا ہے تو قارئین سے گذارش ہے کہ ہمیں بھی مطلع کریں تاکہ ہماری حقیر معلومات میں بھی اضافہ ہوجائے۔
اردو کو چھوڑ کر ہندی یا انگریزی اختیار کرنا یہاں مجبوری بھی اور فیشن بھی بن گیا ہے۔ جہاں تک مجبوری کا سوال ہے تو اس میں محکمۂ تعلیم کی اردو مخالف پالیسی کا بڑا دخل ہے۔ چونکہ اردو تعلیم کا خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے اس لئے طلبأ مجبوراً دوسری زبانوں کو اختیار کرتے ہیں۔ جہاں تک فیشن کا تعلق ہے تو والدین اپنے بچوں کو اردو اور عربی چھوڑ کر انگریزی پڑھوانے میں اپنی شان سمجھتے ہیں۔ ایک مولوی کی مہانہ فیس سو دو سو روپے کے لئے ہزار بہانے تراشیں گے ،لیکن ٹیوشن، کوچنگ وغیرہ پر ہزاروں روپے شان سے خرچ کریں گے۔ ایک مولوی صاحب سے ہم نے کہا کہ ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ آپ اُس ’’اونچے اور ماڈرن‘‘ گھرانے میںپڑھانے جاتے ہیں۔انہوں نے بے ساختہ کہا کہ آپ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔میں وہاں اردو یا عربی پڑھانے نہیںبلکہ انگریزی پڑھانے جاتا ہوں۔کیا کروں میرا بھی تو عیال ہے ، مجھے بھی تو جینا ہے؟ہمیں اپنے حکیم صاحب یاد آگئے جو عرصۂ دراز سے دیسی علاج و معالجہ کرتے تھے ،لیکن اب اپنے مطب پر انگریزی دوایاں فروخت کرتے ہیں! بے شک انگریز چلے گئے لیکن انگریزی اور انگریزیت یہاں چھوڑ گئے۔
زبانِ لکھنؤ جس کا شرف اردو ہی کو حاصل ہے اب روز بروز مکدر ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں آج کل مشکل ہی سے کوئی گھر ایسا نظر آئے گا جہاں صاف و شفاف اور کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی اردو بولی جاتی ہو۔ اردو لکھنے پڑھنے کا رواج اب مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ روز مرہ اردو بول چال میں کثیر تعداد میں غیر اردو الفاظ بلا ضرورت استعمال کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آنتک، بھیشن، پر مپرا، سہمت، نِسچِنت، چِنتا، سمبھاؤتا، سہایتا، نردیش، نربھر، مدا، سندیش، شبد وغیرہ عام طور پر بولے اور لکھے جاتے ہیں۔ ان سے زیادہ غیر مانوس اور مشکل الفاظ صحافی، مقررین، علمأ اور ذاکرین برسر منبر روزمرہ استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ ہماری مادری زبان اردو عصبیت کا شکار ہو رہی ہے اور ہماری نئی نسلوں کی تہذیب کا کیا حشر ہوگا۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تو دو مولانائوں نے تو مجلسوں میں اردو کا بیڑا ہی غرق کر دیا ہے۔ایک مولانا تو بے تحاشہ ہندی الفاظ کا استعمال کر کے اردو کو آلودہ کر رہے ہیں اوردوسرے مولانا کو تو انگریزی الفاظ کے استعمال کا ایسا چسکہ لگ گیا ہے کہ بیچارے ضعیف اور کم پڑھے لکھے منہ تکتے رہتے ہیں۔ایسی مجالس سے نہ تو یہ حضرات اردو کی کوئی خدمت کر رہے ہیں نہ ہی ہندی یا انگریزی کی!
حال ہی میں آکاش وانی لکھنؤ سے نشر ہونے والے اردو پروگرام میں ایک بات چیت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کا موضوع ’’معاشرے کے سدھار میں استاد کا رول‘‘ تھا۔ بات چیت عابدی صاحب اور صدیقی صاحب کے درمیان ہو رہی تھی۔ یوں تو پروگرام خالص اُردو میں تھا۔ لیکن انگریزی اور ہندی کے الفاظ بلا روک ٹوک اور بغیر ترجمہ کے کثرت سے استعمال کئے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ اُردو روزمرہ بول چال سے فروغ پا رہی ہے۔ اور الکٹرانک میڈیا (یعنی فلم، ریڈیو اور ٹیلی ویژن) میں زیادہ جگہ پا رہی ہے۔ لیکن آکاش وانی لکھنؤ اور دور درشن لکھنؤ کے اُردو پروگراموں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُردو کے ساتھ بہت زیادتی اور سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا جا رہا ہے۔ آکاش وانی لکھنؤ کے دن بھر کی نشریات میں سے اُردو پروگرام کو فقط پندرہ بیس منٹ دئے جاتے ہیں جو انگریزی اور اردو خبروں کے بیچ کا وقفہ ہے۔ یہی حال لکھنؤ کے دور درشن کا بھی ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن اردو کی گرتی ہوئی دیوار کی تعمیر و ترقی کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے بشرطیکہ اُردو کے قواعد و ضوابط اور ان سارے لوازمات کا پورا خیال رکھا جائے جس سے اُردو اپنی کھوئی ہوئی ساخت اور مقام حاصل کر سکے۔
جہاں تک پرنٹ میڈیا (اخبارات و رسائل) کا تعلق ہے تو اُردوکو ایک نئی سمت حاصل ہونے لگی ہے۔ کسی زمانے میں لکھنؤ میں مشہور و معروف اخبار شائع ہوتے تھے۔ ان میں اودھ پنچ، اودھ اخبار، آزادؔ، ریاض الاخبار، ہمدرد، حقیقت، سرفراز، صدق جدید، سچ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔بیچ میں ایک ایسا وقفہ آیا کہ لکھنؤ سے چند ہی گنے چنے اردو روزنامے شائع ہو تے تھے اور اکادکا ہفت روزہ بھی۔قومی آواز کا دبدبہ برسوں تک لکھنؤ کے اردو صحافت پر رہا ۔ اس کے بند ہوتے ہی شہرِ لکھنو سے ہی متعدد اردو اخبارات شائع ہونے لگے ہیں جن میں اودھ نامہ،آگ، انقلاب، صحافت، راشٹریہ سہارا، ان دنوں ،قومی تنظیم ، امن نامہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ چونکہ اردو قارئین کی تعداد بہت کم ہے اس لئے ان اخباروں کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو دیگر زبان یعنی ہندی اور انگریزی اخباروں کو حاصل ہے۔ یہ بھی لکھنؤ میں اُردو کے زوال کا ایک اہم سبب ہے۔
برسوں پہلے اردو ہے کے بارے میں داغؔ دہلوی نے کہا تھا:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو کی دھوم سارے جہاں میں ابھی بھی ہے لیکن صرف بول چال کی حد تک۔ لیکن اگر صحیح معنوں میں اردو کوبچانا ہے تو بولے کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کو بھی ترجیح دی جائے۔ لہٰذا اردو رسم الخط کو بھی بچانا ہے۔ جو لوگ اردو کو دوسری زبانوں کے رسم الخط میں پڑھتے ہیں وہ دراصل اردو کی ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔کوئی کسی زبان کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر کسی دوسری زبان کو ترجیح دی جائے، یہ کہاں کی دانشمندی ہے؟
اردو قارئین کی کمی کے کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو اُردو پڑھنے کا ذوق ہے جو اب اہلِ لکھنؤ اور خاص کر مسلمانوں میں باقی نہیں رہا ہے۔ یہاںکا ہر فرد سیکڑوں روپے کی فضول خرچی کر سکتا ہے، لیکن ایک یا ڈیڑھ روپے کا اُردو اخبار روزانہ نہیں خرید کر پڑھ سکتا۔ لکھنؤ میں اُردو پڑھنے والے اب بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن ہندی یا انگریزی اخبار بینی یہاں کے قارئین کی عادت سی ہو گئی ہے۔ لکھنؤ میں مسلم آبادی تقریباً دس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اگر فقط ایک چوتھائی آبادی ہی اردو اخبارات کا روزانہ مطالعہ کرے تو اردو کو فروغ بھی حاصل ہو سکتا ہے اور اردو اخباروں کا مستقبل بھی درخشاں ہو سکتا ہے۔
اردو کی موجودہ زوال پذیری کو دیکھتے ہوئے اب کچھ لو گ سامنے آرہے ہیںجن میں اودھ نامہ کے چیف ایڈیٹر وقار رضوی اور ڈاکٹر منصور حسن خان صاحب قابلِ ذکر ہیں۔ حال ہی میں ایک تقریب پر وقار رضوی نے اسکولوں میں اردو پڑھانے پر زور دیا تھا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کی کچھ انگریزی میڈیم اسکولوں میں یہ کام شروع بھی ہو گیا ہے جن میں لاماٹینیر اسکول قابلِ ذکر ہے۔دوسری جانب منصور حسن خان صاحب نے بھی اردو کی ترقی اور فروغ کے لئے ایک مہیم چھیڑد ی ہے جس میں گھر گھر جا کر لوگوں سے اردو اخبارات و رسائل خریدنے کی گذارش کی جائے گی۔ موصوف نے اس سلسلے میں ایک پُر وقار تقریب کا بھی انعقاد کیا جس میں راقم الحروف کو بھی دعوت دی گئی تھی۔یہ نہایت ہی خوش آیند بات ہے کہ اب بعض لوگ سنجیدگی سے اردو کی ترقی و فروغ کے لئے کمر بستہ ہیں۔ ع
مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجئے
(9596267110)

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular