Wednesday, May 8, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldقومی یکجہتی میں اردو کا حصہ

قومی یکجہتی میں اردو کا حصہ

ڈاکٹر شمیم نکہت

اردو زبان قومی یکجہتی یعنی ایکتا کی زبان ہے ،بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس کا وجود ہی قومی ایکتا سے ہوا ہے۔مختلف زبانوں کے الفاظ جن میں غیر ملکی زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہیں۔جب کھڑی بولی میں شامل ہوئے تو ایک نئی زبان کا وجود ہوا جسے ہندوستانی اور ہندی کا نام دیا گیا ۔ یہی زبان بعد میں اردو کہلائی جسے ہندوستان کے مختلف مذاہب کے لوگوں نے اپنایا ۔ہندوستان کی مختلف سوچ میں اس کی پرورش ہوئی ۔یہ زبان کسی ایک مذہب کی زبان نہیں کہی جاسکتی ۔ہاں اگر اس کو کوئی نام دیا جاسکتا ہے تو صرف محبت کی زبان کہا جاسکتا ہے جس میں نانک اور چشتی نے محبت کے گیت گائے ہیں جس نے ہر ایک سے محبت کرنا سکھایا رواداری اور دوسروں کے جذبات کا احترام سکھایا ۔
سر تیج بہادر سپرو نے کہا تھا اردو مشترکہ تہذیب کا سب سے بڑا سرمایہ ہے یعنی ہماری سنسکرتی کی ساجھی دولت ہے۔اور یہی ساجھی دولت ملک کے تقسیم ہوتے ہی بعض سیاسی کرتب بازوں کو اکھرنے لگی وہ اپنے مقصد کے لئے کبھی اسے مسلمانوں کی زباں کبھی غیر ملکی زبان کا نام دینے لگے ،کبھی اس کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے گئے تو کبھی ملک سے نکالنے کو ۔یہ کتنے غضب کی بات ہے کہ ہم اپنے اتنے بڑے تہذیبی سرمایہ کو، اتنی بڑی قومی دولت کو جس سے حرف حرف لے کر ہمارے بزرگوں نے اپنا بنایا ہم خود مٹانے کی بات کرنے لگے۔
اردو مسلمانوں کی زبان کیسے ہو سکتی ہے ۔ہر ملک میں اپنی زبان بولی جاتی ہے کلمہ عربی میں لکھا ہوتا ہے۔ جسے پڑھ کر مسلمان اپنے کو مسلمان کہتے ہیں ۔مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن شریف ،عربی میں ہے۔پر ہمارے ملک کے ہر صوبے کا مسلمان اپنے صوبے کی زبان بولتا ہے ۔بنگال کا مسلمان بنگالی، مدراس کا مسلمان تمل، کیرل کا مسلمان ملیالی، یہاں تک کہ کشمیر کا مسلمان کشمیری بولتا ہے۔پھر اس پر مذہب کا ہونے کا الزام کتنا غلط ہے۔
اردو میں قومی ایکتا کے بہت سے روپ نظر آتے ہیں۔جن مین ایک روپ سنتوں اور صوفیوں کی صوفیانہ شاعری کاہے ۔ان صوفیوں سنتوں نے اپنی شاعری میں وسیع انسانیت کا تصور پیش کیا ہے ۔اور اس بات پر زور دیا ہے کہ خدا کی عبادت در اصل انسان سے محبت اور عشق کے جذبات کا احترام ہے۔ اگر خدا تک پہونچنا ہو تو اسے مندر یا مسجد میں تلاش نہ کرو، اسے انسانوں کے دل میں دیکھو وہی اس کی جگہ ہے ۔اردو کے مشہور شاعر’سودا‘ نے کہا ہے
کاسہ اگر چہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
اس ایکتا یا یکجہتی کا دوسرا روپ اس ہندوستانی وراثت میں ملتا ہے جہاں مسلمان شاعروں اورادیبوں نے ہندوستانی رسم و رواج ،ہندو دیو مالا اور ہندو تعلیمات کو پیش کیا ہے ۔جس کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتاہے کہ ان کے یہاں ہندو دھرم، ہندو دیو مالا اور مقدس کتابوں کا کتنا احترام اور عقیدہ ہے ۔انھوں نے کس طرح ہندو دیو تائوں ،اوتاروں اور مقدس ہستیوں کو خراج عقید ت پیش کیا ہے۔
اسی طرح ہندو شاعروں نے مسلمانوں کے پیغمبروں اور رہنمائوں کے بارے میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے جن کے اظہار کا ذریعہ یہی اردو زبان ہے جو قومی یکجہتی کی علم بردار ہے اسی زبان کے ذریعہ ہمارے سامنے ہندوستان کی وہ گنگا جمنی تہذیب دمکتی ہے جسے دیکھ کر آج بھی دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔
اردو زبان کی انسان دوستی ،حب الوطنی،محبت کا پیغام ،پیار کی مٹھاس، تہذیب، بلا تفریق مذہب سب کے گلے لگ جانا ہی اس کی قومی یکجہتی کی دلیل ہے ۔ویسے تو اردو میں انگنت مثالیں ہیں لیکن یہاں چند مثالوں پر ہی اپنی بات ختم کروں گی۔
قلی قطب شاہ کو کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر مانا جاتا ہے ۔ان کے کلام سے لے کر دور جدید کے کسی بھی شاعر کا کلام ،بیان،دوستی،محبت ہندوستانی اثر سے خالی نہیں ملے گا۔قُلی قطب شاہ کی شاعری میں پیا، سہیلی،برہا، مدن موہن، سجن، سودھن، جیسے لفظ بار بار آتے ہیں ۔اور ان کے یہاں اظہار عشق بھی عورت کی زبان سے ہوتا ہے جو ہندوستانی تہذیب کی دین ہے ۔
قلی قطب شاہ کہتے ہیں:
پیا باج پیالا پیا جائے نا
پیا باج یک تل جیا جائے نا
ولی دکنی کے یہاں بھی ہندو دیو مالا اور ہندو اوتاروں کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ان کے یہاں بھی وید ،ارجن،کشن بانسری، رام اور دیو رتی کا بار بار ذکر آتاہے۔
شاعر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
ہر ایک ناقوس سے آتی ہے آواز
کہ ہے پرکٹ وہ ہر ہر کے گھٹ میں
یہاں بات صرف شاعر کے یہاںرام، کرشن ،ہری کے نام آجانے کی نہیں ہے بلکہ اس عقیدت اور شردھا، کی ہے جو اس شاعر کا مزاج ہے۔بالکل اسی طرح ہندو شاعروں نے عقیدت و احترام کے ساتھ نعت و منقبت بھی لکھی ہیں۔
نظیر اکبرآبادی کا نام قومی یکجہتی کی شاعری میں بہت اہم ہے۔انھوں نے ہندو اوتاروں ،تیوہاروں۔ میلے۔ ٹھیلوں کا بڑے جوش سے ذکر کیا ہے۔ہولی ،دیوالی،راکھی،کنہیا جی کا راس، مہادیو جی کا بیاہ، بلدیو جی کا میلا، وغیرہ ایسی خوبصورت اور اچھی نظمیں لکھیں ہے کہ پڑھنے والا بھی عقیدت سے سر جھکا دے۔تو گرو نانک کی شان میں لکھتے ہیں:۔
ہیں کہتے نانک شاہ جنھیں وہ پورے ہیں آگاہ گرو
وہ کامل رہبر جگ میں ہیں یوں روشن جیسے ماہ گرو
اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو
سب سیس نوا ارداس کرو اورہر دم بولو واہ گرو
اقبال جن کو سیاست نے مسلمانوں اور پاکستان کا شاعر بنا دیا ہے انھیں کا ترانہ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ ہندوستان کے بچے بچے کی زبان پر رہتا ہے۔
وہ قومی محبت رواداری اور انسان دوستی اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیے۔
’’ہر صبح اٹھ کے گائیںمنتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پجاریوں کو مئے پیت کی پلا دے
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے۔‘‘
اس بندکے آخری مصرعوںنے تو ساری انسانیت کو ایک ڈور میں باندھ دینے کی بات کہہ دی ہے۔اقبال نے رام چند ر جی ،سوامی رام تیرتھ، اور گرو نانک جی پر بھی بہت اچھی نظمیں لکھی ہیں۔
مولانا حسرت موہانی بہت بڑے کرشن بھگتوں میں تھے۔وہ کرشن جی کے پیغام کو پیغام حیات کہتے تھے۔
متھرا ہے کہ نگر ہے عاشقی کا
دم بھرتی ہے عاشقی اسی کا
پیغام حیات جاودان کا
ہر پیغام ہے کرشن بانسری کا
’’گوکل ڈھونڈھا،برنداوندھونڈابرسانے لگ گھوم کے آئی
تن من دھن سب وار کے حسرتؔ ،متھرا نگر چل دھونی رمائی‘‘
نظموں کے علاوہ بھی ،اردو کی ہر صنف میں چاہے وہ غزل ہو، چاہے رباعی ،یا قصیدہ، ہندوستانی تہذیب و روایت کی بے مثٖال تصویریں ملتی ہیں۔
پنڈت برج نرائن چکبست نے آصف الدولہ کے امام باڑے اور لکھنؤ کے محرم پر اشعار لکھے ہیں۔ نانک لکھنوی کا نام اچھے لکھنے والوں میںہے۔پنڈت لبھورام جوش ملسیانی نے ایسی نظمیں لکھی ہیں کہ اگر نام نہ بتایا جائے تو یہ کہنا مشکل ہوگا کہ یہ کسی غیر مسلم کا کلام ہے ۔اسی طرح ترلوک چند محروم، پنڈت آنند نارائن ،ڈاکٹر منوہر سہائے، انور، جگناتھ آزاد ، وغیرہ کے کلام میں سیکڑوں ایسے اشعار ملیں گے جو مذہبی رواداری اور انسانی دوستی کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔
کنور مہیندر سنگھ بیدی نے صرف حضرت محمد مصطفیٰؐ ،حضرت علی، امام حسینؑ کی عقیدت میں کئی اشعار لکھے ہیں ۔بلکہ ان کی پوری شاعری ایکتا کی علامت نظر آتی ہے ۔کرشن سہائے، چندر پرکاش، جوہربجنوری، نانک چندرعشرت ، گنگا دھر ناتھ، فرحت،کنور سورج نارائن ادب سیتا پوری ،عرش ملسیانی، کے اشعار اردو ادب کی تاریخ کا حصہ ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کہ اردو کا کوئی شاعر یا ادیب ایسا نہیں ہے جس کے کلام میں قومی ایکتا رواداری،محبت اور انسان دوستی کااثر نہ ہو یہ زبان رواداری اور محبت کی ایسی زبان ہے کہ جس کے آئینہ میں ہندو ہندو نہ نظر آئے اور نہ مسلمان مسلمان نظر آئے۔یہ صرف اردو ادب اور اردو زبان کی دین ہے۔
مہابھارت اور گیتا کے اردو ترجمے پڑھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ترجمے خواجہ دل محمد خلیفہ عبدالحمیداور محمد اجمل خان نے کئے ہیں ۔اردو شاعری میں صرف مذہبی کتابوں کے ترجمے یا رہنمائوں سے عقیدت کا اظہار ہی قومی یکجہتی کی مثال نہیں ہے بلکہ در اصل اردو ادب کی روح ہی رواداری محبت اور دوسروں کے جذبات کااحترام ہے۔ اردو کی کسی طرح کی شاعری آپ پڑھیں، غزل ہو یا نظمیں، عشقیہ شاعری ہو یا صوفیانہ شاعری ہو ہر جگہ ہندوستان کی صورت میں یہ سارے روپ آپ کو ملیں گے۔غزل کا یہ شعر دیکھئے
کون توڑے بت کو ،توڑے برہمن کے دل کو کون
اینٹ کی خاطر،کوئی کافر ہی مسجد ڈھائے گا
کس کو کہتے ہیں نہیں میں جانتا اسلام و کفر
مندر ہویا کعبہ مطلب سجدے سے تیرے در سے ہے

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular