Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldقلندرانہ صفات کے حامل مولانامحمد جہانگیر عالم قاسمی

قلندرانہ صفات کے حامل مولانامحمد جہانگیر عالم قاسمی

ڈاکٹر ہارون رشید
کبھی کبھی کوئی شخصیت اور ادارہ ایک دوسرے کے لئے ایسے مترادف بن جاتے ہیں کہ ایک کا نام اگرذہن میں آئے تو دوسرے کا نام خود کار طریقہ سے اپنی تمامتر خصوصیات کے ساتھ ذہن کے نقشہ پر ابھر آتا ہے۔ایسی ہی ایک شخصیت مسجد قریش ،چکمنڈی مولوی گنج  لکھنؤ کے امام اور خطیب مولانا محمد جہانگیر عالم قاسمی ہیں اور ایسا ہی ایک ادارہ انجمن فلاح دارین(فلاحی بیت المال) ہے۔دونوں ایک  دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیںکہ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور محال سا ہو گیا ہے۔
میں نے مولانا محمد جہانگیر عالم قاسمی کو پہلی مرتبہ قریب سے تب دیکھا جب ان کے ہی ادارے کے دفتر واقع نزدمسجد کریم شاہ چکمنڈی میں ایک امداد کی تقسیم پروگرام میں مجھے مدعو کیا گیا۔وہ امداد پانے والوں کے ساتھ ساتھ حاضرین سے بھی خطاب کر رہے تھے۔’’اللہ رب العزت کی طرف سے امت مسلمہ کے ہر عاقل بالغ (صاحب نصاب)مرد و عورت پر زکوۃ فرض ہے۔ قرآن میںزکوۃ نہ ادا کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اے پییغمبر!(ﷺ)جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اس کی زکوٰۃ واجبہ ادا نہیں کرتے ان کو دردناک عذاب کی بشارت سنا دیجئے کہ ان کے سونے چاندی کو جہنم میں تپا کر ان کی دونوں کروٹیں،پیشانی،اور پیٹھ داغی جائے گی۔ فرمان رسول ہے کہ جس مسلمان مرد یا عورت کو اللہ نے مال بقدر نصاب دیا ہو اور وہ اس کی زکوۃ نہ ادا کرے تو روز قیامت اسی مال کو زہریلا سانپ بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا جو اس کے دونوں جبڑوں کو نوچے گا اور دفاع کرنے پر کہے گا کہ میں ہی تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ ایک ایک لفظ میں ایک ایسی تاثیر ابھر رہی تھی جو سننے والوں پر رقت طاری کر رہی تھی ۔پورا مجمع ایک نا قابل بیان سحر میں گرفتار تھا۔آواز میں گرج ،لہجہ میں کھنک ،بیان میں جادو، نکلتا قد،مضبوط کاٹھی، گندمی رنگ،روشن آنکھیں،کشادہ پیشانی،باریش چہرہ مولانا محمد جہانگیر عالم قاسمی کو اللہ تعالیٰ نے صرف عالم دین ہونے کا شرف نہیں بخشا بلکہ انھیں ہر دل عزیزی کے اعزاز سے بھی نوازا ہے۔ہر شخص ان کے کریمانہ اخلاق کا گرویدہ ہے۔ان کی صلاحیتوں کا معترف ہے۔ان کی لیاقتوں کا قائل اور ان کی شرافت نفسی کا گواہ ہے ۔ان کے اندر چھوٹوںسے شفقت،بڑوںسے محبت اور بزرگوں کے احترام کا جذبہ اپنی صداقتوں کے ساتھ موجودہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ارد گرد ان کے محبین اور مخلصین کا ہر وقت ایک مجمع لگا رہتا ہے۔ان کے چاہنے والے ان کے ایک اشارے پر سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ان کی خطابت میں صرف کوری نصیحتیں نہیں ہوتیںبلکہ ذہن سازی کا ایک مکمل تربیتی نظام سر گرم رہتا ہے جو معاشرہ کی اصلاح میں صحیح معنوں میں اہم رول ادا کرتا ہے۔وہ صرف ایک روایتی عالم دین نہیں ہیں بلکہ ان کی نظر سماجیات اور دیگر مذہبیات پر بھی گہری ہے۔وہ مذاہب ،مسالک اور مکاتب فکر میںمنفی شدت پسندی کے قائل نہیں بلکہ مثبت اعتدال کے حامی ہیں۔
مولانا جہانگیر عالم قاسمی کا آبائی تعلق صوبہ بہار کے ضلع دربھنگا سے ہے،بنیادی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کرنے کے بعدآپ نے کلکتہ (اب کولکاتہ)وہاں کے ایک اسکول سے ہائی اسکول پاس کیا۔پھر آپ نے اتر پردیش کے ضلع مرادآباد کے شاہی مدرسے سے عالمیت کی سند حاصل کی۔اس کے بعد علم دین میں مزید مہارت حاصل کرنے کے لئے انھوں نے اتر پردیش کے عالمی شہرت یافتہ ادارے دارالعلوم دیو بند کا رخ کیا۔وہ دارالعلوم دیو بند جہاں دین کی کشش ہے،علم کی کشش ہے اور آزادی کی کشش ہے۔ وہاںسے فضیلت کی سند حاصل کرنے کے بعد ُ انھوںنے اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں قدم رنجہ فرمایا او ر۱۹۸۵ء میں امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکور کے قائم کردہ ادارے دارالمبلغین پاٹا نالہ چوک جس کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی، سے علم مناظرہ حاصل کرنے کی غرض سے رابطہ کیا۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا حق کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے ان لوگوں سے مناظرہ کرنا چاہتے تھے جو اپنے زور بیان اور لفظوں کے جال میں الجھا کر سیدھے سادے لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے اس سے یہ بھی اندازہ ہو جا تا ہے کہ مولانا نے اپنی زندگی کا مقصد اورر راہ کا تعین کر لیا تھا۔ لیکن دارالمبلغین سے اسوقت تک مناظرہ کا کورس ختم ہو چکا تھا اور جو بزرگ وار اس مضمون کو پڑھا رہے تھے وہ ادارہ چھوڑ کر جا چکے تھے ۔  دارالمبلغین میں اس وقت کوئی ایسا علم دین بھی نہیں تھا جو فقہ کی مشہور اور معتبر کتاب ’’ہدایہ‘‘ پڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہو چنانچہ مولانا کی صلاحتیوں اور ان کی قابلیت کو دیکھ کر دارالمبلغین کے ذمہ داروں نے اپنے ہاں انھیں ’’ہدایہ‘‘ کے ساتھ ہی دوسری اہم کتب کی درس و تدریس کا ذمہ ان کے کاندھوں پر رکھا گیا ۔ دوسری طرف مولوی گنج کے چکمنڈی علاقہ میں حضرت مولانا عبدالشکور فاروقیؒ کا مزار شریف ہے ۔ مولا نا عبدالشکور صاحب  نے اپنے زمانے میں دین میں پھیلی بدعات اور باطل رسموں سے مسلمانوں کو آزاد کرایا اور ان کو دین خالص کا راستہ بتایا ۔ان کی خدمات کے اعتراف میں پورا خطہ ایک طرح سے ان پر جان چھڑکتا ہے وہاں کی مسجد قریش میں ان ہی کے پسر زادے مولانا عبدالعلیم فاروقی صاحب نمازجمعہ کی امامت اور عوام سے خطاب فرمایا کرتے تھے۔مولاناعلیم فاروقی صاحب کی مصروفیات لگاتار بڑھ رہی تھیں بیرون شہر اور بیرون ملک کے ادوار ہو رہے تھے۔ انھیں تنگ دامانی وقت کا شکوہ ہونے لگا تھا۔مصروفیات کے پیش نظر انھیں اپے ایک لائق و فائق جانشین کی تلاش تھی۔ان کی متلاشی نظریں مولانا جہانگیر عالم قاسمی پر ٹھہر گئیں۔ان کی تلاش ختم ہو گئی۔ایک دن انھوں نے ایک جمعہ کومسجد قریش میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں اور مصروفیات کا ذکر کیا اور کہا کہ آج سے میں مسجد قریش کی امامت اور خطابت ایک ایسے شخص کے سپرد کرتا ہوں جو ہر طرح سے اس اہم ذمہ داری کو نباہنے کی لیاقت اور اہلیت رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو ایک قیمتی نگینہ سونپ رہا ہوں۔بعض کہتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو انگوٹھی کا نگینہ سونپ رہا ہوں۔اس طرح سے مولاناجہانگیر عالم قاسمی مدرسہ دارالمبلغین سے مسجد قریش چکمنڈی میں آ گئے ۔مولانا کے علمی لیکن سیدھے اور بر جستہ خطاب سے لوگ متاثرہونے لگے۔ان کی شخصیت میں ایک طلسمی کیفیت تھی جس کے اثرسے لوگ تیزی سے ان کی طرف کھنچنے لگے ۔مولانا حق کی سر بلندی چاہتے تھے اس لئے انھوں نے علم مناظرہ سیکھنے کا ارادہ کیا تھا جو پایہ تکمیل کو نہیں پہونچ سکا لیکن اسی فکر نے انھیں ایک لائبریری کھولنے کے لئے تیار کیا تاکہ علم کی روشنی دور دور تک پھیلے اور لوگ اس روشنی سے مستفیض ہوں۔اور اپنی زندگیوں سے سے فضولیات اورردین کے نام پر اپنائی گئی خرافات کو نکال پھینکیں۔ چنانچہ مولانا جہانگیر عالم قاسمی نے۹۱۔۱۹۹۰ء میں ایک لابئریری قائم کی اور اس میں اسلامیات کااہم ذخیرہ جمع کیا۔بعض کتابوں پر اعتراضات بھی ہوئے لیکن مولانا نے ہر قسم کے تعصب کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ان کتابوں کو لائبریری میں جمع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جو ملت کی ذہنی جودت کو نکھارنے کے لئے انھوں نے اہم اورنفع بخش سمجھیں۔دوسری طرف دارالمبلغین سے ان کے اختلافات بھی بڑھنے لگے تھے چنانچہ انھوں نے دارالمبلغین کی خدمات کو خیر باد کہہ دیا۔
مولانا دیکھ رہے تھے کہ ملت میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ طبقہ ہے جس کے پاس دولت و ثروت کے انبار ہیں او رہر طرح کی آسائش اسے میسر ہے دوسری طرف وہ بھی طبقہ ہے جس کے پاس دو وقت کی روٹی کا کوئی مستقل انتظام نہیں ہے۔ ایسے افراد اپنے بچوں کی تعلیم کا کوئی معقول نظم نہیں کر سکتے نہ ہی اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے میں وہ خود کو اہل پاتے ہیں۔ قوم کی کتنی ہی خواتین ہیں جو بیوہ ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے مولانا کے سینے میں ایک درد مند دل تھا جو ملت کے دکھ درد پر تڑپتا تھا۔ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک واقعہ کا اجمالاً ذکر کر دیا جائے تاکہ مولانا کی درد مندی پر روشنی پڑ سکے۔ تقریباً اٹھارہ برس پہلے امین آباد میں ایک صاحب کو پانچ ہزار روپیوں کی ضرورت تھی جس سے ان کا ایک بڑا کام نمٹ سکتا تھا اور ان کی آئندہ حالت کے سدھرنے کا دارو مدار بھی اسی رقم پر تھا۔مولانا سے ان کی صاحب سلامت تک ہی دوستی تھی ۔انھوں نے مولانا سے اپنا مدعا بیان کیا۔مولانا کے پاس خود اتنی بڑی رقم نہیں تھی لیکن ان کا دل درد مند نہ مانا انھوں نے اپنے ایک شناسا سے ایک خاص وقت پر رقم واپسی کے وعدے پر رقم حاصل کی اور ان ضرورت مند صاحب کو دے دی۔ان کا کام نکل گیا لیکن وہ بوجوہ اپنا قرض وقت پر مولانا کو واپس نہیں کر سکے ادھر مولانا سے وہ دوسرے صاحب رقم واپسی کااصرار کرتے مولانا اِدھر تقاضہ کرتے۔آخر کار مولانا نے اپنا ایک قیمتی سامان رہن رکھ کر یا بیچ کر قرض ادا کیا ۔اگر چہ بعد میں وہ رقم انھیں امین آباد والے صاحب نے واپس کر دی۔لیکن کافی تاخیر سے۔۔۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا جہانگیر عالم قاسمی کے دل میں ملت کا کیسا اور کتنا درد ہے۔ وہ ملت کے افراد کی اس نہایت کمزور اقتصادی اور معاشی حالت کو دیکھ کربے چین ہو جاتے تھے ۔چکمنڈی ایسا علاقہ ہے جہاں کامیاب مسلم تاجر وںکی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ان کی آمدنی سے زکوۃٰ کی ایک بڑی رقم نکلتی ہے۔جسے اگر ایک جگہ جمع کیا جائے اور پھر اجتماعی روپ سے امداد تقسیم کی جائے تو ملت کے انتہائی غریب افراد کا بھلا ہو سکتا ہے اور اس طرح نظام زکوٰۃ کا مقصد بھی پورا ہو گا۔ مولانا جہانگیر عالم قاسمی نے عوام کے سامنے بیت المال قائم کرنے کی تجویز رکھی جس میں زکوٰۃ اور فطرے کی رقم اکٹھا کی جائے اور اجتماعی رقم سے ناداروں اور غریبوں کی حالت معلوم کر کے انھیں ان کے پیروں پر کھڑا کیا جا سکے تاکہ وہ اپنے کنبہ کی کفالت کر سکیں اور سماج میں ایک با عزت شہری کی طرح اپنی زندگی گذار سکیں چنانچہ ۱۹۹۲ء میںعوام کی رائے سے باقاعدہ فلاحی بیت المال قائم کیا گیا جس کے اغراض و مقاصد کچھ یوں طے کئے گئے۔
۱۔  بے روز گار غرباء کو روزگار کے لئے مالی مدد کرنا
۲۔ بے سہارا غریبوں کی مالی مدد کرنا۔
۳۔غریب بچیوں کی شادی  میں مالی مدد کرنا۔
۴۔غریب طلبہ کو حصول تعلیم میں مالی مدد کرنا۔
۵۔غریب مریضوں کو ہر ممکن طبی سہولت فراہم کرنا۔
۶۔ خواتین میں دینی و تعلیمی بیداری کے لئے اجتماعات کا انعقاد کرنا۔
۷۔قدرتی آفات کے شکار افراد کی ہر ممکن امداد کرنا۔
شروع میں ادارے کے تمام دفاتر اور اس کی ذیلی شاخیں چکمنڈی میںایک مستعار عمارت میں چل رہے تھے لیکن مولان جہانگیر کی کوششوں سے اہالیان لکھنؤ کے عطیات سے گولہ گنج (لکھنؤ)میں (بقول مولانا)ایک کروڑ چھبیس لاکھ کی لاگت سےاپنی عمارت قائم ہو گئی ہے۔اور ادارے کی تمام ذیلی شاخیں اور تمام دفتری امور اب نئی عمارت میں ہی انجام پاتے ہیں
آج ۲۷ ؍برس سے انجمن فلاح دارین کے زیر انتظام فلاحی بیت المال اپنے مقاصد کی تکمیل میں برابر سر گرم عمل ہے۔مولانا جہانگیر عالم قاسمی کو اللہ تعالیٰ نے محمد اسلام فیصل کے روپ میںایک اہم معاون بھی عطا کیا جو فلاح دارین کے جنرل سکریٹری ہیںاور مولانا کے قدم سے قدم ملا کرہر ممکن تنظیمی امور میںان کا تعاون کرتے ہیں،نیت میں خلوص ہو،ایمان میں حرارت ہو،مقاصد نیک ہوں ، حوصلے جوان ہوں،شوق وذوق ِعمل ہو ،خدمت کا جذبہ ہو،عزائم بلند ہوں تو اللہ تعالیٰ ارادے بھی کامیاب کرتا ہے۔ مولانا جہانگیر ان تمام عوامل کا مرقع ہیںیہی وجہ ہے کہ فلاح دارین کا نیک سفر جاری ہے۔ فلاح دارین نے اپنے قیام سے اب تک غریب مسلم معاشرہ کے افر اد کے لئے جو خدمات انجام دیں اس کا ایک خاکہ یوں ہے:
۱۔2639غریبوں کو کاروبار کے لئے 2016غریبوں کو علاج کےلئے 1190طلبہ و طالبات کو تعلیم کے لئے 1941لڑکیوں کو شادی کے لئے نقد کی شکل میں امداد فراہم کی گئی۔نیز1376 خواتین کو ایک ایک عدد سلائی مشین،1190 افراد کو ایک ایک عدد چار پہیوں کا ٹھیلہ،882افراد کو ایک ایک عدد ٹرالی اور 282افراد کو ایک ایک عدد سائیکل رکشہ دیا گیا۔اس طرح سے اب تک کل11516(گیارہ ہزار پانچ سو سولہ ) ضرورت مندوںکو مدد دی جا چکی ہے۔
اس درمیان کئی نئی تنظیمیں بھی شروع ہوئیں لیکن بد نیتی اور حسد کی بنیادوں پر تعمیر کی گئی عمارتیں ہمیشہ زمیں بوس ہو جاتی ہیں ۔ مولانا کی سر پرستی میں فلاح دارین کے کئی ذیلی شعبہ جات بھی قائم ہوئے جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
۱۔فلاح ملت لائبریری۔ شہر کے مختلف علاقوں کے با ذوق حضرات و طلبہ جہاں روزانہ استفادہ کرتے ہیں۔نیز اس لائبریری سے بھی طلبہ کو اسکول کی کتابیں دی جاتی ہیں۔
۲۔عائشہ لائبریری۔یہاں تمام اہم موضوعات پر کتابیں موجود ہیں۔مطالعہ کا پاکیزہ ذوق رکھنے والی خواتین اس سے خوب استفادہ کررہی ہیں۔نیز فلاحی بیت المال کے دفتر میں خواتین کی ذہن سازی کے لئے ہر ماہ کے پہلے اور تیسرے جمعہ کو ۳؍بجے اصلاحی اجتماع کا انعقاد کیا جاتا ہے۔اجتماع کے بعد لائبریری سے خواتین کے لئے معیاری کتابیں جاری کی جاتی ہیں۔
۳۔الفلاح ٹیلرنگ سنٹر۔یہاں سے سال رواں میں ۱۰۰؍ طالبات نے فیشن ڈیزائننگ اور چکن امبرائڈری کا کورس مکمل کیا جن کو مرکزی سرکار کے ذریعہ پانچ پانچ ہزار روپے بذریوہ چیک اور سرٹیفکیٹ رمضان المبارک میں دئے گئے۔
۴۔الفلاح کلینک۔یہاں عصر تا مغرب متوسط طبقہ کے لوگوں کو ۵؍روپیہ یومیہ اور غریب طبقہ کے لوگ مفت انگریزی دوا حاصل کرتے ہیں۔مریضوں کی تعداد کا اوسط فی یوم ۴۰؍ ہے۔
۵۔ہفتہ واری دواخانہ۔ ہر بدھ کو کو یونانی میڈیکل کیمپ بھی لگایا جاتا ہے ۔جس میں ۲۵۔۲۰ ہزار روپیوں کی یونانی دوائیں مفت تقسیم کی جاتی ہیں،اس دواخانہ میں سرکار کی طرف سے ہر ماہ لاکھ سوا لاکھ روپیوں کی دوائیں تقسیم کی جاتی ہیں ۔
۶۔الفلاح شبینہ اسکول۔ یہاں مختلف علاقوں کے ۵۸ بچے مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو دن میں مختلف کارخانوں میں کام سیکھتے ہیں ،دوکانوں میں نوکری کرتے ہیں یا معمولی کاروبار کرتے ہیں۔
۷۔بزم فلاح اردو۔ ادبی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھنے والے باذوق افراد کے حظ و تسکین کے لئے بزم فلاح اردو کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جس کے تحت سال میں ایک نعتیہ مشاعرہ اور دیگر ادبی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں۔اسی بزم کے تحت کل ہند سطح پر نعتیہ سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں مقالہ نگاروں نے مختلف عنوانات کے تحت اردو نعت گوئی کی تاریخ اور نئے جہات و امکانات کا جائزہ پیش کیا۔ یہ سیمینار اپنی نوعیت کا پہلا سیمینار تھا جس میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد،ڈاکٹر تابش مہدی،پروفیسر شبیر احمد،انور جلال پوری،واصف فاروقی، ڈاکٹر ہارون رشید،مولانا قاسم عثمانی سنجے مصرا شوق جیسے ملک کے معتبر قلم کار اور دانشوروں نے  بحیثیت مقالہ نگار اور مقررشرکت کی اور نعتیہ شاعری کے جملہ ممکنہ پہلوؤں پر غور و خوض کیا گیا۔اس نعتیہ سیمینار سے اٹھنے والی آواز لکھنؤ کے حوالے سے دور دور تک سنی گئی اور عرصہ تک اس کاا ثر بھی محسوس کیا گیا ۔صالح ادب کے حوالے سے اس کام کو مزید آگے بڑھنا چاہئے تھا لیکن جانے کیوں یہ تیزی سے بڑھتے قدم رک گئے ۔
فلاح دارین کا تقسیم امدا پروگرام سال میں تین مرتبہ انعقاد پذیر ہوتا ہے جس میں تمام مستحقین کی تنظیم کی طرف سے پختہ جانچ اور تفتیش کئے جانے کئے بعد انھیں امدادی رقوم یا سامان تجارت شہر کے مقتدر حضرات کی موجودگی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔مولانا جہانگیر عالم قاسمی نے ملت کی فلاح و بہبود کے لئے جو پودا لگایا تھا وہ آہستہ آستہ جوان ہوتا جا رہا ہے۔ایک بڑی تعداد ان کی تنظیم سے مستفید ہو چکی ہے۔ملت کے تئیں اسی فکر کی وجہ سئے مولانا اور ان کے سکریٹری اسلام فیصل نیز مولانا کے فرزندگان بھی تنظیم کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔اس ادارے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں شفافیت کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔
مولانا کے نظریاتی طور پر مخالفین بھی ان کے حسن اخلاق اور شرافت نفسی اور جذبہ خلوص کے قائل ہیں۔یہی خلوص بندوں کے تئیں بھی ہے اور یہی خلوص بندگی میںاللہ کے تئیں بھی ہے۔ایک مسلم پر ہی اکتفا نہیں غیر مسلم خواتین و حضرات بھی ان کے پاس روحانی علاج کے لئے آتے ہیں مولانا پہلے تو اسے نیک عمل کی تلقین کرتے ہیں اور خود دعا کرنے کو کہتے ہیں لیکن بعد میںپھر چند آیات پڑھ کر دم بھی کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان میں بھی شفا عطا فرمائی ہے جس سے مریض شفایاب ہو جاتے ہیںجب وہ کچھ دینے کی کوشش کرتا ہے تو اسے نرمی سے منع کر دیتے ہیں۔ بحیثیت مقرر مولاناجہانگیر عالم قاسمی کو یہ افتخار حاصل ہے کہ وہ شیعہ سنی دیوبندی اور بریلوی سبھی کے اسٹیج سے خطاب کرتے ہیں ۔بارہ بنکی کے دیواں میلہ میں ہر سال ان کا خطاب ہوتا ہے۔ہندو ہو یا مسلم،شیعہ ہو یا سنی ،دیوبندی ہو یا بریلوی، حنفی ہو جعفری، مولانا کے یہاں یہ تمام حد بندیاں اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔ لکھنؤ میں برسوں سے چلے آ رہی شیعہ سنی کشیدگی جو اکثرفساد کا  بد نمارنگ اختیار کر لیتی ہے مولانا کی کوشش ہے کہ یہ جھگڑا ہمیشہ کے لئے ختم ہو اس سلسلہ میں جو بھی کوششیں کی جاتی ہیں مولاناانسانی بنیادوں پر اس میں پیش پیش رہتے ہیں سبھی ان کو احترام کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔حالانکہ  جو لوگ انھیں قریب سے جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مولانا حق بات کہنے میں کسی قم کی لاگ لپیٹ نہیں رکھتے ان کی شخصیت علامہ اقبال کے اس شعر کا مرقع ہے:
   آئین جواں مرداں،حق گوئی و با باکی
   اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
بلا شبہ مولانا جہانگیر عالم قاسمی نے اپنی ذات کو اسم با مسمیٰ کر دکھایا ہے۔انھوںنے اپنے طرز گفتار اور اخلاق و کردار سے خار زار میدانوں میں گلر یزپگڈنڈٰیاں بنائی ہیں۔ان کی شخصیت ایک ایسے چشمے کی ہے جس میں ہر دل کی بستی سیراب ہو جائے۔انھوں نے ہزاروں دلوں اور ذہنوں پر ایسے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں جو انمٹ ہیں۔ان کے قائم کردہ ادارے انجمن فلاح دارین اور اس کے ذیلی شعبوں نے جو سماجی خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کے صفحات پر روز روشن کی طرح عیاں رہنے والی ہیں ،ان کا ادارہ ایک ایسا چراغ ہے جو ہزاروں چراغ روشن کرے گا۔انشاء اللہ۔۔
                                                   ڈاکٹر محمد ہارون رشید۔۔8090025365
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular