Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldفیض احمدفیضؔ ایک عہدساز شاعر

فیض احمدفیضؔ ایک عہدساز شاعر

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

 

ڈاکٹرمسیح الدین خاں

لب بند ہیں ساقی، میری آنکھوں کو پلادے
وہ جام جو منت کش صہباؔ نہیں ہوتا
مندرجہ بالا شعر سے فیض احمد فیضؔ کی ادبی شہرت کا آغاز ہوتا ہے، وہ عہدساز شخصیت، قدیم شاعر اورمعزز صحافی ہونے کے ساتھ ترقی پسند تحریک کے بھی سربراہ تھے۔ ایک جگہ پروفیسر قمررئیس رقم طراز ہیںـ:’’فیضؔ کی شاعری قوموں اورزبانوں کی سرحدوں کوپارکرگئی، وہ ساری دنیا کی عوامی تحریکوں کے شاعرتھے‘‘۔
ان کی شاعری کی شروعات روایتی انداز سے ہوئی، اولین تخلیقات میںحسن وعشق کے موضوعات اوراپنے واردات قلبی روایتی انداز میں پیش کئے ہیں، ان کے یہاں بھی وہی سرشاری وسرمستی، حسن ومحبت کے ترانے ملتے ہیں جوعشقیہ شاعری میں ملتی ہے۔
شروع کے دورمیںفیضؔ نے عشقیہ شاعری کی لیکن رفتہ رفتہ وہ انقلابی شاعر ہوتے گئے، ان کا نام آتے ہی ہمارے ذہن ودماغ میں ذہنوں کوجھنجھوڑنے والے شاعر کا تصور آتا ہے، ان کی شاعری دلوں کوچھولینے والی شاعری ہے، سماج میں پائی جانے والی ناآسودگی، مایوسی اورشکست خوردگی کے احساس نے فیضؔ کے ذہن کوبہت زیادہ متاثرکیا، یہاں تک کہ ان کے لب ولہجے میں مایوسی اوراداسی آگئی۔
فیض ؔ نے اپنے عہد کے سیاسی اورسماجی مسائل سے نبردآزماہوتے ہی انھوں نے رومان عشق ومحبت کی دنیا سے نکل کرحقیقت نگاری کی دنیا میں سانسیں لینا شروع کیا، اوران کا انداز بیان بالکل بدل گیا، ملاحظہ کیجئے:
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں، غم روزگار کے
فیضؔ کی ابتدائی شاعری میں رومانیت کی جھلک نظرآتی ہے، ان کی شاعری شروع میںرومانی عناصر اورعشقیہ عنوانات ہی تک محدود رہی لیکن آگے چل کر ان میں تنوع اوروسعت پیدا ہوئی، ان کی عشقیہ شاعری میںجذبات موجود ہیں، شروع کی شاعری میںجہاں ایک طرف رومانی موضوعات دیکھتے ہیں وہیں دوسری جانب انداز قدیم اورفن وروایت کی پابندی نظرآتی ہے، ان کی شاعری میں انقلابی اورسیاسی عناصر کا امتزاج سب سے زیادہ اہم ہے، اگران کی شاعری میںسے انقلابی اورسیاسی آہنگ لے لیا جائے توان کی شاعری بے رنگ ہوجائے گی، ان کی شاعری نسل نوکے لئے پیش پیش رہی ہے، اوراس میں ایک طرح کا سحرموجود ہے۔
فیضؔ کی شاعری پرشعراء متقدمین کا اثر ہے، یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ وہ ایک عہدساز شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں بڑے شعراء کا عکس نظرآتا ہے، لیکن رنگ بالکل منفرد ہے،غالب، سودا، اقبال، میر،اخترشیرانی کا اثرفیضؔ کے کلام پر ہے، ان کے کلام میںمتقدمین کا اثرضرور کارفرما رہا ہے، لیکن وہ اپنے الگ لب ولہجے میں ہے، وہ الفاظ ومعانی کی باریکی کوخوب سمجھتے ہیں، اس میں توازن اورٹھہرائو ہے، ردیف اورقافیہ کا خیال ہے۔
فیضؔ کی ابتدائی شاعری پراپنے ماقبل شعراء حفیظ جالندھری، جوش اوراخترشیرانی کے رومانی انداز کا بھی اثر ہے، لیکن کچھ ہی وقت میں فیضؔ نے رومانی فضا سے الگ منفرد مقام بنایا، اورانھوں نے انگریزی اورروسی شعراء سے بھی اثر قبول کیاہے، انگریزی شعراء جن کا اثرفیضؔ کی شاعری پر ہے، وہ اس طرح سے ہیں، شیلے، بائرن، ورڈزورتھ، ایلیٹ، رابرٹ، فراسٹ، ایکئس، جان کیٹس، اسوسن برن، تھامس ہارڈی وغیرہ اورشیلے اورکیٹس کے اثرات بالکل نمایاں ہیں۔
فیض نے مختلف موضوعات پرلکھا ہے، ان کے عہد میںہندوستان دوبڑے طبقوں میںبٹ چکاتھا، ایک استحصالی طبقہ (ظالموں کا) اوردوسرا استحصال کے شکارغریب، کسانوں اورمزدوروں کا طبقہ۔
فیض کے یہاںعام ترقی پسندشعراء کے برخلاف نعرہ بازی نہیں ہے، اس لئے وہ کہیں بھی غیرمتوازن نہیں ہوئے، ان کے یہاں روایت کا احترام ہے، اورروایت پسندشاعر ہیں، مگران پر روایت پسندی کا الزام نہیں لگاسکتے، وہ زندہ جاوید حقیقتوں کوسراہتے ہیں، ان کے یہاں نئے حالات، نئی زندگی اوربدلتے ہوئے سماجی ماحول کا عکس ہے، انھوں نے اپنے زمانے کی ہرسیاسی وعوامی کشمکش سے اثرقبول کیا، اوران کی پوری شاعری ایک اخلاقی قدربن کر، اپنے دامن کوسمیٹے ہوئے ہے، جذبہ خلوص اوروالہانہ پن ہے، وہ اپنے کلام کے ذریعے انسانوں کوان کے حقوق پانے کے لئے جذبہ وجوش دلاتے ہیں اورعوام سے اپنی آواز بلندکرنے کے لئے کہتے ہیں۔
اے خاک نشینوں اُٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیںگے
ان کی حیات میںبہت سے نشیب وفراز رہے، لیکن فیضؔ کومستقل سماجی اورسیاسی تبدیلیوں سے گزرنا پڑا، وہ ایک سچے فنکار تھے، عوام کوبیدارکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیںمجاہدہ بھی ہے ، اس پرفرض ہے گردوپیش کے مضطرب قطروں میں دجلہ کا مشاہدہ، ان کی بینائی پرہے، اسے دوسرے کودکھانا، اس کی فنی دسترس پر اس کا بہائو میںدخل انداز ہونا، اس کے شوق کی صلابت اورلہو کی حرارت پر ہے‘‘۔(فیض احمدفیضؔ، دست صبا ۱۹۳۷)
فیضؔ ایک بڑے عہد کے بلندشاعر ہیں، انھوں نے اپنے عہداورماحول کواختیار کیا، اورشاعری شروع کی، ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہد کے ماحول سے کس طرح متاثر ہوتے؟ اورحالات سے سمجھوتہ بھی کیا اوراختلاف بھی، اورماحول کوقبول بھی کیا اورردبھی، ان کے زمانے میںسماجی اور معاشرتی، تہذیبی قدریں بدل رہی تھیں، پرانے خیالات کی جگہ نئی تہذیبیں نئی قدریں لے رہی تھیں، لہٰذا فیضؔ نے اپنی شاعری میںعصری حالات کا اثرلیا اورقارئین کے ذہنوںکوجھنجھوڑ کررکھ دیا۔
فیضؔ نے اپنی شاعری کونئے شعور سے بخشا ہے، ان کے لہجے میں غنائیت ہے جو ان کی نظموں اور غزلوں میںیکساں طورپرظاہرہوتی ہے، انھوں نے اپنے عہد کے سماج کی پوری عکاسی کی ہے، اوران کے کلام پر سوشلزم کا گہرا اثرپڑا ہے، جس کوفیضؔ نے محسوس کرتے ہوئے سماج کے ہرطبقے کوجگہ دے کران کی بات رکھی۔انھوں نے ہرموقع پر مختلف موضوعات پر لکھا ہے، اورخوب لکھا ہے، ان کاقلم کبھی رُکا نہیں، وہ لکھتے ہیں:
متاع لوح وقلم چھن گئی، توکیا غم ہے؟
کہ خون دل میں ڈبوئی ہے انگلیاں ہم نے
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کونکلے
نظر چُرا کے چلے جسم وجاں بچاکے چلے
مانولکھنؤ کیمپس
504/122, Tagore Marg, Shabab Market
Lucknow-226020,[email protected]
Mob.: 9307690748

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular