Friday, May 3, 2024
spot_img

غزل

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ہاجرہ نورزریاب

جانے کیا کچھ مدہوشی کے باب میں رکھ کر بھول گئی
میں خود اپنی ذات کسی کے خواب میں رکھ کر بھول گئی
میں نے جس کو ٹوٹ کے چاہا اس نے اتنے رنج دیئے
میں بھی اس کو قسمت کے گرداب میں رکھ کر بھول گئی
جس کی پتی پر خوشبو سے میں نے اپنا نام لکھا
پھول کنول کا آج وہی تالاب میں رکھ کر بھول گئی
ذہن میں اک طوفان بپا تھا، سوچ میں ہلچل ایسی تھی
جانے کیا کچھ لہروں پر سیلاب میں رکھ کر بھول گئی
اپنے آنسو، اپنی آہیں، ہجر کی راتیں، سارے غم
اپنے لٹ جانے ہی کے اسباب میں رکھ کر بھول گئی
اپنے سب اشعار جو میں نے اس کی خاطر لکھے تھے
وہ سب اپنی طینت کے آداب میں رکھ کر بھول گئی
دکھ تو اپنے ساتھی ہیں، زریاب خوشی سے کیا لینا
اپنی خوشیاں ساری ہی احباب میں رکھ کر بھول گئی
آکولہ مہاراشٹر انڈیا

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular