Monday, May 6, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldعصری صحافت اور اخلاقیات

عصری صحافت اور اخلاقیات

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

عالم نقوی

اس موضوع میں تین کلیدی الفاظ ہیں۔’عصری‘،’صحافت‘اور ’اخلاقیات‘۔
امام شیبانی ؒ کا قول ہے کہ ’’جو اپنے زمانے کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے ۔‘‘اور امام جعفر ا لصادق ؑنے فرمایا کہ اپنے زمانے کا علم اس کے نقصان کو کم کر دیتا ہے (او کما قال ) ۔اور قرآن کریم نے ’’عصر‘‘ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ ’انسان خسارے میں ہے سوا ان لوگوں کے جو ایمان لائے ۔عمل صالح کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے ’العصر آیات ایک تا تین )‘‘
عصر گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی ۔اور وقت کے گزرنے کی رفتار یا تیز رفتاری کو نگاہ میں رکھیں تو صاف ظاہر ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ یہی وقت ہے جو تیزی سے گزرتا جا رہا ہے ۔
امام رازی ؒنے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ ’اس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے ۔‘‘
قرآن کریم نے عصر کی قسم کھا کر جو یہ کہا ہے کہ انسان فی ا لحقیقت گھاٹے میں ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ جو مدت حیات ہمیں دی گئی ہے وہ برف کی طرح تیزی سے گھلتی جا رہی ہے اگر اس کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تو یہی انسان کا حقیقی نقصان ہے ۔اور ظاہر ہے کہ اس نقصان کا تعلق ہر پل ’ماضی ‘بنتے ہوئے ’حال ‘سے بھی ہے اور برق رفتاری سے آتے ہوئے مستقبل سے بھی اور پروفیسر شمیم حنفی نے اپنی ایک کتاب ’’ادب اور معاشرتی تشدد(۲۰۰۸)میں لکھا ہے کہ ’’۔۔۔مستقبل ہماری دنیا کے لیے ایک بری خبر ہے ۔اور اس کے اسباب جاننے کے لیے ہمیں اپنے’ حال‘ کو جاننے کی ضرورت ہے ۔مہذب دنیا کے کسی دور میں انسانی معاشرہ اس حد تک بے لگام نہیں ہوا تھا ۔ ہم سب ایک گناہگار معاشرے کے افراد ہیں اور ہمارا احساس گناہ تک ختم ہو چکا ہے ۔اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ ہمیں اپنے انحطاط اور بے راہ روی کا اندازہ تک نہیں ہے ۔۔۔ہمارے عہد نے تہذیب ،معاشرت یہاں تک کہ ادب اور اخلاق تک کی قدروں کا رُخ بھی سرے سے بدل کر رکھ دیا ہے ۔انسانی حافظے کے تمام توانا لفظ اپنی روح کھو بیٹھے ہیں ۔بہت سی قدروں کی قیمت کا خیال بھی دھندلا چکا ہے ،اصطلاحیں بے معنی ہو چکی ہیں ۔‘‘
رہی صحافت تو وہ بھی اسی زمانے اور بقول شمیم حنفی ’’اسی گناہگار معاشرے ‘‘کا ایک حصہ ہے ۔صحافت ،جرنلزم ،پتر کاریتا ،ان سب کے لیے آج صرف ایک لفظ ’میڈیا ‘ مستعمل ہے ۔ اس کا ایک تےرجمہ ’ذرائع ابلاغ ‘ موجود ضرور ہے لیکن ہمارے نزدیک میڈیا خود اِتنا سَہَج ،سَرَل ،آسان اور فی زمانہ عام فہم لفظ ہے کہ اب اس کا ترجمہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ویسے بھی جب یہ لفظ ہر طرح کی تحریری ،سمعی ،بصری اور عددی (ڈیجیٹل) صحافت پر مُحیظ ہے اور اس کے بولنے میں زبان کو کوئی کسرت بھی نہیں کرنا پڑتی تو خواہ مخواہ ترجمے کی ضرورت بھی کیا ہے ؟ زیادہ سے زیادہ ہم اِسے ’اُردُوانے ‘ کے لیے ڈال کو ’دال ‘ سے بدل کر’میدیا ‘ کر سکتے ہیں ! لیکن فی الواقع یہ بھی غیر ضروری ہے ۔کیونکہ اب اردو میں حرف ڈال ،ڈبلیو اور ڈی کثرت استعمال کی وجہ سے ہر عام و خاص کی زبان پر چڑھ چکا ہے ،اس لیے اس ’مابعد جدید ‘ عہد میں لفظ میڈیا کی فصاحت میں بھی کوئی کلام نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن اس ما بعد جدید عہد کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اب صحافت اور میڈیا دونوں اصطلاحیں مترادف اور ایک دوسرے کی متبادل ہو چکی ہیں ۔جس طرح میڈیا پرنٹ ہو یا الکٹرانک یا ڈیجیٹل ،وہ میڈیا ہے ۔اسی طرح صحافت تحریری ہو یا سمعی ،بصری ،عددی یا ادبی وہ صحافت ہی ہے ۔لہٰذا ہم آئندہ اس تحریر میں خواہ لفظ صحافت استعمال کریں یا میڈیا انہیں ایک ہی فکری یا معنوی وجود سمجھا جائے ۔
اب آئیے اخلاقیات پر ۔عصر جدید کی ’پوسٹ ماڈرن ‘تھیوری نے سب سے عنایت اسی لفظ پر کی ہے ۔اخلاق ،اخلاقیات اور اخلاقی اقدار کو سب سے زیادہ بے معنی اور مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اخلاقی اقدار ہی ’متن و معنی ‘ کی’مابعد جدید جنگ کا اصل نشانہ ہیں ۔
رد تشکیل (ڈی کنسٹرکشن ) کے ذریعے اخلاقیات اور اخلاقی اقدار کو فی الواقع Deconsecrateبے عزت اورناپاک بنا یا گیا ہے۔یعنی سبھی متعلقہ الفاظ اور اصطلاحوں سے اُن کا تقدس اور اُن کی پاکیزگی چھین لی گئی ہے ۔بلکہ تقدس اور پاکیزگی تک کے معنی بدل دیے گئے ہیں ۔مثال کے طور پر رحم مادر میں قتل جنین ،ہم جنسی اور عصمت فروشی اب ہُنر ،فطری مظہر ،اور حصوؒ آذوقہ کے لیے مختلف پیشوں میں سے معمول کا ایک پیشہ یا خدمت (سروس) بنا دیے گئے ہیں !
’’ جنہیں ناز تھا ہند پر وہ‘‘ یہ دیکھ کر سر بگریباں ہیں کہ عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ تک نے ’ہندو راشٹریتا ‘ کی علم بردار سنگھ پریوار کی مودی حکومت سے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ آئن میں دفعہ ۳۷۷ کے تعلق سے جلد کوئی حتمی فیصلہ کرے۔ درخواست کنندگان کی منشا تو یہی ہے کہ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے ذریعے دستور کی اس دفعہ کو کالعدم قرار دے دیا جائے ۔
تو عصری صحافت یا عزیزم رویش کمار کے لفظوں میں ’گودی میڈیا ‘ میں۔۔ اخلاقیات کے موضوع پر اگر مابعد جدید تھیوری اور اسی کی مقرر کردہ اصطلاحوں کی روشنی میں گفتگو کی جائے تو اس کا ما حصل یہ نکلے گا کہ ۔۔’نہ کچھ غیر اخلاقی ہے نہ Immoralسب کچھ ضرورت کے وقت درست یا ’وقت کی ضرورت ‘یا ’ضرورتِ وقت ‘کے عین مطابق ہے !
لیکن ہم ستر سال کی عمر میں ،چالیس طویل برسوں کے سرگرم اور عملی صحافتی تجربےکے بعد اسی تصور پر ایمان رکھتے ہیں جو ’صنعت کاری ،تجارت کاری ،اور عالم کاری کے عصری انفجار سے قبل دنیا کی ہر تہذیب اور مذہب میں رائج تھا ۔یعنی عصری میڈیا جن اخلاقی اقدار کو سامعین ،ناظرین اور قارئین کے سامنے پروس رہا ہے یا دن رات پرچار کر رہا ہے اُن کا یعنی نام نہاد ’عصری میڈیائی اخلاقیات ‘ کا۔۔’بنیادی انسانی اور اخلاقی اقدار‘سے کوئی سروکار نہیں ۔
آج میڈیا محض ’باتوں کا کھیل ‘ لَھوَ الحدیث (سورہ لقمٰن آّیت۶)رہ گیا ہے ۔اور اس کا کام فواحش کی اشاعت ۔اَن تَشیعَ ا لفا حِشہ (سورہ نور آیت ۱۹)کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔
ضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular