Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldعربی زبان و ادب کے فروغ میں علمائے ہند کا کردار

عربی زبان و ادب کے فروغ میں علمائے ہند کا کردار

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

محمد صادق جمیل تیمی 
جامعہ اسلامیہ ریاض العلوم شنکر پور
عربی زبان و ادب اقوام عالم کی ان زندہ و پائندہ زبانوں میں سے ہے جس نے ابتدا ہی سے اپنی مٹھاس ، شیرینی اور اثر پذیری سے ایک عالم کو اسیر کیا ۔یہ و ہ زبان ہے جس میں امم ماضیہ کے احوال و کوائف موجود ہیں ۔ اس کی اہمیت و فضیلت اس سے دو چند ہو جاتی ہے کہ خاتم النبیین ،سید المذنبین صاحب جوامع الکلم محمد مصطفی ﷺ کی زبان عربی تھی اور قرآن کریم جو انسانیت کے لیے آخری پیغام ہے وہ عربی ہی میں ہے ۔اسلام کی صحیح فہم اور کسی بھی مسئلہ کی حقیقی رسائی بغیر عربی پر دسترس کے ناممکن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ابتدا ہی سے اس کی نوک وپلک درست کرنے اور اس کی بقا و تحفظ کے لیے اقوام عالم کی ایک جماعت ہمیشہ کاربند رہی ہے۔تصنیف و تالیف ،درس و تدریس اور رسائل و جرائدکے ذریعہ اس کی ہر طرح کی نشر و اشاعت حفظ و صیانت کی ہے ۔زمانہ جاہلیت ،عہد نبوی او راس کے بعد کے ادوار میں جس طرح عربی شاعروں ،ادیبوں اور نثر نگاروں نے اس کے ادب پارے اور لسنیات کی حفاظت میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے،وہیں پر دنیا کے دوسرے ممالک جہاں کی زبان عربی نہیں ہے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔اس سلسلے میں ایک قابل ذکر نام ہندوستان کا ہے جو شروع ہی غیرملکی سرمایے کی حفاظت میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ۔ ہندوستانی علما جہاں مختلف علوم وفنون اور زبانوں کے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہیں وہیں پر عربی زبان و ادب کی بقا و تحفظ میں ا ن کی خدمات تاریخ عربی ادب کا ایک روشن بھی باب ہے ۔
عربی زبان میں بحیثیت زبان و ادب علما ے ہند کے کارنامے کو کئی حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں جیسے عربی لغات ،معاجم و قوامیس کی تالیف ،فلسفہ زبان اور علوم عربیت کے موضوع پر تصانیف ،شعر و شاعری ،عربی صحافت و  لٹریچر،رسائل و جرائد کا اجرا اور دواین کی تشکیل جیسے اہم گوشے ہیںجو قابل ذکر ہیں ۔ذیل کی سطور میں ذیلی عناوین کے تحت   علما ے ہند کے ان کارناموں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو عربی سے متعلق ہے ،ملاحظہ ہوں
٭ مستند قوانین و معاجم اور لسانی کتابیں
عربی لغت و ڈکشنری اور فلسفہ زبان کے موضوع پر کسی عجمی النسل کا قلم اٹھانا ان کی عربی دانی اور عمدہ ذوق کا پتہ دیتا ہے ۔اس معاملہ میں سرزمین ہند ہمیشہ سر فہرسرت رہی ہے اس کے خوشہ چیں علوم و فنون کے میادین میں کارہائے نمایاںانجام دے کر پوری دنیا میں ہندوستان کا علم دوست اور علمی سرمائے کی حفاظت میں ان کے کارنامے کا عملی ثبوت فراہم کیے ہیں ۔جہاں تک بات کسی ہندوستانی عالم سے عربی لغت کی ہے تو اس سلسلہ میں سب سے پہلی علمی و ادبی خدمت ساتویں صدی عیسوی کے مشہور امام لغت و حدیث حسن محمد صغانی کی ہے جن کے نسخہ حدیث سے حافظ ابن حجر نے بیشتر چیزوں کو نقل کیا اور اسی پر اعتماد کیا ۔ان کی لغت ’’العباب الذاخر ،،ہے ،لیکن افسوس یہ نا مکمل ہے ۔اسی طرح ’’مجمع بحار الانوار فی غرائب التنزیل و لطائف الاخبار ،،شیخ محمد طاہرپٹنی عظیم تحقیقی قرآنی ڈکشنری ہے جو چار جلدو ں میں ساڑھے سولہ سو صفحات پر مشتمل ہے ۔اس میدان میں سب سے
بڑی خدمت سید مرتضی بلگرامی نے انجام دیا ۔ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’تاج العروس فی شرح القاموس ،،ہے جو محتاج تعارف و تعریف نہیں ہے ۔اسی طرح اس صنف میں اپنی عربی دانی کا جادو جگانے والے مولانا وحید الزماں حید رآبادت ہیں ان کی کتاب ’’انوار اللغات اور وحید اللغات ،،قابل ذکر ہیں ۔اسی طرح ہندوستانی مولفین میں محمد حسن خاں ٹونکی ہیں جنہوں نے ڈکشنری کے طرز پر مصنفین اسلام کے تذکرہ و تراجم اسی جلدوں پر مشتمل کتاب ’’معجم المصنفین ،،لکھی جو دائرہ العثمانیۃ حیدرآباد سے شائع ہو چکی ہے ۔(اسلامی علوم میں ہندوستانی علما کا حصہ : ۱۵۱)
قرآن مجید عربی زبان کے بنیادی سرچشموں میں سے ایک ہے اس لیے عربی ادب سے علما ے ہند کی خدمات کا ایک تابناک گوشہ ہے کہ انہوں نے قرآ ن مجید کے الفاظ و مفردات کلمات کے لغوی تشریح الگ سے کی ہے ۔اس کی سعادت سب سے پہلے محی السنۃ ،مجدد علوم و فنون نواب صدیق حسن خاں کو ملی جن کے زیر اشراف پہلی قرآنی ڈکشنری ’’فتح المنان فی ترجمۃ لغات القرآن ،،تالیف ہوئی ۔اسی طرح مولانا بدیع الزماں کی قرآ ن سے متعلق عظیم کتاب ’’سبیکۃ الذھب الابریز فی فھرس الکتاب العزیز ،،۱۲۹۶ ھ میں نواب صاحب ہی کے مطبع سے شائع ہوئی ۔او ر شہید الدین جعفری کی قرآنی ڈکشنری ’’عمدۃ القرآن ،،قاضی سجاد حسین میرٹھی کی ’’قاموس القرآن ،،(اردو)اس صنف کی اہم تصنیفات میں سے ہیں ۔(دیباچہ قاموس القرآن )
٭ دور حاضر کی چند جدید ڈکشنریاں
آج کے اس مشینی دور میں جہاں انسان زندگی میں اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ اب دو آدھ گھڑی اپنی علمی بازیابی اور اس کی حفاظت کے لیے نکال نہیں پاتا ،لیکن بھیڑ و اژدہام کی اس حالت میںبھی علم دوست افراد اپنی علمی مصروفیات میں مگن رہے ہیں ۔اس سلسلہ کی ایک اہم کڑی مورخ اردو ادب سیدسلیمان ندوی کی ڈکشنری ’’لغات جدیدۃ ،،ہے جو انتہائی مستند و مسلم ہے ۔اس پر سید ابو الحسن ندوی کا ایک عمدہ و محققانہ و فاضلانہ مقدمہ بھی شامل ہے ۔نیز علامہ مسعود عالم ندوی اس پر بحث کرتے ہوئے جدید الفاظ و تراکیب کا ناقدانہ جائزہ لیا اور دور حاضر کے اسلوب و منہج پر بھی فاضلانہ بحث کی ہے جس سے لغات جدیدہ میں چار چاند لگ گیے ہیں ۔
اسی طرح فا ضل دیوبند مولانا عبد الحفیظ بلیاوی کی عظیم عربی لغت ’’مصباح اللغات ،،ہے یہ ڈکشنری ان کا ادبی ذوق کا عملی مظہر ہے ۔اس کتاب کی تالیف میں ’’المنجد ،،پر مکمل اعتماد کیا گیاہے ۔آپ ہی کا ایک ادب دوست معاصر ،عظیم لغوی وحید الزماں کیرانوی قاسمی کی ایک مفید و ہر عام وخاص کی چاہت ’’القاموس الجدید ،،ہے ۔جس میں بیسویں صدی کے عربی میں مستعمل ہونے والے جدید الفاظ ،ضرب الامثال ،محاورات اور سائنسی و فنی اصطلاحات کو کامیابی کے ساتھ شامل کتاب کی گئیں ہیں ۔یہ ڈکشنری طلبہ مدارس و اساتذہ کے لیے بہت ساری راہیں آسان کردی ہیں ۔اسی طرح ’’القاموس الأزھری ،،ڈاکٹر کی کتاب بھی جدید دور کے اصطلاحات کے استیعاب میں ایک کامیاب ڈکشنری ہے ۔اور عربی مجلات و صحافتی اصطلاحات کے لیے ’’معجم الحی ،،بدیع الزماں قاسمی کی ڈکشنری بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے ۔اس کے علاوہ دیگر لغات و ڈکشنریوں اور تشکیل لغات کا کام جاری و ساری ہے ۔
٭ فلسفہ زبان اور علوم عربیت کی تصنیفات
عرب سے عربی فلسفہ ،اسرار و حکم ،نحو و صرف اور فنی اصطلاحات کی تصنیف و تالیف کی کرنیں جو سندھ پر پڑیں اس کاپرتو براہ راست علماے ہند پر پڑا اور علماے ہند نے اس پر خصوصی توجہ دے کر اس میں مزید رنگ و روغن بھرا ۔نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کی کل تقریبا ۴۰۰ سو تصنیفات بتائی جاتی ہیں جن میں ۵۶ تصانیف عربی زبان میں ہیں ۔’’البلغۃ الی أصول اللغۃ ،،’’تکمیل العیون بتصاریف العلوم و الفنون ،،’’أبجد العلوم اور الوشی المرقوم فی بیان أحوال العلوم المنثور منھا و المنظوم ،،جیسی اہم تصنیفات نواب صاحب کی انسائکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں ۔آپ عربی و فارسی کے شاعر بھی تھے ۔پیغمبر اسلام ﷺ کی شان مدحیہ اشعار کا  مجموعہ’القصیدۃ العنبریۃ فی مدح خیر البریۃ ،،عرب و عجم میں خاصامقبول و معروف ہے ۔آپ کے بعد اس میدان میں جسٹس کرامت حسین  کی ’’فقہ اللسان ،،سلیمان اشرف کی ’’المبین ،،عربی زبان کے فلسفہ ،اسرار و حکم پر کامیاب کتابیں ہیں ۔ان کتابوں سے مولفین کی ذہانت ،عمیق نظر اور عربی کے ادبی و لسانی ذوق کا عمدہ مظہر کا پتہ بھی چلتاہے ۔اسی طرح فن بلاغت پر عبد الحمید فراہی کی کتاب ’’جمہرۃ البلاغۃ ،،خالص عربی بلاغت کا پرتو ہے اور اس میں عجمی بلاغت پر ناقدانہ بحث کی گئی ہے ۔
علماے ہند نے فن نحو و صرف میںبھی بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ۔صرف میں وجیہ الدین کی  ’’المیزان ،،او ر’’میزان الصرف ،،جمال الدین گجراتی کی ’’شرح زبدۃ الصرف ،،او رحمزہ بدایونی کی کتاب ’’منشعب ،،جیسی اہم علوم عربیت کی کتابیں عربی صرف میں اضافہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔فن نحو میں شہاب الدین دولت آبادی  کی’’الارشاد ،،صفی الدین رودولوی کی ’’غایۃ التحقیق شرح الکافیۃ ،،اورعبد اللہ شطاری گجراتی ’’شرح جامی ،،قابل ذکر ہیں ۔اردو میں ’کتاب النحو،امین النحو ،’تسہیل النحو ،اور عربی کا معلم بھی اہم ہیں ،تاہم اس میدان میں علماے ہند کی ادبی و لسانی خدمات تاہنوز جاری و ساری ہیں ۔
٭ ہندوستان کے ادبا و شعرا
عہد جاہلیت میں عربی ادبا و شعرا اپنی فکری جولانیوں اور اپنے خوبصورت احساسات و جذبات کو شعری قالب میں ڈھال کر خانہ کعبہ کی دیوار پر چسپاں کرتے تھے اس سے ادب نواز طبقہ اپنی ادبی تشنگی بجھاتے تھے ۔اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ جہاں ان ادب کے بنیادی معماروں نے ادبی سہ پارے کا ایک معتد بہ حصے کی حفاظت کی وہیں پر یہ راہ دکھاد ی کہ اس کی حفاظت کیسے کرنی ہے اوراپنے فکری جولانی اور سماجی و لسانی اور معاشی و اقتصادی چیزوں کو کیسے تحریر میں لائی جائیں۔ اس ڈگر پر چل کر عرب و عجم کے ادب نواز طبقہ عربی صحافت ا ور  شاعری کی ایک تخم ریزی کی ،جس میں سرفہرست سرزمین ہند کے وہ خوشہ چیںرہے جنہوں نے اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیا ۔یہ سلسلہ دوسری و تیسری صدی ھجری ہی میں شروع ہوچکا تھا ۔اس صدی کے عظیم شاعر ابو العطا افلح بن یسار سندھی تھے اس کے کل ۱۳۴ عربی اشعار ہیں ،اسی طرح منصور ہندی ،سندھی بن صدقہ اور ہارون بن موسی ملتانی وغیرہم اپنے عہد کے بے انتہائی قادر الکلام شعرا تھے ۔ہندوستان کے عربی شعرا میں ہارون ملتانی کو یہ فخر حاصل ہے کہ عربی زبان و ادب کے’’ ابو الآبا،، کہے جانے والا جاحظ نے اپنی شہرہ آفاق کتا ب ’’کتاب الحیون ،،میں ہاتھی کے متعلق ان کے۳۶ اشعار لیے ہیں ۔(ہندو پاک میں عربی ادب : ۱۴۔۱۵)
امیر خسرو (وفا ت ۷۲۵ھ) اردو و فارسی کے ساتھ عربی کے بھی عظیم ادیب و شاعر تھے ان کے عربی اشعار کی تعداد ۴۰۰۰۰۰ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے ۔یہ وہ شاعر ہیں جن میں قدیم ادبا کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ۔ان کی وفات کے تقریبا ایک سو انتیس سال کے بعد ابو الفضل اکبر آبادی فکر و فن کی دنیا میں قدم رنجا ہوئے اورعلم الاخلاق کے موضوع پر ’’موارد الکلم،،اور تفسیر القرآ ن میں ’’سواطع الالہام ،،غیر منقوط عبارت میں کتابیں لکھ کر عربی کا بیش بہا سرمایے میں اضافہ کیا ۔اسی طرح نور الدین محمد صالح گجراتی بلند پایہ کے شاعرتھے انہوں نے۳۰۰۰ ہزار اشعار پر مشتمل تفسیر سورہ بقرہ اور ۲۰۰۰ ہز ار اشعار پرمشتمل ’’التفسیر النورانی للسبع المثانی ،،اپنے اشہب قلم سے صادر کیا ۔(نزھۃ الخواطر ۲؍۳۹۱)
عربی ادب میں علماے ہند کاایک اہم و ممتاز نام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ہے ،جن کی عربی دانی ، قوت تحریر اور اسلوب و تخاطب پر عرب رشک کرتے تھے ۔ان کے بارے میں نواب صدیق حسن خاں فرماتے ہیں کہ ’’اگر شاہ صاحب قدما میں پیدا ہوتے تو امام وقت تصور کیے جاتے ،،(ابجد العلوم :۷۶)شاہ صاحب کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغۃ ،،اسرار الشریعہ کے ساتھ ادب کے اعلی و ممتاز تصانیف میں شمار کی جاتی ہے ۔شاہ صاحب ہی کے ایک اور عظیم معاصر غلام علی آزاد بلگرامی ہیں جن کی بیشتر کتابیں عربی نظم ہی میں ملتی ہیں ۔۳۰۰۰ ہزار اشعار میں ’’شمامۃ العنبر فی ما ورد فی الہندمن سید البشر ،،۹۰۰۰ ہزار اشعار میں ’’غزلات الہند ،،اور عربی دیوان ’’سبع سیارۃ ،،کے نام سے لکھ کر عربی زبان و ادب کے فروغ میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ۔ان کے علاوہ شاہ رفیع الدین دہلوی ،عبد العزیز ملتانی ،رشید الدین خاں اور احمد یمنی شروانی قابل ذکر ہیں ۔’’نفحۃ الیمن ،،’انشاء عجب العجاب ،،اور مدحیہ قصائد کے مجموعے ’’المناقب الحیدریۃ ،،احمد شروانی صاحب کے مشہور شعری مجموعے ہیں ۔(ہندو پاک میں عربی ادب :۲۹)
تیرہویں صدی ہجری کے ادبا و شعرا میں عبد الرحمان بقا غازی پوری ،مفتی صدر الدین ،احمد واعظ کشمیری ،عبد الرشید کشمیری اور تاج العلما علامہ نجف علی حنفی نمایاں مقام رکھتے ہیں ،علامہ نجف عمدہ نثر نگار اور دواوین عرب کے کامیاب شارح تھے ۔’’شرح مقامات حریری ،غیر منقوط عبارت شرح دیوان متنبی اور ’’شرح دیوان قصیدہ امالی ،،ان کے اعلی انشا پردازی اور منفرد اسلوب و انداز کی بین دلیل ہے ۔مزید مطالعہ کے لیے نزھۃ الخواطر کا مطالعہ مفید ہوگا ۔
چودہویں صدی میں محمد احمد ٹونکی ،محمد ہاشم سورتی ،حکیم مختار ،عبد الحمید صادقپوری ،عبد الجبار عمر پوری ،حافظ عبد المنان غازی پوری اور مولانا ذولفقار احمد بھوپالی اہل حدیث شعرا و ادبا ہیں ۔ان میں مؤخر الذکر احمد بھوپالی علوم عربیت پر متعدد کتابیں لکھیں جن میں ’’محاسن المحسنین فی حکایۃ العالمین ،،اور ’’الروض الممطور فی تراجم علماء شرح الصدور ،،اہم ہیں ۔اسی طرح یوسف حسین خاں ،ابو المعالی مئوی ،ابو العالی نظر سہسوانی ،اعجاز سہسوانی صاحب ’’توقیع الفرند فی تذ کار ادبا ء الہند ،،اور خلیل بن محمد عرب یمانی و غیرہم بھی اس صدی کے سرخیل عربی ادب  تھے ۔
چودہویں صدی ہی کے تین ممتاز و مستند اہل حدیث ادیب علامہ محمد بن یوسف سورتی ،عبد المجید حریری اور علامہ عبد العزیز میمنی راجکوٹی تھے ۔ان میں یوسف سورتی علوم عربیہ و دینیہ بالخصوص عربی ادب و لغت ،عربی شاعری ،تاریخ اور تفسیر و حدیث میں آفاقی شہرت کے حامل تھے ۔آپ عربی شاعری پر مکمل قدرت رکھتے تھے جس کا عملی نمونہ آپ کا منتخب کردہ شعری مجموعہ ’’أزھار العرب ،،میں دیکھا جا سکتاہے ۔اسی طرح ادیب عصر علامہ عبد المجید حریری ادبا ہند کے سرخیل تھے۔جن کی ملی و ملکی خدمات قابل الذکر ہیں ،تاہم ان تینوں میں نمایاں خدمات عبد العزیز میمنی کی ہیں ۔انہوں ابو علی القالی کی مشہور تصنیف ’’الامالی ،،پر حواشی لکھ کر ’’سمط اللآلی ،،کے نام سے قاہرہ میں چھپوائی اور ’’الطرائف الادبیۃ ،،(جسے عبد القادر جرجانی نے ابو تمام بحتری اور متنبی کے دواوین سے منتخب کیا گیا تھا )آھ کے ضروری حواشی و تشریحات کے ساتھ شائع ہوئی ۔نیز ’’لسان العرب ،،کی تصحیح میں بھی آپ نے حصہ لیا جو قابل فخر اور لائق ستائش بھی ہے ۔
یہ سلسلہ یہی تھم نہیں گیا بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھا اور صاحب ’’اعلاء السنن ،،ظفر احمد عثمانی تک پہنچا ۔آپ کے عربی قصیدے کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں ایک ’’وسیلۃ الظفر فی مدح خیر البشر ،،اور دوسرا ’’نور علی نور ،،ہیں ۔اسی طرح شاعر بنگال عبد اللہ ندوی ،عبد اللہ شائق مئوی ،عبد الغفور بسکوہری ،اقبال احمد عمری اعظمی اہم ہیں ۔ان میں سے عبد الغفور بسکوہری عربی میں سینکڑوں اشعار کہے اور مولانا اقبال اعظمی ظریف الطبع انسان ،برجستہ گو شاعر اور ادیب و لغوی تھے ،عربی کے بہت ساریمجلات میں آپ کے بلیغ و مدحیہ قصائد و مراثی شائع ہوئے ۔
اسی طرح ملک کا عربی ماہنامہ مجلہ ’’البعث الاسلامی ،،کے بانی محمد الحسنی بلند پایہ صحافی ،ادیب اور فکر اسلامی کے علمبردار گزرے ہیں ،جن کے ادارتی و افتتاحی مقالات کا مجموعہ ’’الاسلام الممتحن ،،نے عرب و عجم میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے ۔آپ ہی کے معاصر اور خاندان کے اہم چشم چراغ ،بر صغیر ہند و پاک کے عظیم ادیب،سرزمین ہند میں ادب اسلامی کے قائد مولانا ابو الحسن ندوی ہیں ،آپ کی شناخت ایک عربی ادیب کے طور پر ہے ۔ادب اطفال کے لیے لکھی گئی کتاب ’’قصص النبیین ،،کا سلسلہ ایک عمدہ سلسلہ ہے ہندوستان کے تقریبا ہر مدرسہ میں داخل نصاب ہے ۔اسی طرح آپ کی شہرہ آفاق کتاب ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ،،عرب و عجم میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے یہ کتاب تاریخ اسلام پر مشتمل ہے لیکن اس میں ادبی پہلو نمایاں ہے ۔آپ کی عملی زندگی کے نمونے اور ادبی و لسانی کی علمی وراثت آپ کے بھانجے مولانا رابع حسنی ندوی کے حصہ میں آئی اور’منثورات ،نامی عربی ادب آپ کا ترتیب کردہ ایک عمدہ مجموعہ ہے ۔رابع حسنی ہی کے ایک عظیم معاصر ،فخر بہار عرب وعجم کی مشہور شخصیت ڈاکٹر لقمان سلفی ہیں جن کے کارہائے نمایاں تاریخ قوم و ملت اور لسانیات کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے ۔انہوں نے سرزمین بہار کے چمپارن کے علاقہ میں ایک عربی ادارہ بنام ’جامعہ ابن تیمیہ ،کی بنیاد رکھی جہاں ہر نئی صبح اور ڈھلتا ہوا دن میں عربی ہی کی تعلیم ہوتی ہے ۔تعمیری و ترقیاتی کاموں کے ساتھ آپ تصنیف و تالیف میں بھی جڑے رہے ۔عربی ادب میں آپ کا سب سے عظیم کارنامہ یہ ہے کہ طلبہ مدارس کی ذہنی صلاحیت کے مطابق مرحلہ وار ابتدائیہ تا فضیلت’’السلسلۃ الذھبیۃ للقرأۃ العربیۃ،، عربی زبان و ادب پر مشتمل بارہ جلدوں میں ایک سیریز کا حسین گلدستہ پیش کیا جو دور حاضر کے مطابق ہے اور جدید و قدیم ادبا کی نگارشات و مقالات اور جدید اصطلاحات کا خاص خاص خیال رکھا گیا ہے ۔پاکستان کے کئی اسکول میں آپ کی کتابیں شامل نصاب ہیں ۔اسی طرح پروفیسر مجیب الرحما ن،پروفیسر ثناء اللہ ،پروفیسر اشفاق ندوی ،پروفیسر سیعد( کلکتہ) ڈاکٹر ضیاء الرحمان اعظمی ،ڈاکٹر وصی اللہ عباس ،، عبد المنان مدنی ،فضل الرحمان ندوی اور اسد الرحمان تیمی (اساتذہ جامعہ ابن تیمیہ )سعید الاعظمی ،واضح رشید ندوی اور شیخ عزیر شمس عربی کے قابل شخصیات ہیں ۔شیخ عزیر شمس فی الوقت مکہ کی ام القری یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں ان کی تقریبا سترہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور فی الحال شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مخطو طے کی ترتیب کا کام میں مصروف ہیں ۔اسی طرح جامعہ ابن تیمیہ کے مایہ ناز استاد شیخ ابو القیس مدنی بھی عربی زبان و ادب پر گہرا عبور رکھتے ہیں عربی میںکتاب ’’الادیان و الفرق ،،آپ کے اشہب قلم سے نکل چکی ہے اور کئی کتابیں زیر اشاعت ہیں ۔بہار کے سیمانچل اضلاع کے دو شیرشاہ آبادی قوم کے مایہ ناز جیالے شیخ اختر عالم سلفی اور عبد المتین سلفی بھی عربی کے فصیح اللسان انسان تھے اس میں شیخ اختر سلفی بلاغت پرخاصا عبور رکھتے تھے اور خطوط نگاری میں یگانہ تھے ۔ان کے علاوہ حشر الدین مدنی رئیس مترجمین حرم مکی ادب کے اہم نام ہے اسی طرح مجلاتی صحافت کے ذریعہ اس میدان میں کام کرنے والوں میں خلیل امین مدیر مجلہ ’’الداعی ،،سعید الاعظمی ’’البعث الاسلامی ،،قابل ذکر ہیں ۔
٭ عربی مجلات و جرائد کا اجرا
کسی بھی زبان کی نشر و اشاعت میں رسائل و جرائد اور مجلات کی خدمات سے چشم پوشی نہیں کیا جا سکتا ہے ،جہاں تک بات عربی کی ہے تواس معاملہ میں ہندوستان میں اس کے پہلو شروع ہی سے درخشندہ و تابندہ رہے ہیں ۔ملک کے مختلف ریاستوں سے پوری پابندی کے ساتھ ماہنامہ ’سہ ماہی اور پندرہ روزہ مجلہ شائع ہورے ہیں ۔ہندوستان میں پرانے مجلوں میں ماہنامہ ’’البیان ،،(لکھنؤ) ہفت روزہ جریدہ ’’الجامعۃ ،،(کلکتہ ) عربی کا شاہکار ماہنامہ ’’نسیم الصبا ،،(لاہور ) ماہنامہ ’’الضیاء ،،(ندوۃ العلما کا عربی ترجمان )اور ’’الرضوان ،،(۱۹۳۵)قابل ذکر ہیں ۔حکومت ہند کی جانب سے پوری پابندی کے ساتھ نکلنے والے مجلات ’’ثقافۃ الہند ،،اور جرید ہ ’’صوت الہند ،،ہیں یہ دونوں رسالے بڑی مدت سے نکل رہے ہیں ۔ندوۃ العلما ء کا ماہنامہ ’’البعث الاسلامی،،پندرہ روزہ جریدہ ’’الرائد ،،(مدیر سعید الاعظمی ) دار العلوم دیوبند کا ’’الداعی ،،(مدیر خلیل امینی ) دہلی جمعیت کا پندرہ روزہ ملی و اسلامی جریدہ ’’الکفاح ،،اور جامعہ ابن تیمیہ کا سہ ماہی علمی ترجمان ’’الفرقان ،،(سمیع اللہ عمری ) پوری پابندی کے ساتھ نکل رہے ہیں ۔ان سب کے علاوہ اور دوسرے وسائل و ذرائع کی مدد و تعاون سے فروغ عربی کے لیے خدمات انجام دیے جارہے ہیں۔
٭ ہندوستان میں عربی ادب کا روشن مستقبل
عربی زبان و ادب کی نشر و اشاعت اور اس کی ترقی و ترویج کے لیے علماے ہند کی مذکورہ خدمات جلیلہ اور مساعی جمیلہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کا مستقبل تابناک ہے ۔چوں کہ شروع ہی سے علماے ہند نے پوری جواں مردی ،تندہی ،نیک نیتی اور جگرکاوی کے ساتھ اس کی خدمات ہیں ۔اوپر کی سطور میں لکھے حقائق و واقعات اورناقابل فراموش خدمات کی روشنی میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں عربی ادب کے جدید طرز ،نئے زاویہ فکر ،جدید اسلوب و نگارش کا ایک روشن باب ضرور وا ہوگا اور نسل نو کے قلم کاران و نو اردان صحافت اس سے جڑیں گے اور اسلاف کے شانہ بہ شانہ چل کر فروغ عربی ادب میں یگانہ خدمات انجام دیں گے ۔(ان شاء اللہ )
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular