Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldصغریٰ عالم کی شاعری ’’صف ریحان‘‘ کے آئینہ میں

صغریٰ عالم کی شاعری ’’صف ریحان‘‘ کے آئینہ میں

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

قمرالنساء 
ڈاکٹر صغرٰی عالم کا شمار بر صغیر کی نمائندہ شاعرات میں ہوتا ہے انکا تعلق سر زمین بندہ نواز گیسودراز سے ہے ۱۸ فروری ۱۹۳۸ میں ایک علمی وادبی گھرانے میں آنکھیں کھو لیں ۔گھر کی ادبی فضاء نے انکی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی ۔پیشہ تدریس سے وابستہ تھیں  جہاں وہ ایک کامیاب شاعرہ اور نثر نگار ہیں وہیں بہترین استاد بھی ۔انکے پیش نظر طالب علموں کی تعلیم ہی نہیں تربیت بھی تھی اور وہ طلباء کی تربیت ساتھ ساتھ انہیں جینے کا ڈھنگ اور سلیقہ بھی سکھاتی تھیں ۔
بقول صغری عالم:
ہر ایک صبح کو وہ مکتب کے نام کرتی تھی
ردا ورق کی تھی قوس وقزح کے رنگوں میں
قدم اٹھاتی تھی مکتب کی جائے احسن تک
سبق وہ پڑھتی تھی ممتا کی آیتوں کی طرح
انہو ں نے اپنے تخلیقی اظہار سے ادبی دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا اور انہوں نے اپنی ادبی زندگی کاآغاز بھی شاعری سے کیا۔
صغرٗی عالم اپنی شاعری سے متعلق رقمطراز ہیں۔
“مجھے اس شاعری پر یقین ہے جو زندگی سے پیار کرنا سکھاتی ہو ،جو جمالیاتی احساس کو روشن کرنے کے علاوہ سماج کے خزاں آشنا جسم کو موسم ِبہار کا لباس ِفاخرہ پہناتی ہے ۔قومی یکجہتی ،حقوق نسواں ،زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کا اظہار حیات کے قریبی موضوعات سے میای شاعری عبارت ہے۔”
انکی شاعری میں بھی تدریس اور تربیت کے نمونے مل جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں وہ ایک بہترین اور بے مثال شاعرہ تھیں ۔ تا حال انکی گیارہ کتابیں منصہ شہود پر آچکی ہیںجنمیں سات شعری مجموعے
۱) حیطئہ صدف  ۱۹۹۰؁
۲) بیت الحروف  ۱۹۹۵؁
۳) صفِ ریحاں ۱۹۷۷؁
۴) محرابِ دعا (حمد و نعت) ۱۹۹۹؁
۵) قوس وقزح  ۲۰۰۴؁
۶) حناِغزل  ۲۰۰۵؁
۷) نشاطِ معنی  ۲۰۰۷؁
انکے علاوہ نثری مجموعے
٭ کفِ میزاں(تبصرے)۲۰۰۴؁
٭ نامے جو میرے نام آئے(خطوط)۲۰۰۴؁
٭ ابر نسیاں (مصنفہ کی کتابوں پر لکھے گئے تبصرے)۲۰۰۶؁
میزان عروض (عروضیات)اور ردائے سخن (شعری مجموعہ) ——زیرِترتیب
صفِ ریحاں صغرٰی عالم کے تخلیقی اظہار کی تیسری کڑی ہے جسمیں سب سے پہلے کشتِ ریحاں کے عنوان سے مصنفہ کا مقدمہ ہے روش نامی عنوان میں ۵۳ غزلیں ،۴ دوہے اور ۷ مختلف عنوانات پر نظمیں ہیں صغرٰی عالم کی شاعری ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح ادب کے قارئین کو فرحت اور سرشاری کا احساس کراتی ہیں ۔زیرِنظر تصنیف میں انہوں نے ــــ”کشتِ ریحاں”کے تحت اپنی شاعری پر بہت ہی شاعرانہ اور دلنشین اسلوب میں مقدمہ لکھا ہے۔؎
“سچائی کی بوندیں دل میں جذب ہوئیں ،آسمان سے نور اور سنہری خوابوں میں تعبیریں اترنے لگیں تو میں نے صفِ ریحاں کا اہتمام کیا۔”
(صف ریحاں ص۸)
صغرٰی عالم برصغیر کی ایک ایسی شاعرہ ہیں جو اپنی تخلیقی سوچ کو شعر بنانے کے عمل میں بہت ہی دلنشین اسلوب اختیار کرتی ہیںحمدیہ کلام ہو کہ نعتیہ کلام ہو ،غزلیں ہو کہ نظمیں ہو۔وہ بغیر کسی تصنع کے اپنے مشاہدے ،مطالعے اور محسوسات کو اپنی شاعری میں سمو لیتی ہیں ۔ انہوں نے اپنے ہر مجموعے کلام کی ابتداء حمد اور نعت سے کی ہے حمدیہ اور نعتیہ کلام کا نمونہ ملاحظہ ہو۔
حمد کے اشعار:
صدائے کن سے ابد تک شباب تیرا ہے
عیاں بھی تو ہی ہے پنہاں حجاب تیرا ہے
کسی بھی در سے اجالوں کی بھیک کیا مانگیں
 اندھیری شب بھی تیری آفتاب تیرا ہے
شاعر جب رسول کے پاکیزہ سمندر میں ڈوب کر اپنے جذبات کو شعر کے قالب میں ڈھالتا ہے تو وہ الفاظ نعت کی شکل میں روح سے نکلتے ہیں خدا کی خوشنودی و معرفت عشق رسول پر موقوف ہے اور صغرٰ ی عالم کو حضور سرور کائنات سے بے پناہ محبت تھی اسکا اندازہ ان اشعار سے ہوتا ہے۔
نعتیہ اشعار:
میرے سرکار کی توصیف میں دفتر لکھنا
صاحب ِلوح  وقلم  علم کے مرکز لکھنا
خاک بطحا میں مرے تن کو ملا کر لکھنا
میری تقدیر محمد کو سنا کر لکھنا
کہا جاتا ھیکہ انہیں  ایک خواہش تھی کہ اہ اپنے نام کے ساتھ بھی محمدسابقے یا لاحقے کے طور پر استعمال کریں جو کہ اکثر مردوں کے نام کے ساتھ لگایا جاتا ہے اورانکی خواہش حقیقی زندگی میں تو پوری نہ ہوسکی مگر شاعری میں انہوں نے اس  حسرت کو مسرت میں بدل لیا۔
مجھ کو حاصل ہوں مدینے کے اجالے یا رب
اک مرا نام بھی اب کے سر محضر لکھنا
میں نہ لکھ پائوں گی توصیفِ محمد صغٰریؔ
اتنا آسان نہیں توصیفِ پیمبر لکھنا
ان اشعار سے ظاہر ہوتا ھے کہ انہیں حضور سرور کائنات سے کتنا عشق تھا اور انکی دلی وابستگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
 انکی شاعری میں جہاں ایک طرف زندگی کی رعنائی اور دلکشی ہے تو دوسری طرف زندگی کی تلخیوں کی روش بھی ہے۔زندگی کے نشیب وفراز کو انہوں نے اپنی شاعری کا اہم موضوع بنایا ہے جہاں سکھ اور دکھ ،خوشی اور غم، حسرت ویاس، محبت اور نفرت جیسے احساسات کی تر جمانی ہوتی ہے حناغزل کے پیش لفظ” سرخ رو “میں لکھتی ہیں ۔
“سچ تو یہ ھیکہ پیار درد اور احساس کے عکس کو جذب کرنے کی تمنا ہو جائے تو دل ودماغ میں ایک شعور پھیل جاتا ہے اور زبان سے شعور کی بوندیں گرنے لگتی ہیں یہی شعور شعر سے لہجے کی صداقت بن جاتا ہے۔”
(حنا غزل ص۲)
اور عشق شعور کی کار فرمائی ہے شاعری کا مرکز ہی عشق ہے اور عشق سے ہی درد وکرب ،فکر وخیال ،ہجر و وصال کو جلا ملتی ہے ۔اور یہ عشق کبھی حقیقی تو کبھی مجازی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ صغرٰی عالم کے یہاں ان ہی حقیقی اور مجازی تصوروں کی دنیا آباد ہے ۔
ہمارے درد نے معنوں سے لذتیں لے کر
ہر ایک لفظ کے پہلو میں شاعری کی ہے
یہ عشق پیار محبت وفا جنوں صغرٰی
کوئی یہ دل کا اثاثہ مزید لائے مجھے
اکثر و بیشتر ان فنکاروں کے فن میں ہمیں ہماری زندگی کا ترجمان دکھائی دیتا ہے۔سغرٰی عالم نے بھی زندگی میں درپیش مسائل کرب و مسرت اور جن حالات سے ہم نبرد آزما ہوتے ہیں اپنے فن میں قید کر لیا ہے اور انکے تجربات و مشاہدات ہمارے خیالات کا عکس بن جاتے ہیں ۔
اک کاشت گلابوں کی ہے ریشم کی ہیں فصلیں
خوش باش ہوا دن اور خوش رات ہوئی ہے
میں نے پائی ہی نہیں ہجر کے لمحوں کی سزا
میرا  محبوب  مجھے اپنی کتابوں میں  ملا
غم اور  خوشی  کا ایک  صحیفہ ہو ہاتھ میں
 ہر  اک  ورق  کو  رشتہ   وابستگی  ملے
غرض صفِ ریحاں زندگی کے نشیب وفراز اور دلکشی و تلخی دونوں کا حسین سنگم ہے خود صغٰری عالم “کشتِ ریحاں “میں رقم طراز ہیں ۔
ـ’’صف ِ ریحاں میں کوئی اندیشئہ سود وزیاں نہیں ہے صرف سچ کی نمود ہے جس سچ کو دل مانے اور جو روح میں سرائیت کر جائے۔۔۔۔۔۔۔
رنج و الم کے برگ آوارہ ہوا کے دوش پر اڑتے رہے اور صفِریحاں سجتی رہی جسمیں فطرت کی دھوپ چھائوں ،حالات کی نرمی گرمی موجود ہے،خواب کی روشنیاں بھی ہیں رتجگوں کے احساسات بھی ہیں ،خیالات کا اظہار بھی ہے ،راز ہائے سر بستہ کی سر گوشیاں بھی سنائی دیتی ہیں، نسیم صبح ہے اور شبنم کی التفات بھی ہیں ،کچھ کھو کر پانے اور پاکر کھونے کی تقدیریں بھی ہیں”۔۔۔۔
( صفِ ریحاں ص۳)
  اس اقتباس پر یہ اشعار صادق آتے ہیں۔
کبھی خوشی بھی نبھائی غموں کو خوش بھی کیا
ہزار  رنگ  لٹا کر یہ  زندگی  کی  ہے
ہمارے درد نے معنوں سے لذتیں لے کر
ہر ایک  لفظ کے پہلو میں شاعری کی ہے
انکی شاعری زندگی کے مختلف پہلوئوں کی ترجمانی کرتی ہے انکی شاعری میں عشقِ حقیقی بھی ہے اورعشقِ مجازی بھی،قومی یکجہتی بھی ہے اور حب الوطنی بھی ۔اور وہ وطن کے حالات پر بھی بے لاگ تبصرہ کرتی ہیں۔
ـ؎  وہ ہوچکا تھا وطن سے غافل وہ زر پرستوں کے کام آیا
جسے نہ تھی کچھ وطن کی قیمت  اسی کے ہاتھوں نظام آیا
جہاں انکی شاعری شگفتہ لب و لہجہ لئے ہوئے ہے وہیں طنز کی کاری ضرب بھی ہے اورحالاتِ حاضرہ پر بھی بہترین اشعار موجود ہیں اشعار دیکھئے۔
رنگِ گل ،جسکو خزاں نے بھی دمکتا دیکھا
آج اس گل کو بہاروں نے مسلتا دیکھا
کون بستی ہے کہ مقتل کا گماں ہوتا ہے
خون ہی خون جبینوں سے ٹپکتا دیکھا
اپنے ہاتھوں میں لئے  مشعلِ جبر وستم
حاکم ِدیر و  حرم کو  بھی  گزرتا  دیکھا
زیر ِنظر تصنیف کی نہ صرف غزلیں بلکہ نظمیں بھی قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہیں مختلف عنوانات کے تحت نظمیں لکھی گئی ہیں مدر ٹریسا کے سانحہ ِارتحال کے موقعے پر شاعرہ نے ایک بہت ہی پر سوز نظم لکھی ہے نظم کا عنوان ہے “مادر ِ مخلوق غم آسا  مدر ٹریسا”کے اشعار ملاحظہ فرمائے۔
زمینی خُلد سے رخصت ہوئی مادر
بشرزادی
فرشتہ خصلتوں والی
مسیحا دردمندوں کی
دریدہ جسم کا مرہم
بلکتی روح کی تسکین
معالج دردِپیہم کی
صحیفہ  دل کی آیت کا
صداقت نیک راہوں کی
عمل پیکر ،مفسر درد مندوں کی
عنایت آئینہ فیصل
وفا ثابت نظر اونچی
مقدس بندگی والی
دعا والی
فنا کے بعد بھی ہوگی بقاء اسکی
ہمیشہ یاد کی صورت
نہ کوئی دوسرا ہوگا
مماثل مادرِمخلوق جیسابھی
 اس قسم کے جذبات عورت ہی کا خاصہ ہے جسمیں شدت محبت اور ممتا ملی جلی ہے ان اشعار کو پڑھنے سے انکے جذبات و احساسات کی پاکیزگی کا  اندازہ ہوتا ہے انہوں نے اپنی شاعری میں اکثر لفظ ” صحیفہ”اپنی ماں کے لئے استعمال کیا ہے اور یہاں قوم مادر کے لئے بھی اس لفظ کا استعمال انکی عقیدت کا ثبوت ہے۔
زیرِنظر کتاب کے مطالعے سے صغرٰی عالم کی فکری نہج ،کھلا ذہن ،جراء ت مندی ،حوصلہ مندانہ تفکر سامنے آتا ہے ا نکی جراء ت مندی اور فکری نہج کو انکی شاعری میں جا بجا  محسوس کیا جا سکتا ہے
 پروفیسر عنوان چشتی رقم طراز ہیں۔
” قسام ازل نے صغرٰی کو زبردست تخلیقی قوتوں سے بہرہ مند کیا ہے میں انکی تخلیقی قوت ّ کا بے حد معترف و مداح ہوں ۔۔۔۔ انکی تحریروں میں جو حسن اور زندگی ہے جو تخلیقی شان ہے وہ انشاء اللہ اپنے لئے خود راستہ بنا لے گی بالکل پہاڑی ندی کی طرح جو چھل بھل کرتی ہر بلند وپست سے اپنا راستہ بنا کر نکل جاتی ہے۔”
(صف ریحاں ص۴)
صغرٰی عالم ایک منفرد لب و لہجہ کی شاعرہ ہیں وہ کسی مخصوص نظریہ کی حامل نہیں تھیںنہ ہی انکی شاعری کو کسی ادبی منشور سے وابستہ کیا جاسکتا ہے انکی شاعری میں اس عہد کا عکس ضرور دیکھا جاسکتا ہے۔
دل دہل جائے گا اور روح تڑپ اٹھے گی
اب اذانوں کی صدا  بن کے ابھرنا  ہوگا
ناخدا  اپنے  سفینے  کا بھرم  رکھ  لینا
آگ  دریا کا ہے  اس  پار  اترنا  ہوگا
احمد جلیس انکی شاعری کے بارے میں فرماتے ہیں۔
“صغٰر ی عالم حیدرآباد کرناٹک کی واحد شاعرہ ہیںانکی شاعری اہل گلبرگہ کے لئے ایک انمول تحفہ ہے محترمہ کی تخلیق سر زمین بندہ سے اٹھی ہے جو پھولوں میں تولنے کے قابل ہے۔”
 صفِ ریحاں میں شامل غزلوں نظموں میں بھلے ہی کوئی فلسفہ ِزندگی نہ ہو زندگی ضرور ہے ایسی زندگی جو دہائیوں کے مطالعے ،مشاہدے اور تجربات کا نچوڑ ہے ۔
نہ تخت و تاج نہ شاہی لباس تھا اپنا
محبتوں کے قبیلے کی سروری کی ہے
  انکے اشعار میں جہاں زبان وبیان کی سادگی ہے وہیں دوسری طرف خیال کی صداقت متاثر کن ہے شاعری کے لئے شاعر میں جمالیاتی حسن ہونا بہہت ضروری ہے صغٰری عالم ایک ایسی شاعرہ ہیں جنکے پاس لفظی جمالیات کا خزینہ ہے دراصل یہی لفظی جمالیات  انکا شعری اسلوب ہے وہ تراکیب اور بندش ِالفاظ کا استعمال بہت ہی فنی چابکدستی سے کرتی ہیں جس سے انکی شاعری جگمگا اٹھی ہے جیسے صفِ ریحاں ،حنائی دست،صحیفئہ جان،عود وعنبر ،دستِ نارساِ،بیت الصواد،دست یارانِ وفا،نسخئہ زیست،ابر نسیاںاور قفل ابجد وغیرہ ان لفظیاتی ستاروں سے انکی کہکشاںِشاعری سج اٹھی ہے ۔
چشمِ نم ابر نیساں میں صدف ِدل ملا
جوہری کو پرکھنے کی فرصت بھی ہو
خود اپنے پاس ہی رکھنا کئی ایک عر ضیاں بھر کر
نہیں کھلتے یہ سارے قفلِ ابجد کنجیاں  بھر کر
شاید اسی لئے انکی شاعری قاری کے ذہن و دل میں براہ راست اتر جاتی ہے انکی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے جہاں وہ الفاظ کے ساتھ کھیلتی نظر آتی ہیں اور ان الفاظ سے اپنے تخیلات کو حقیقی جامہ پہناتی نظر آتی ہیں۔
تمام  راتیں  بچھائیں  یہاں صفِ  ریحاں
تصورات  میں  یادوں کو  پر  بہار  کریں
٭٭٭٭٭
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو و فارسی، 
گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ،9379714997
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular