Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسوال ؟

سوال ؟

ڈاکٹرشمیم نکہت

جب سے اس نے ہوش سنبھالااپنے ارد گرد محبتوںکے گلاب مہکتے محسوسکیے —-وہ —-سب کی آنکھ کا تارا تھی—- ابو—-دادی اماں،چچا جان—-پھوپھی امی وہ جدھر نظر اٹھاتی محبتیں اس کے قدم چومتیں—-اس کی ہر خواہش پھول بن کر چمک جاتی—-لیکن پھر بھی—-کبھی کبھی اسے لگتا—-کہیں کچھ کم ہے—-اور سناٹوں کا ایک آدھ جھونکا بھی اسے خوفزدہ کردیتا—- خوشبوئیں پھر گھیر لیتیں—-اور وہ محسوس کرتی شاید کچھ بہت زیادہ ہے۔اسے نہیں معلوم تھا کہ کمی کیا ہے—-لیکن اسے یہ ضرور معلوم تھا کہ زیادہ کیا ہے ۔وہ جدھر قدم بڑھاتی سب کی باہیں پھیل جاتیں—-اور اس کا ننھا سا ذہن کچھ تلاش کرنے لگتا —-وہ چمیلی اور چمپا میں جھولتی ہلکورے لیتی اب کچھ ڈھونڈنے لگی تھی—-کہ اس کے چاروں طرف پھیلی مہکوں میں کچھ کم تھا بہت کم—-
اسے دادی اماں روز کہانیاں سناتیں—-اور وہ خوابوں کی دنیا میں جاگ اٹھتی۔۔کبھی شہزادی کی ماں اور کبھی پری کی ماں،کبھی بکری کی ماں سب کی مائیں اس کو اپنی گود میں اٹھالیتیں۔اور وہ دور دور تک تلاش کرتی اس کی اپنی ماں کون سی ہے —-ابو کی امی—-صغرا کی امی اور وہ بھٹکنے لگتی میری امی کون سی ہیں؟۔میری اپنی امی۔۔پھر اسے ایک دن معلوم ہوگیا—-اس کی اپنی امی کوئی نہیں —-اور اس کا جی اداس ہوگیا وہ سب کے درمیان رہتے ہوئے تنہا ہوگئی تھی۔ میری امی کی کہانی سنائوکئی کہانیاں شروع ہوئیں—-لیکن اس نے اپنی ننھی ننھی انگلیوں سے ان کا منھ بند کردیا—- میری امی کی کہانی سنائو—-میری امی کی۔پھر دادی اماں نے اسے بتایا تھا کہ جب وہ دو سال کی تھی ۔امی اس کو ساتھ لے کر نانی کے یہاں گئیں تھیں اور پھر نانی نے پتہ نہیں کیا کیا—-کہ امی اللہ کو پیاری ہوگئیںاور ابو ان سب سے ناطہ توڑ کر اسے اپنے ساتھ لے آئے تھے—-اور بس کہانی ختم ہوگئی—-
لیکن بھلا کہانی کیسے ختم ہوتی—-کہانی نے تو اس کے ذہن میں اب جنم لیا تھا —-امی اللہ میاں کو پیاری کیسے ہوگئیں ۔اللہ میاں نے انھیں کیوں بلا لیا؟—-پھر امی مجھے چھوڑ کر کیوں چلی گئیں؟ —-نانی کے بہت سے چہرے ابھرتے کبھی پریوں کو کھا جانے والی ڈائن —-کبھی پہاڑوں پر بسنے والی جادو گرنی—-اور کبھی ظالم ملکہ —-پھر وہ بڑی ہوتی گئی —-اور کہانی میں مختلف رنگ ابھرتے گئے —-اس کے ذہن میں مختلف کہانیاں جنم لیتیں اور پھر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر جاتیں—-لیکن کہانی کا مرکز ایک ہی تھا —-امی—- تم کیسی تھیں؟ـ—-تم کیوں چلی گئیں؟—-تم کہاں کھو گئی؟—-اور اس کی بیچین آنکھیںامی کو کائنات کے ذرے ذرے میں تلاش کرتیں—-جہاں تنہائی نے گھیرا—-امی کا سایہ لہرا اٹھا—-کبھی دور افق کے دھندلکے میں امی کا ہیولا ابھرتا—-کبھی شفق کی سرخیوں میں آنچل لہراجاتا—- تو کبھی چاند کی ٹھنڈی چھائوں میں ممتا برس پڑتی—-اور وہ تڑپ جاتی—-بے چین ہو جاتی—-اسے کہانی کی سچائی پر شک تھا ۔۔لیکن حقیقت کس سے پوچھے —-کیسے پوچھے—-کہ امی کا ذکر گھر کے ہر فرد کے لئے آسیب زدہ تھا—-دادی اما ں چپ ہوجاتیں —-چچا جان ٹال جاتے —-اور ابو کے سامنے زبان تالو سے چپک جاتی—-اور آواز ساتھ چھوڑ دیتی—-ان کی بے پناہ محبت کے باوجود کبھی وہ ان سے قریب نہ ہوسکی ان کے درمیان انجانے کا خوف کا پہاڑ حائل تھا —-
اس کے ہونٹ سلے ہوئے تھے —-لیکن ا س کا پورا وجود تلاش بن چکا تھا —-تنہائی کے اندھیرے ہو یا رات کی سیاہی—-وہ حافظے کی شمع جلاتی اور ماضی کی زنجیریں پھلانگتی ۔۔۔دور تک نکل جاتی —-یہاں تک کہ راہیں دھندلی ہو کر غائب ہوجاتیں—-اوروہ تنہائیوں میں پھر گھبرا جاتی—-اور یہ ناکامی اس کو بے کسی کا لبادہ اُڑھا دیتی —-
وہ ہنس مکھ سانولی سلونی—-چھرہرے بدن والی نازک سی لڑکی اپنے اندر ایک طوفان چھپائے جی رہی تھی —-وہ سہیلیوں کے ساتھ ہنستی—- کھیلتی—-قہقہے بھی لگاتی —-کہ کہیں سسکیاں نہ ابھر آئیں—-اور وہ ان سب میں کمتر نہ ہوجائے کہ اس کے پاس ماں کی دولت نہیں تھی—-ممتا کے گھونٹ گھونٹ کو ترستی وہ جوان ہوگئی تھی—-اس کا گھر اس کا ہاسٹل تھا —-اس کا کنبہ اس کی سہیلیاںتھیں—-اور اس بار تو وہ گھر سے آتے ہوئے چچا جان کے البم سے ایک تصویر ہاسٹل آتے ہوئے نکال لائی تھی —-اور وہ اپنے بیڈ کے سامنے دیوار پر چپکا دی تھی—-بلیک اینڈ وہائٹ فوٹو جس میں ایک توانا اور خوبصورت عورت اپنی پیاری سی بچی کو گود میں بٹھا کر فخر سے مسکرا رہی تھی—-کہ وہ فخر وہ غرور ایک ماں کا تھا —-جس کی گود میں ممتا جی رہی تھی —-اور اب اس کی تنہائیوںنے ایک شکل پائی تھی—-وہ دیوار میں چپکی اس بے جان تصویر کو دیکھتی—-دیکھتی رہتی—-اور اسے محسوس ہوتا کہ وہ ہمک کر گود سے پھسل گئی ہے —-وہ بیڈٖ پر بیٹھے بیٹھے مسکرا دیتی—- اور امی کا چہرہ اداس ہوجاتا ممتا بے نور ہوجاتی—-اور وہ گھبرا کر ماں کی گود میں پہونچ جاتی—- وہ اکثر تنہائیوں میں یہ آنکھ مچولی کھیلتی۔کہ اب اس کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہی اس کی ماں ہے—-اس نے بہت بار ماضی کی زنجیروں کو پار کرتے ہوئے اپنی اس ماں کی گرم گرم گود کے لمس تک پہونچنے کی کوشش بھی کی تھی۔۔لیکن وہاں تک پہونچتے پہونچتے سب کچھ دھندلا ہوجاتا اور پھر وہ کاغذی ماں کے پاس واپس آجاتی—- کہ اب وہی اس کی امی تھی۔اسے اچھی طرح یادتھا جب ابو اسے ہاسٹل چھوڑنے آئے تھے وہ سات سال کی تھی۔ابو اسے بہت چاہتے تھے—-جب اسے ہاسٹل چھوڑ کر جارہے تھے تو ان کی آنکھیں تر تھیں،اور وہ رو دی تھی—-ابو نے سمجھایا تھا تمھیں بہت پڑھنا ہے—-اور نام پیدا کرنا ہے —-اور بہت اچھا بننا ہے—-اور اس نے ابو کے سینے میں منھ چھپا لیا تھا —-اور وہ کئی سال پیچھے چلی گئی تھی—-اسے یاد آیا کہ وہ ابو کی گود میں بیٹھی تھی۔ابو کے کپڑوں سے بڑی پیاری سی خوشبو آرہی تھی —-قمقمے جگمگا رہے تھے اور کافی لوگ بھی جمع تھے —-ابو کا چہرہ پھولوں سے چھپا ہوا تھا —-اس نے گود میں بیٹھے بیٹھے پھولوں کی لڑیاں ہٹا کر ابو کو جھانکا۔۔وہ ابو ہی تھے—-اور ابو نے جھٹ سے اسے پیار کر لیاتھا۔وہ بڑی خوش تھی—-اس کے ابو دولہا بنے ہوئے تھے —-بڑے پیارے لگ رہے تھے —-
صبح ایک دلہن کے مہندی لگے ہاتھوں نے اسے اپنی طرف گھسیٹا تھا—-اور وہ گھبرا گئی تھی—-پھر کسی نے اس کو بتایا کہ یہ اس کی امی ہیں—-اور وہ خوش ہوگئی تھی—-اب اس کی بھی امی آگئی ہیں—-امی؟—-اس نے غور سے دیکھا —-اور ہنس دی—-نازیہ تم ہاسٹل میں رہو گی۔۔۔؟ابو نے بڑے پیار سے پوچھا تھا—-اور نازیہ نے ابو کی گود میں ہمکتے ہوئے شارق کی طرف دیکھ کر کہا—-ہوں—-اور امی کہہ رہی تھیں اتنی سی بچی سے کیا پوچھنا —-جو بہتر ہو وہی کرنا چاہئے—-اور پھر وہ ہاسٹل آگئی تھی—-اور گھر میں کئی بہن بھائیوں کا اضافہ ہوتا گیا تھا—-لیکن ابو کی زبان پر نازیہ لکھ سا گیا تھا —-چھٹیوں میں وہ گھر جاتی اسے محسوس ہوتا—-ابو کی تمام چاہتیں اس کے چاروں طرف کھل اٹھی ہیں اور پھر ایک مہندی لگے ہاتھ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر ایک دن کہا تھا—-نازیہ تم مجھے امی نہ کہا کرو —-آپی اچھا لگتا ہے—-اب آپی کہنا—- اور نازیہ چونک پڑی تھی—-اور—-اورکاغذ کا کمزور سا ورق پھڑ پھڑا کر چتھڑے ہوگیا تھا—-سمندر میں طوفان آگیا تھا —-لہریں چاند تک پہونچنے کی کوشش کرہی تھیں—- اور ہوائیں ان کو دھوکہ دے رہی تھیں اور آخر ہوائوں کی جیت ہوئی—-سمندر شانت ہوگیا—- اور طوفان گہرائیوں میں اتر گیا—-ہرگز نہیں—-آپی ہرگز نہیں—-میں نام لوں گی—- راشدہ کہوں گی۔ راشدہ—-اور بے خودی میں اس کے ہونٹوں سے آواز بھری تھی—- امی—- امی—-کیا ہوا تھا؟—-جو تم یوں چلی گئیں—-مجھے کیوں نہیں بتایا سب کچھ—-بہت ضد کے بعد بس اتنا معلوم ہوا کہ چچا جان ابو سے چرا کر مجھے تمھارے پاس ایک دو بار لے گئے تھے—-لیکن میری یادوں کے پردوں پر اس کا کوئی نشان نہیں ہے—-امی—-امی شاید آپ کی تلاش میں میں سب سے دور ہوگئی ہوں —-مجھے کوئی بھی اپنا نہیں لگتا جس سے بے خوف ہوکر میں سارے سوال کرڈالوں —-دادی اماں۔چچا جان، ابو سب نے مجھے بہت پیا ر کیا گودوں میں بھر کر پہروں پر بٹھائے رکھا —-میں نے بھی ان کے سینوں میں منھ چھپاکر سکون محسوس کیا تھا—- لیکن یہ سب کچھ کاغذ پر پھینکے رنگ تھے—-جن میں خوشنمائی تو تھی لیکن گہرائی دور دور تک نہیں تھی —-ان رشتوں میں خون تھا لیکن بو نہیں تھی—-توانائی تھی—-لیکن سینے سے ابلتے دودھ کی گرمی نہیں تھی —-محبت تھی—-لیکن ممتا نہیں تھی—-
اس نے پھر ٹکڑے جمع کرنے شروع کئے —-کبھی کبھی ڈرتے ڈرتے کسی رشتہ دار سے وہ ان سارے ٹکڑوں کو بڑی حفاظت سے ذہن میں چھپا کر ہاسٹل لے آتی—-دن میں کلاس کرتی—- چبلس کرتی—-ہنستی کھل کھلاتی۔۔اور جب تنہائیوں میں ان کو یکجا کرنے بیٹھتی تو خود بکھر جاتی—-کتنا بڑا دھوکا تھا —-کتنا بڑا غضب تھا —-میری امی زندہ رہیں مجھے بتایا گیا کہ—- وہ اللہ کو پیاری ہوگئیں—-اور—-اور —-اب وہ میری جوانی کا انتظار کرتے کرتے پاگل ہوکر سب سے روٹھ گئیں تھیں —-ان کے آس پاس لوٹ گئی تھی—-میں ان کو تنہائیوں میں تلاش کرتی رہی—-آسمانوں میں ڈھونڈتی رہی —-اور وہ مجھے بند کمرے میں پکارتی رہیں۔ان کے پاس یہی بلیک ینڈ وہائٹ ماں بیٹی کی تصویر تھی—-اور ان کی بیٹی منجمدان کی گود میں چپکی رہی—- انھوں نے امی امی پڑھتے نہیں دیکھا —-مضبوط پیر اور برابر پھیلے ہوئے شانے نہیں دیکھے اور —-اور انتظار کرتے کرتے چلی گئیں—-وہ تھک گئیںتھیں—-ہارگئیںتھیں —-انھوں نے اپنے جرم کی پاداش میں بارہ سال کی اذیت جھیلی تھی—-تب ان کو نجات ملی —-اور وہ سکون سے قبر میں سوگئیں—-ابو نے ان کو طلاق دے دی تھی اور میری یادوں سے پہلے مجھے اپنے ساتھ لے آئے تھے اور پھر ان کے لئے یہی بات سب سے زیادہ مناسب تھی کہ وہ اللہ کو پیاری کر دی جائیں —-سو—-میں آج بھی بار بار کوشش کرتی ہوں —-کوئی تو صورت یادوں کے پردوں پر ابھر آئے اور گرم گرم بانہوں میں چھپا لے—-
جب کسی روم میٹ کی امی کمرے میں آتیں تو وہ بھی پوری طاقت سے اپنی امی کو کاغذ کی قید سے گھسیٹ لیتی—-اور آنکھوں میں بھر کر نہلا دیتی—-اور—-اور میں تم کو پالتی—-اور پھر نازیہ افق کی زردی میں دور تک دوڑتی چلی گئی—-بھاگتے بھاگتے وہ تھک گئی لیکن افق کی دوری میں کوئی کمی نہیں تھی اس نے دادی ماں کی گود میں سر رکھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔۔۔ابو نے میری ماں کیوں چھین لی—-کیوں چھین لی مجھ سے —-امی نے غلطی کی تھی سزا امی کو دیتے—-طلاق امی کو دیتے—-انھوں نے مجھے دنیا کے سب سے عظیم پیار ۔۔۔سب سے بڑی دولت ممتا سے محروم کردیا —-دادی اماں بتائیے—-بتائیے دادی اماں میری امی اب مجھے کہاں ملیں گی؟—-برسوں وہ کسی سے نہیں ملیں—-اور—-آخر وقت ان کے ہاتھوں میں ایک فوٹو تھا —-امر پیار کا فوٹواٹوٹ رشتے کا فوٹو —-کاش میں اپنے مضبوط ہاتھوں سے ان کا دامن تھام لیتی کاش میں آخری وقت امی پکار کر ان کی موت آسان کردیتی.لیکن ایسا نہیں ہوسکا—-اور میری امی اپنے سینے میں ہزاروں ارمانوں کا مدفن لیے خود لحد میں اتر گئیں —-
نازیہ نے نہیں دیکھا تھا دادی اماں کا دوپٹہ کتنا تر ہوچکا تھا —-ان کی ہچکیاں نازیہ کے کانوں تک پہونچیں —-کیوں کہ نازیہ صرف سوال کر رہی تھی —-سوا ل—-
میری امی کا خون کس نے کیا؟ —-مجھے ماں کی چھاتی سے امنڈتے آب حیات سے کس نے محروم کیا؟—-کہ میرے خشک ہونٹوں کی پپڑیاں آج بھی آب حیات کو ترس رہی ہیں۔٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular