Wednesday, May 8, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسریندر پرکاش کا افسانہ’بجوکا‘ دورِ حاضر کے آئینے میں

سریندر پرکاش کا افسانہ’بجوکا‘ دورِ حاضر کے آئینے میں

محمد عادل فراز

Created by Readiris, Copyright IRIS 2005

سریندر پرکاش اردو افسانہ نگاروں میں ایک منفرد شخصیت کے حامل ہیں۔انھوںنے ملک کی تقسیم کا درد محسوس کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں ملک کے بٹوارے کا کرب اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات کی منظر کشی ملتی ہے۔جب سریندر پرکاش اپنے افسانے تخلیق کر رہے تھے تب ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ اس کے اثرات افسانوںپر بھی پڑ رہے تھے لیکن انھوں نے اپنے لئے ایک نئی راہ منتخب کی اور نئی طرزِ تحریر کو اختیار کیا۔ان کے ہم عصروں میں انتظار حسین،بلراج کومل،کمار پاشی،بلراج مینرا،انور سجاد،رشید امجد،شفق اور شوکت حیات کا شمار ہوتا ہے۔لیکن ان کا فن ِتخلیق ان کو سب قلم کاروں کی محفل میں منفرد مقام دلاتا ہے۔
سریندر پرکاش اپنے افسانے عقل اور منطقی مطالبات کے تقاضوں کے تحت پیش کرتے ہیں۔ان کو علامتوں کو استعمال کرنے کا ہنر بہت اچھی طرح آتا ہے۔ان کے افسانوں میں ڈرامائی انداز کے ساتھ ساتھ جذبات اور نفسیات کی ایک دنیا آباد رہتی ہے۔ان کے افسانوں میں جیتی جاگتی دنیا کے کردار نظر آتے ہیں ۔انھوں نے خالص ہندوستانی آب و ہوا میں اپنے افسانوں کا محل تعمیر کیا ہے۔اس کے مثال میں ہم ان کا افسانہ ’بجوکا‘ پیش کر سکتے ہیںجو خالصتاًہندوستانی معاشرے کی آب و ہوا میںسانس لیتا نظر آتاہے۔ اس پر مزیدکمال یہ کہ مصنف نے اس کو علامتی پیکر میں پیش کر کے اس کی وسعتوں کو بے کنار کردیا ہے۔یہ ہر اس عہد اور ہراس مقام کے ماحول پر صادق اترتا ہے جہاں پر عوام اور حکومتوں کا نظام قائم ہے اور جو عوام کا استحصال کرنے پر آمادہ ہیں۔انھوں نے اس افسانے کا کردار ’ہوری‘ پریم چند کے افسانے سے ادھار لیا ہے۔کہانی کا تانا بانا اسی کردار کے چاروں طرف بنا گیا ہے۔اس افسانے میںہوری ایک ہندوستانی کسان کی ترجمانی کر رہا ہے۔اس کے کھیتوں میں فصل تیار کھڑی ہے۔اس کو اس بات کی خوشی ہے کہ اس کی فصل اب صرف اس کی ہے اس پر کسی ظالم و جابر حکوت کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے کیوںکہ اب ملک آزاد ہو چکا ہے۔لیکن جب وہ اپنے کھیت پر فصل کاٹنے جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ کوئی اس کی فصل کانٹ رہا ہے ۔یہ کوئی اور نہیں اس کے ذریعہ بنایا ہو ’بجوکا‘ ہے۔جس کو کھیتوں کی حفاظت کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔
انھیں پریم چند کی طرح ہندوستانی گائوں کی مکمل تصویرکشی کرنے کاسلیقہ آتا ہے۔اپنے اس افسانے میں انھوں نے’ ہوری‘ کو کردار بنا کرہندوستانی دیہاتوں میں رہ رہی مفلس اور مجبور عوام کی سچی منظر نگاری کی ہے کہ کسان کس طرح محنت اور مشقت کے باوجود بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے یا اسے معمولی معمولی چیزیں جن سے زندگی کا کاروبار چلنے میں آسانی ہوتی ہے ان کو حاصل کرنے میں کس دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورکیسے وہ بنیادی حقوق کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔
سریندر پرکاش نے اپنے اس افسانے میں’بجوکا‘ کو جیتا جاگتاانسانی پیکر دے کر ایک داستانوی فضا قائم کی ہے۔ یہاں’بجوکا‘ ایک اساطیری کردار معلوم ہوتا ہے۔لیکن غور و فکر کیا جائے تو یہ ایک علامت کے طور پر ابھرکر سامنے آتاہے۔
طارق چھتاری جدید افسانہ اردو ہندی میں اس افسانے کو علامتی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یہ امرِمسلمہ ہے کہ ’بجوکا‘ ایک ایسی شئے ہے جسے کسان اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے اور وہ اس کے کھیت کی نگرانی کے فرائض انجام دیتا ہے اور بے جان بھی ہے۔اگر ہم کسان’ ہوری ‘کو عوام سمجھ کر ان تین چیزوں کو ذہن میں رکھیں اور غور کریں تو بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیںکہ موجودہ جمہوری نظام ہی ’بجوکا‘ کا ہے۔اس نظام میں عوام حکومت اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیںاور حکومت عوام کے تحفظ کے لیے ہوتی ہے اور یقینا حکومت کسی شئے کا نام نہیں بلکہ ایک نظام کا نام ہے۔‘‘
ہمارے ملک ہندوستان کی آزادی کے بعدقائم ہونے والی حکومتوں نے وہی حکمتِ عملی اختیار کی جو اس سے پہلے کی برطانوی نظام میں دیکھنے کو ملتی تھی۔آج کے تناظرمیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صرف اقتدار بدلاہے یا حکمرانوں کے چہرے بدلے ہیں لیکن حکومت کرنے والوں کی فطرت آج تک وہی ہے جس کی زد میں آکر مظلوم عوام جبرو استحصال کے باوجود احتجاج کرنے میں تامل کرتے ہیں۔
افسانے میں ’ہوری ‘کا بنایا ہوا ’بجوکا ‘اس کی فصل پر اپنا حق جتا رہا ہے،پنچایت بھی اسی کے حق میں فیصلہ کرتی ہے اور ’ہوری‘ کو اپنے خون پسینے کی کمائی اسے دینی پڑتی ہے۔در اصل اس منظر کو پیش کر کے سریندر پرکاش نے ظالم و جابر نظام پر کاری ضرب لگانے کا کام کیاہے۔پنچایت کا ’بجوکا‘ کے حق میں فیصلہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام کو انصاف ملنا بہت مشکل ہے کیوں کہ جس نظام کو ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا وہ بھی درہم و برہم نظر آتا ہے۔
سریندر پرکاش کا بجوکا دورِحاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ہمارے ملک کی معیشت کا دار و مدار کھیتی باڑی اور زراعت پر منحصر ہے۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میںآزادی کے بعد سے لے کر آج تک کسانوں کا استحصال ہورہا ہے۔آزادی کے بعد بھی ہمارے ملک میں رشوت خوری،بے روزگاری اور اعلیٰ تعلیم کا فقدان ہے۔سریندر پرکاش کا ’بجوکا‘ ان سب باتوں پر روشنی ڈالتا ہوا نظر آتا ہے۔
ملک کی آزادی کے بعد ایک جمہوری نظام عمل میں آیا۔سرکاریں قائم ہوئیں،قانون بنائے گئے لیکن اس کے باوجود بھی وہ فضا عام نہ ہو سکی اور نہ وہ امید کی سحر نمودار ہو سکی جس کی جستجو میں ہمارے بزرگوں نے اپنی قربانیاں دی تھیں۔وہ نظام جس کو عوام نے اپنی حفاظت کے لئے بنایا تھا۔آج اسی نظام کے ذریعے ہمارے ملک کی عوام کا استحصال ہورہا ہے۔آج ایک بڑی آبادی غریبی کے حاشیے کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔کہنے کو بہت سی سرکاری اسکیمیں بنائی گئیں لیکن اس کا استعمال صحیح طریقے سے عوام کی فلاح و بہبودی کے لئے نہ ہوسکا۔آج عوام مہنگائی کی مار جھیل رہی ہے۔بنیادی چیزوں کے لئے ترس رہی ہے۔شاید اسی لئے فیض ؔ نے کہا تھا:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
ضضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular