Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسرکاری چاول

سرکاری چاول

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

اسلم آزاد

سداما گزشتہ کئی ماہ سے راشن کے لیے ڈیلر کے دروازے کا چکر کاٹ رہا تھا. اسکی آنکھوں کے سامنے وہ لوگ بھی بوریاں بھر بھر کے چاول لے کر جا رہے تھے جنکی پکی اونچی گھروں میں دو دو گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں.
وہ لوگ گاڑیوں پر بوریاں لاد کر لے جایا کرتے ہیں اور آپ مجھے میرے حصے کی چاول کیوں نہیں دیتے؟
سداما نے ڈیلر سے مخاطب ہو کر کہا تو ڈیلر نے جھلاتے ہوئے پھر سے وہی جواب دہرایا جو وہ پہلے سے ہی سداما کو دیتا آ رہا تھا- ارے سداما! کتنی بار کہوں؟ تمہارا نام راشن کارڈ کی لسٹ سے کٹ گیا ہے اور تمہارے حصے کی چاول میرے پاس اوپر سے ہی نہیں آ رہی ہے تو میں تمھیں کہاں سے دے دوں چاول؟ ڈیلر کی بات سن کر سداما ہر بار کی طرح اس بار بھی بس اتنا ہی کہ پایا – ڈیلر صاحب؟ سرکار نے میرے گھر میں ایسا کون سا خزانہ دیکھ لیا کہ میرا نام لسٹ سے کاٹ دیا گیا اور اجودھی اور گوپال کا نہیں؟ کیا وہ دونوں اتنے غریب ہیں کہ انہیں ہمارے حصے کی چاول اور نمک کھانے کی نوبت آن پڑی؟ سداما کے ان سوالوں کے جواب میں ڈیلر اسے یہ کہ کر واپس بھیج دیا کرتا کہ اس بار جب لال کارڈ بنیگا تو بنوا دونگا تمہارا بھی. پھر لے جایا کرنا اپنے حصے کا چاول. اور سداما اپنی ٹوٹی سائکل میں ایک پرانا تھیلا ٹانگے واپس ہو جاتا. سداما نہایت ہی خودار قسم کا آدمی تھا غریب تھا لیکن بزدل نہیں تھا. محنت مزدوری کر کے اپنے پورے پریوار کا خرچ چلا رہا تھا. اسکے پریوار میں اسکی بیوی اور چار بیٹیاں تھیں. سداما اپنے گاؤں کے ہی زمیندار گوپال کے یہاں اپنے پورے پریوار کے ساتھ سالوں بھر محنت مزدوری کرتا اور پائ پائ اکٹھا کر رہا تھا . گوپال گاؤں کا امیر آدمی تھا اسکا ایک بیٹا فوج میں تو دوسرا بلاک کے ہیڈ کلرک کے عہدے پر فائز تھا اور شاید یہی وجہ تھا کہ گوپال جیسوں کا نام لال کارڈ سے کبھی نہیں کٹتا. سداما انپڑھ تھا لیکن بیوقوف نہیں تھا گوپال کے ساٹھ بیگھے کی پیداوار کا حساب زبانی ہی اسطرح سنا دیا کرتا تھا جیسے مولوی صاحب کو سورۃ فاتحہ یاد ہو. سداما نے اپنی محنت مزدوری کو اکٹھا کر کے گزشتہ 13 سالوں میں 60 ہزار جمع کیا تھا. بیٹی کی شادی کے لئے. اسکے سامنے یک بعد دیگرے چار بیٹیوں کی شادی کی ذمہ داری تھی. اب تو گاؤں میں انکی بیٹیوں کی شادی کا چرچا بھی ہونے لگا تھا. سداما اور اسکی بیوی کو بھی اب بیٹی کی شادی کی فکر ستانے لگی تھی پر ان سے زیادہ فکر شاید گاؤں کے ان لوگوں کو ہو رہی تھی جو ہمیشہ چوک چوراہے پر بیٹھ کر دوسروں کی کمی تلاش کرنے والے تھے. اس دن سداما کو کھیت پر کام کرتے ہوئے سورج ڈھل گیا گھر لوٹتے ہوئے اسکی ملاقات گاؤں کے مالدار لیکن نہایت ہی تنگ دل آدمی اجودھی سے ہوئی. جو مالداری کا دھونس تو جماتا لیکن پل رہا تھا سرکاری چاول کے بھروسے ہی. بات بات میں اجودھی نے کہا کہ وہ اسکا لال کارڈ پھر سے جاری کروا سکتا ہے. اجودھی کی بات سن کر سداما سمجھ گیا کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے – کیوں کہ سداما اس سے قبل بھی دو بار مکھیا کو اسی کام کے لیے رشوت دے چکا تھا.
کیسے؟ سداما نے پوچھا
2000 روپے لگینگے اور وہ بھی دو دنوں کے اندر. پھر اگلے مہینے سے چاول اور نمک کا سرکاری خزانہ کھل جائے گا تمہارے لیے بھی. اجودھی کی باتوں سے لگ رہا تھا جیسے وہ خود ہی راشن والے شعبے کا مالک ہو – 2000 بہت زیادہ ہے اجودھی، اتنا روپیہ بھلا کہاں سے لاؤں گا میں؟
اچھا ٹھیک ہے 1500 دے دینا ہاں!
اور ہاں سداما اس بات کی خبر نہیں ہونی چاہیے کسی کو ورنہ بنا بنایا کام بھی بگڑ سکتا ہے. سداما نے سر ہلا کر رضامند ہونے کا اظہار کیا اور گھر کی اور بڑھ گیا.
صبح غروب آفتاب ہونے سے پہلے ہی سداما 1500 لیکر اجودھی کے گھر پہنچا. دروازے پر دستک دی تو اجودھی آنکھیں ملتے ہوئے باہر آیا. میرا پیسہ ڈوبیگا تو نہیں نا اجودھی؟ سداما نے سوال کیا.
کیسی باتیں کر رہے ہو سداما؟ تمہیں پتہ بھی ہے گاؤں میں جتنے لوگوں کے پاس لال کارڑ ہے ان سب نے اس کام کے لیے پیسے دیئے ہیں. یہ پیسے میرے اکیلے کا تھوڑی ہے اس میں تو اوپر سے لیکر نیچے تک کے لوگوں کو خوش رکھنا ہے. اور مکھیا اور ڈیلر کا بھی تو کمیشن ہے؟ تم خوش قسمت ہو سداما کہ تمہارا کام اتنے کم میں ہو رہا ہے. ورنہ سرکاری دفتروں کے چکر کاٹ کر دیکھو تو پتہ چل جائے گا کتنا مشکل ہے. اجودھی کی بات سن کر سداما نے ترت 1500 روپیہ اسکے سپرد کر دیا اور واپس ہو گیا اس امید کے ساتھ کہ شاید اب مجھے میرے حصے کی چاول مل جایا کریگی. مگر سداما 1500 دیکر عجیب سی الجھن کا شکار ہو چکا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون سا سسٹم ہے جہاں ہر چھوٹی سے لیکر بڑی کام کے لئے رشوت ایسے ادا کرنی پڑتی ہے جیسے کام کی فیس. ابھی کچھ سال قبل ہی تو سداما نے رشوت دیا تھا سرکاری ہسپتال میں اور راشن کارڈ کے لئے تو تین تین بار.
سداما کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے سماج کا ایک غریب تر انسان سرکاری اسکیم سے استفادہ کریگا؟ نظریں دوڑائی تو سداما نے پایا کہ ان کے گاؤں میں تو ابھی بھی کافی ایسے پریوار ہیں جو اسی سسٹم کی وجہ سے غریب ہیں. انکے پاس لال کارڈ نہیں ہے تو شاید انکے پاس 2500 روپیہ نہیں ہے. کیونکہ ان لوگوں کے پاس تو ایک ہفتہ کا راشن بھی نہیں ہے. اس بار ڈیلر نے جیسے ہی چاول بانٹنا شروع کیا تو سداما بھی پہنچ گیا اپنے حصے کی چاول کے لینے. لیکن ڈیلر نے اس بار اسے یہ کہتے ہوئے منع کیا کے ابھی تمہارا کام نہیں ہوا ہے اگلے مہینے ہوگا. اسطرح اس ماہ بھی سداما کے حصے کا چاول نہیں بلکہ مایوسی آئ. اب وہ اسطرح کی منفی باتیں سننے کا عادی ہو چکا تھا لیکن یہ باتیں اسے ہر روز ذہنی طور پر بیمار بنا رہی تھی وہ تھک چکا تھا مکھیا اور ان جیسوں کا منت خوشامد کر کے اور شدید ذہنی پریشانی میں مبتلا ہو چکا تھا. اب وہ وقت سے کام پر بھی نہیں جاتا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنے مالک گوپال کی کڑوی باتیں بھی سننی پڑتی تھی جو سداما کی بیچینی اور بیقراری میں مزید اضافہ کرتی. سداما کو 1500 روپیہ کا افسوس بالکل بھی نہیں تھا اسے افسوس تھا زوال کا- انسانیت کے زوال کا
اسے افسوس تھا – لوگوں کی ذہنیت کے زوال کا
اسے افسوس تھا حکومت کے نظام کے زوال کا.
اور صبح سداما اپنی سائکل پر سوار ہو کر کسی کام کی غرض سے شہر کے لئے روانہ ہوا ہی تھا کہ سڑک حادثے کا شکار ہو گیا. آج پورا گاؤں سداما کے گھر پر تیمارداری کے لیے جمع ہوا تھا علاقے کے نام نہاد اور موقع پرست رہنما بھی پیچھے نہیں رہے . علاج کے دوران ڈاکٹر کو مجبوراً اسکے دونوں پیر کاٹنے پڑے. سداما سڑک حادثے کا شکار تو ہوا تھا لیکن وہ ایک اور حادثے کا شکار ہوا تھا حکومت کے نظام کے حادثے کا، سیاست دانوں کے سیاست اور بھوک کا شکار!
اب اجودھی نے شاید 1500 روپے کا بٹوارہ کر لیا ہوگا کیونکہ اب سداما کی بڑی بیٹی ہر مہینے ایک روپیہ کیلو چاول اور نمک لیکر جاتی ہے پر سداما کی چاروں بیٹیاں کنواری ہیں.

موبائل 8210994074
ضضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular