Wednesday, May 8, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسرکاری ملازمت

سرکاری ملازمت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

فیاض حمیدؔ

اگر کسی بے گناہ کی موت افراتفری میں ہوجائے تو سرکار نے مارے جانے والے خاندان کے افراد میں سے ایک کو سرکاری نوکری دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔تاکہ خاندان کے باقی افراد مالی بحران کے شکار نہ ہو اور وہ باآسانی سے اپنے دو وقت کی روٹی کھا سکے ۔لیکن اب کے بار سرکار بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی ۔وعدہ تو تین مہینوں کا تھا ۔کہ اس مدت کے بعد نوکری فراہم کی جائے گی،لیکن اب تو ارشاد کے والد کو تین سال مرے ہوئے ہوگئے تھے لیکن افراد خانہ کو ابھی تک انصاف نہیں مل رہا تھا۔ ارشاد کے والد کسی منسٹر کے پاس شہر، اپنے بیٹے کی عرضی لیکر گئے تھے ۔تاکہ منسٹر صاحب ارشاد کو کسی نوکری پر رکھ لے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ وہاں بیٹے کے لئے نوکری تو نہیں پاسکے، بلکہ منسٹر پر ہوئے حملے میں کسی کی گولی کے شکار ہوگئے۔ مرنے کے وقت جب اُن کو غسل کے لئے لیا گیا تو اُن کے جیب سے وہ عرضی نکل گئی جو وہ منسٹر صاحب کو دکھانا چاہتا تھا ۔اس وقت ارشاد کی عمر ساڑھے اٹھارہ برس کی تھی ۔لیکن اب تو اس کی عمر ساڑھے اکیس سال تک پہنچ گئی تھی۔لیکن ابھی تک کورٹ سے کوئی فیصلہ نہیں آیا تھا۔گھر میں ارشاد کی ماں اور اس کی اکلوتی بہن سلمااس اُمید پہ زندہ تھی کہ آج نہ کل کورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا۔تین سالوں سے وہ وکیل سے ایک ہی بات سنتے آئے ہے کہ بہت جلدی آپ کے case کا فیصلہ آئے گا ۔لیکن یہ تو خالی کہنے کی باتیں تھی۔کرکے دکھانا ایک الگ بات ہے ۔والد کے مرنے کے بعد اگرچہ گھر کی ساری ذمہ داریاں ارشاد کے سر آگئیں لیکن بہن کے ٹیلرنگ ڈپلوما نے اس پر زیادہ بوجھ آنے نہیں دیا کیونکہ اُس کے سلائے ہوئے کپڑے چاروں اور سے مشہور تھے جس کی وجہ سے خاصاّ پیسے کماتی تھے اور گھر کے اخراجات بھی چلاتی تھی ۔
بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کب داخل ہوئی والد کے مرنے کے بعد اس کا کچھ اندازہ نہیں رہا ۔ہاں ایک بات ضرور تھی کہ اب بہن سلما کے لئے رشتے آنے لگے تھے۔پر ارشاد سلما کی شادی بڑے دھوم دھام سے کرنا چاہتاتھا ۔چونکہ سلما ارشاد سے عمر میں چار سال چھوٹی تھی اور جسمانی قوت کی وجہ سے بھی اس کی عمر زیادہ نہیں لگ رہی تھی ۔لہذا ارشاد یہی چاہتا تھا کہ نوکری ملنے کے بعد ہی سلما کی شادی ہونی چاہئے۔تاکہ میں اس کی فرمائش پوری کر سکوں ۔ایک دن تینوں کھانا کھا رہے تھے تبھی ارشاد کی ماں نے ارشاد سے کہا کہ
بیٹا میراایک کا م مانو گے کیا؟ ۔
جی ماں ۔ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے ۔ جان بھی حاضر ہے ،ارشاد بولا
ارے نہیں ،تمہیں میری بھی عمر لگ جائے،آج تمہارے ماما آئے تھے بول رہے تھے کہ روبی اب بڑی ہوگئی ہے۔تین سال ہوگئے اب انتظار کرتے کرتے ،اب تو شادی کرلو ،جب نوکری لگے گی تب لگے گی ، کہتے تھے گھر میں جوان بیٹی کو رکھنا صیح نہیں،تم بھی تو اُس کو پسند کرتے ہو ۔ماں بولی
پہلے میں اپنی بہن سلما کی شادی کرو ں گااُس کے بعد اپنی کروں گا۔ ارشاد بولا
اس کی شادی تو دھوم دھام سے کریں گے ۔اس کے ابھی دو چار سال نکل ہی جائے گے ،یہ تو اپنے ہاتھوں سے کماتی بھی ہے اس کو کوئی نہ کوئی رشتہ پسند توکر ے ہی گا،لیکن تمہارے ماما کی لڑکی بڑی ہے ۔ماں بولی
تمہیں پتہ ہے ایک طرف کورٹ کچہری کے چکر کا خرچہ اور دوسری طرف انڈے کے دوکان کی آمدنی ،شادی کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے ۔ارشاد بولا
کچھ کرنا نہیں ہے خالی نکاح خانی ہوگی اور نہ کچھ دینے کی بات ہے اور نہ کچھ لینے کی بات ،بس دولہا اکیلے جائے گا اور دولہن کو لے کے اپنے ساتھ لائے گا ۔ماں بولی
جیسی آپ کی مرضی ۔۔ارشاد بولا
کچھ دونوں کے بعدماما جی پھر چلے آئے تھے اور اب کی بار ماں نے شادی کے لئے بھی ہاں کی تھی،اور ایک تاریخ بھی مقرر کی گئی تھی۔شادی ہوئی ۔ تو شادی کے دن پہلی بار زندگی میں اپنی قسمت پر ناز ہونے لگا ۔اور یہ سوچنے لگا کہ میں جس لڑکی کو چاہتا تھا آج وہی میری زندگی میں شامل ہوئی ،لیکن دراصل یہ میری غلط فہمی تھی جس کا تجربہ مجھے شادی کے بعد پتہ چلا۔روبی چونکہ کافی خوبصورت تھی اور میں اس کی خوبصورتی کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا۔ لہذا ہمیشہ مجھے ایک بات کہتی رہتی تھی کہ اگر اپ کو نوکری لگنے والی نہیں ہوتی تو میں آپ سے کبھی شادی نہیں کرتی۔میں نے آپ کی لگنے والی نوکری کے لئے خود کی قربانی دی ہے نہ کہ آپ کے لئے۔میں نے زندگی میں ایک ہی بات سوچی ہے کہ شکل کیسی بھی ہو مجھے سرکاری ملازم سے شادی کرنی ہے ۔چاہے لنگڑا ہو یا اندھا ،مجھے کوئی فرق نہیں ۔اس کی ان باتوں سے میں تو یہ جان گیا تھا کہ رشتہ داری میں شادی کرنا کتنا فضول ہے ۔نہ ہی وہ عزت مل جاتی ہے اور نہ ہی وہ مٹھاس رہتی ہے جو کسی غیر جگہ شادی کرنے میں ہوتی ہے۔
شادی بھی قسمت کا کھیل ہے کسی کو بگاڑ دیتی ہے اور کسی کو سنوار دیتی ہے ۔ارشاد کی شادی نے تو اس کو پوری طرح خاموش کر دیاتھا ۔لیکن ماں اور بہن کو کبھی اُس نے یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ وہ شادی سے خوش نہیں ۔اُس نے تو روبی کو یہاں تک سمجھایاتھا کہ آپ کو جو بھی شکایت ہے بس میرے سامنے کیا کرو ،اور میری ماں اور بہن کے سامنے ہمیشہ کھل کر مسکرایا کرو ،کیونکہ انھوں نے غموں اور دکھوں کے سوا زندگی میں کچھ دیکھا ہی نہیں۔اور روبی بھی اس پر عمل کرتی گئی ۔وقت گذرتا گیا اور روبی بھی اب اس کی طرف متوجہ ہونے لگی۔ اب اس کی آنکھوں میں شکایتیں کم اور پیار زیادہ نظر آنے لگا۔
ایک دن دوپہر میں سب کھانا کھارہے تھے کہ ڈاکیہ ڈاک لے کے آیا۔ڈاک کھولا تو دیکھا کہ کورٹ کا نوٹس تھا ۔جس میں یہ لکھا تھا ۴ تاریخ کو آپ کے caseکا آخری فیصلہ ہوگا۔لہذا ضرور آنا ہے ۔
یہ نوٹس دیکھ کر گھر کے سب افراد خوش ہوئے ۔کیونکہ برسوں کا انتظار اب ختم ہونے والاتھا ۔چونکہ کوٹ کے لئے شہر جانا پڑتا ہے لہذا ارشاد نے ماں،بہن کے ساتھ ساتھ روبی سے بھی رخصت لے لی اور شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔کورٹ کے اندر پہنچ گیا تو دیکھا جج صاحب ابھی نہیں آئے تھے ۔کچھ ٹائم کے بعد جج صاحب بھی آگئے اور ایک ایک کرکےcaseu کا فیصلہ ہوتا گیا ۔ارشاد کی باری آئی تو فیصلہ کو چائے ناشتے تک ملتوی کر دیا گیا۔لہذاارشاد بھی چائے ناشتے کیلئے باہر چلا گیا ۔واپس نکلا تو اُ س کوایک شخص ملا جس سے باتیں کرتے کرتے اس کو یہ پتہ چلا کہ میرے والد کو گولی اسی کورٹ کے باہر لگی تھی جب وہ منسٹر سے ملنے شہر آئے تھے۔چونکہ اُس دن خود منسٹر کو کسی گپلی میںکوٹ میں حاضر ہونا تھا ۔لہذا ارشاد کے پا پا بھی یہیں آئے تھے ۔اور منسٹر پر ہوئے جان لیوا حملے میں اپنی جان گوا ںبیٹھے۔یہ سوچتے سوچتے کہ میرے والد آج زندہ ہوتے اگر میرے لئے وہ یہاں نہ آتے ، کب اُس نے سڑک پار کیا اُس کو پتہ ہی نہیں چلااور ایک تیز رفتار v.i.p. گاڑی نے اُس کو سڑک کے بیچ وبیچ کچل ڈالا اور وہ خون میں لت پت گرپڑا۔اس کو اسِ شہر میں جاننے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی پہچاننے والا کوئی تھا۔لہذا ہسپتال کی ایمبولنس کو لایا گیا اور اس کو ہسپتال لے جایا گیا ۔لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور وہ سڑک پر ہی دم توڑ چکا تھا،ڈاکٹروں نے پیسے کھا کراپنی رپوٹ میں یہ دکھایا کہ اس کا دماغی توازن بگڑ چکا تھا۔جس کی وجہ سے یہ گاڑی کے نیچے آگیا اور اُن سے پوچھنے والا بھی کوئی نہیںتھا ۔دو تین دن تک لاش ہسپتال کے لاوارث کمرے میں رہی اور آخر کاراس کے گاؤں کے ایک مریض نے اس کی شناخت کی ۔جو ہسپتال میں اپنی بیماری کا علاج کرنے آیا تھا۔
تین دنوں تک گھر میں ماں ،بہن اور اس کی بیوی انتظار کرتے رہے ۔لیکن اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں آیا ۔چوتھے دن وہ کھانا کھارہے تھے ۔کہ ڈاکیہ ان کے پاس ڈاک لے کے آیا ۔ انھوں نے ڈاک کھولا تو دیکھا وہاں یہ لکھا ہوا تھاکہ۔
’’ارشاد صاحب آج ۴ تاریخ سے آپ کو محکمہ ہلیتھ سروس میں سرکاری ملازمSRO Caseکے تحتتعینات کیا جا رہا ہے‘‘
وہ یہی خوشیاں منا رہے تھے کہ ایمبولنس آکر ان کے دروازے پر ہارن مارنے لگی۔۔۔۔اور وہ یہ سمجھنے لگے کہ اب ارشاد سرکاری ملازم بن کر گاڑی ساتھ لے کر گھر آیا ہے۔۔۔اور تینوں اس خوشی میںجھومتے جھومتے اچھلنے لگے۔۔۔
ریسرچ سکالرڈاکٹر ہری سنگھ گور سنڑل یونیورسٹی
[email protected]
(7909923200/7006148112)

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular