Tuesday, May 7, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسرخیل صحافت : مولانا اسرار الحق قاسمی

سرخیل صحافت : مولانا اسرار الحق قاسمی

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

محمد صادق جمیل تیمی

 

1932 میں پیدائش (کشن گنج کے ٹپو گاؤں )
7دسمبر2018 وفات
2009 میں پہلی بار ایم پی
2014 میں بھی اسی سیٹ پر برقرار
آل انڈیا ملی فاونڈیشن کے بانی
ہندوستان کےمشہور و معروف عالم دین،بقیۃ السلف،قوم و ملت کے ہمدرد ،تقوی شعا ،ملنسار و خاکسار اور خدا ترس مولانا اسرار الحق قاسمی رحمہ اللہ علیہ کا سانحہ ارتحال کی خبر جب سوشل میڈیا کے توسط سے مورخہ 7دسمبر 2018 علی الصبح کو پہنچی تو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اب مولانا ہمارے بیچ نہیں رہے چوں کہ مرنے سے ایک دن قبل اپنا قائم کردہ ادارہ “دار العلوم صفہ “ٹپو کشن گنج میں طلبا واساتذہ سے خطاب کیا تھا اور اچانک دل کا دورہ پڑنے سے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی-لیکن قضا و قدر کا فیصلہ “کل نفس ذائقۃ الموت “اور “کل شئی ھالک الا وجہہ “کو سامنے رکھ اپنے شکستہ دل کو قابو میں کیا – آج پورا ہندوستان سوگوار ہے شاعر نے کیا ہی خوب کہا تھا کہ:
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
آپ سیمانچل ایک عظیم سپوت، قوم وملت کا بے لوث خادم، کانگریس کا سب سے بڑا حالیہ سیاست کا چہرہ، لائق وفائق دانشور، علمی دنیا کا سرخیل، آبروئے اردو صحافت، بے باک داعی اسلام، مفکر ملت، پرخلوص لیڈر اورایک مرد مجاہد تھے -قاسمی صاحب کے مرنے سے سیمانچل میں بزرگ رہنماؤں کے عہد آفریں دور کا خاتمہ ھوگیا، ان کی وفات” موت العالم موت العالم” کی مصداق ہے ، جمعہ کے دن انتقال بہت بڑی خوش نصیبی ھے، وہ ملی مسائل کو حل کرنے کے لئے تڑپ اٹھتے تھے، انہوں نے کشن گنج اور سیمانچل کے دیہی علاقے میں سینکڑوں مدارس اور تعلیم گاہوں کی سرپرستی کی، مسلم اقوام کے نونہالان کی تعلیم و تربیت کے اتنے خواہاں تھے کہ حسن گنج کٹیہار میں 2006 میں تعلیمی بیداری کانفرنس کےموقع پر بہت ہی معلوماتی تقریر کی تھی- اس میں انہوں نے پورے سیمانچل کو اختیار دیا تھا کہ ہر گاؤں میں ایک ایک مکتب کھولے جائیں،جس کے اخراجات وہ خود برداشت کریں گے اس کے لئے انہوں نے تقریباً 150معلم کا انتخاب کیا تھا ،لیکن اس قوم کی حرماں نصیبی ہے کہ یہ کسی نعمت کی قدر نہیں کر پاتی ہے ،ہوا وہی جو امید تھی!! مولانا کی یہ اسکیم ناکام ہوگئی – اسی طرح کشن گنج اہلحدیث ضلعی کانفرنس 2016 میں ان کے بیان نے سبھوں پر سکتہ طاری کردیا تھا -جب قاسمی صاحب اسٹیج پر آئے تو پہلے ہی لوگوں نے یہ سوال جڑ دیا تھا کہ کسی امام کی تقلید کیسی ہے ؟مولانا سوال کو صرف نظر کردیئے اور اتحاد امت پر اتنا پر اثر خطاب کیا تھا،لوگ “عش عش “کرنے لگے – مولانا انعام الحق مدنی صاحب (کٹیہار )سے مولانا قاسمی صاحب کے سلسلے میں باتیں ہونے لگیں تو انہوں بتایا کہ”قاسمی صاحب ہمیشہ قوم کے لئے مخلص رہے ،توحید پر کاربند رہے تعلیم و تعلم سے ان کا گہرا ربط رہا- مزید یہ کہ تعلیمی اداروں سے بے حد محبت بھی کرتے تھے -2009 کے الیکشن میں ایک بار قاسمی صاحب کانگریس کے ٹکٹ سے ایم پی میں کھڑے ہوئے اور کشن گنج سے متصل ضلع پورنیہ ڈنگراگھاٹ میں واقع مولانا رضوان اللہ سلفی کا قائم کردہ ادارہ “مدرسۃ البنات”آئے اور جب انہوں نے یہاں تعلیمی سرگرمیاں دیکھیں، قوم کی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرتے ہوئے دیکھا تو خوشی سے ان کا دل باغ باغ ہوگیا تو اسی وقت ادارہ کی ترقی و توسیع کے کھڑے کھڑے دعا کرنے لگے، لمبے وقفے تک دعا کیے ،اس دوران اتنے آنسووں نے آپ کے ریش مبارک کو تر کردیا – اور جس مقصد کے لئے آئے تھے اس کا ذکر بھی نہیں کیا ،کتنے مخلص تھے قوم کے لئے یہی وجہ ہے کہ آج ان کی جدائی پر پورا سیمانچل سوگوار ھے-
حضرت مولانانے تقریباپچاس سال قوم وملت کی علمی، دینی، سماجی ورفاہی خدمات میں گزارا، آپ نے بہار،بنگال وجھارکھنڈمیں سیکڑوں مدارس ومکاتبِ دینیہ قائم کرکے جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے علاقوں میں علم کاچراغ روشن کیا اورآخری سانس تک قوم وملت کی ہمہ گیر خدمات میں مصروف و سرگرم رہے –
میں نے جب سے ہوش سنبھالا اور علم و تعلم کے میدان میں قدم رنجا ہوا ،مدارس و مکاتب کی خاک چھانی کی ،کتب، اخبارات اور رسائل کے مطالعہ و دراسہ کا شوق بڑھا تو میں نے ہندوستان سے نکلنے والا کوئی ایسا اخبار نہیں دیکھا جس میں مولانا کا مضمون نہ ہو ،اتنی مصروفیات کے باوجود بھی بگڑی و بکھری پڑی قوم کے لئے وقت نکال لیتے تھے ،ہر آن و ہرشان کی ترقی و اصلاح کی سوچتے تھے ،اسی طرح پورے ہندوستان سے نکلنے والے ہر مکتب فکر کے مجلات و جرائد میں مولانا کے اشہب قلم سے نکلنے والے نگارشات موجود ہوتے تھے ،زبان وبیان میں بڑی فصاحت و بلاغت تھی ،کسی بھی بات کو کہنے اور پیش کرنے کا سلیقہ بخوبی جانتے تھے،روزنامہ “انقلاب “کا “جمعہ میگزین “میں تسلسل کے ساتھ لکھتے رہے –
نوجوان کسی بھی قوم وملت کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے ،اور اس سرمایے کا صحیح استعمال قوم کے مفاد میں اس وقت ہوتا ہے جب ابتدا ہی سے اس کی معاشی و معاشرتی ،ذہنی و دینی تربیت کی جائے-یہی وجہ ہے کہ قاسمی صاحب کو ہمیشہ نوجوانان اسلام کی اصلاح کی فکر دامن گیر رہی – آپ ہمیشہ نوجوانان اسلام کی عقلی و فکری انحراف اور اس کے اسباب پر مبنی مضامین تحریر فرماتے تھے ، تاکہ نسل نو کی اچھی تربیت کی جائے اور قوم و ملت کے مفاد میں اس کا استعمال کیا جائے –
تیز رفتاری کے اس دور میں انسان گوناگوں مصروفیات میں اتنا مشغول ہوگیا ہے کہ اب لوگوں کے پاس وقت نہیں رہا کہ لمبے و طویل مضامین اور ضخیم کتابوں کو پڑھنے کے لئے وقت نکالے،لوگ اب اختصار ہی کو پسند کرتے ہیں ،مولانا قاسمی صاحب وقت شناس تھے اس وجہ سے تا حیات اختصار کے ساتھ لکھتے رہے ،زبان میں بڑی سلاست و روانگی تھی ،عمدگی کے ساتھ کسی بھی چیز کو پیش کرنے کا سلیقہ تھا -لیکن آج علم و فن اور صحافت کے سرخیل کئی من مٹیوں کے نیچے سو رہے ہیں:
آسماں تیری لحد پر شمبنم افشانی کرے

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular