Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldریاست جموں کشمیر میں اردو ڈراما

ریاست جموں کشمیر میں اردو ڈراما

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

پاکیزہ اختر

اُردو اور کشمیری کارشتہ یوںتوسو ،سوا سوسال سے زیادہ پرانانہیں ہے،لیکن اُردوجس تہذیبی لہر کی روانی میں پلی اورپھرجس ثقافتی موج کے شانے پرسوارہوکرہمارے جذبات و احساسات کی صورت گری کرتی رہی،اس سے کشمیرکی اُنس وآشنائی صدیوں کے عرصے کو محیط ہے۔کشمیر کواُردو زبان وادب کی اہم آماجگاہ تصّور کیا جاتا ہے۔ریاست جموں کشمیر میں ادب کی تمام اصناف کو مقبولیت ملی ان دیگرتمام اصناف کے ساتھ ساتھ ،اُردو ڈرامے نے بھی اپنی موجودگی بہت فعال طریقے سے درج کرایٔ۔جب ہم ریاست جمو ں کشمیر میں اردو ڈرامے کی روایت پر نظر مرکوز کرتے ہیں تو ہمیں ’’بھانڈپائتھر‘‘کا علم حاصل کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔یہ بھانڈ کشمیرالاصل تھے اور لوگوں کو مسرت وشادمانی عطا کرنا ان کا پیشہ تھا۔یہ بنیادی طور پرلوک ادا کارتھے،جو مختلف ثقافتی اور سماجی تقریبات کے موقعوں پر اپنی ادا کاری کے ذریعے لوگوں کا دل بہلاتے تھے۔
کشمیر صدیوں سے مختلف مذہبی افکار اور ثقافتی امتزاج کی حسین و بامعنی مثال رہی ہے۔ پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک یہ وادی بدھ مذہب کا گہوارہ رہی ہے۔ یہاں کے مقامات بدھ مذہب کے زمانے میں لوک موسیقی،ناچ اور ناٹیہ کے اہم مرکز بن گئے تھے۔بدھ مذہب کے زوال کے بعد برہمنزم کا رواج ہوا۔براچڈ اور پراکرت جیسی عوامی زبانوں کی جگہ سنسکرت عالمانہ اظہارکا ذریعہ بنی ۔ اس کے اثر سے زبان وادب اور فنون لطیفہ پر دانشورانہ رنگ غالب آگیا۔کشمیر میں لوہار شاہی سرکار کے دوران ادب کے ہر شعبے میںقابلِ رشک ترقی ہوئی۔لیکن بارہویں صدی میں قتل وغارت گری کی وجہ سے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چودہویں صدی میں لدّاخ سے فرار ہوئے ایک شاہی سپوت رینچن نے کشمیر میںاپنی سرکاری کا اعلان کیا۔چودہویں صدی کے اختتام پر ہمیں شیخ العالمؔ اور لل دید ؔکے کلام میں پہلی بار ایسے اشارے ملتے ہیں،جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوک ادا کاروں کو اپنے مخصوص پیشے میں عوامی پسند اور مقبولیت حاصل ہو چکی تھی۔سولہویں صدی میں ریشی تحریک کی وجہ سے بھی بھانڈ پائتھر کو کافی فروغ ملا۔انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں کشمیر میںشخصی راج کے خلاف جو بے چینی دیکھنے کو ملی ہے۔اس میں بھی یہاں کے بھانڈوں نے کافی اہم رول ادا کیا۔
زمانہ گزرتا گیا اور آخرکار ہند و ایران اور ترکی و عربی کے لسانی، ادبی اور تہذیبی امتزاج سے ایک ایسی زبان وجود میں آئی جسے بالآخر اردو کے نام سے مقبولیت ملی۔ اس زبان نے ہندوستان کو ایسی ادبی چاشنی اور لسانی سحرکاری سے واقف کرایا جس سے اب تک ہندوستانی عوام محروم تھے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اردو ڈراما ہے۔ جب ریاست جموں کشمیر میں اردو ڈرامے پر نگاہ ڈالی جاتی ہے تو انیسویں صدی میں یہاںڈرامے کے خدوخال صحیح معنوں میں دکھائی دیتے ہیں۔مہاراجہ رنبیر سنگھ ،تہذیب اور ادب کے شائق تھے ان ہی کے زمانے میں راس لیلا کا چلن ہوا۔۔ان کے انتقال کے بعد مہاراجہ پرتاب سنگھ تخت نشین ہوئے۔اس وقت کشمیر میں باہر سے مختلف لیلا پارٹیاں اور ناٹک کمپنیاں آئیںاور اپنی مخصوص ادا کاری سے لوگوں کو مسرت عطا کیا ۔ اس کے بعد توان ڈراما نویسوں اور ادا کاروں کا ایک طویل سلسلہ سامنے آتا گیاجنھوں نے اردو ڈرامے کو نئی سمت سے آشنا کیا۔
۱۹۴۷ کے المّیے سے کون انکار کر سکتا ہے؟ ملک تقسم ہوا تو قتل و غارت گری عام ہو گئی تھی۔لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے تھے۔حکومت کی عنان عوام کے ہاتھ میں آگئی ،جس کی قیادت کشمیر کے عظیم رہنما شیخ عبداللہؔ کر رہے تھے۔نیشنل ملیشیا نام سے ایک جماعت بنائی گئی۔جس میں وادی کے ادیب،شاعر،دانشور،مصّور اور باشعورعوام شامل تھے۔پردیسی ؔجو اس زمانے کے اوّلین ڈرامانگار کہلاتے ہیں،ان کے ڈراموں میںمجاہد شیروانی،جوابی حملہ،سوالی قدہ گوجواری،سنگتراش،معتصّم کی ایک رات اور سنکرات وغیرہ سمت ساز ڈراموں میں شمار ہوتے ہیں۔ پردیسی ؔکے علاوہ محمود ہاشمیؔ،راج ہنس کھنہؔ،پریم ناتھؔ،شیودھان سنگوچوہان،ؔسوم ناتھ زتشیؔ،علی محمد لون،ؔقیصر قلندرؔ،دینا ناتھ نادؔم،صلاح الدین احمدؔ،موہن لال ایمہؔ،اوشا کشپؔ،نور محمد روشنؔ،پران کشورؔ،سمترا لکھواراؔ،سنتوش لکھوارا،ؔاور درگا سکھؔ وغیرہ،قابل ذکر ڈرامہ نگارہیں۔محمودہاشمی اؔوّلین ڈرامہ نگار تھے۔ان کا ڈرامہ ’’کشمیر یہ ہے ‘‘ہے۔ ریاست میں نئے تھیٹر کا آغاز اسی ڈرامے سے ہوا۔
میں نے ریاست جموں وکشمیر میں اردوڈرامے کی تاریخ کی طرف صرف اشارہ کیا ہے۔ اب میںریاست جموں کشمیرکے ان ڈرامانگاروں کا مختصر ساتعارف پیش کرتی ہوں جنھوں نے اس صنف کو بام عروج پرپہنچا دیا۔ان میں سب سے اہم نام آغا حشر کاشمیری کا ہے۔آغا حشر کاشمیر ی نے ڈراما نگاری کی دنیامیں ایک نئے باب کااضافہ کیا،انھوں نے بہت سارے سبق آموز ڈرامے لکھے،دوسری زبانوں کے ڈراموں کااردو میںتخلیقی ترجمہ بھی کیا ،اردو تھیٹر اور ڈراما میں سب سے زیادہ شہرت پانے والا نام آغا حشر کاشمیری کا ہی ہے۔ہندی ادب میں بھی انھیں یہی مقام دیا جاتا ہے۔ان کا پہلا ڈرامہ آفتاب محبت ہے،انھوں نے تھیٹر کمپنیوں میں بھی کام کیا ۔خود کمپنیاں قائم کیں،اور فلموں سے بھی وابستہ رہے۔سفید خون،یہودی کی لڑکی،رستم وسہراب،آنکھ کا نشہ ،اسیر حرص،اور خوبصورت بلا وغیرہ آغا حشر کے مشہور ڈرامے ہیں۔
دبستان جموں کشمیر میں آنند لہرؔ کا نام بڑا اہم ہے۔لہر صاحب اردو کے لئے ایک تحریک کی حیثیت رکھتے ہیں۔انھوں نے افسانے اور ناول پر طبع آزمائی کی، ڈراما نگاری کی صف میں بھی بہت مشہور ہوئے،نروان کے بعدان کا ڈراما ’’تپسوی کون‘‘ منظر عام پر آیا۔یہ سماجی موضوعات پر ایک فکر انگیز ڈراماہے۔جس میںایک ہی گھر میں دو بھائی رہتے ہیں،ایک ایماندار اور دوسرا بے ایمان ہوتا ہے،بے ایمان اپنی بے ایمانی سے بہت آگے بڑھتے ہیں،اس ڈرامے میں یہ کشمکش دکھائی گئی ہے کہ سماج کسی بھی صورت میں حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا ہے،جس کی وجہ سے ایک ایماندار انسان کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،یہی تصادم اس ڈرامے میں دکھایاگیا ہے۔سرحد کے پیچھے بھی ان کا مشہور ڈرامہ ہے۔
ڈراما نگاری کی صف ا یک اہم نام نور شاہ ؔکا ہے۔مسلسل ادبی خدمات انجام دینے والے نور شاہ ڈرامہ نگاروں کی صف میں نمایاں مقام رکھتے ہے ۔۔انھوں نے ناول،افسانہ اور ڈراماتینوں اصناف پر طبع آزمائی کی۔ان کا ایک ڈراما ’’سفر زندگی کا ‘‘بہت مشہور ہوا۔اس ڈرامے کے آخر میں نور شاہ ؔنے کشمیر کے حالات پر تبصرہ کیاہے۔اس ڈرامے کا پلاٹ مختصر ہے۔ڈرامے میں جن باتوں کی طرف
اشارہ کیا گیا،وہ اس طرح سے ہیں۔مثلاًاپنے بچوں کو ڈر پوک بنانا،گھر کے معاملات میںصاحب خانہ یا باپ کی چودھراہٹ،شوہر اپنی بیوی کو دماغی اذیت دیتا ہے،جس کی وجہ سے وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ میری دھرتی میری جنت ،ویرانے کے پھول،دل کی بستی،وہیل چیر،اور چاندکے پھول وغیرہ بھی نور شاہ کے مشہور ڈرامہ ہیں۔نور شاہ کے ۸۰ سے زائد ڈرامے ریڈیوکشمیر سرینگر،جموں اور آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے نشر ہو چکے ہیں۔
اب میں ایک اور ڈراما نگار کی طرف بڑھتی ہوں جنھوں نے اس فن میں اہم مقام حاصل کیا اور وہ ہے راجہ یوسفؔ،راجہ یوسفؔ شاعری بھی کرتے ہیں اور افسانے بھی لکھتے ہیں۔انھوں نے ریڈیو کے لئے معتدد ڈرامے بھی لکھے،انھوں نے کشمیری اور اردو دونوں زبانوں میں ڈرامے لکھے۔ان کے ڈراموں میں زمانے کی ہوا،حساب ماسٹر،سنہرے ورق،آبشار،ست رنگ،رنگ بہ رنگ اور پرایا آنگن وغیرہ خاص ہیں۔راجہ یوسفؔ اکثر تاریخی واقعات کا انتخاب کرتے ہیں۔
ابھی ہم ڈراما نگاروں کے ذریعہ وادئی کشمیر کی سیر کر رہے ہیں۔اس سیر کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم ایک اور ڈرامانگار کا مختصرسا تعارف پیش کرتے ہیں۔جن کا اسم گرامی محمد امین بٹ ؔہے۔محمد امین بٹ ؔزیادہ تر کشمیری میں لکھتے ہیں، لیکن کبھی کبھار منھ کا مزہ بدلنے کے لئے اردو میں بھی لکھتے ہیں،ان کے کئی ڈرامے قابل ذکر ہیں،اس مختصر سے مضمون میں، میں ان کے تمام ڈراموں کا ذکر کرنے سے قاصر ہوں،البتہ کچھ کے نام اس طرح سے ہیں۔سحر ہونے تک ،کرن کرن اجالا،روح کی آہٹ اورنئی صبح وغیرہ۔محمدامین بٹ ؔریڈیو،ٹی،و ی اوراسٹیج کے لئے بھی لکھتے ہیں،اور خود انھیں پرڈیوس بھی کرتے ہیں ۔ ڈراما نگار ی کے اس سلسلے کو رواں دواں رکھنے والے تخلیق کاروں میں پروفیسر ظہور الدین بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں،ظہور الدینؔ نے کل ملا کر اردو میں دس کے قریب ڈرامے لکھے ہیں،جو مختلف رسالوں میںشائع ہوئے،ظہور الدین کے ڈراموں کی تکنیک اور ان کے موضوعات دوسروں سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔چونکہ انھوں نے اُردو کے ساتھ ساتھ یورپی ڈرامہ کا بھی مطالعہ کیاہے،ظہور الدینؔ نے اپنے ڈرامے میں کہیں کہیں اساطیری اور دیوما لائی عناصر کا بھی استعمال کیا،اس سلسلے میں ان کے ڈرامے موت کا جزیرہ ،لندن اور عبرت خیز ہے تیراافسانہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
اشرف عادل ؔ کشمیر کے ابھرتے ہوئے شاعر اور ڈراما نگار ہیں۔ان کے تین درجن کے قریب ڈرامے ریڈیو کشمیر سری نگر سے نشر ہوئے،جو اردو اور کشمیری دونوں زبانوں میں لکھے گئے ہیں۔دوردرشن کے لئے انھوں نے بیس سے زائد ڈرامے لکھے،جن میں سفید خون، مسیحا، سودا، اعتبار، انصاف، سایہ اور نفرت کی لکیر ،وغیرہ اہم ہیں۔تمثیل داغ بھی ان کا بہت پُر کشش ریڈیائی ڈراما ہے۔نور شاہ کے بھائی بشیر شاہ اگرچہ افسانہ نگار ہیں لیکن ڈرامے بھی ان کے بہت مشہور ہوئے۔ان کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’’بارش کا پہلا قطرہ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔’’میرے دکھ کی دوا کرے کوئی‘‘اور ’’سفر زندگی کا‘‘ان کے دو اہم ڈرامے ہیں۔بشیر شاہ کے بعد ایک اور ڈراما نگار کا ذکر کرتی چلوں جنھوں نے اردو ادب کو اپنی پر کشش تحریروں سے نوازا ،ان مشہور شخصیت کا نام جناب مشتاق مہدی صاحب ہیں۔مشتاق
مہدی نے افسانے بھی لکھے اور ڈرامے بھی ان کے دو ڈرامے بہت مشہو ر ہوئے وہ ہیں ’’خواب اور کالے نگر‘‘۔
ان ڈرامانگاروں کے علا۲وہ اور بھی بہت سارے ڈرامے نگار گزرے ہیں،لیکں یہاں پر سب کاتفصیلی ذکر کرنا ممکن ہے۔ ان میں سے کچھ کے نام اس طرح سے جیسے عمر مجید ،ویریندرپٹواریؔ،بلراج بخشیؔ،زاہد مختارؔ،ولی محمد خوشباشؔ،پرویز ملکؔ،شوکت نسیم،ؔعبدل الغنی شیخؔ،منوج شیری،ؔعارض ارشاد،ؔسجود سیلانیؔؔ،بشیر شاہ ،ریاض معصوم قریشی ،علی محمد لون اور غلام نبی شاہدؔ وغیرہ ۔ریاست جموں کشمیر میںاُردو ڈرامے کے فروغ میںدوردرشن کا بھی اچھا رول رہا ہے۔
اُردو ڈرامے کو تقویت دینے میں جموں کشمیر کلچرل اکیڈمی کا اہم رول رہا ہے۔اس ادارے نے گزشتہ کچھ برسوں سے بڑے کارنامے انجام دئیے۔یہ ادارہ زبان وادب،موسیقی، اسٹیج،رقص،اور ثقافت کے مختلف شعبوں کی آبیاری کرتا رہا اور اُردو ڈرامے اسٹیج کرنے کے لئے مالی امداد بھی فراہم کرتا رہا۔
محتصر یہ کہ ریاست جموں کشمیر میں افسانہ نگاری کے مقابلے میں ڈرامے کی طرف اگرچہ بہت کم توجہ دی جا رہی ہے لیکن پھر بھی یہاں ایسے ڈرامے نگار پیدا ہوئے جن کے کارہائے نمایاں سے انکار نہیں کیا جاسکتا بہر حال ڈرامے کی یہ روایت جموں کشمیر میں آج بھی جاری ہے۔اور امیدکی جاتی ہے کہ آیٔندہ بھی جاری رہے گی۔جموں کشمیر کے ڈراما نگار آج بھی ریڈیو اور ٹی وی کے لئے ڈرامے لکھتے ہیں۔ان کے یہ ڈرامے ریڈیو اور ٹی ،وی کے ذریعے لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔

ریسرچ اسکالر (اردو) مانو کیمپس سری نگر کشمیر

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular