Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldریاست جموں کشمیر میں اردو ناول اکیسویں صدی کے خصوصی حوالے سے

ریاست جموں کشمیر میں اردو ناول اکیسویں صدی کے خصوصی حوالے سے

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

بلقیس امیں
جس طرح شمالی ہند میں اردو زبان پھلی پھولی اور ترقی کے منازل طے کرتی رہی اسی طرح ریاست جموں کشمیر میں بھی اس زبان نے آہستہ آہستہ ترقی کرلی۔اگرچہ ہمارے یہاں اردو زبان کا آغاز کئی سو سال پہلے ہوا،لیکن اتنے کم عرصے میں بھی اس زبان نے یہاں جس حد تک ترقی کے منازل طے کئے وہ قابل ستائش ہیں۔انیسویں صدی تک آتے آتے اس زبان کو یہاں کافی فروغ مل چکا،یہاں کے ادیبوں نے جس طرح اس زبان کے دیگر اصناف جیسے غزل،نظم،ڈرامہ اور افسانہ کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی تھی،اسی طرح انھوں نے اس عہد میںصنف ناول کو بھی اپنا لیا۔کیونکہ ان تمام اصناف میں ناول ہی ایسی صنف تھی جس کے زریعے وہ روزمرہ  کے حالات وواقعات کو منظر عام پر لا سکتے تھے۔انھوں نے اس صنف کو اپنا کر یہاں کے سیاسی،سماجی،معاشی اور اقتصادی مسائل کو پیش کیا۔ اس طرح سے انیسویں صدی سے اب تک اردو ناول نے یہاں کافی ترقی کی اور آج کے دور میں بھی ترقی کے منازل طے کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اور دور حاضر میں بھی یہاں کے ادیب اس صنف کو بام عروج تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
  ریاست جموں وکشمیر میں اردو ناول کے ا ٓغاز کے بارے میں  اگربات کی جاے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس صنف کی ابتدائی کوششیںہمیں انیسویں صدی ہی میںہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔پنڈتھ سالگرام سالک اور مولوی محمد دین فوق نے انیسویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے شروع میں چھوٹے چھٹے قصے لکھ کر ہمارے یہاں ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھا،لیکن انھیں پورے طور پر ناول کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔اگرچہ انھوں نے تحفہء سالک ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مراۃالعرس کے طرز میں لکھا تھا،البتہ محمد دین فوق نے ناول نگاری کی تاریخ میں تقریبا بہترین کوشش کی ان کے نثری کارناموں میں کئی تاریخی اور نیم تاریخی قصے بھی شامل ہیں۔انھیں میں سے بعض قصوں پر ناول نگاری کا اطلاق کیا جاسکتا ہے جو انھوں نے اکبر اور انارکلی کے نام سے تصنیف کئے۔ہمارے یہاں جن مصنفین نے ناول نگاری کی تاریخ میں بہترین کوششیں کیں ان میں موہن لال کا ناول ’’داستان محبت‘‘اور شبھو ناتھ کا ناول ’’بیوہ کی فریاد‘‘  اہم ہیںاسی طرح پریم ناتھ پردیسی نے۱۹۴۷؁ء سے پہلے ہی افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ناول نگاری کی تاریخ میں بھی قدم رکھ کر ’’پوتی‘‘ کے عنوان سے ایک ناول لکھا لیکن تقسیم کے دوران ہی ان کا یہ تصنیف کردہ ناول رایئگاںہو گیا۔راما نند ساگر جنھوں نے تقسیم کے واقعات سے متاثر ہو کر ’’ اور انسان مر گیا‘‘ کے عنوان سے ایک ناول لکھا ۔جواس دور کا سب سے اہم ناول مانا جاتا ہے۔ابتدا میں انھوں نے یہ ناول فساد اور امن کے نام سے لکھنا شروع کیا تھا ۔یہ ناول انھوں نے ہنگامی مو ضوعات کی بنیاد پر لکھا جس کی بنیاد فرقہ وارانہ فسادات ہیں۔رامانند ساگر اگرچہ ریاست سے باہر ممبئی میں بھی مقیم رہے۔لیکن انکا تعلق سر زمین کشمیر سے ہے۔وہ یہی پیدا ہوئے اہوئے اور یہی پروان چڑھے اس لئے ان کی کہانیوں میں اسی سر زمیں کے رنگ وبو کا احساس ہے۔
تقسیم کے بعد ہمارے یہاں کے جن ادیبوں نے صنف ناول کو بام عروج تک پہنچا دیا ان میں نرسنگھ داس نر گس،ؐؐکاشی ناتھ ترچھل،کشمیری لال ذاکر،ٹھاکر پونچھی،تیج بہادو ،غلام رسول سنتوش،اور علی محمد لون خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
  نئی نسل سے تعلق رکھنے والے ان فنکاروں نے کئی قابل قدر ناول تصنیف کئے  ۔نرسنگھ داس نرگس جھنوں نے افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ناول نگاری کے میدان میں میں بھی خاص شہرت حاصل کی  ۔انھوں نے پاربتی اور نرملا کے نام سے دو ناول  تصنیف کئے ان ناولوں میں انھوں نے سماج میں پیدا ہونے والے سیاسی ، سماجی، معاشی،اور اقتصادی مسائل کی بھر پور عکاسی کی ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اصلاحی مقاصد کو بھی پیش نظر رکھا۔ان کے ہمعصروں میں کشمیری لال ذاکر اور ٹھاکر پونچھی کے نام بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔کشمیری لال ذاکر نے سب سے پہلے سیندور کی راکھ  کے نام سے ناول لکھ کر اس صنف کے میدان میں قدم رکھا ۔اس کے علاوہ انھوں نے ’’سمندر اور صلیب‘‘انگوٹھے کا نشان،دھرتی سہاگن ،کرمان والی،خون پھر خون ہے،کے نام سے ناول تصنیف کئے۔ان کے تمام ناول حقیقت نگاری پر ہی مبنی ہیں۔اہنوں نے نہ صرف نوجوانوں بلکہ عورتوں ،بوڑھوں اور معصوم بچوں کے مسائل کو بھی اپنے ناولوں میں جگہ دی۔ان کے ناولوں کو پڑھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انھوں نے اپنی تصانیف میں نہ صرف شہری زندگی کے تضادات بلکہ پورے ہندوستانی دیہات کی بھی مکمل ترجمانی کی ہے۔انھوں نے ہرقوم کی عورت کی بے بسی کا نقشہ بھی اپنے ناولوں میں کھینچا ہے۔ اس طرح انھوں نے سماج میں پیدا ہونے والے تمام مسائل کو اپنے ناولوں کو سمویا ہے۔
 کشمیری لال ذاکر کے ساتھ ساتھ ٹھاکر پونچھی کا نام بھی ناول نگاری کی تاریخ میں اہم ہے ۔اگر چہ فکشن نگاری کے میدان میں وہ پہلے بہت بڑے افسانہ نگار تسلیم کئے جاتے تھے۔لیکن ناول لکھنے کی وجہ سے انہیں اصل شہرت حاصل ہوئی۔وادیاں اور ویرانے ،یادوں کے کھنڈر ،ان کے تصنیف کردہ ناول ہیں۔ایک طرف ان کے ناولوں میں ترقی پسندوں کے رجحانات نظر آتے ہیں،تودوسری طرف ڈوگری زندگی کی حقیقت آمیزش تصویر بھی ملتی ہیں۔اس کے علاوہ نئی اوپرانی قدروں کے درمیان کشمکش اور تضاد ،سیاسی،سماجی،اور مذہبی استحصال کرنے والی قوتوں کے خلاف احتجاج،شہری اور دیہاتی زندگی کے مسائل ان کے خاص موضوعات ہیں۔الغرض کشمیری لال ذاکر اور ٹھاکر پونچھی نے اردو دنیا میں ناول نگاری کے فن سے ہی پہچان بنا لی ہے۔
تیج بہادر بھی ناول نگاروں کی صف میں خاص اہمیت کے حامل ہے۔انھوں نے سیلاب اور قطرے کے عنوان سے ایک ناول لکھا جس میں انھوں نے نہایت حقیقت پسندانہ انداز اختیار کر لیا اور اسی وجہ سے انہیں دوسرے ناول نگاروں سے بلند رتبہ حاصل ہوا ۔اس ناول کا بنیادی موضوع افلاس اور استحصال کی ماری ہوئی انسانی زندگی ہے۔جس کو انھوں نے سیلاب کے پس منظر میں ابھارا ہے۔اسی طرح غلام رسول سنتوش جو کہ مصور ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری اور اردو میں بھی شعر کہتے تھے۔ انھوں نے فکشن نگاری کے میدان میں قدم رکھ کر سمندر پیاسا ہے، کے عنوان سے ناول لکھا،جس کو انھوں نے بیانہ انداز سے پیش کیا،اس ناول میں انھوں نے انسان کے اندرون میں اتر کر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھارا ہے۔اس کے علاوہ علی محمد لون جو کہ بحثیت ڈرامہ نگار اور افسانہ نگار ہونے کی وجہ سے فکشن نگاری کے میدان میں پہلے ہی شہرت حاصل کر چکے تھے لیکن ۱۹۶۰؁ء کے بعد انھوں نے ناول نگاری کی طرف بھی اپنی توجہ مرکوز کی اور شاید ہے تیری  آواز کے نام سے ایک ناول تصنیف کیا،دہلی کے تہذیب و تمدن سے متاثر ہوکر انھوں نے اس ناول میں اسی معاشرے کی تصویر کھنچی ہیں۔ اگر چہ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن ان کے تصنیف کردہ ناولوں میں کہی پر بھی کسی طرح کے جزباتی میلان کا احساس نہیں ہوتا،  غرض اکیسویں صدی تک آتے آتے جموں کشمیر کے جن مصنفین نے ناول نگاری کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی ان میں نور شاہ (پایل کے زخم،جھیل،کالے سائے )،مالک رام آنند (یہ کس کا خون ہے کون مرا،جس دیش میں جہلم بہتی ہے)،جان محمد آزاد(وادیاں بلا رہی ہے،کشمیر جاگ اٹھا)وجے سوری(ایک نائو کاغذ کی)،حامدی کاشمیری(بلندیوں کے خواب ،پرچھایوں کے شہر)،ترنم ریاض(مورتی ،برف آشنا پرندے)،دیپک کنول(دردانہ)،وحشی سعید(پتھر پتھر آئینہ )،نعیمہ مہجور(دہشت زادی)اور آنند لہر (سرحد کے پار،نام دیو) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 دور حاضرکے ناول نگاروں میںایک اہم نام آنند لہر کا بھی ہے ۔افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں بحثیت ناول نگار بھی اچھی خاصی شہرت حاصل ہوئی۔اگر چہ وہ جدیدیت سے متاثر تھے لیکن انہوں نے قدیم و جدید امتزاج سے ہی اپنے ناولوں کا تانا بانا تیار کیا۔انہوں نے سماج میں پیدا ہونے والے حساس اور پیچیدہ مسائل کو اپنے ناولوں کے لے منتخب کیا ہے ۔اس کے علاوہ آج کے انسانی زندگی کے جدید تر رویے کو بھی منظر عام پر لایا ۔
 جموں کشمیر کے فکشن نگاروں میں نور شاہ کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔افسانہ نگار ہونے کی وجہ سے وہ پورے ہند و پاک میں ایک اہم مقام حاصل کر چکے ہیںلیکن اس کے ساتھ ساتھ ناول نگاری کی تاریخ میں بھی ان کا نام سنہرے حروف میں لکھا جا سکتا ہے۔انھوں نے ’’جھیل کالے سائے اور پایل کے زخم ‘‘ کے نام سے دو ناول لکھ ڈالے،اس کے علاوہ ان کے تین ناولٹوں کا مجموعہ’’نورشاہ کے تین ناولٹ ‘‘کے نام سے شائع ہوا،اگرچہ وہ رومانیت سے متاثر ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے حقیقت نگاری کی طرف بھی رخ کر کے اپنے ناولوں میں حقیقی حالات وواقعات کو بیان کیا،اس طرح ان کے ناولوں میں وادئی کشمیر کے منظر کی بھر پور عکاسی ملتی ہے۔انھوں نے آسان اور عام فہم اصطلاحات کا استعمال کر کے کشمیر کی ثقافت کو اپنے کرداروں کے زریعے جیتے جاگتے انداز میں پیش کیا۔
     عہد حاضر کے لکھنے والوں میں ایک اہم اور معتبر نام وحشی سعید کا ہے۔انھوں نے ’’پتھر پتھر آئینہ‘‘ کے عنوان سے ناول لکھ کر اپنے فن کے نادر نمونے پیش کئے ،اس ناول کے بنا پر ہی وہ اردو دنیا میں بحثیت ناول نگار ایک خاص شناخت قائم کر چکے،ان کے ناول کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی زبان صاف ستھری اور ان کا انداز بیان بہت اچھاہے۔ناول پڑھتے وقت قاری کی دلچسپی میں ذرا بھی جھول نہیں آتا،ایک اچھے ناول کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ پڑھتے وقت قاری کو باندھے رکھے اور وحشی سعید اس خصوصیت میں بڑی حد تک کامیاب نظر آئے،انھوں نے اپنے ناول میں محبت کی انوکھی کہانی کو منفرد انداز میں بیان کیا ،جو کہ ان کے فن کا گہرا ثبوت ہے۔
  ترنم ریاض کو ریاست جموں کشمیر میں ہی نہیںبلکہ برصغیر کی خواتین فکشین نگاروں میں اہم مقام حاصل ہے ۔انہوں نے افسانوں کے علاوہ ناولٹ بھی لکھے جن میں مورتی اور برف آشنا پرندے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔انہوں نے ناولٹ مورتی میں کشمیر سے دہلی اور دہلی سے سعودی عربیہ تک کی مکمل تصویر کشی کی ہے  ان کے ناولوں میں احساسات اور جذبات کے واضح نمونے ملتے ہیں۔
  ریاست جموںو کشمیرکے فکشن نگاروں میں ایک اور اہم نام حامدی کشمیری کا بھی ہے ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ رومانیت سے بھی بہت متاثر تھے لیکن اس کے باوجود ان کے ناولوں میں آس پاس کی زندگی کی  ہی تصویر جھلکتی ہے لیکن کئی برس کے بعد رومانیت سے علیحدگی اختیارکرنے کے بعد ان کے فن میں مزید پختگی آگئی ۔اس طرح انہوں نے سماحی اقدار کی پامالی اوررشتوں کی شکست و ریخت کو اپنے تصانیف کے لے پسندیدہ موضوعات چن لے۔رومانیت پر مبنی انہوں نے بہاروں  میں شعلے بلندیوں کے خواب  برف کی آگ جیسے ناول لکھ ڈالے  اسی طرح حقیقت نگاری کی طرف رخ کر کے پرچھائیوں کا شہر جیسا زناولٹ لکھ کر سماج کے پیچیدہ مسائل کو زیر بحث لایا اور اسے ان کے تخلیقی تجربے کی نئی کوشش کا احساس ہوتا ۔
 دیپک کنول نے کئی عرصے سے پہلے ہی فکشن نگاری کے میدان میں قدم رکھا،انھوں نے اپنے ناولوں میں کشمیر کی منظر کشی بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کی ہے۔انھوں نے ناولوں میں یہاں کے پہاڑوں،جھیلوں اور آبشاروں کی بھی خوب تصویر کشی کی ہیں۔ لیکن ان کے ناولوں میں کشمیر کے ساتھ ساتھ کئیں کہیں ہند وپاک کا بھی ذکر ملتا ہے۔
         دور حاضر کے لکھنے والوں میں ایک اوراہم نام نعیمہ مہجور کا بھی ہے۔ اگرچہ وہ بحثیت افسانہ نگار پوری دنیامیںمشہور ہوئی لیکن اس کے علاوہ انھوں نے دہشت زادی کے نام سے ایک ناول لکھ کراردو کی اس صنف میں بھی شہرت حاصل کر لی،یہ ناول انھوں نے کشمیر کے پس منظر میں لکھا،تلخ اور بے رحم حقیقتوں کو انھوں نے سچائی کی روشنی میں سامنے لایا،انھوں نے اپنے ناول میں عورتوں کے حقوق کاذکر کیا ہے،جن کی وہ طلب گار ہے اور جو انھیں ابھی تک نہیں ملے ،ان کے ناول کو پڑھکر کبھی کبھی ایسا لگتاہے کہ اندرونی کہانی ناول کے عنوان سے قدر مختلف ہے کبھی ایسا لگتاہے کہ کہانیوں میں تاریخت غالب آگئی ہیں تو کبھی یوں محسوس ہوتاہے کہ اس میں سوانح قوائد ہی پیش کئے گئے ہیں۔
       الغرض عہد حاضر میں یہاں کے ناول نگار اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ صنف صرف قصہ گوئی کا دوسرا نام نہیں،بلکہ اس کے زریعے ہم انسانی زندگی کی خوشیوں،غموں اور شادمانیوں کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر سکتے ہیں۔غرضآج کل کے ناول نگار نہ سیاست دان ہے اور نہ خطیب بلکہ وہ خود شناس بن گئے ہیں،اور اپنی بیکسی،بے بسی اور لاچارگی کی وجہ سے بہت بے چین اور بے قرار ہیں۔وہ نہ صرف خارجی طور پر پریشان اور مضطرب ہے بلکہ داخلی طور پر بھی تنہائی محسوس کرتے ہیں۔دور حاضر کے ناول نگاروں نے عصری سیاست ،عصری سماجی مسائل کے علاوہ یہاں کے دردو کرب کو بھی ناول کا خاص موضوع بنا لیا،گو کہ آج کے ناول نگار نہ صرف روایتی انداز کے مطابق لکھتے بلکہ سماج میں پیدا ہونے والے سیاسی ، سماجی ، معاشی ،اور اقتصادی مسائل کا ذکر بھی اپنے ناولوں میں کرتے ہیں ۔ مختصراً صنف ناول کے بارے میں اگر  یہ کہا  جائے توبے جا نہ ہوگا کہ اگر چہ شروع شروع میں مقدار کے اعتبار سے  ہمارے یہاں ناولوں کی تعداد زیادہ  نہیں تھی لیکن اکسویں صدی   تک آتے آتے ھمارے یہاں ناول نگاری کے میدان میں جو کارنامے انجام دئے جارہے ہیں وہ  معیار کے اعتبار سے مایوس کرنے والے نہیں ہیں۔
ریسرچ اسکالر(اردو)مانوسرینگرکیمپس
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular