Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldرُباعی کی ایجاد و آہنگ

رُباعی کی ایجاد و آہنگ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ہریش کمار منی بھدرواہی

مشکل ہے نہایت ہی رُباعی کہنا
لازم ہے اوزان میں اس کے رہنا
الفاظ بھی دلکش ہوں مضامین بھی خُوب
شہنازِ سخن کا ہے رُباعی گہنا
اُردو زُبان کے متقدمین،متوسلین و جدید شعراء نیز عروض پر اچھی نگاہ رکھنے والوں نے رودکیؔ کے چوبیس آہنگوں کو تختہ ء مشق بنایا اور ان چوبیس۲۴ آہنگوں سے باہر نہیں نکل سکے جبکہ پچھلی صدی یعنی بیسویں صدی کے ساتویں اور آٹھویں دہے میں جناب بھگوان چندر بھٹناگر علّام سحر عشق آبادی نے رودکیؔ کے اُصولوں پر چل کر مزید بارہ۱۲ اوزان اور ان کے شاگرد اور جانشین جناب اوم پرکاش اگروال زارؔعلاّمی نے مزید اٹھارہ۱۸ اوزان ایجاد کئے اور اب کُل ملا کر رُباعی کے چوّن آہنگ ہو گئے۔
حالانکہ ڈاکٹر اسلم حنیف نے ایک مضمون’’مسئلہ اوزان رُباعی‘‘ شمارہ جون ۱۹۸۹ء گُلابی کِرن دہلی میں علامہ رمز آفاقی کے حوالے سے رُباعی کے اضافی اوزان کو چوبیس سے بہتر۷۲ تک پہنچا دیا ہے، کا ذکر کیا ہے لیکن ڈاکٹر اسلم صاحب نے علامہ سحر عشق آبادی نے ۱۹۶۰ء میں جو بارہ۱۲ اوزانوں کا اضافہ کیا تھا کا ذکر نہیں کیا ۔موصوف کے رُباعیات کے اوزان کا بہتر۷۲ تک اضافہ کے قول کو تسلیم کرنے میں کئی سوال اُٹھتے ہیں اہلِ عروضین نے رُباعی کے چوّن۵۴ آہنگوں کو تسلیم کر لیا ہے ۔
رُباعی اُردو شاعری کی ایک مہتم بالشاّن صنف ہے۔رُباعی دو بیتی نہیں بلکہ چار بیتی تھی اور ہے ۔رُباعی اہلِ فارسی کی صنف ہے ۔جب عربی زُبان کا غلُبہ ہوا اور عرب والوں نے خلیل بن احمد فراہیدی کا عروض اپنایا تو آہنگ کو ترانہ کہتے تھے۔رُباعی کو ترانہ اس لئے بھی کہتے تھے کیونکہ یہ اچھے اچھے راگوں پر گائی جا سکتی ہے۔خیال کیا جا تا ہے کہ گائیکی میں ’’ترانہ‘‘ کا ایجاد کرنے کا سہرا امر خسروؔ کے سر بندھتا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس ترانہ گا ئیکی کی ایجاد امر خسروؔ اور گوپال نائیک نے مل کر کی ہے۔ ۔رُباعی میں ۲۰/۲۱ ماترائیں ہوتی ہیں۔
ترانہ یعنی رُباعی کا آہنگ ایران کا قدیمی آہنگ ہے جس کی جڑیں دور تک فوک لورFolk lore)) میں ہیں کے، کاوس کے دربار میں ایک مغنّی نے مازندران کی تعریف میں ایک ترانہ گایا تھا جس کا ذکر داستانِ عجم میں ہے ۔ایرانیوں نے جب خلیل کا عروض اپنایا تو ترانہ کا آہنگ ہزج میں یوں تقطع کیا گیا :۔ فعول،مفاعیل،مفاعیل،فعل/ مفعول ،مفاعلن،مفاعیل ،فعل۔
حقیقت یہ ہے کہ ترانہ اہلِ فارس کا لوک سنگیت سے جُڑا ہوا ہے اس کے آہنگ اور دوسرے رائج آہنگوں کو خلیل کے عروض میں رکھنے کے لئے اہلِ فارس نے تیرہ۱۳ زحاف (ارکان میں کاٹ چھانٹ یا اضافہ کا عمل) وضع کئے اور بارہ۱۲ عروض و ضرب(شعر کے کم از کم چار ارکان یا حصّہ ہوتے ہیں جنہیں صدر ،عروض،ابتدا اور ضرب یا بخرہ کہتے ہیں) کے زحاف ہیں۔
رُباعی ایجاد کر نے کا سہرہ رودکیؔ کے سر ہے۔رودکیؔ پہلا صاحبِ دیوان شاعر فارسی کا ہے اس لئے اس کو رُباعی کا موجد مانا جاتا ہے۔ رُباعی ایلِ فارسی کی صنف ہے لیکن رودکیؔ نے ایک عربی قول’’لاحول ولاقوۃ الاباﷲ‘‘ جو عربی زُبان میں ہر مسلمان کے لب پر ہر وقت رہا کرتا ہے مگر عربی شاعروں نے اس وزن پر کبھی توجہ ہی نہیں کی تھی کہ اس سے رُباعی کے وزن نکالیں اور رُباعی کی بُنیاد ’’غلتاں غلتاں ہمیَ رَود َتالب گو/گور‘‘ بحرِ ہزج مزاحف(زحاف کے عمل کے بعد جو آہنگ وجود میں آتے ہیں) فعلن،فعلن،مفاعلن،مفتعلن‘‘ مصرعہ پر رکھی اور بحرِہزج سے منسلک کیا۔
حالانکہ یہ مصرعہ بحرِ رجز مثمن مزاحف،بحرِرمل مثمن مزاحف، بحرِ منسرح مثمن مزاحف، بحرِعمیق مثمن مزاحف میں بھی بخوبی تقطع ہوتا ہے لیکن اس کو بحرِ ہزج سے منسلک کر نے کی کچھ وجوہات ہیں:۔
ؓبحرِہزج کا مزاحف آہنگ فعولن،فاعلن،مفاعیل،فعول/فعل اخرب،مقبوض مخنقّ،مکفوف، مجبوب اہتم، میں اُساد رودکیؔ نے غور کیا اور ذیل کے دو آہنگ ایجاد کئے:۔۱)مفعول،مفاعلن،مفاعیل،فعول/فعل ۔۲)مفعول،مفاعیل،مفاعیل،فعول/فعل۔ اور پھر زحاف تخنیقّ( جب دو رکنوں میں تین حرف متحرک متوالی اس طرح ہوں کہ دوسرا رُکن وتد ہو اور اس کی پہلی حرکت ساکن ہو کر ماقبل متحرک الآخر رُکن سے پیوست کرنے کے عمل کو تخنیقّ کہتے ہیں) اُصول معاقبہ ( کسی ایک سبب خفیف کے ایک ساکن کو ایک وقت ساقط کر سکتے ہیں مگر دونوں ساکنوں کو ایک ایک رُکن سے نہیں گِرا سکتے ہیں) اور سبب پے سبب اور وتد پے وتد سے رُباعی کے ا ور آہنگ ایجاد کئے۔کہتے ہیں کہ رودکیؔ کے زمانے میں زحاف تخنیقّ مروج تھا تسکین(اگر کسی مزاحف رُکن میں تین حرکت متوالی آئیں تو درمیان کی حرکت کو ساکن کرنے کے عمل کو تسکین کہتے ہیں) نہیں۔اس مذکورہ مصرعہ دوسری بحور کے مزاحف آہنگوں میں بھی غوطہ زن ہو سکتا ہے یا نہیں کا سوال ہی نہیں ہوتا ۔مگر ڈاکٹر کمال احمد صدیقی صاحب نے لکھا ہے کہ’’تخنیقّ ہی تسکین ہے اگر تسکین کا زحاف نہ ہوتا تخنیقّ کا زحاف کیسے ہوتا۔‘‘ خیر یہ تحقیق کا مسئلہ ہے۔
رُباعی کو بحرِہزج سے منسلک کرنے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ عمل تخنیقّ سے رُباعی کے جو آہنگ بحرِہزج سے نکلتے ہیں وہ دوسرے مزاحف آہنگوں سے وجود نہیں آسکتے۔دوسری وجہ یہ کہ رُباعی کے چوبیس۲۴ آہنگ جو رودکیؔ نے نکالے ہیں وہ سبب پے سبب اور وتد پے وتد کی ترتیب سے وجود میں آئے ہیں اور معاقبہ کاعمل بھی کار فرماں رہتا ہے۔رُباعی کے آہنگوں میں صرف قبض،کفّ،جبّ،ہتم و تخنّق زحافات کا عمل ہوتا ہے۔یہی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے رُباعی کو ہزج سے منسلک کیا گیا۔
رودکیؔ نے پہلے بارہ۱۲ آہنگ مفعول سے اور پھر بارہ آہنگ مفعولن سے شروع ہونے والے آہنگ نکالے جو عملِ معاقبہ تخنیق وتد پے وتد اور سبب پے سبب کے تحت ایجاد کئے اور صدیوں تک ان ہی چوبیس۲۴ آہنگوں میں رُباعیاں کہیں۔اس کے بعد ماضی قریب یعنی بیسویں صدی کے آخر ربع میں جناب سحر عشق آبادی نے رودکیؔ کے ایجاد کردہ آہنگ مفعولن،مفعول،مفاعیل،فعل اخرب،مکفوف مخنّق،مکفوف، مجبوب(یہاں پہلا حشو مفعول مکفوف مخنّق از روئے معاقبہ آیا ہے) پر غور کیا کہ رُکن دوم حشو(اگر مصرعہ تین ،چار،چھ،سات،آٹھ رُکنی ہو تو پہلے اور آخری رُکن کے علاوہ درمیان کے ارکان کا نام حشو ہوتا ہے)اوّل میں از روئے معاقبہ مقبوض کی جگہ مکفوف رکھا ہے مگر رُکن سوم حشو دوم از روئے معاقبہ عمل نہیں کیا جبکہ مفاعلن مقبوض اور مفاعیل مکفوف دونوں عام زحاف ہیں اور ہر رُکن میں آسکتے ہیں۔اس لئے دوسرے حشو میں مقبوض مفاعلن چاہئے تھا اور از روئے عروض یہاں مفاعلن رکھا جا سکتا ہے اور اس کمی کو دور کرنا مناسب سمجھا اور دو مزید اصل آہنگ اخذ کئے:۔
۱)مفعول،مفاعیل،مفاعلن،فعل/فعول۔۲)مفعول،مفاعلن،مفاعلن،فعل/فعول۔ اور عملِ تخنیّق سے اور وتد پے وتد و سبب پے سبب اُصول کے تحت پانچ پانچ رعاتی آہنگ ایک ایک اصل آہنگ سے نکالے اور رودکیؔ کے چوبیس ۲۴ آہنگوں میں مزید بارہ۱۲ آہنگوں کا اضافہ کیا ۔اس کے بعدڈاکٹر زارؔعلاّمی صاحب نے علاّمہ سحر عشق آبادی کے ایجاد کردہ فاعلُن والے آہنگ جو موصوف نے بحرِہزج کے رُکن مفاعیلن پر عمل قبض مفاعلن اور کف سے مفاعیل حاصل کر کے پھر عمل خرم(سالم رُکن مفاعیلن میں وتد مجموع ـ’مفا‘سے ’م‘ ساقط کرنے کے عمل کو خرم کہتے ہیں اور مزاحف رُکن کو اخرم کہتے ہیں۔) سے فاعلن اور (فاعیل) مفعول حاصل کر کے از روئے معاقبہ جیسا کہ مفاعلُن کی جگہ مفاعیل رکھ سکتے ہیں اور خرم کے بعد فاعلُن اور مفعول حاصل کر کے از روئے معاقبہ مفعول کی جگہ فاعلُن رکھ کر چار آہنگ ایجاد کئے اور پھر عملِ تخنیقّ سے اٹھارہ۱۸ آہنگ رُباعی کے میدان میں جوڑے اور رُباعی کے چوّن آہنگ ہو گئے ۔حالانکہ اس بات پر ابھی تنازعہ بنا ہوا ہے کہ سحر عشق آبادی اور ان کے شاگرد اوم پرکاش اگروال زارؔعلاّمی صاحب نے بالترتیب ضرب سے پہلے مقبوض مفاعلن اور طاشترالصدور رباعیاں رائج کرنے کی کوشیش کی اور ان آہنگوں کا ایجاد کرنے کا دعویٰ کیا جوصیح نہیں ہے۔خیر یہ تحقیق کا مسئلہ ہے مگر اہلِ اُردو ادب میں رُباعی کے چوّن آہنگوں کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔
Email. [email protected] , whatsaap 9596888463
ضضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular