Wednesday, May 1, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldدنیائےصحافت میں اودھ نامہ کا کردارمیڈیا کے لئے قابل تقلید ہے:گورنر رام...

دنیائےصحافت میں اودھ نامہ کا کردارمیڈیا کے لئے قابل تقلید ہے:گورنر رام نائک

 

بے باک اور بے خوف اخبار ہے اودھ نامہ:آیت اللہ حمید الحسن
اودھ نامہ گنگا جمنی تہذیب کا آئینہ دار ہے:ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی

موجودہ دور میں اخبار سرمایہ دار نکال سکتا ہے یا کوئی دیوانہ:پروفیسر شارب ردولوی

لکھنؤ۔دنیائےصحافت میںاودھ نامہ کاکردار( چرتر)میڈیا کےلئے (انوکرنیہ) قابل تقلید ہے ۔کیونکہ اودھ نامہ صرف ایک اخبار نہیں ہے بلکہ اس نے سماج کو اپنی بے باک لیکن دانشمندانہ صحافت سے وہ پیغام دیا ہے جو سماج کو جوڑتا ہے۔یہی کام بھاشا بھی کرتی ہے خوا ہ وہ اردو ہو ہندی ہو یا کوئی اور بھاشا۔ہر بھاشا سماج کو جوڑتی ہے۔اور یہی کام اودھ نامہ بھی پندرہ سال سے کر رہا ہے اس کے لئے میں ان کا خیر مقدم بھی کرتا ہوں اور انھیں مبارکباد بھی دیتا ہوں۔ان خیالات کا اظہاراتر پردیش کے گورنر شری رام نائک نے اٹل بہاری باچپئی کنونشن سنٹر (کے جی میڈیکل یونیورسٹی لکھنؤ)کے آڈیٹوڑیم میں کیا۔موقع تھا’’روزنامہ اودھ نامہ‘‘کے پندرھویں یوم تاسیس کے جشن کا،جس کی صدارت خود گورنر رام نائک کر رہے تھے۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی (مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) اور آیت اللہ مولاناسید حمید الحسن تشریف فرما تھے۔دیگر مہمانوں میں ریاستی وزیر پروفیسر ریتا بہو گنا جوشی ،شری رام گووند چودھری (لیڈر حزب مخالف اتر پردیش ودھان سبھا)موجود تھے۔گورنر رام نائک نے بحیثیت صدر سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اردو کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ ایسی زبان ہے جوملک کے ہر صوبے اور ہر خطہ میں ہندی کے بعد سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت میں جتنی بھی زبانیں بولی جاتی ہیں اور جن کا ذکر ہمارے آئین میں ہے وہ سب بھارت کی راشٹر بھاشا ئیں ہیں۔ گورنر نے کہا کہ ہر فرد کی زندگی میں پندرہ سال کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔جب وہ سن بلوغ کو پہنچتا ہے تو اس کے اندر بھی تبدیلی پیدا ہونے لگتی ہے اور باہر بھی۔اس کے اندر جوش پیدا ہونے لگتا ہے اور صورت میں بھی نکھار آنے لگتا ہے۔اودھ نامہ آج پندرھواں یوم تاسیس منا رہا ہے اس کی بھی ایسی ہی اہمیت ہے ۔انھوں نے مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ میں امید کرتا ہوں کہ اودھ نامہ میں بھی ایسی ہی مثبت تبدیلیاں اورمزید نکھار پیدا ہو گا کیونکہ آج وہ سن بلوغ میں قدم رکھ رہا ہے۔انھوں کہا کہ سماج کے مختلف شعبوں کی اہم اور قابل قدر شخصیات کو میرے ہاتھوں سے اعزاز دلایا گیا اس کے لئے بھی میں وقار رضوی کا ممنون ہوںاور ان تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنھیں اعزاز اور ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔گورنر نے وقارر ضوی کی بے باک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پرنٹ میڈیا اور اردو بھاشا کے جن موضوعات اور مسائل کو وقاررضوی نے اپنی تقریر میں اٹھایا ہے ان موضوعات پر ایک بڑے مذاکرے اور مباحثے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ اخبار کا سرکولیشن کتنا ہے ۔اشتہار کی کیا صورت حال ہے یہ سب اوپری چیزیں ہیں ۔اس کی ضرورت اور اہمیت تو ہے لیکن صحافت گیان اور علم میں اضافہ بھی کرتی ہے ۔یہ بہت اہم ہے کہ کسی اخبار کا ’’چتر اور چرتر‘‘کیسا ہے ۔اس حوالے سے دیکھیں تو اودھ نامہ کی صورت اور اس کا کردار دونوں اہم ہیں۔ اودھ نامہ کا کردار(چرتر) ایسا ہے جو سبھی صحافیوں (پترکاروں) کے لئے قابل تقلید(انکرنیہ ) ہے۔گورنر نے کہا کہ میرا اور اودھ نامہ کا بھی ایک رشتہ بن گیا ہے ۔انھوں نے اودھ نامہ اور اردو رائٹرس فورم کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب میری کتاب جو اصل مراٹھی میں ہے لیکن جب اردو میں آئی تو اس کی شہرتوں میں اتنا اضافہ ہوا کہ فارسی،عربی اور جرمنی جیسی بھاشاؤں میں بھی اس کا ترجمہ ہورہا ہے اس کے لئے میں اردو رائٹرس فورم کا شکر گذار ہوںجس نے میری کتاب کے اردوایڈیشن پر ایک باوقار مذاکرے کا انعقادکرایا اور جس میں ملک کےاہم اور بڑے دانشوروں نے اظہار خیال کیا۔بعد میں اودھ نامہ نے چریویتی چریویتی پر خصوصی نمبر بھی شائع کیا.

اس سے پہلے جشن کا آغاز ڈاکٹر ہارون رشید نے تلاوت کلام ربانی سے کیا۔نظامت کی ذمہ داری ہر دلعزیزاور پر بہار شخصیت پروفیسر صابرہ حبیب کے شانوں پر تھی انھوں نے برجستہ اشعار اور دلچسپ فقروں سے سامعین کو پروگرام سے باندھے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس موقع پر ڈاکٹر اقتدارحسین فاروقی،ولایت جعفری،پروفیسر عباس علی مہدی،پروفیسر سید وسیم اختر،ڈاکٹر روشن تقی،ڈاکٹر کوثر عثمان،ڈاکٹر اسد عباس ،حیدر نواب جعفری اورمحترمہ سنیتا جھینگرن کو ان کی نمایاںخدمات کے اعتراف میںوقار اودھ ایوارڈ اور مہنت دیویا گری،ڈاکٹر حسن رضا (ڈاکٹر کلن)،روبینہ جاوید،ڈاکٹر مالویکا ہری اوم،انوپما سنگھ،شاذیہ امداد عابدی،سید محمد عیان رضوی،حاجی جاوید حسین،سید مجاہد حسین نقوی،نصرت حسین لالہ،ریاض احمد،ایس این لعل،مرزا فر قان بیگ ،سید سمیع الحسن تقوی، اورمزنیٰ ظفرکو ان کے شعبہ مین گران قدر خدمات کے لئے سند تحسین گورنر رام نائک کے دست مبارک سے دی گئی۔ایوارڈ یافتگان شخصیات کا مختصر تعارف پروفیسر صابرہ حبیب،پروفیسر عباس رضا نیر،ڈاکٹر ریشماں پروین اور احمد عرفان علیگ نے پیش کیا۔علاوہ از یں اودھ نامہ کے اراکین میں ایس ایم جمیل کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ،انل کنوجیا (لکھیم پور) کو پلاٹینم ایوارڈ،ارشاد صدیقی(سدھارتھ نگر)کو گولڈ ایوارڈ اور آصف حسین (بارہ بنکی) کو سلور ایوارڈ دیا گیا۔
اس موقع پر اودھ نامہ کے بانی وقار رضوی نے اپنی افتتاحی تقریر میں او دھ نامہ کے پندرہ سالہ سفر کی روداد پیش کرتے ہوئے کہا یہ ایک ایسا خواب تھا جس کا شرمندۂ تعبیر ہونا قارئین کی محبت اور مخلصانہ تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔انھوں نے کہا کہ ایسے کئی مشکل مو اقع آئے کہ جب اخبار کو بند کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہا لیکن ہمارے مخلصین اور سچے محبان اردو نے حوصلہ بڑھایا۔انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے زمام اقتدار سنبھالتے ہی کچھ ایسے فیصلے لئے گئے جن کی بنا پر پرنٹ میڈیا بالخصوص اردو اخبارات کے لئے مشکل حالات پیدا ہو گئے۔وقار رضوی نے گورنر رام نائک اور ریاستی وزیر پروفیسر ر یتا بہوگنا جوشی کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا اسلئے کیا گیا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے تو اردو اخبارات اسی فیصد سے زیادہ غیر مسلموں کی ملکیت ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ فیصلے حکومت کی سطح پر نہ لئے گئے ہوں صرف افسران کی سطح پر اربا ب اقتدار کی خوشامداور چاپلوسی کی نیت سے لئے گئے ہوں۔میں ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حکومت کے علم میں آنا چاہئے کہ ان کے افسران کس طرح کے غیر منطقی اور غیر آئینی فیصلے لے کر حکومت کی شبیہ خراب کرنے کا کام کرتے ہیں جو حکومت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔وقار رضوی نے کہا کہ پچھلی حکومتوں کے فیصلوں نے ہی انھیں اقتدار سے باہر کر دیا۔
مہمان ذی وقار ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی نے اودھ نامہ کے منتظمین اور اراکین کواخبار کے پندرہ سال مکمل ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اودھ نامہ نے نہ صرف دنیائے اسلام کو بلکہ ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے مابین جو اتحاد کی کوششیں کی ہیں وہ نہ صرف قابل ستائش ہیں بلکہ لائق تقلید بھی ہیں۔کیونکہ یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور سچی صحافت کاتقاضہ بھی۔اس شاندار جشن میں شرکت میرے لئےباعث مسرت ہے ۔میں دل کی گہرائیوں سے دعا کرتا ہوں کہ اودھ نامہ کا یہ سفر جاری و ساری رہے کیونکہ یہ اودھ نامہ اودھ کی اس تہذیب کو عام کر رہا ہے جو گنگا جمنی تہذیب کہلاتی ہے۔آیۃاللہ مولانا سید حمید الحسن نے رسول اکرم کی ایک حدیث کا مفہوم نقل کرتے ہوئے کہا کہ اس عالم پر افسوس ہے جس کے پاس جاہل آئے اور عالم سے فیضیاب نہ ہو اور ایسے جاہل پر بھی افسوس ہے کہ جو عالم کے پاس اٹھے بیٹھے اور عالم سے فیضیاب نہ ہو۔انھوں نے کہا کہ سات برس کی عمر میں میں نے اخبار کی پہلی سرخی پڑھی جو ۤج بھی مجھے یاد ہے۔”ہٹلر نے میدان جنگ میں کمان خود سنبھال لی “۔تب سے میں اخبار پڑھتاآ رہا ہوں۔بچپن سے میری تمنا تھی کہ میں کچھ بنوں یا نہ بنوں لیکن صحافتی زندگی میں کہیں کچھ شمار کیا جانے لگوںاور مجھے یہ بیش قیمتی موقع فراہم کیا اودھ نامہ نے۔مضامین تو بے شمار لکھے لیکن اودھ نامہ وہ اخٰبار ہے جہاں یہ کوشش ہے کہ جومافی الضمیر ہے وہ بلا تکلف کے سامنےآئے۔اگر بے باک کوئی اخبارکہلا سکتا ہے اس وقت روز ناموں میںتووہ اودھ نامہ ہے۔اودھ نامہ میںجب کسی مسئلہ پر قلم اٹھایا جاتا ہے تو کوئی مروت نہ وقار رضوی کا قلم کرتا ہے اور نہ ان کا صحافتی ادارہ کرتا ہے۔جو سچ بات ہوتی وہی یہ اخبار لکھتا ہے۔
پروفیسر ر یتا بہوگنا جوشی نے مبارکباد اور اظہارتشکر بھی کیا کہ انھیں اس اہم تقریب میں شرکت کرنے کا موقع فر اہم کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ جن تکالیف اور مسائل کااظہار کیا گیا اور ان کے باوجود جس محنت اور جانفشانی سےآپ نے کام کیا ہے وہ ضائع نہیں جائے گی۔انھوںنے پرنٹ میڈیا کی مشکلات کا اہم سبب انٹر نیٹ کو بتاتے ہوئے کہا آج لوگ نیٹ پر اخبار پڑھ لیتے ہیں۔انھوں نے یہ تشفی بھی دی کہ اس کے باوجود ہم آپ کے مسائل پر غور و فکر کریں گےاور کوشش کریں گے کہ جو مشکلات ہیں وہ دور ہوں۔پروفیسر عباس رضانیر نے کہا کہ وقار رضوی لکھنے والوں کو ڈھونڈھتے رہتے ہیں ۔ قلم کو زبان بنانے اور زبان کو قلم بنانے کا ہنر وقار رضوی کو بخوبی آتا ہے۔اودھ نامہ وقار رضوی کا عشق ہے،وقار رضوی اودھ نامہ کا عشق ہیں اور یہ دونوں ہم سب کا عشق ہیں۔ لیڈر حزب مخالف اتر پردیش ودھان سبھا شری رام گووند چودھری نے بھی اودھ نامہ کے پندرہ برس مکمل ہونے پر مبارکباد پیش کی اور جن مسائل کی طرف وقار رضوی نے واضح اشارے کئے تھے ان کے بارے میں یقین دہانی کرائی کہ وہ پرنٹ میڈیا کے مسائل اور بالخصوص اردو میڈیا کےمسائل اور دشواریوں سے اپنی پارٹی ہائی کمان کو واقف کرائیں گے ۔
آخر میں پروفیسر شارب ردولوی نے کلمات تشکر کے دوران اعزاز یافتگان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ ملک کے ان اہم لوگوں میں ہیں جنھوں نے اپنی خدمات سے سماج کو ایک مثبت پیغام دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ میں مبارکباد دینا چاہتا ہوں اودھ نامہ کے تمام اسٹاف کو جنھوں نےپندرہ سال او دھ نامہ کو اپنی محنت سے چلایا۔خاص طور سے مینیجنگ ایڈیٹر تقدیس فاطمہ رضوی اوراودھ نامہ کے بانی وقار ر ضوی کو۔ میں شکریہ ادا کرتا ہوں گورنر رام نائک جی کا خاص طور سے ان کی تقریرکا جو انھوں نے اخبار ،زبان ،محبت اور یکجہتی کے سلسلہ میں کی۔ انھوں نے کہا کہ بے شک زبانیں سب جوڑتی ہیں لیکن اردو کو خاص طور سے آزادی کے بعد اس طر ح نہیں سمجھا گیا جس طرح سےاسے سمجھا جانا چاہئے ۔آ ج ہمیںاکہتر برس ہو گئے ہر زمانے میں شکایت کرتے ہوئے۔اس بات سے کوئی پڑھا لکھا انکار نہیں کر سکتا کہ اردو اور ہندی دونوں زبانیں ہند آریائی زبانیں ہیں۔اور یہ دونوں بہنیں ہماری کھڑی بولی کی دین ہیں۔اوراسی زمین سے پیدا ہوئی ہیں۔اور یہیں سے وہ ملک کے ہر خطہ اور بیرون ملک گئی اور اپنی خصوصیات کی بنا پر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔پھر ایسی زبان کے ساتھ تعلیم میںرکاوٹ،ایجوکیشن میں رکاوٹ، میں نہیں سمجھتا کہ کسی طرح سے جائز ہو سکتی ہے۔پروفیسر شااررب ردولوی نے کہا کہ آج کے دور میں اخبار یا کوئی سرمایہ دار نکال سکتا ہے یا کوئی دیوانہ۔وقار رضوی کے سرمایہ دار نہیں ہیں لیکن یہ ان کی دیوانگی اور جنون ہے جس کا ثمرہ ہم سب کے سامنے ہے۔
جشن کے آغاز اور اختتام پر شعاع فاطمہ گرلس انٹر کالج کی طالبات نے راشٹر گان پیش کیا۔پروگرام میں سماج کے سبھی شعبوں کی مقتدر شخصیات کی موجودگی نےپروگرام کی زینت و وقار میں اضافہ کیا۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular