Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldدبستان مرشدآباد کا عظیم شاعر قدرت اللہ قدرتؔ

دبستان مرشدآباد کا عظیم شاعر قدرت اللہ قدرتؔ

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

سیدہ جنیفر رضوی
 دہلی کے پروردہ اور مرشدآباد کو رونق بخشنے والے شعر ا ء میں قدرت اﷲ قدرت کا نام سر فہرست ہے ۔ اردو زبان و شاعری میں    آپ کا ایک منفرد مقام ہے  ۔ آپ کا تعلق مرشدآباد کے اس دبستان سے ہے جس نے میر باقر مخلصؔ ، انشاء اﷲ خاں انشاؔ اور مرزا جان تپشؔ جیسے ستارے آسمانِ ادب کو دیئے ۔آپ کی پیدائش دہلی میں ہوئی ۔ قدرتؔ حضرت شاہ عبدالعزیز قدِس سرہ کی اولاد تھے ۔ اس لئے پرورش مذہبی ماحول میں ہوئی ۔ میرؔ ، سوداؔ اور دردؔ کے ہم عصر تھے۔ سنِ پیدائش میں اختلاف ہے پر گمانِ غالب ہے کہ  ۱۷۱۳؁ء میں پیدائش ہوئی ہو گی ۔  ’’ میر قدرت اﷲقاسم ‘‘ اپنے تذکرہ  ’’ مجموعہ نغز  ‘‘  میں رقمطراز ہیں کہ قدرت  ’’ میر شمس الدین فقیر جوان ‘‘ کے رشتہ دار تھے اور ان سے اصلاح لیتے تھے ۔ پھر مرزا مظہر جانِ جاناں ‘‘  کے شاگرد ہوئے۔  قدرت اﷲ قدرتؔ اس دور کے ایک ایسے منفرد شاعر ہیں جن کی آواز اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے مختلف و منفرد ہے آپؔ فارسی اور  اردو  دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ آپ کی شاعری کے متعلق ڈاکٹر جمیل جالیبی  ’’ تاریخ ادبِ اردو ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
 ’’ ہر بڑے ادبی دور میں چند مخصوص و خیالات اور آوازیں اتنی عام  و مقبول ہو جاتی ہیں کہ دوسرے کے خیالات اور آوازیں ان کے سامنے دب کر رہ جاتی ہیں ۔ یہ آوازیں اس دور کی مقبول عام آوازوں میں مزاج ،لہجے اور آہنگ میں اتنی مختلف ہوتی ہیں کہ اس دور میں وہ بے وقت کی راگنی معلوم ہوتی ہے ایک ایسے دور میں ایک اعلٰی صلاحیتوں کا شاعر بھی ، ان مقبول آوازوں سے الگ ہونے کی وجہ سے ، گھٹ کر رہ جاتا ہے ۔ اس دور پر میرؔ ، دودؔ  اور سوداؔ  کی آوازیں چھائی ہوئی ہیں اور انکے سامنے ساری دوسری آوازیں اتنی نحیف ہو جاتی ہیں کہ سنائی نہیں دیتیں ۔ اس دور میں قدرت اﷲ قدرتؔ کا بھی یہی المیہ ہے اور اسی لئے وہ  وہ نہ بن سکے جو بن سکتے تھے ۔ قدرت اﷲ قدرت مزاج اور انداز نظر میں میرؔ و سوداؔ سے مختلف تھے اور دردؔ سے قریب ہوتے ہوئے بھی قریب نہیں تھے اسی لئے جب وہ اس دور میں اپنے مخصوص مزاج کا اظہار شاعری میں کرتے تو سننے یا پڑھنے والوں کو یہ طرزِ فکر وا دانا مانوس ہوتا اور یوں محسوس ہوتا کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں پر کہہ نہیں پا رہے ہیں ‘‘  ( جلد دوم  ، حصہ دوم ، صفحہ ۹۰۸ )
  آپ کا آبائی وطن شاہ جہان آباد تھا ۔ان کے آبا و اجداد  میں کوئی فوجی سلسلے میں جون پورمیں بس گئے تھے ۔ آپ کے جداعلا کی پیدائش بھی جان پور میں ہوئی تھی ۔ شاہ عبدالعزیز شکر ہار ۱۵۶۷ ء میں جو قدرت کے جداعلا تھے صرف ڈیڑھ سال کی عمر میں جون پور سے دہلی آباد ہو گئے ۔ اور دہلی میں ہی ۱۱۲۸ ھ مطابق ۱۷۱۳ ء کوآپ کی پیدائش ہوئی ۔ خاندانی شرافت اور علم دوستی کی وجہ سے آپ کو ہمیشہ ولیوں اور بزرگوں سے محبت رہی ۔ کئی سالوں تک در بدر کی خاک چھاننے کے بعد شاہ عشق اﷲ قلندر کے دربار میں رسائی ہوئی اور انہیں یہاں وہ سب ملا جس کی انہیں برسوں سے تلاش تھی ۔ شاہ عشق اﷲ قلندر قدرت کے روحانی پیشوا بھی تھے اور مرشد بھی ۔ مذہبی استا دبھی تھے اور اچھے رہنما بھی ۔ آپ نے اپنی شاعری میں جا بجا ان کی خوب تعریفیں کی ہیں ۔ آپ نے شعر و شاعری میں اپنے استادشاہ عشق اﷲ قلندر کی اجازت لی رکھی تھی ۔ ۱۱۹۶ ھ میں جب دہلی کے حالات دگرگوں اور نا قابل برداشت ہو گئے توآپ نے ترک وطن کا ارادہ کیا ۔ اور عظیم آباد اور لکھنو ہوتے  ہوئے مرشدآباد پہنچے ۔ دہلی چھوڑتے وقت نہایت افسردگی اور پریشانی کے عالم میںآپ نے یہ کہا تھا:۔
 حسرت اے صبح وطن ہم سے چمن چھوٹے ہے
 مژدہ اے شام غریبی کہ وطن چھوٹے ہے
مرشدآباد میں قدرت اﷲ قدرت کی بہت خاطر مدارات ہوئی ۔ وہاں کے اہل علم و فراست نے زانوئے ادب خم کیا اور ہر طرف آپ کی شہرت اور شعر و سخن کے چرچے ہونے لگے ۔ مگر تا حیات قدرت کو دہلی چھوڑنے کا غم ستاتا رہا ۔  اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ قدرت کو مرشدآباد میں راحت یا سکون میں کمی تھی ، بلکہ مرشدآباد میں تو قدرت کو جو عزت ملی وہ اسے دہلی میں بھی نہیں ملی تھی مگر مرشدآباد میں شاہ عشق اﷲ قلندر کا مزار نہیں تھا ۔ یہاں ماضی کی یادیں نہیں تھیں اور وہ دوست و احباب بھی نہیں تھے جو دہلی میں تھے ۔ ان کا خاندان تقریباً تین سو سالوں سے دہلی میں آباد تھا ۔ ان کے آبا و اجداد شاہی دربار میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے ۔ اسی وجہ سے قدرت کی تعلیم و تربیت بھی اس زمانے کے نامور اور مسلّم الثبوت اساتذہ کے ذریعہ ہوئی ، ان میں خان آرزو اور مرزا مظہر جان جاناں سر فہرست ہیں ۔جس طرح خان آرزو کی صحبت نے میر اور سودا کو یکتائے زمانہ بنایا تھا ویسے ہی آپ کو آرزو نے ایک گوہر نایاب بنا دیا تھا ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق قدرت اللہ قدرت اگر میر اور سودا کے بعد کے زمانے میں پیدا ہوتا ،تو اس کی شہرت بھی میر اور سودا کی طرح چار بانگ عالم میں ہوتی ۔ مگر میر اور سودا کی چمک اور دمک نے کئی بڑے شعرا کی چمک کو ماند کردیا ، ان میں ایک قدرت بھی ہے ۔  دبستان مرشدآباد میں خود ناظمین اور نوابین حضرات نے آپ کو اپنا شعر و ادب استاد تسلیم کیا ۔ معاصرنا مور شعرا و فضلانے زانوئے ادب خم کیا اور قدرت کی عظمت کا اعتراف کیا ۔ ناظمین اور نوابین مرشدآباد کی طرف سے آپ کو شاہی انتظامات اور رعایات حاصل تھے۔آپ کو یہاں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ بالآخر محمد شاہ کے زمانے میں دہلی چھوڑ کر مرشدآباد کو علم و ادب سے سرفراز کرنے والا یہ استادالاساتذہ شاعر ۱۲۰۵ ھ مطابق ۱۷۹۰ ء کو اس دنیا سے رخصت ہوا۔
میر کے ہم عصر ہونے کی وجہ سے میر کی قدرت سے چشمک بھی ہوتی رہی ۔ خاص طور پر اس لیے کہ دونوں کے  مزاج و فکراور  خاندانی اثرات میں بہت فرق تھا ۔ میر میں تعلی پن اور آپ میں سادگی و شرافت ، میر ہجو پسند اور آپ صبر و شکر کے دلدادہ ، میر کی تربیت میں حوادث روزگار اور دکھ درد کے اثرات اور آپ کی پرورش شاہانہ طور پر ،میر نے عہد طفلی سے لے کر آخری وقت تک زندگی کا بطور چیلنج سامنا کیا ۔ زندگی کے ہر لمحے ایک نئی مشکلات ان کا انتظار کر رہی تھی ۔ ایسا نہیں ہوا ۔ ان کی پیدائش سے لے کر آخری وقت تک سوائے چند دنوں کے سب خوش حالی اور تعیش کے تھے ۔ان سب اسباب اور وجوہات کی بنا پر ان کی چشمک کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
 میر نے نکات الشعرا میں قدرت اللہ قدرت پر خوب طنز کیا ہے ۔ میر نے قدرت سے کہا کہ تم اپنا دیوان دریا میں ڈال دو ۔ تم جیسا آدمی شعر کہنا کیا جانے ؟ ۔ میر نے آپ کو ” عاجز سخن ” کا لقب بھی دیا ہے ۔ شمس الرحمان فاروقی نے میر کے ان اعتراضات کو جو اس نے قدرت کے بارے میں کیے ہیں ،آپسی رنجش اور ذاتی عناد کا نام دیا ہے ۔
شاہ قدرت کے بارے میں مؤرخین کے نظریات
(۱)  میر حسن نے تذکرہ شعرائے اردو میں قدرت کے کلام کی خوب تعریف کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
سمندر نظمش در میدان فارسی و ہندی چالاک و چست ، و تصویر نے نظیر معانیش در استخوان ہندی
الفاظ درست ، بندہ دہر یک بار در شاعرہ بہ لکھنؤ  دیدہ ام ۔
(۲)  مرزا علی لطف نے گلشن ہند میں قدرت کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بیک وقت اردو ، فارسی ، عربی اور ہندی میں نہایت کمال کے ساتھ شاعری کرتے تھے ۔
(۳)  ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق شاہ قدرت اللہ نے اردو زبان و ادب میں جس فکر و فن اور خیالات کی ابتدا کی تھی ، اس کی تکمیل غالب نے کی ہے ۔ غالب جیسے بڑے شاعر نے بھی بعض غزلوں میں شاہ قدرت کی پیروی کی ہے ۔
(۴)  میر کے تذکرہ نکات الشعرا کے علاوہ اردو اور فارسی کے سبھی تذکروں میں شاہ قدرت اللہ قدرت کی شاعری کی تعریفیں ملتی ہیں ۔ سبھی تذکرہ نگاروں نے ان کی شاعری کے سلسلے میں عمدہ خیالات پیش کیے ہیں ۔ جن سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ خان آرزو اور مرزا مظہر کا پروردہ قدرت علم و فضل اور شعر و سخن میں یکتائے روزگار تھا ۔
آپ کی شاعری دو کیفیات کی آمیزش تھی ۔ وہ عشق کا اظہار کرتے ہیں لیکن حسن کا بیان نہیں کرتے ۔ پاسِ محبت میں وہ محبوب کے سراپا کو لذّت کوشی کا ذریعہ نہیں بناتے ۔ وہ عشق کرتے ہیں پر انتہائی ادب کے ساتھ ۔ ان کے یہ اشعار دیکھئے  :
    تیری جلوہِ گاہِ ظہور میں کہاں حوصلہ جو رکھوں قدم
نہ تو جی میں بوئے شکست ہے ، نہ تو دل میں رنگِ قرار ‘‘
 دامن سے اس کے جتنے تھے گستاخِ لگ چلے
  میں  تیر ہ  روز  ازروئے  آداب  ر ہ  گیا
                       مخطوطہ کی شکل میں آپ کے تقریباً ڈیڑھ ہزار اشعار دستیاب ہیں جو ایشیاٹک سوسائٹی کے کتب خانے میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک نسخہ انجمن ترقی اردو ، ہند و پاکستان میں موجود ہے ۔ ان کے دو  دواوین ہیں جو ان کی حیات میں مخطوطے کی شکل میں آچکے تھے ۔ ڈاکٹر عبدالرئوف  اپنی  کتاب’’ مغربی بنگال میں اردو کا لسانی ارتقاء  ‘‘رقمطراز ہیں  :
        ’’ قدرت کا قلمی دیوان مختصر اور نستعلیق میں لکھا گیا ہے لیکن اس طرح کرمِ خوردہ ہے کہ اکثر غزلیں بڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہیں ‘‘  (، ص ۱۳۱ )
          ان کی شاعری کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی شاعری پر صوفیانہ عشقیہ خیالات حاوی ہیں ۔ دراصل گھر کے مذہبی حالات یہ بتاتے ہیں کہ آپ  کا طبعی رجحان ہی تلاشِ حق تھا ۔  عشقِ حقیقی کی کیفیات سے گزرتے ہوئے آپ کی ملاقات  ’’ شاہ عشق قلندر ‘‘  سے ہوئی اور ان کی صحبت میں انہیں منزلِ مقصود مل گئی ۔ ان کے دل میں عشق کی آگ ایسی لگی کہ احساس بھی نہیں ہوا ۔ یہ شعر دیکھئے  جلایا  مجھ  کو  داغِ  عشق  نے  لیکن  خد ا  جانے
                کہ  خرِمن  کے  لئے  میرے  کہاں  سے  یہ  شرار  آئی
          آپ ؔ بھی عشق میں مبتلا ہوئے ۔ لیکن آپ کے عشق کا یہ سفر کیسے ہوا ؟ وہ حقیقی تھا یا مجازی ۔ آیئے چند اشعار دیکھیں!
 قاصد  گیا  تو  کہنے  لگا  وہ  بھی  یار  کی
       میری  بھی  کچھ  کہی  نہ  دلِ  بیقرار  کی
      یار  بن  آہ  کس  طرح  گزرے
        آہ  صد  آہ  کس  طرح  گزرے
تلاش کے اس سفر میں وہ جس حقیقت سے آشنا ہوئے ، وہ یہ ہے کہ محبوب ِ حقیقی کا جلوہ ہر طرف بکھرا ہوا ہے بس دیکھنے والی آنکھ چاہئے ۔ خدا انسان کے دل میں ہے بشرط یہ کہ اپنے دل کو   کینہ ،  بغض ، حسد  ، نفرت ، لالچ ، اَنا وغیرہ سے پاک رکھیں ۔ اپنی ذات سے خودی کو الگ کر دیں ۔ عشق کی آنچ میں جسم کے ساتھ روح کو بھی جلائیں تبھی عشق اپنے منزل ِ مقصود تک پہنچ پائے گا ۔ اور جہاں پہنچ کر من و تو کا فرق مٹ جائے گا ،  قطرہ سمندر کا جزو بن جائے گا اور شاہد مشہود ایک ہو جائیں گے  : ملا حظہ ہو ۔
  جس  جگہ  جلوہ  تیرا  مائیہ  مدہوشی  ہے
              یاد  میں  اپنی  اگر  ہے  تو  فراموشی  ہے
عشق کی اس منزل پر اتر کر آپ کا مذہبی عقیدہ آفاقی ہو جاتا ہے جہاں دیر و حرم کی سرحدیں ایک دوسرے میں مل جاتی ہیں  ڈاکٹر یوسف تقی اپنی کتاب ’’ مرشدآباد کے چار کلاسیکی شعراء ، ‘‘رقمطراز ہیں  :
           ’’ اس فلسفے کے حوالے سے قدرت جب مذہب کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کو مذہب ارکان کی بجا آوری کے علاوہ بھی بہت کچھ نظر آتا ہے اور انکے ذہن میں مذہب کا ایک آفاقی تصور ابھرتا ہے جہاں دیر و کعبہ کی تفریق مٹ جاتی ہے ۔ ‘‘ (ص : ۱۷ )
              اس حوالے سے ایک شعر ملا خط ہو !
            عشق  کی منزل  ہے  غافل تو  نہ  اب  سجدہ  سے  چوک
                دیر  و  مسجد و کعبہ  و  بت  خانہ  چاروں  ایک  ہیں
         آپ کے کلام میں تغزل کی تقریباًٍ تمام خوبیاں موجود ہیں ۔ کلام میں ترنم ، لفظوں کا مناسب درد بست ، تشبیہ و استعارہ ، بحر و قافیہ کا انتخاب اور دیگر شعری لوازم کا استعمال ہے ۔ آپ اگر اپنی شاعری کے دامن کو مزید وسیع کرنے کی کوشش کرتے تو شاید انکا شمار میرؔ اور  سوداؔ کے ساتھ ہوتا ۔ ’’ جمیل جالیبی ‘‘  انہیں امکانات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں  :
            شاہ قدرت اس دور کے منفرد شاعر ہیں ۔ اس دور کی شاعری میں انکی آواز سارے شاعروں سے الگ ہے ۔ یہ عشقیہ شاعری ہوتے ہوئے بھی عشقیہ نہیں جیسی اس دور کی عام شاعری ہے ۔ یہ اپنے رنگِ شاعری کی الگ روایت بناتی ہے ۔جس میں شعور ادراک کے ساتھ ہر لمحہ بدلتی حیات و کائنات کو اوپر اٹھ کر دیکھنے کا رخ موجود ہے ۔ یہ اردو شاعری کو ایک نئی روایت سے روشناس کراتی ہے ۔ اسے غالب کے ساتھ رکھ کر پڑھے تو اسکی حقیقت واضح ہوتی ہے ۔ اس رنگِ سخن میں شاہ قدرتؔ غالبؔ کے پیش رو ہیں ‘‘  ( تاریخ ادب اردو ، جلد دوم ، ص : ۹۱۶ )
            آپ کی شاعری کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بیشتر اشعار ضرب الامثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ایک ز مانے میںآپ کے اشعار زبان زد ہر خاص وعام ہوا کرتے تھے ۔یہ اعزاز اردو کے چند شعرا کو ہی حاصل ہوا ہے ۔
قدرت تو دیکھ ٹوٹی ہے  جاکر کمند کہاں
جب بامِ دوست ہاتھ سے کچھ  دور رہ گیا
رکھ  نہ  آنسو  سے  وصل کی  امید
کھارے پا  نی سے دال گلتی  نئیں
درازی شبِ غم کی مت پوچھ  قدرت
کہ اک اک گھڑی اس کی سو سو برس ہے
محبت  کی جن آنکھوں میں بھی نمی ہے
جواہر  کی پھر  اسے  کیا  کمی ہے
آپ کی شاعر ی میں سہل اور آسان الفاظ بکثرت موجود ہیں ۔ اشعار کی تراکیب بھی سہل ممتنع کی ہوتی ہے ۔ صنائع اور بدائع کا خوب صورت اور فنکارانہ استعمال ہر جگہ مل جاتا ہے ۔آپ نے غزلوں میں تشبیہات کا اس سلیقے سے استعمال کیا ہے کہ پورا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے ۔ قوافی اور ردیف کے چننے میں بھی سہل پسندانہ رویہ اپناتے ہیں ۔جو قارئین کی طبیعت پر گراں بار نہیں ہوتے ۔ اور پڑھنے میں عجب مٹھاس سا لطف دیتے ہیں ۔ شعر کے ایک مصرعہ میں دعوی اور دوسرے میں دلیل پیش کرنا یہ ان کی بڑی کامیابی ہے ۔ یہ اپنی غزلوں کے لیے موضوعات کا انتخاب اساطیری یا قدیم دورسے نہیں کرتے ،بلکہ اپنے آس پاس رہنے والے انسان ، روزمرہ کے سماجی معاملات ، آپسی رنجش اور ناچاقی یا یاری و داستی سے پیدا شدہ اثرات کو اس طرح الفاظ کے سنہرے سانچے میں ڈھالتے ہیں کہ پڑھنے والے کو لگتا ہے جیسے یہ واقعہ تو ابھی حال ہی میں پیش آیا ہو ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں بعض اہم مسلمات اور ناقابل انکار حقائق کو بھی نت نئے طریقے سے بیان کیا ہے ۔ مثلاً دوست کی مکاری ، محبوب کی دغابازی ، شب ِ غم کی درازی ، انتظار کا لمبا ہونا ، حالات کی ستم ظریفی ، برے وقت میں اپنوں کی بے وفائی وغیرہ ۔
یہ  بات جگ ظاہر ہے کہ آپ نے شاعری کو اپنے تجربات سے زیادہ سجایا ہے ۔ان کی شاعری میں لکھنؤی شعرا ء کی طرح ہوس ناکی ،یا دہلی کے طرز پر اندروں بیانی نہیں ملتی ۔ یہاں محبوب کا تصور کوئی حسین و جمیل پیکر نہیں ہے بلکہ انسانی احساسات ،  جذبات  اور ضروریات ایک خوب صورت قالب لیے ہوئے ہے ۔ آپ کے کلام میں نہ میر جیسا رنج و الم ہے جو دل کو پگھلائے اور نہ سودا کے کلام کی طرح سرور و مستی اور انبساط کی لہر ہے ۔آپ کی آواز اپنے دور کی سب سے منفرد آواز ہے ۔آپ کا لب و لہجہ بھی سب سے الگ تھلگ ہے ۔ آپ کی شناخت بھی آپ کی انفرادی خصوصیات کی وجہ سے ہے ۔
آپ کی شاعرانہ عظمت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ غالب جیسے نامور اور محقق شاعر نے اپنے اسلوب اور روش میں قدرت اللہ قدرت کی پیروی کی ہے ۔ اور کئی غزلیں قدرت کی زمین پر کہیں ہیں ۔ قدرت کی غزل کے اشعار  دیکھیں :
جہاں دل کے داغوں کو ہم دیکھتے ہیں
بہار ِ  گل  و لالہ کم  دیکھتے  ہیں
ہمیں کام ہے آستانے کے دل سے
جو  ناداں ہیں ، دیر و حرم دیکھتے ہیں
سر  سجدہ  کو  اپنے  خم دیکھتے ہیں
جہاں  تیرا  نقش  ِ قدم دیکھتے  ہیں
         جناب غالب قدرت کی پیروی میں کہتے ہیں :
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
تیرے سرو قامت سے اک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
آپکلام کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آ پ کے کلام اس دور کے شاعروں کے کلام سے طرزِ ادا ، لہجے اور مزاج میں مختلف ہیں ۔ آپ کے فنّی شعور ، خانقاہی اثرات اور روحانی ادراکات آپ  کوہم عصر شاعروں سے ممتاز بناتے ہیں ۔ خواجہ میر درد کی طرح آپ بھی صوفیانہ ادراک و تفکر کو حسن و عشق کی علامت اور تلاش ِ حق کا ذریعہ مانتے ہیں ۔
آپ کو فارسی اور اردو دونوں پر یکساں عبور حاصل تھا ۔آپ دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے ۔ لیکن آپ بنیادی طور پر اردو کے شاعر ہیں ۔ 1780 ء سے پہلے ان کا دیوان مرتب ہو چکا تھا ۔بہت افسوس کا مقام ہے کہ اب تک اتنے بڑے شاعر کو اردو داں طبقے نے فراموش کر رکھاہے اور آزادی کے بعد بھی کوئی بھی تحقیقی کام اس پر نہیں ہوا ۔ان کے دیوان جو اردو  ادب کے گراں قدر سرمایہ ہیں ، آہستہ آہستہ دیمک کی نظر ہورہے ہیں ۔ آپ کے فارسی کے کچھ اشعار ملا خط ہیں۔
دل از براے او طپدو من براے دل
دل در قفاے اور ود و من قفاے دل
قر بان آںنگہ کہ دل من ہلاک اوست
دارم طمع نگاہ د گر خو ںبہاے دل
از بسکہ سینہ مشرق خورشید روے اوست
آئینہ وام می کندازصفاے دل
رخصت نمی دہند کہ تا بر مرادٍ خویش
دستے بدل نہیم و نگو ییم ہا ے دل
قدرت بگوچہ شد کہ زما تم سرا ے تو
                                                          در گوش مانمی رسدا مشب صد ا ے دل
                                          (ریاض الوفاق ، ص۷۸)
الغرض یہ کہہ سکتے ہیں کہ قدرت کے اشعار انداز ِ فکر ، اشارات و کنایات ، لب و لہجہ ، طرز ِ بیان اور اظہار ِ معانی و الفاظ میں ایسے واضح نقوش موجود ہیں جو آئندہ دور میں غالب کی شاعری میں ظاہر ہوئے ۔ بہ لفظ دیگر غالب نے اپنی شاعری میں قدرت کے طرز ِ ادا اور اندازِ فکر کو ہر طرح  سے برتا ہے ۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدرت اپنے دور کے مرزا غالب تھے یا غالب کی شاعری کی مقبولیت کے راز سر بستہ یا غالب کے مثالی اور روحانی استاذ تھے۔
مرشدآباد،مغربی بنگال
ََََََََََََََََََََََََموبائل نمبر  7872873542
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular