Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldخوشگوار معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں

خوشگوار معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

درالحسن رضوی اخترؔ اعظمی

موجودہ حالات پچاس ساٹھ سال کے مقابلہ میں انتہائی افسوسناک، اندوہناک اور تشویشناک ہیں۔ پورے ملک میں اضطراب اور بے چینی ہے، بے روزگاری اپنے شباب پر ہے، غذائی قلت بڑھی ہوئی ہے، کسان خودکشی کررہے ہیں، بدکرداری عروج پر ہے، آئے دن سنگین جرائم انجام پارہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر ملک کے ان عمومی حالات سے قطع نظر خود ہمارے معاشرے میں کافی انحطاط آگیا ہے، جس کے نتیجہ میں ماحول پراگندہ ہے اور کافی پریشانیاں بھی پیدا ہوگئی ہیں۔
سب سے پہلے جو چیز قابل توجہ ہے وہ والدین کے ساتھ اولاد کا برتائو ہے۔ ان کی خدمت اور حقوق سے بے اعتناعی و لاپروائی قابل فکر و نظر ہے۔ علاوہ ازیں صلہ رحمی کا فقدان، اعزاء میں اتحاد، یگانگت اور خلوص کے بجائے بغض و عناد، منافرت اور غیبت کا دور دورہ۔ ہمیں اس کی نہ کوئی فکر ہے اور نہ وقت کہ ہم اس پر غور کریں کہ یہ تمام باتیں قرآن و حدیث و سیرت پیغمبرؐ و آلِ پیغمبرؐ کے خلاف ہیں لہٰذا یہ گناہ بھی ہیں، ہماری پریشانیوں کا سبب بھی ہیں اور معاشرہ میں انتشار اور زوال کا سبب بھی۔ یقینا یہ حالات عمائدین و قائدین ملت کی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔
اخباروں میں مسلسل مضامین آرہے ہیں کہ قرآن و حدیث اور اسوئہ سرکار رحمتؐ پر عمل ہی ہماری دینوی فلاح و بہبود اور اخروی نجات کا ذریعہ ہے۔ اس میں شک نہیںکہ بات بالکل صحیح ہے مگر سوال یہ ہے کہ قرآن مجید اور اسوئہ پیغمبرؐ و اہل بیت پیغمبرؐ و اوصیاء و علماء، عوام تک پہونچے کیسے۔ یقینا مجالس حسین ؑ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن وہ بھی موجودہ دَور خطابت میں اصلاح کا خواہاں ہے۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری موجودہ نسلیں تعلیم و تعلّم سے دور ہوگئی ہیں اور مزید دور ہوتی جارہی ہیں۔ اگر تعلیم کی طرف کچھ لوگوں کی توجہ ہے بھی تو یہ انہماک نسبتاً بہت کم ہے۔ مزید آں کہ ان کی تعلیم کی رسائی ان علوم تک نہیں ہے جو اُن کو اعلیٰ درجہ کی خاطر خواہ ملازمت یا عزت سے پرسکون زندگی بسر کرنے کے لئے روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرسکے۔ اس کا ایک لازمی مگر افسوسناک نتیجہ یہ ہے کہ یہ نسلیں دنیاوی تگ و دو اور اُلجھنوں میں گرفتار ہوکر قرآن و حدیث تو دور اُن کے ترجمہ اور معانی و مفاہیم نیز ان میں بیان کی ہوئی تعلیمات سے بھی نابلد ہوتی جارہی ہیں۔ ایک زمانے میں ہمارے جید اور عظیم علماء کی مجالس علم و عمل کے حصول کیلئے اور ایک قابل رشک معاشرہ کی تعمیر کے لئے بہترین درسگاہیں تھیں۔ لیکن اب ان کے بارے میںکچھ لکھنا شاید مناسب نہ ہو، پھر بھی مضمون کے اختتام پر کچھ باتیںعلماء، خطباء واعظین و مجتہدین کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں۔ یہاں بس اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ معاشرہ کی ترقی اور اسے سکون بخش بنانے کے لئے وہ ایک اہم ترین ذریعہ ہیں جس پر انہیں توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن و احادیث کی تعلیمات کو ایک عام فہم، آسان اور اثر پذیر ذریعہ سے عوام و خواص تک پہونچایا جائے۔ اخبار و رسائل بھی ان میں سے ایک ہے۔ اسی پس منظر میں یہ مضمون پیش ہے۔
آیئے دیکھیں اللہ تعالیٰ، رب العالمین نے انسان اور اس کے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے کیا سامان فراہم کیا ہے اور کیا ہدایات اور تعلیمات دی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس نے انسان کو عقل و شعور کے جوہر سے آراستہ کرکے پیدا کیا تو اب صاحب شعور و فکر و نظر انسان کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس اعلیٰ ذات اقدس کو اور اس کے حقوق کو پہچانے جس نے اسے صرف اشرف المخلوقات ہی نہیں بنایا بلکہ اس کے وجود سے پہلے اس کی ضروریات اور آرام و آسائش کے سارے سامان بھی خلق کردیئے۔ کیا اتنے احسانات کے بعد اب انسان کا فریضہ نہیں ہے کہ وہ اس کی عطا کی ہوئی کتاب قرآن مجید کا مطالعہ کرے، اس کے طاعت و عبادات کے حقوق کو پہچانے اور اس کی بارگاہ میں سرنیاز کو خم کرے؟ جبکہ یہ کتاب اس کی دنیا اور آخرت دونوں کو خوشگوار بنانے کی ضامن ہے۔ (ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ و قناعذاب النبار۔(بقرہ 201)
قرآن مجید ایک مکمل آئین نظام اسلام ہے۔ اس میں انسانوں کی رہبری کا بہترین سامان ہے، جیساکہ خود قرآن کا اعلان ہے کہ ’’یہ رمضان کے مہینہ میں نازل کیا گیا، یہ تمام انسانوں کے لئے رہبر ہے اور اس میں رہنمائی کی روشن نشانیاں ہیں۔‘‘ (بقرہ 185 ) یہ کسی کی اپنی طرف سے لکھی گئی کتاب نہیں ہے بلکہ پیغمبر اسلامؐ پر انسانوں کی ہدایت کیلئے، انہیں انسانیت کا درس دینے کے لئے، ان پر رحمت کی بارش کرنے کیلئے اور ایک اچھے معاشرہ کی تعمیر کے لئے اللہ کی طرف سے نازل کی گئی کتاب ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں رحمت اللعالمینؐ سے کہا جارہا ہے ’’(اے رسولؐ) آپؐ کہہ دیجئے کہ میں اُسی کا پابند ہوں جو وحی اللہ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتی ہے۔ قرآن صاحبان ایمان کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ اس لئے اے گروہ انسان جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی کے ساتھ غور سے سنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ (اعراف۔ 204-203 ) ’’یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے اس میں کوئی جھوٹ کی آمیزش نہیں کرسکتا۔ جو کتابیں پہلے سے موجود ہیں ان کی بھی تصدیق کرتا ہے۔‘‘ (یونس 37 ) یعنی توریت، زبور اور انجیل کی تصدیق قرآن مجید میں ہورہی ہے۔ عجب نہیں کہ ’’جو کتابیں پہلے سے موجود ہیں‘‘ جیسے ’’وید اور گیتا‘‘ بھی مراد ہوں اس لئے کہ ان میں درسِ وحدانیت ہے اور مورتی پوجا کی مخالفت ہے۔ (واللہ اعلم)
قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے، اس کی حفاظت پر زور دیتے ہوئے آیت میں پیغمبرؐ کو حکم ہورہا ہے ’’آپؐ کہہ دیجئے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ میں قرآن کو اپنے جی سے بدل ڈالوں، میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔‘‘ (یونس 15 ) اور خود قادر مطلق اللہ کی طرف سے اعلان ہورہا ہے ’’بیشک ہم نے قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ (حجر 9 )
مندرجہ بالا آیتوں کی روشنی میں اگر انسان صدق دل سے یہ مان لے کہ:
۱۔ وہ اشرف المخلوقات ہے، اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کے لئے اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔
۲۔ قرآن کسی بندے کا کلام نہیں ہے بلکہ خالق کون و مکاں، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
۳۔ قرآن انسانوں کو سیدھی اور سچی راہ دکھانے کے لئے نازل ہوا ہے۔
۴۔ قرآن رحمت الٰہی کا سرچشمہ ہے۔
۵۔ قرآن میں جتنی باتیں لکھی ہیں وہ انسانوں کی بھلائی اور ایک اچھے معاشرہ کی تخلیق و تعمیر کیلئے ہے۔
کسی سماج، کسی قوم یا کسی معاشرے کو مندرجہ ذیل عناصر میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ فرد واحد، خواہ اپنی ذات یا دیگر افراد۔ ۲۔ والدین اور اہل خانہ۔ ۳۔ اعزاء و اقرباء، پڑوسی، غرباء و مساکین۔ ۴۔ غیرمسلم افراد۔
۱۔ خود اپنی ذات یا فردِ واحد: کسی معاشرہ کی تعمیر افراد سے مل کر ہوتی ہے۔ ہر فرد کی اہمیت بتاتے ہوئے علامہ اقبالؔ کہتے ہیں: ؎
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
اگر ہر فرد اپنی اپنی جگہ درست ہوجائے یعنی وہ باتیں پسند کرے جو اللہ کو پسند ہیں اور ان باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرے جو اللہ کو پسند نہیں ہیں تو خود بخود ایک خوشگوار معاشرہ پیدا ہوجائے گا۔ مثلاً ’’ہر شخص کو چاہئے کہ و ہ لوگوں کے ساتھ نیکی کرے۔ اللہ نیکی اور اچھا سلوک کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (بقرہ 195 ۔ آل عمران 134 ) ’’اللہ گناہوں سے توبہ کرنے والوں اور پاک و پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (بقرہ 222 ) ’’اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (مائدہ 43 ) ’’اللہ (مصیبت کے وقت) صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (آلِ عمران 146 ) ’’جو شخص اپنے عہد و پیمان کو پورا کرے برائیوں سے بچے، اللہ ایسے پرہیز گاروں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (آلِ عمران 76 ) ’’بیشک اللہ ان لوگوں کو جو اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں، انہیں دوست رکھتا ہے۔‘‘ (آل عمران 159 ) یہ تو تھیں وہ باتیں جو اللہ کو پسند ہیں۔ اب آیئے قرآن میں دیکھیں اللہ کو کیا کیا ناپسند ہے۔ پروردگار عالم کی نظر میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ شئے فتنہ و فساد ہے۔ (یونس 81 ۔ مائدہ 65 ) ’’بیشک اللہ دھوکے باز اور ناشکرے کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (حج 38 ) ’’بیشک اللہ وہ ہے جو غرور کرنے والوں (گھمنڈیوں) کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (نحل 23 ) ’’فضول خرچی نہ کرو۔ اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (انعام 141 ) ’’بیشک اللہ زیادتی کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔‘‘ (بقرہ 190 )
مندرجہ بالا جتنی آیتیں اللہ کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی پیش کی گئی ہیں اگر انسان ان پر عامل ہوجائے تو کیا ایک بہترین معاشرہ نہیں تیار ہوجائے گا؟ اچھے سماج، اچھے ماحول، اچھے معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ اچھی خصلتوں کو اپنایا جائے اور بری عادتوں سے گریز کیا جائے۔ قرآن کریم نے اس مرحلے پر بھی ہماری رہبری کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم میں سے کوئی انسان معصوم نہیں ہے۔ غلطیاں ہر شخص سے ہوتی ہیں، یہاں قرآن تسلی بخش رہبری کرتے ہوئے کہتا ہے ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘ (زمر 53 ) ’’غلطی کا علم ہوجانے کے بعد دیدہ و دانستہ اس پر اصرار نہ کرو۔‘‘ (آل عمران 135 ) مگر کیا کیا جائے، یہ ایک ایسا دلفریب مرض ہے جس کا شکار بڑے بڑے لوگ ہوجاتے ہیں، اپنی غلطی کو تسلیم کرنا خلاف شان سمجھتے ہیں۔ جبکہ ’’نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے اور گناہ و اعمال قبیحہ میں ایک دوسرے کا معاون و مددگار نہیںہونا چاہئے۔‘‘ (مائدہ 2)
ایک اچھے سماج کی تشکیل کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم لوگوں سے بے رُخی نہ کریں، غرور اور تکبر سے دور رہیں (خصوصاً صاحبان علم ہوشیار رہیں اس لئے کہ علم کا دشمن تکبر ہے) اور شیخی بگھارتے ہوئے زمین پر اکڑ اکڑکر نہ چلیں اس لئے کہ ’’اترانے والوں اور شیخی بگھارنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔‘‘ (لقمان 18 ) اور اکڑ اکڑکر چلنے سے کوئی فائدہ بھی تو نہیں ہے۔ اس لئے کہ ’’اکڑکر چلنے والا نہ تو زمین میں شگاف پیدا کرسکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی لمبائی کو چھو سکتا ہے۔ یہ سب بری حرکتیں ہیں جو کہ اللہ کو ناپسند ہیں۔‘‘ (بنی اسرائیل 38-37 )
نشہ میں تکبر کے اخترؔ جو ڈوبا
وہ انسان ہے بس ذلیل اور رسوا
بیشک اللہ تعالیٰ نے کائنات کے ذرّہ ذرّہ کو پیدا کیا مگر انسان کو پیدا کرنے کے بعد اپنی ذات پر فخر و مباہات کیا ہے فتبارک اللہ احسان الخالقین۔ (مومنون 14 ) اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کی بہترین مخلوق، انسان کردار اور عمل میں بھی خدا کی دیگر مخلوقات کے مقابلہ میں اعلیٰ و افضل رہے۔ اور اسی مقصد سے خداوند عالم نے قرآن مجید میں تعلیم و ہدایت کی بے شمار آیات نازل فرمائی۔ خصوصاً اس لئے کہ شیطان روزِ اوّل سے ہی انسان اور انسانیت کا دشمن رہا ہے۔ اور وہ ہمیشہ ہمیں گناہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ کبھی ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا، کبھی ایک دوسرے کو برے ناموں (اسم الفسوق) سے یاد کرنا اور کچھ نہیں تو غیبت کرنا اور اس میں ایسی چاشنی پیدا کردینا کہ بڑے بڑے دیندار لوگ بھی چٹخارے لے لے کر اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے میں مصروف ہوں۔ مگر انسانی معاشرے سے ان برائیوں کو دور رکھنے کی قرآن حکیم میں زبردست تاکید کی گئی ہے۔ سورئہ حجرات آیت نمبر 11 و 12 میں بنی نوع انسان کو پیار و محبت سے زندگی بسر کرنے کیلئے ارشادِ الٰہی اقدس ہے ’’اے ایمان والو! تم میں سے کوئی مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اُڑائے ممکن ہے کہ تم جس کا مذاق اُڑا رہے ہو وہ تم سے بہتر ہو۔ اسی طرح کوئی عورت دوسری عورتوں کا مذاق نہ اُڑائے، ممکن ہے کہ وہ جس کا مذاق اُڑا رہی ہو وہ اس سے بہتر ہو۔ آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگائو اور نہ کسی کو برے لقب سے یاد کرو۔ … بدگمانیوں سے بچو اس لئے کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ یقینا تمہیں اس سے گھن آئے گی (تو غیبت سے بچو) اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ بیشک توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ خالق کائنات کی یہ وہ تعلیمات ہیں کہ انسان ان پر عمل کرلے تو وہ خود بھی دین و دنیا کے لئے بہترین زندگی گذار سکتا ہے اور معاشرہ میں بھی امن و سکون کا نمونہ بن سکتا ہے۔
۲۔ والدین اور اہل خانہ: معاشرہ یا سماج کی پہلی اکائی (Unit) ایک انسان، خود یا افراد کے اجتماع اور باہمی عمل و ردّعمل کا نام معاشرہ ہے، جس پر تفصیلی گفتگو ہوچکی۔ اب آیئے اس اکائی کی ابتدا یعنی والدین کے بارے میں قرآنی نظریہ تلاش کریں۔ والدین کے بغیر کوئی بھی گھر یا خانوادہ یا معاشرہ نامکمل ہے۔ انسان اور انسانی زندگی کی پہلی منزل ماں باپ کی آغوش ہے۔ معاشرہ کی اس اہم اکائی یعنی انسان کی نشوونما، تربیت و تعلیم، عادات و خصائل، طور و طریقہ اور سب سے بڑھکر اس کے نفس کی افتاد اسی گود میں طے پاتی ہے۔ اگر والدین اور اولاد میںتعلقات و روابط خوشگوار نہ ہوں تو معاشرے میں سکون و اطمینان، خوشی و مسرت اور ترقی و ہم آہنگی کا تصور ہی ناممکن ہوجاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ خالق کائنات نے اپنی معرفت اور طاعت و عبادت کے ساتھ ساتھ والدین کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی خدمت کا حکم قرآن مجید میں بڑی تاکید کے ساتھ دیا ہے۔ مثلاً سورئہ بقرہ آیت نمبر 82 میں ارشاد ہورہا ہے ’’اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا‘‘ اسی طرح سورئہ نساء میں حکم پروردگار ہے کہ ’’اللہ کی عبادت کرو، اس کا شریک کسی کو نہ بنائو اور والدین کے ساتھ نیکی کا برتائو کرو۔‘‘ (نساء 36 ) سورئہ انعام آیت 151 میں ذرا اور تفصیلی حکم ہے کہ ’’(اے میرے حبیب اپنی اُمت سے کہہ دیجئے کہ) تمہارے لئے حرام ہے کہ تم اللہ کا شریک کسی کو بنائو مگر ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو افلاس و غربت کی وجہ سے قتل مت کرو، ہم تم کو اور انکو رزق دیتے ہیں اور بے حیائی و بے غیرتی کے پاس بھی مت جائو، خواہ وہ علانیہ ہوں یا پوشیدہ…‘‘ اسی طرح والدین اور ان کے ساتھ اولاد کے برتائو کے سلسلہ میں اور بھی کئی آیتیں ہیں مگر میرے خیال میں جو سب سے اہم اور فصیح و بلیغ اور تفصیلی آیت ہے وہ سورئہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 و 24 ہے جس میں خداوند عالم نے فرمایا ہے ’’یہ تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ وحدہٗ لاشریک کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو، والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو، ان میں سے ایک یا دونوں ضعیف ہوجائیں تو انکے کسی بھی عمل پر ’اُف‘ تک نہ کہنا اور ان کے لئے ہمیشہ اپنے کندھوں کو انکساری، خندہ پیشانی اور رحم و کرم کے جذبہ کے ساتھ جھکائے رکھنا اور خبردار ان سے کبھی جھڑک کر گفتگو نہ کرنا۔‘‘ (یہ حکم ہر انسان کیلئے ہے۔ کسی مسلک، مذہب یا نظریہ کی قید نہیں ہے) بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اولاد کے قول و عمل پر ہدایات دینے کے بعد قادر مطلق نے حکم دیا کہ اب میری بارگاہ میں ہاتھوں کو بلند کرو اور ’’کہو، رب ارحمہما کما ربینیٰ صغیرا۔ یعنی اے پروردگار ان دونوں پر جنہوں نے ہماری پرورش کی ہے اس طرح رحم کر جیسے انہوں نے ہم پر اس وقت رحم کیا تھا جب ہم بہت چھوٹے (ان کی آغوش میں) تھے۔‘‘
مندرجہ بالا قرآنی آیات کی روشنی میں کیا یہ نہیںکہا جاسکتا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے بعد کسی کی عبادت، پرستش یا پوجا کا امکان ہوتا تو وہ والدین کی ہستی ہوتی؟ بات کچھ اور بڑھتی ہے تو ’’شکریہ‘‘ کی منزل آتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کے اکلوتے بچے کی جان بچالے تو کیا اس احسان کا بدلہ ممکن ہے؟ ناممکن! بس یہیں پر شکریہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جس طرح پروردگار عالم کے احسانات کا بدلہ ناممکن ہے اسی طرح والدین کے بے حساب احسانات کا بدلہ ادا کرنا بھی کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ شاید اسی لئے خالق کائنات نے جہاں اور جس طرح اپنے لئے شکریہ کا مطالبہ کیا ہے وہیں اسی طرح بلافاصلہ والدین کے شکریہ کا بھی حکم دیا ہے۔ ’’میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو (یاد رکھو) تم سب کو پلٹ کر ہمارے ہی پاس آنا ہے‘‘ (لقمان 14 )
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل میںوالدین اور اولاد کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جب اولاد اپنے والدین کی جانفشانیوں، قربانیوں اور احسانات کو پیش نظر رکھ کر ان کی خاطر خواہ خدمت کرے گی تو ان کے دل سے دعائیں نکلیں گی، نیک جذبات ابھریں گے اور وہ اولاد کی بہتر سے بہتر تعلیم و تربیت پر آمادہ ہوں گے، نتیجہ میں ایک خوشگوار معاشرہ کی تعمیر ہوگی۔ اور یہی آج کی اہم ترین ضرورت ہے۔
۳۔ اعزاء و اقرباء، پڑوسی اور غرباء و مساکین: معاشرے اور سماج کا یہ بھی غالب اور اہم حصہ ہیں۔ اس لئے قرآن کریم نے ان کے بارے میں بھی ضروری اور گرانقدر ہدایتیں دی ہیں تاکہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ہو، ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ اچھے طریقہ سے پیش آئے اور پورے معاشرے میں امن و سکون کے ساتھ اچھے اقدار پر عمل رہے۔
رشتہ دار ہوں یا پڑوسی یا دوست واحباب مسائل اکثر و بیشتر سب کے درمیان پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بھی فطرتِ بشر کا تقاضہ ہے۔ مگر قرآن مجید نے ان اُلجھنوں کو سلجھانے کا فارمولہ بھی پیش کیا ہے۔ ارشاد ہے ’’تم میں سے جو اچھی حیثیت والا ہے اسے قرابت داروں، مسکینوں اور مہاجروں کی فی سبیل اللہ مدد سے ہاتھ نہیں روکنا چاہئے۔ بلکہ معافی اور درگذر سے کام لینا چاہئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کردے؟ خدا تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔‘‘ (نور 22 ) خالق کائنات بے نیاز ہے اُسے ہماری عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنی طاعت عبادت کے ذریعہ ہمارے دلوں میں انسان اور انسانیت کے لئے الفت و محبت و عقیدت و احترام کی شمع روشن کرنا چاہتا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اسی حقیقت کو پیش کرتے ہوئے کہا: ؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر ّ و بیاں
ایسے ہی دردِ دل رکھنے والوں سے قرآن کہہ رہا ہے ’’تمام صاحبانِ ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پس اگر ان کے درمیان کسی طرح کی نااتفاقی پیدا ہو تو صلح صفائی اور میل جول کرا دیا کرو۔‘‘ (حجرات 10 ) ایک اچھے سماج کی تعمیر کیلئے قرآن مجید میں حکم پروردگار ہے کہ ’’اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں، پہلو میں بیٹھنے والے مصاحبین، مسافروں، کنیز اور غلام (یعنی خدمت گذاروں) کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو، ان کا حق ادا کرو (اور یاد رکھو) اللہ گھمنڈیوں اور شیخی بگھارنے والوں کو پسند نہیںکرتا۔‘‘ (نساء 36 ) اس آیت میں مسلم یا مومن ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ معاشرے کے سبھی افراد مراد ہیں، بس انسان ہونا ضروری بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ پورپ یا پچھم کی طرف رخ کر کے کھٹا کھٹ نمازیں پڑھ لیں تو بندگی کا حق ادا ہوگیا جب کہ صحیح نماز ادا ہونے کی بھی شرطیں ہیں۔ مثلاََ قرآن کی طرح نماز بھی ٹھہر ٹھہر کر اور صحیح قرأت کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔ ’الحمد‘ کی جگہ ’الھمد‘ اگر پڑھیں تو معنی میں زمین و آسمان کا فرق ہوجائیگا، بلکہ ثواب کی جگہ گناہ۔۔۔ اس لئے کہ الحمد کے معنی ہے ’’ تمام تعریفیں‘‘ اور الھمد کا ترجمہ ہے ’’تمام سڑے گلے چیتھڑے‘‘ (قرآنی عجائبات مولفہ مولانا سید علی حماد مد ظلہ فاضل جواد فیض آباد)۔ اسی طرح ارکان نماز جن کی کمی، بیشی یا غلطی کی وجہ سے نماز باطل ہوجاتی ہے ان میں اہم ترین اور حساس ( Sensitive) رکن ہے، قیام متصل بہ رکوع، یعنی رکوع سے ٹھیک پہلے قیام۔ اگر تکبیر کے علاوہ کچھ پڑھتے ہوئے رکوع میں جائیں گے تو نماز باطل ہو جائیگی (متفقہ علیہ مسئلہ) جب کہ نماز کی قبولیت ضروری ہے، اس لئے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ان قبلت قبل ما سواھا وان ردت ردما سوا ھا ’یعنی اگر نماز قبول ہوگئی تو سارے اعمال قبول ہو جائیں گے اور اگر نماز رد ہوگئی تو کوئی عمل قبول نہ ہوگا۔
قارئین کرام! نماز کی اہمیت کے مسائل اس لئے پیش کئے گئے ہیں کہ اتنی اہمیت کے باوجود ارشاد باریِ تعالیٰ کے مطابق ’’یہ کوئی نیکی میں نیکی نہیں ہے کہ پورپ یا پچھم کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو گئے (یعنی نماز پڑھنے لگے) بلکہ نیکی تو اس انسان کی ہے جو اللہ تعالیٰ، روز آخرت (حساب کتاب کا دن) فرشتوں ، اللہ کی کتابوں اور تمام نبیوں پر ایمان لائے (یہ سب عقیدہ اور ایمان کی شرطیں ہیں۔ اس کے بعد) اللہ کی محبت میں اپنا مال قرابتداروں ، یتیموں ، محتاجوں، مسافروں، سائلوں اور خدمت گزاروں پر خرچ کرے اور تب نماز بھی قائم کرے، زکاۃ بھی ادا کرے اور جب کسی سے کوئی عہدہو تو اپنے قول کو پورا کرے، مشکل اور سخت وقت میں صبر سے کام لے تو ایسے لوگ سچے ہیں، متقی اور پرہیز گار ہیں‘‘ (سورہ 2 آیت 177) اگر انھیں صفات کے انسان پیدا ہو جائیں تو معاشرے میں سماج میں، ماحول میں شیرینی ہی شیرینی نظر آئی گی اور تلخی کا کہیں سے گزر نہ ہوگا۔ سورئہ نبی اسرائیل آیت 27سورئہ روم کی آیت 38، سورئہ نحل آیت 90میں مزید تاکید ہے کہ قرابت داروں، مسکینوں، پریشان حال مسافروں کا حق ادا کرتے رہو، ان کے ساتھ عدل و احسان سے پیش آئو مگر اسراف بے جا سے بچو۔ بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے باز رہو۔ یہ بھی یاد رکھو کہ رشتہ دار، قرابتداربہ نسبت دوسرے حاجتمندوں کے زیادہ حقدار ہیں‘‘ (احزاب 6)معاشرہ میں پھیلی ہوئی ناانصافیوں کے پیش نظر عادل مطلق پروردگار عالم نے وصیت کرنے کا حکم دیا ہے کہ ’’جب موت کے آثار ظاہر ہوں تو مال وزر کے لئے ماں باپ اور قرابت داروں کے حق میں وصیت کرو‘‘ (سورہ 2آیت 180)
4۔ غیر مسلم افراد: (بحیثیت انسان ) : کسی سماج، کسی ماحول، کسی معاشرے پر جب ہم نظرڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو، سکھ، عیسائی اور یہودی وغیرہ بھی رہتے ہیں۔ معاشرہ کے یہ بھی اہم اراکین ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آئیے ایک اسلامی حکومت کے فرمانروا اور قرآن حکیم کے باعمل مفسر کے لکھے گئے حکم نامہ پر غور کریں۔ مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علیؑ ابن ابی طالب خلیفۂ وقت ہیں، مالک اشتر مصر جیسی بڑی اسٹیٹ کے والی (گورنر) ہیں۔ خلیفہ وقت نے گورنرکے نام ایک عہدنامہ تحریر فرمایا جو دین اسلام کا مکمل آئین ہے اور جسے آج بھی سنہرے حرفوں سے لکھ کر دنیا کے تمام فرمانروائوں کے پاس بھیجنے کی ضرورت ہے اس عہدنامہ میں حضرت علیؑ تحریر فرماتے ہیں ’’(اے مالک)تمہاری رعایا میں مخلوق خدا کی دو قسمیں ہیں: بعض تمہارے دینی بھائی یعنی مسلمان ہیں اور بعض خلقت میں تمہارے جیسے انسان ہیں جن سے لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں اور خطائیں بھی سرزد ہوتی ہیں اور کبھی کبھی جان بوجھ کر یاکبھی دھو کے سے ان سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا انھیں ویسے ہی معاف کر دینا جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے در گزر کرے۔ تم ان سے بالا تر ہو، تمہارا حاکم (علیؑ)تم سے بالا تر ہے اور پروردرگار تمہارے والی (حاکم) سے بھی بالا تر ہے۔ ا س اعلیٰ ترین پروردگار نے میرے ذریعہ ان غیر مسلم انسانوں کے معاملات کی انجام دہی کا مطالبہ تم سے کیا ہے۔ اور اسے تمہارے لئے آزمائش کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ خبردار! اپنے نفس کو اللہ کے مقابلہ میں نہ اتار دینا۔‘‘ حضرت علیؑ کا یہ فرمان رہتی دنیا تک ہر حکام وقت، فرمانروائے زمانہ کے لئے عظیم ترین رہبر (Guide) ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ اسلامی نظام کا سنہرا آئین ہے، جس میں مذہبی تعصب کا گزرر نہیں ہے۔ یہاں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حاکم ہر چھوٹی بڑی غلطی کا مواخذہ نہ کرے بلکہ محکوم رعایا کو انسان سمجھ کر ان کی غلطیوں کو برداشت کرے اور چھوٹی خطائوں سے در گزر کرے اور اس فارمولے کو پیش نظر رکھے ’’رحم کرو تا کہ تم پررحم کیا جائے‘‘ (اس وقت ہمارے ملک میں مندرجہ بالا آئین پر عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ بہر حال انسان اور جانور برابر نہیں ہوسکتے ) حاکم کو چاہئے کہ وہ اقلیت (Minority) کے ساتھ خصوصی طور پر رحمدلی کا برتائو کرے تاکہ وہ احساس کمتری میں نہ مبتلا ہوں۔ غیر مسلم اقلیت آج بھی حضرت علیؑ کے احسانات کو یاد کر رہی ہے۔ اس ذیل میں ایک تاریخی اہمیت رکھنے والا واقعہ اور سن لیجئے، تفصیل ڈاکٹر مولانا کلب صادق صاحب مدظلہ کی کتاب ‘‘سائنس اور قرآن‘‘ (ص 110) پر پڑھی جا سکتی ہے (یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ کتاب کا صفحہ نمبر 110ہے اور علی کا نمبر بھی 110ہے۔ ع،ل،ی۔ 10+30+70 = 110)
جارج جرداق ، لبنانی عیسائی عالم نے حضرت علیؑ کے احکام واقوال و کردار سے متاثر ہو کر عربی زبان میں ایک کتاب ’الصوت العدالۃ الا نسانیہ) لکھی (اس کا اردوترجمہ ’’ندائے عدالت انسانی‘‘ ادارہ اصلاح سے شائع ہوچکا ہے) یہ کتاب کسی مسلمان نے نہیں بلکہ چرچ کے پادری نے چھپوائی۔ جارج جرداق نے پادری سے پوچھا کہ اسے چھاپنے کے لئے کیوں تیار ہوگئے؟ اس پادری نے کہا ’’ہماری قوم پر علیؑ کا احسان ہے۔۔۔علی ابن ابی طالبؑ جب تخت حکومت پر بیٹھے تو اقلیوں (Minorities) کا ایک وفد ان کے پاس گیا اور کہا کہ بتایے آپ کے نظام حکومت میں ہماری پوزیشن کیا ہوگی؟ حضرت علیؑ نے کہا ’’تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی‘‘ کہاتو اتناہی تھا کہ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی مگر ہم کو وہ Rights اور حقوق علیؑ نے دے دئے جو ہم کو ہماری حکومتوں میں بھی کبھی حاصل نہیں ہوئے، یہ اسی احسان کا ایک ادنی سا بدلہ ہے۔‘‘
مولائے کائنات امیر المومنینؑ کی عملی زندگی کا یہ ایک نمونہ تھا اب آئیے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں دیکھیں کہ ایک اچھے معاشرہ کی تعمیر کے لئے غیر مسلم افراد کے ساتھ کیسا برتائو ہونا چاہئے۔ یہ یقیناََ ایک حقیقت ہے کہ دین دھرم مذہب ہر ایک کو پیارا ہوتا ہے۔ کوئی فرد اپنے دھرم یا دھرم گرو کے خلاف ایک لفظ بھی سننا پسند نہیں کرتا۔ قرآن حکیم میں مسلمانوں کو حکم پر وردگار ہے کہ ’’ جو لوگ اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کی طرف رجوع کرتے ہیں، ان سے دعائیں مانگتے ہیں، ان کی پرستش کرتے ہیں ان (معبودوں) کو برا نہ کہو ورنہ وہ نادانی میں تمہارے خدا کو برا بھلا کہہ بیٹھیں گے (انعام 108) اس آیت کا عملی مظاہرہ ہم نے شہر تہذیب و ادب لکھنؤ میں دیکھا۔ ایک طرف ایک فرقہ اپنے رہبروں کی تعریف میں نعرے لگا رہا ہے دوسری طرف دوسرا فرقہ ان رہبروں پر لعنت کی باش کر رہا ہے۔ پلٹ وار میں وہ بھی لاشعوری میں، جہالت کے سبب کچھ معصوم ہستیوں کی شان میں گستاخانہ جملے ادا کرنے لگتے ہیں۔نتیجہ لڑائی جھگڑے فساد تک پہنچ جاتا ہے یعنی معاشرہ تعصب ، تنگ نظری اور جہالت کا شکار ہوجاتا ہے(خد کا شکر ہے کہ یہ شیطانی ماحول اب کافی حد تک سدھر گیا ہے۔ خدا کرے کہ اس سے بھی بہتر اور صحت مند ماحول پیدا ہو۔ آمین)
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ ’’(اے مسلمانو!) اگر مشرک بھی تم سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام (قرآن) سنے اور سمجھے (پھر جب حالات درست ہو جائیں تو) اسے ان کی جگہ واپس پہنچا دو‘‘ (توبہ6) یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ اسی (مشرک) سے کہہ دو کہ اب حالات درست ہوگئے اپنے امن کی جگہ چلے جائو بلکہ حکم قرآن کریم ہے کہ اسے امن کی جگہ یعنی اس کے گھر یا ٹھکانے کی جگہ تک ’’پہنچا دو‘‘ اسی طرح معاشرہ کے فلاح وبہبود کے پیش نظر ارشاد رحیم و کریم ہو ربا ہے کہ ’’جن مشرکوں سے تمہارا عہد و پیمان ہو اور وہ اس پر قائم رہیں تو تم بھی عہدو معاہدہ کی مدت کو پوری کرو‘‘(توبہ 4) یعنی امریکہ کے صدر (ٹرمپ) کی طرح عہد شکنی کر کے دنیا میں فساد نہ پھیلائو۔
یہاں ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ قرآن جیسی عظیم کتاب معاشرہ کے درمیان موجود ہونے کے باوجود ماحول میں پراگندگی کیوں ہے؟ اس سول کا جواب شاید اس مثال سے واضح ہو کہ اگر کوئی مریض ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوالاکر طاق پر یا الماری میں رکھ دے اور روزانہ اسے چومتا اور سونگھتا رہے اور ڈاکٹر کے لکھے ہوئے نسخہ کو یاد کر کے رٹتا رہے تو کیا وہ صحت یاب ہو جائے گا؟ ناممکن! یہی صورت حال قرآن کے ساتھ ہے کہ یہ ہر گھر میں طاق یا الماری کی زینت بنا رہتا ہے یار ٹّو طوطا حافظ بغیر کسی غور وفکر کے فرّاٹے سے پڑھتا رہتا ہے جب کہ قرآن حکیم کی آرزو ہے کہ قرآن ٹھہر ٹھہر کر (صاف صاف) پڑھو (مزمل4)قرآن میں تفکر و تدبر سے کام کیوں نہیں لیتے؟ (نسا80، محمدؐ24) کوئی شئے ایسی نہیں ہے جو اس کتاب میں نہ ہو (انعام 59) جتنا بھی آسانی سے پڑھ سکتے ہو قرآن پڑھو (مزمل 20) ان آیتوں کے باجود پیغمبر اسلامؐ امت کی شکایت اللہ سے کرتے ہیں’’اے پالنے والے میری امت نے قرآن سے روگردانی کر لی اور اسے تنہا چھوڑ دیا۔(فرقان30)
معاشرے کی پراگندگی کا اصل ذمہ دار کون: قوم و ملت کے سبھی مدبرین یقیناََ یک زبان ہوکر کہیں گے ’’جہالت‘‘ ۔ جی ہاں! قرآن بھی یہی آواز دے رہا ہے ’’کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ ‘‘ (زمر9) مگر جہالت کے دور کرنے کا فریضہ ہمارے علماء کا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہورہا ہے ’’یہ مناسب نہیں ہے کہ کل کے کل مومنین (علم حاصل کرنے کے لئے ) نکل کھڑے ہوں۔پھر بھی کچھ لوگ علم فقہ حاصل کرنے کے لئے کیوں نہیں نکلتے تاکہ جب وہ علم دین حاصل کرکے واپس آئیں تو قوم کوعذاب الٰہی سے ڈرائیں (اور قوم ان کی علمی گفتگو سن کرخدا سے) ڈرنے لگے۔‘‘ (توبہ 122) یقیناََ ہمارے ملک سے سیکڑوں طلاب ہر سال علم وفقہ (علم قرآن وسنت وسیرت) حاصل کرنے کے لئے دور دراز کا سفر کرتے ہیں، جب واپس آتے ہیں تو بہت جلد اپنے فرائض بھول جاتے ہیں۔ آئیے، معاشرے کی ضروت، علماء کا روحانی اقتدار اور اس کا انحطاط کے موضوع پر بھی تھوڑی سی گفتگو ہو جائے۔
بزرگوں کی یاد داشت میں محفوظ ہوگا کہ ایک وہ وقت تھا جب نماز کے وقت مسجد کے در پر مریضوں کی بھیڑ لگی ہوتی تھی کہ نمازی نکلیں تو ان پر یا مریضوں پر دعا دم کر کے آگے بڑھیں، پرآج ایسا نہیں ہے پہلے قوم کے سیاسی مدبرین، دانشور اور صاحبان دولت و اقتدار اپنے دینی و دنیوی نیز قومی مسائل لے کر علمائے کرام کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور مسائل کے حل اور دعائوں کے ساتھ واپس ہوتے تھے لیکن آج بیشتر علماء اپنے روحانی اقتدار سے کنارہ کشی کر کے سیاست و دولت واقتدار کے در پر جبہ سائی کر رہے ہیں۔ شاید انھیں مالک حقیقی اور قادر مطلق پر یقین میں کمی آگئی، یاقرآن اور معصومین علیھم السلام کی دعائوں سے اعتماد اٹھ گیا یا پھر اپنے کردار و عمل پر بھروسہ نہیں رہا۔عالم کی شان کیا ہونی چاہئے، پانچویں امام سے پوچھئے۔ آج بیشتر علما اپنے روحانی اقتدار کو کسی حد تک کھوچکے ہیں بیان سے باہر ہے۔ اس حدتک احساس کمتری میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ صاحبان عمامہ بھی گھرسے باہر، مسجد سے باہر کھلے سر نظر آتے ہیں۔ دو پلی ٹوپی گئی تو کج کلاہی بھی ختم ہو گئی جو عالم دین کی شناخت ہواکرتی تھی۔ علماء و مجتہدین کی داڑھی کی مقدار بھی کم سے کم تر ہوگئی۔ عوام کے درمیان بیٹھ کر ہنسی مذاق یا مزاح بھی علماء کی شان کے خلاف تھا۔۔ مگر۔۔۔علمائے کرام اور مجتہدین عظام سے التماس ہے کہ وہ اپنے کردار میں بلندی پیدا کریں، روحانی اقتدار کا گراف مضبوط کریں، خطابت میں فضائل و مناقب کے ساتھ مسئلے مسائل ضرور بیان کریں۔ اور اس دور کی سب سے بڑی مصیبت ٹی وی اور موبائل کے نقصانات پر برابر روشنی ڈالتے رہیں۔ روحانی اقتدارمیں جب اضافہ ہوگا تو دنیا پرست قومی مدبروں میں اتنی جرأت نہیں ہوگی کہ وہ مسلمان رہتے ہوئے کھلم کھلا کفرو شرک کے اعمال انجام د یں۔ بہر حال ان تمام باتوں کا معاشرہ پر بہت برا اثر پڑرہا ہے۔
معاشرے کی خرابی مٹانے کی خاطر
کلام پاک سے درس حیات لینا ہے
بسر جو کرنا ہو عزت کی زندگی اخترؔ
برائی چھوڑ کے اچھے صفات لینا ہے
درالحسن رضوی اخترؔ اعظمی
ہے۔ مگر وہ انسان نہیں جو حیوان سے بھی بدتر ہیں۔

 

 

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular