Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldخدا کی دین ہے اکسیر شاعری اپنی...

خدا کی دین ہے اکسیر شاعری اپنی…

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

مبصر :- رضوی سلیم شہزاد

محمد ہارون اکسیر ادیب علیگ، غربت و افلاس اور حادثاتِ زمانہ سے نبرد آزما ایک ایسے حساس طبع شاعر کا نام ہے جو اپنی زندگی کی پانچ دہائیوں سے اپنے فکر و فن کو نذرِ قرطاس و قلم کرتا رہا – گزری ہوئی نصف صدی میں نہ معلوم مقبولیت کی وہ کون سی گھڑی تھی جب اِس شاعرِ خوش خیال نے ایسے اشعار کہے تھے کہ ¬
مَیں روشنی میں تری پاؤں اپنی “منزلِ شوق”
بس اتنا تجھ سے یہ اکسیر آج مانگے ہے
اور
آخرِ شب مری آنکھوں میں جو لہراتا ہے
کیوں نہ اُس خواب کی تعبیر سے باتیں کرلوں
اور زبان و قلم سے نکلی ہوئی یہ دعا آج “منزلِ شوق” کے اجراء سے پوری ہورہی ہے – اور جنابِ ہارون اکسیر اپنی عمر کے آخری پڑاؤ میں اپنی خوش بخت آنکھوں میں لہراتے خواب کی تعبیروں سے باتیں کررہے ہیں –
زندگی کی سختیوں اور تلخیوں کے ساتھ “مشقِ سخن” جاری رکھنے والے اِس بزرگ اور استاد شاعر کے وہم و گمان میں کبھی یہ خواب رہا ہو لیکن اپنی حیاتِ غربت و افلاس نے اُنہیں اپنے خوابوں کی حسین تعبیر سے یوں آشنا نہ کیا ہوتا اگر اُن کے سعادت مند نواسے مجاہد سلیم نے آگے بڑھ کر عزم و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے “جشنِ اجرا ” کی یہ محفل نہ سجائی ہوتی –
مجھے خوشی ہے کہ اپنے اولین شعری مجموعہ کو طباعت و اشاعت کی منزلوں سے ہمکنار کرتے ہوئے “جشنِ اجراء” کے یہ حسین لمحات جناب ہارون اکسیر کے لیے بالکل نئی اور خوش کُن کیفیات کا آئینہ ہوں گے –
محمد ہارون اکسیر کے فن پاروں سے میری آشنائی میلاد کی محفلوں میں ہوئی – جہاں نعت و منقبت اور مراثی و سلام کے نغمے گنگنائے جاتے تو اُن میں سے اکثر کلام، ہارون اکسیر کے کلامِ اثر آفریں ہوتے جن سے مسلمان اپنے دلوں میں محبت و عظمتِ مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شمعیں فروزاں کرتے نظر آتے تو وہیں…..
“ماں باپ کو مت کر دکھی، ماں باپ پھر ملتے نہیں”
” رکھنا سدا ان کو سکھی، ماں باپ پھر ملتے نہیں ”
جیسی نظمیں واعظ کے منبر و محراب کی زینت بنی دکھائی دیتی ہیں –
ہارون اکسیر کے کلام کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آج بھی شہر کی تقریباً ہر مسجد و مدرسہ کی امداد کے لئے بنائے جانے والے پنڈال و پوسٹر و بینر میں اُن کا یہ شعر جگمگاتا ہوا پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے کافی ہے کہ
بنانے کے لیے مسجد جو اپنا مال و زر دے گا
خدا جنت میں اس کو خوب عالیشان گھر دے گا
محمد ہارون اکسیر ادیب علیگ کے مطابق…..،
“اسکولی زمانے میں اُنہیں استاد شعرا کے کلام پڑھنے اور گنگنانے کا شوق تھا – ذوقِ طبع اور خوش گلوئی و بے حجابانہ انداز کے سبب اکثر اسکولی تقریبات میں اُنہیں اُن کے اساتذہ مختلف اصنافِ سخن جیسے حمد و نعت، غزلیات و حب الوطنی کے گیت پڑھنے پر نہ صرف آمادہ کرتے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرتے – ان اسکولی اساتذہ کی یہی حوصلہ افزائی اُنہیں شاعری کے میدان میں لے آئی – ”
میں سمجھتا ہوں کہ جس سلاست و روانی کے ساتھ، الفاظ کی نت نئی ترکیبات اور فکر و خیال کا اچھوتا انداز ہارون اکسیر کے یہاں ملتا ہے اُسے پڑھ کر اور سن کر محسوس ہوتا ہے کہ ہارون اکسیر میں فنِ شعر گوئی کَسبی نہیں بلکہ وہبی اور عطائی ہے – حالاتِ حاضرہ کے اہم اور سلگتے مسائل پر نیز نت نئے موضوعات پر جس روانی کے ساتھ ان کا قلم چلتا ہے وہ اس بات کا گواہ ہے کہ ہارون اکسیر کا حسّاس دل زمانے کے نشیب و فراز کے اثرات کو بہت جلدی قبول کرلیتا ہے –
ہارون اکسیر کے یہاں غزلیہ شاعری کا روایتی انداز بھی ملتا ہے جو انہیں میر اور غالب کے طرفداروں کی فہرست میں شامل کرتا ہے تو وہیں جدید اسلوب، منفرد لب و لہجہ اور نت نئے موضوعات کے انتخاب نے اُنہیں عصرِ حاضر کی فنّی روایات کا آئینہ دار بھی بنادیا ہے – وہ خود کہتے ہیں…
شہرِ سخن میں محفل محفل
میر کی بولی بول رہا ہوں
کوئی پوچھے جو مجھ سے ترا نام و پتہ
کیا بتاؤں اسے اکسیر بتادے مجھ کو
رات، جگنو، ستارے، مہکتی فضا
ایسے حالات میں تم کو جانا نہ تھا
مل تو لیتے اک ذرا رنجور سے
کیوں اشارے کررہے ہو دور سے
وہ ہیں تکمیلِ تمنّا پر بضد
ہم پریشاں عشق کے دستور سے
میں نے تو کیا شکوہ بے درد زمانے کا
کیوں تم نے برا مانا، کیوں مجھ سے تمہی روٹھے
اور ایک مقام پر ہارون اکسیر میر و غالب کے طرف دار ہونے کا اظہار بالکل واضح طور پر کرتے ہیں… ¬
مرے ادراک کو روشن خیالی بخشنے والے
مجھے غالب کا ہمسر، میر کا ہمدوش کرنا تھا
غزل کے یہ اشعار صرف رنگِ غزل ہی نہیں بلکہ تغزل سے پُر ہیں اور تغزل ہارون اکسیر کی شاعری کا خاصہ ہے. تغزل کے لیے وہ شیریں، سُبک اور رنگین الفاظ سے کام نہیں لیتے بلکہ ان کے یہاں اثباتی اور صحت مند قدروں کو فوقیت دیتے ہوئے منفی رخ اختیار کرنے سے گریز بھی کیا جاتا ہے –
مثال کے طور پر ہارون اکسیر کے یہ اشعار….¬
نہیں فتنہ گری شیوہ ہمارا
وگرنہ ہم بھی یہ ڈھب جانتے ہیں
ماں ترے آنچل کی خوشبو نے سہارا دے دیا
ورنہ میں بھی گندی گلیوں کی وبا کی زد پہ تھا
اس قول سے تو آشنا ہر ایک فرد ہے
قابو جو اپنے نفس پہ پالے وہ مرد ہے
تغزل کے لیے ہارون اکسیر نے ذکرِ محبوب سے بھی کام لیا ہے، الفاظ کی رنگینی سے بھی اور لب و لہجہ کی گھلاوٹ سے بھی. اس لیے اُن کے اشعار پڑھتے ہوئے ایک رچاؤ، نرمی، دلآویزی اور مہک کا احساس ہوتا ہے – ہارون اکسیر اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی فطری انداز میں نہایت دلکشی کے ساتھ کرتے ہیں – قاری کو یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ صرف شاعری پڑھ رہے ہیں بلکہ کھلے طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو بھی اپنے اشعار میں شریک کرنا چاہتا ہے، اپنے تجربات کو قارئین کے تجربات کا حصہ بنا دینا چاہتا ہے – ہارون اکسیر کہتے ہیں ¬
ہر نفس ہر ہر قدم ہے خطرہء آزارِ جاں
کون جانے کب کہاں کیا حادثہ ہوجائے گا
کب تلک ہم بے گناہوں کے مقدس خون سے
گوشہ گوشہ قتل گاہوں کو سجایا جائے گا
بس ایک تیرے حسن کی تزئین کے لیے
خوشبو کبھی ہوئے کبھی رنگِ حنا ہوئے
کسی بھی دور میں غزل زندگی سے دور نہیں رہی ہے – ہارون اکسیر نے جہاں کلاسیکی اور روایتی طرز کو اپنے اسلوب کا حصہ بنایا وہیں زندگی کی حرکت اور حرارت کو جابجا پیش کرکے جدیدیت کی روش بھی اختیار کی – ہارون اکسیر کے یہاں صرف غمِ جاناں نہیں، غمِ حیات اور غمِ دوراں بھی ہے اور یہ بات اُن کی گہری نظر، کشادہ ذہنی اور عصری آگہی کی عکاس ہے – اکسیر اس بات کے قائل ہیں کہ ادب کو زندگی کا آئینہ بنایا جائے – وہ زندگی اور شاعری کو ایک ساتھ دیکھنا پسند کرتے ہیں –
ہارون اکسیر کے دل میں وطن کی محبت اور اپنے چمنستانِ وطن کی حفاظت کا جذبہ بھی موجود ہے جو اُن کی شاعری میں نمایاں ہے…
مرے مقدس لہو سے ہے لالہ زار میرے وطن کی دھرتی
ادب سے چل اس پہ چلنے والے جو ہوسکے پا پیادہ ہوجا
یک جہتی کے مفہوم کو سمجھے بھی تو کسیے
بارش ہی جو دیکھا ہے سمندر نہیں دیکھا
اچھا ہوا اکسیر جو کام آیا وطن کے
ورنہ میں یہی سوچتا سر کس کے لیے تھا
لیکن جب ہارون اکسیر اپنے وطن عزیز کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں اور علاقائی تعصب، فرقہ واریت، خون خرابے، فسادات، بم دھماکے، ذات پات کے اختلافات، امیر و غریب کی تفریق، اخلاقی دیوالیہ پن اور سیاستدانوں کی ستم ظریفی اور خود غرضی دیکھتے ہیں تو اُن کے منفی، گھناؤنے اور خطرناک خدوخال کو اپنی شاعری کا حصہ بنالیتے ہیں – ایک شاعر کا دل جب ان منفی تصورات کو حقیقت کے رنگ و روپ میں دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے تو اس کا دردمند دل اور حساس طبع خیالات، فکر و فن کے سانچے میں ڈھل کر دوسروں کو بھی اس دردناک نظارے میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں – اکسیر نے بھی اپنے گرد و پیش اور ماحول کی ان خستہ حالیوں، ویرانیوں اور ناہمواریوں کو محسوس کیا، اُن کا جائزہ لیا اور نہایت معنی خیزی اور تہہ داری کے ساتھ انہیں الفاظ کا جامہ پہنا دیا…
میں عدلیہ میں پہنچ کر بھی بے گناہ رہا
سنا جو مدعی میرا تو بدحواس ہوا
جو کررہے تھے فسادات کی شجر کاری
ہمیں خوشی ہے جہاں اُن سے روشناس ہوا
انبار رشوتوں کے بڑا کام کرگئے
مجرم شہادتوں کی حدوں سے گزر گئے
کیا آپ نے اس وقت کا منظر نہیں دیکھا
جب آگ تھی پھیلی ہوئی گھر گھر نہیں دیکھا
تعمیر کے پردے میں تخریب نہیں اچھی
ناکارہ قیادت کو یہ بات بتا دیجے
ہاتھ اگر قانون کے اُٹھیں صحیح جانب تو پھر
جو بھی دہشت گرد ہے دہشت زدہ ہوجائے گا
ہم اگر باہر نہیں نکلے حصارِ خواب سے
ایک اک مسجد کو بت خانہ بنایا جائے گا
اکسیر کی شاعری سبک اور سہل شاعری ہے وہ اپنی ذات کو سامنے رکھ کر کشتِ شاعری کی آبیاری کرتے ہیں اور اپنی دنیا آپ سجاتے ہیں – انہوں نے مختلف موضوعات کو، انسانی دکھ درد اور انسانی محسوسات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا – اُنہوں نے غزلیہ کلام سے زیادہ نظم و حمد و نعت و منقبت اور مرثیہ وغیرہ اصناف سخن میں اپنے فکر و فن کو برتا ہے. امید کہ مستقبل میں ان اصناف پر موجود اکسیر کے کلام بھی زیور طبع سے آراستہ ہوکر اہلِ ذوق کی تسکین کا سامان بنیں گے – ****



(ایم اے بی ایڈ) مالیگاؤں

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular