Saturday, May 11, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldجے این یو کمرہ نمبر 259(ناول)

جے این یو کمرہ نمبر 259(ناول)

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

نام کتاب : جے این یوکمرہ نمبر 259(ناول)
نام مصنف : عمران عاکف خان
ضخامت : ۱۸۰؍صفحات
قیمت : 250روپے
ملنے کے پتے : 259فکشن نما، وسنت کنج، نئی دہلی۔110067
مبصر : منظور پروانہ9452482159

ادب برائے ادب، ادب برائے زندگی ، ادب برائے نفس اور ادب برائے سرمایہ کی تمام تر بحث کے درمیان یہ سوال ہمیشہ سر اٹھائے رہتا ہے کہ حقیقی ادب کسے مانا جائے۔ یا حقیقی ادب کیا ہے؟ میرے سامنے بھی یہ سوال آتا ہے اور جب جب میرے سامنے یہ سوال آتا ہے تو مجھے افلاطون کی بات میں سچائی نظر آتی ہے کہ سچا ادب وہ ہے جسے زندگی جنم دیتی ہے یعنی حقیقی معنی میںادب وہی ہے جس میں حیات کے عکس و نقش دکھائی دیں۔ زیر تبصرہ ناول ’’جے این یو کمرہ نمبر 259‘‘ایک ایسا دستاویز ہے جس میں حیات کے عکس و نقش بالکل واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب’’ جے این یو کمرہ نمبر 259‘‘ایک سماجی ناول ہے۔ یہ ناول انسان کی نجی زندگی اور معاشرتی زندگی میں پیش آنے والے سچے واقعات پر مبنی ہے یعنی یہ ناول فیکٹ فکشن کا ایک نمونہ ہے۔ اس ناول کی کہانی کیا ہے اس کا اندازہ تو ناول کے نام ’’جے این یو کمرہ نمبر 259‘‘ اور انتساب ’’محمد نجیب کے نام جس کا سراغ اب تک سی بی آئی بھی نہیں لگا سکی۔۔۔۔۔‘‘ سے ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ناول میں پچھلے کچھ عرصہ سے جاری نظریاتی شورش کے نتیجہ مین پیدا شدہ حالات کا گہرائی سے تجزیہ ملتا ہے۔ اس ناول میں پورے ملک کے درد و کرب کی داستان بیان کی گئی ہے جس میں پوری انسانیت کا درد پوشیدہ ہے۔ ناول کے مصنف نے ایک پختہ کار آرکی ٹیکٹ کی طرح اس ناول کی عمارت کی تشکیل کی ہے اور فنی خوبصورتی سے اس عمارت میں جا بجا کھڑکیاں دی ہیں جس سے قاری اپنے اسلاف، تہذیب و تمدن، قومی وملی برتاؤ اور ماضی کے نشیب و فرازکے مناظر کو دیکھ سکتا ہے اور اسی ماضی کے سہارے ناول نگار ہمیں حال میں اس طرح لے آتا ہے کہ سارا ماحول ہمارے سامنے آجاتا ہے۔
زیر تبصرہ ناول کے دو اہم کردار ہیں انیس اور نوین۔ ناول نگار نے ان فعال کرداروں کے ذریعہ ماضی تا حال کے جغرافیائی حالات کی عکاسی، سماج کی مجموعی طرز زندگی، آداب و اطوار، سیاسی و اقتصادی اقدار اور نظریاتی اختلاف کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
اس ناول کا آغاز جے این یو کے تھرڈ فلور کی بالکنی سے ہوتا ہے جہاں پر محمد انیس موجود ہے اس کی نگاہ کے سامنے سارا منظر ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ کس طرح پولس کے ساتھ اے بی وی پی کے کچھ جوان بھی موجود ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سب سیاست کے کھیل ہیں بقول انیس ’’یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ سب سے زیادہ جے این یو کی سیاست کے صفحات میرے سامنے تھے۔ یہاں کی کلین اور ڈرٹی پالیٹکس کے بارے میں، میں خوب جان چکا ہوں یہ دو طرح کی سیاستیں مجھے ہر قدم پر حیران کر رہی تھیں۔‘‘
اس سیاسی چالوں کی چند مثالیں یہ ہیں:
٭’’تمہیں یاد ہے نا نوین جب جے این یو پر سب سے برے دن آئے تھے اور جے این یو کو دیش دروہیوں کا گڑھ کہہ دیا گیا ہے۔‘‘
٭’’تمہیں یہ بھی یاد ہوگا کہ وہیں ماہی مانڈوی ہاسٹل کے چوک کے پاس نجیب کی ایک چپل پڑی تھی۔ جب نجیب کی ماں ، بھائی اور بہن صدف، نجیب پر بیتی سن کر آئے، تب بھی وہ وہیں پڑی تھی۔ وہ زبان حال سے اس مظلوم پر گذری انہو نیاں اور تشدد کی داستان بیان کر رہی تھی۔ خون میں لت پت وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے بے رحمی سے کسی کبوتر کی گردن پر بلیڈ چلا کر چھوڑ دیا گیا ہو۔ اور اس سے خون رس رس کر اس کے پورے وجود پر سوکھ گیا ہو۔‘‘
انیس کی بات سن کر نوین کہتا ہے کہ’’یہاں سب نجیب ہیں۔ ہم سب بھگوا جھنڈا برداروں کے نشانے پر ہیں۔ جے این یو ان کے نرغے میں آچکا ہے۔ اب یہ دو خانوں میں بٹ چکا ہے ایک گروہ بھگوا جھنڈا لہراتاہے اور دوسرا ترنگا لہراتا ہے۔ جو ترنگا لہراتے ہیں میڈیا اس ترنگے کو بھی اسلامک پرچم بنا دیتا ہے یا ایک خاص چالبازی سمجھتا ہے۔‘‘
انیس اس ماحول سے پریشان ہوکر عدم تحفظ کے احساس کے تحت اپنے وطن میوات جانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا دوست نوین اس کو آگاہ کرتے ہوئے سمجھاتا ہے کہ ’’۔۔۔۔۔۔سوچ لو میں پھر کہتا ہوں، جانے کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔ میوات گئے تو یہاں کی آگ میوات بھی پہونچ سکتی ہے۔ تم جانتے ہو نا۔ ۹؍فروری کے جلوس میں تم بھی تھے اور اب یہاں پولس والے باقاعدہ ایسے تمام جلوس کی ویڈیو کلپس ، فوٹیج رکھتے ہیں اور پھر ایک دن ان ویڈیو کلپس ،فوٹیج میں سے کچھ لوگوں کو باہر نکال کر میڈیا انہیں دیش کا سب سے بڑا ویلن بنا دے گا۔ یعنی غدار۔۔۔۔۔۔۔پولس تمہیں وہاں بھی نہیں چھوڑے گی بلکہ اس آگ میں تمہارے ساتھ تمہارا پورا خاندان جلے گا، تمہاری پوری تاریخ جلے گی، تمہاری پوری عزت وآبرو جلے گی، تمہارا وقار جلے گا، تمہارا احساس جلے گا۔‘‘
نوین کی بات سن کر انیس کو اپنے وطن کی یاد آجاتی۔ اس میوات کی جہاں اس کا بچپن گذرا، جوانی گذری، میوات کے سلسلے میں نوین نے انیس سے بہت سے سوال کئے ناول نگار کا کمال یہ ہے کہ ان سوال وجواب کے ذریعے میوات کے جغرافیائی حالات، تاریخی واقعات ، وہاں کے رسم و رواج اور مختلف نظریات، جنسی تفریق، تعلیم اور مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے حالات اور مدارس سے پنپنے والے نظریات یا اختلافات پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ہی وہاں کی زبان، تہذیب اور لوک کتھاؤں پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ ایک رننگ کمنٹری معلوم ہوتی ہے جسے پڑھ کر سارا منظر نامہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
انیس جس کی تعلیم مدرسہ کی مرہونِ منت تھی اس کو وقت کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ مدرسے کی دنیا کے علاوہ بھی ایک دنیا ہے اور جب اسے اس دنیا کی سیاست، سماج، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، پارلیمانی حکومت، منڈی و مارکیٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوا تو اس نے دلی کو اپنی منزل بنایا۔ جب اس نے اپنے دوستوں کو دہلی جانے کی بات بتائی تو اس کے دوستوں نے اس کی مخالفت کی اور یہ دھمکی بھی دی کہ وہ اس بات کو اس کے گھر والوں سے بتا دیں گے مگر اب انیس کے لئے دہلی ایک ضد تھی اور انا وغرور بن چکی تھی۔ بہر حال وہ دہلی آگیا۔ دہلی نے بھی ہر موڑ پر اس کا امتحان لیا۔ مگر وہ ہر بار کامیاب رہا۔ ہر امتحان کے وقت اسے اس بزرگ کا مشورہ حوصلہ دیتا تھا جس نے کہا تھا کہ ’’بیٹا تم دہلی آتو گئے ہو مگر یاد رکھو یہ ایسا شہر ہے جو اپنے نووارد کے قدم اکھاڑ دیتا ہے۔ مگر جوان حالات میں ثابت قدم رہا۔ دلی پھر اسے اپنا کر ایسا نوازتی ہے کہ اس کی نسلیں یہاں آباد ہو جاتی ہیں۔ میں یوپی سے چند روپے لے کر اب سے پچاس سال پہلے یہاں آیا تھا اور اب یہاں نہ صرف میرا ذاتی مکان ہے بلکہ میرے لڑکے اور لڑکیاں دلی کے مختلف علاقوںمیں آباد اور خوش حال ہیں۔‘‘
محمد الیاس کا ماننا ہے کہ ’’دلی نے مجھے دوسرا جنم دیا تھا یوں اگر میں دلّی کو اپنی مجازی ماں یا تجرباتی باپ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا۔‘‘
زیر تبصرہ ناول کے تخلیق کارنے جے این یو میں ہونے والے سانحہ سے قبل ان تمام حالات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں مرکز میں نریندر مودی کے زیر قیادت بننے والی حکومت سے پہلے کے سیاسی حالات ،کرپشن اور اس کے خلاف انا ہزارے کی تحریک اور اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں یوپی اے کی حکومت کا خاتمہ اور نئی حکومت کے نئے منتخب وزیر اعظم کے پر فریب نعروں اور عوام کو بے وقوف بنانے اور تغلقی فرمانوں اور ان کے اثرات کا بہت کامیابی سے ذکر کیا ہے ۔ اسی ضمن میں اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ کس طرح مرکز کے بعد صوبائی انتخابات میں بھی کانگریس کا ہاتھ بی جے پی کے کمل میں تبدیل ہوتا گیا ان سیاسی فتوحات کے نشہ میں سرشار اس سیاسی پارٹی کی ذیلی تنظیموں نے بھی اپنے پرپرزے نکالنے شروع کر دئے اور اس سیاسی پارٹی کی اسٹوڈینٹ ونگ اے بی وی پی نے سب سے پہلے جو نشانہ چنا وہ تھا عالمی پیمانے پر شہرت یافتہ اور نظریہ ساز ادارہ جے این یو۔
ناول نگار نے تمام تر تفصیلات کے ساتھ یہ کہانی سنائی ہے کہ کس طرح جب سے جے این یو میں نئے وائس چانسلر آئے تب سے ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی بھی طرح حکومت اور آر ایس ایس کے ایجنٹوں کو جے این یو کے اعصاب پر لادا جائے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح انتظامیہ ، پولس، میڈیا نے ان کی مدد کی۔ سیکولر مزاج افراد کو پریشان کیا گیا ، لیفٹ کو نشانہ پر لیا گیا اور پورے ماحول کو فرقہ پرستی کے زہر سے اس قدر آلودہ کر دیاگیا کس طرح اس معصوم نجیب کو نشانہ پر لیا گیا جس نے جے این یو میں چند مہینے پہلے ہی داخلہ لیا تھا۔ افسوس اس بات کا کہ انتظامیہ کی جانب داری کا یہ عالم کہ اس نے نجیب کو ہی اس پورے معاملے کا قصور وار ٹھہرا دیا۔ اور اس کی دلیل یہ دی گئی کہ نجیب نے کچھ ہندو لڑکوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا تھا۔ نجیب سانحہ کی آڑ میں جے این یو انتظامیہ کے کیمپس کے اندر سیکورٹی اس قدر بڑھا دی جس سے طلبہ کو پریشان ہونا پڑا۔ ہاسٹل میں چھاپے ڈالے گئے۔ مگر جو لوگ نجیب کے مبینہ حملہ آور تھے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اے بی وی پی کے کارکنان اس قدر پر جوش ہو گئے کہ انھوں نے ہاسٹل کے گیسٹ روم کے ٹیبل پر چاک سے لکھا تھا کہ ’’ہم نے نجیب کو ستر حوروں کے پاس بھیج دیا۔‘‘
لیکن افسوس یہ ہے کہ آج تک دلی پولس کرائم برانچ یہاں تک سی بی آئی بھی نجیب کو نہ ڈھونڈ سکی، جسے سمندر کی تہہ سے سوئی نکال لانے کا دعویٰ ہے۔
جے این یو کے الیکشن میں بھی وہی فرقہ پرستی کا ننگا ناچ ہوتا رہا اور تمام ذمے دار ادارے خواب خرگوش میں رہے مصنف نے جے این یو کے اس سانحہ کے ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جو عام طور پر منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ ان تمام حالات کے بعد جے این یو کا حال کیا ہے اس کا نقشہ مصنف نے نوین کے الفاظ میں یوں پیش کیا ہے۔
’’جے این یو بر باد ہو گیا ہے، جے این یو بدل گیا، جے این یو میں سیکولرزم اور بھائی چارے کی گائے ذبح ہو گئی اور اس فرشتے کو گولی مار دی گئی جو یہاں امن کا پیامبر تھا۔ تف ہے تم پر اگر تم نے نجیب کا درد ناک واقعہ اور حادثہ دیکھ کر بھی جے این یو کی بربادی اور اس کی قدروں کی پامالی کا اندازہ نہیں کیا تو ! اتنے سارے حالات رو نما ہونے کے باوجود بھی اگر تم جے این یو کے اس سینس میں دیکھتے ہو، جو ااس کی اصل بنیاد تھے، تو تم سے بڑا کور چشم کوئی اور نہیں ہوسکتا۔‘‘
زیر تبصرہ ناول کے مکمل مطالعہ کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں انتہا پر پہونچتی فرقہ پرستی اور رواداری کے روبہ زوال ہونے کے المیہ کا اظہار بہت فنی طریقے سے کیا ہے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تاریخی، سیاسی، مذہبی اور معاشرتی مسائل کے ساتھ رفتار زمانہ پر تخلیق کار کی پینی نظر ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگتا ہے کہ مصنف کو اپنی ذمہ داری احساس بھی ہے۔ ناول کا تخلیقی عمل اکثر مقامات پر پل صراط سے گذرنے جیسا ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ ناول میں بھی ایسے کئی مقامات آئے ہیں جہاں ناول نگار کو پل صراط سے گذرنا پڑا ہے لیکن ناول نگار کی یہ خوبی ہے کہ وہ اس موقع پر احسن طریقے سے گذر نے میں کامیاب رہا ہے۔
عمران عاکف خان کی یہ تخلیق قابل توجہ ہے کیونکہ اس میں زندگی کے آثار موجود ہیں یعنی اس ناول میں مصنف نے اپنے قارئین کے شعور و ادراک سے ایک رشتہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لہٰذا اس ناول کو وقت کا ترجمان مانا جا سکتا ہے۔ یہ ناول یقینا پڑھنے کے لائق ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قارئین اسے پڑھ کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ یہی اس ناول کے مصنف عمران عاکف خان کی کامیابی ہے۔
منظور پروانہ،دانش محل، امین آباد، لکھنؤ۔226018
موبائل:9452482159
Email : [email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular