Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldجشن شارب کی اہمیت و معنویت

جشن شارب کی اہمیت و معنویت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

پروفیسر عباس رضا نیرؔ

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خداوند عالم بھی اپنی مخلوقات سے اپنی خلاقیت کا اعتراف ہی نہیں بلکہ تعریف بھی چاہتا ہے۔ اس نے اپنی یہ صفت اپنی مخلوقات کو بھی عطا کی ہے۔ہر مصور اپنی تصویر ، ہر مجسمہ ساز اپنے مجسمے، ہر سائنس داں اپنی ایجاد، ہر فلسفی اپنے فلسفے ، ہر ادیب اپنے ادب اور ہر تخلیق کار اپنی تخلیق کی حفاظت بھی چاہتا ہے اور ستائش بھی۔ اگر یہ ستائش بے جا ہے تو اسے خوشامد کہتے ہیں لیکن یہ تعریف بجا و بر محل ہےتو اسے احسن عمل کہا جاتا ہے۔ چونکہ توصیف حقیقی سے کسی تخلیق کار کے عمل کی نہ صرف یہ کہ راہیں ہموار ہوتی ہیں بلکہ اس کے تخلیقی کینوس میں بھی وسعت آتی ہے۔کوئی بھی لکھنے والا جو کچھ لکھ چکا ہے، اعتراف و ستائش کے بعد اس سے زیادہ بہتر لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہمارے ادبی معاشرے کی یہ روایت عجیب ہے کہ ہم کسی انسان کی زندگی میں اس کی ادبی خدمات کی پذیرائی اس طرح نہیں کرتے جس کا وہ مستحق ہے۔ یعنی کسی کی زندگی میں اس کا جشن منانا ہم اپنے لئے خلاف شان سمجھتے ہیں ۔ اس لحاظ سے بہر حال ہم مردہ پرست واقع ہوتے ہیں۔ بے شک ہم کسی کے چلے جانے کے بعد ہی اس کی خوبیوں کا بیان کرتے ہیں اس کا مجسمہ بنواتے ہیں، اس کے نام سے سڑکیں منسوب کرتے ہیں۔یا مختلف طرح سے اس کی یادگاریں قائم کرتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے موقعوں پر ہم کسی کو شایان شان خراج عقیدت پیش کرنے سے زیادہ اپنے آپ کو ہی منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ ہم اس شخص کو کتنا جانتے ہیں اور وہ خود ہمیں کس حد تک جانتا تھا۔ اس خراج عقیدت سے جانے والے کو کچھ نہیں ملتا البتہ ہمیں ضرور شناخت مل جاتی ہے۔
یہ مسئلہ صرف ادب کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پورے سماج کے ساتھ برقرار ہے کہ آج بھی ایک سرمایہ دار بحیثیت مجموعی انسانی ضرورتوں ، تقاضوں اور قدروں کا خیال نہ رکھتے ہوئے اپنے سرمائے میںزیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے بلکہ ذخیرہ اندوزی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے انداز اپنے مال و منال کو بڑھانے کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔مزدوروں کی تنخواہ بڑھانے کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ آج بھی ایک مزدور ماسک پہنے بغیر گندے نالے نالیوں میں چلا جاتا ہے۔ ایتھین میتھین گیس کے سبب چاہے اس کی جان ہی چلی جائے لیکن ایک مالک اپنے مزدور کی صحت اور جان کے لئے تھوڑے سے پیسے بھی نہیں خرچ کرنا چاہتا۔ اس کو صرف اور صرف Capital Investment کا ہی خیال ہوتا ہے۔غریبوں اور مزدوروں کے حقوق کی پامالی تو اس کے روز مرہ معمول کا حصہ ہے۔
پروفیسر شارب ردولوی نے انقلاب روس سے آزادی ہند تک ترقی پسند کے عروج و زوال اور اس کے جملہ اسباب و علل کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ اس کی تعمیر و تشکیل میںپوری طرح شامل رہے ہیں۔ شارب ردولوی اس ادبی تحریک کی دوسری پیڑھی کے آخری فرد ہیں۔جس میں غریبوں اور مزدوروں کی ضروریات کی تکمیل کا پورا لحاظ تھا ۔ جس سے وابستہ ادیبوں کو یہ علم تھا کہ نچلی سطح کے لوگوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے بغیر پورے سماج کو بہتر بنانے کے وسائل مہیا نہیں ہو سکتے ۔ چنانچہ شارب ردولوی نے بھی علمی، ادبی ، تنقیدی ، تخلیقی اور تعلیمی ہر لحاظ سے تمام زندگی سماج کے لئے کام کیا۔ انہوں نے ایک طرف معاشرے کو بڑا تخلیقی سرمایہ عطا کیا دوسری طرف بزرگ دانشوروں کے علمی و فکری اثاثے کی نہ صرف یہ کہ بازیافت کی بلکہ ان کی ترسیل اور تعین قدر کے مسائل و مراحل کو بہ آسانی طے کیا اور اس طرح ایک مثبت سماجی شعور کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ادیب اور شاعر فطرتاََ تعمیری ذہن کا مالک ہوتا ہے ۔تخلیق کا عمل ہی تخریب کے خلاف ہوتا ہے۔اگر بظاہر اس کا کو ئی عمل تخریبی نظر بھی آ تا ہے تو اس کےپیحھے بھی تعمیر کا ہی جذبہ کار فر ما ہوتا ہے۔ ہر بہار سے پہلے خزاں کا آنا لازمی اور فطری ہے ۔شارب ردولوی ردولوی یعنی رود ـ ِــ۔ولی میں پیدا ہوئے۔یہ اودھ کا ایک علمی و ادبی بلکہ تاریخی قصبہ ہے ۔اس قصبے کی خصوصیت ہے کہ 1857 سے پہلے یہاں کا کوئی تعلق دار بھی بلند و بالا محل یا عالیشان حویلی کا مالک نہیں تھا ۔ ان کے امکانات دو منزلہ بھی نہیں ہوتے تھے۔چونکہ صوفیانہ ماحول میں تربیت کے سبب ان کے ذہن میں کسی طرح کے احساس برتری کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ مسیب عباس شارب ایسے قصبے کے اس گھرانے میں پیدا ہوئے جس میں ادیان اور ابدان کے علوم کا بول بالا تھا ۔ چودھری محمد علی سے ان کی قربت و قرابت تھی ۔ان کا تعلق تعلق دارانہ نظام سے تھا ۔لیکن ان کامزاج کسی طرح بور ژوائی نہیں تھا۔ شارب ردولوی ردولی سے نکل کر لکھنؤ آئے تو یہاں بھی سجاد ظہیر ،مجازؔ، علی سردار جعفری،، کیفی اعظمی وغیرہ کا تربیت یافتہ ماحول انہیں ملا۔ بلکہ یہ سب شارب صاحب کے ساتھی تھے۔ عارف نقوی، عابد سہیل اور عمار رضوی بھی اسی کہکشاں کے ستارے ہیں۔ یہ سب اس فکری مزاج اور رویے کے حامل ہیںکہ سرمایے کو بنیاد بنا کر کسی کے استحصال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ معاشرے میں سب کو برابر سے جینے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
شارب ردولوی کا شمار عہد حاضر کے ترقی پسند ناقدین میں ہوتا ہے۔ وہ ناقدین کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیںجو سید احتشام حسین کے بعد آئی لیکن شارب ردولوی کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے تنقید کے ترقی پسند اصولوں کو نہ صرف مرتب و معین کیا بلکہ تمام نئی تنقید کے نقطہ ہائےنظر کا بخوبی مطالعہ کیا اور بالکل غیر جانب داری کے ساتھ ان کے محاسن و معائب کا جائزہ لینے کے بعد نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی کہ کون سا نظر یہ ادبی اقدار کے تعین کے لئے واقعی مددگار ہوسکتا ہے۔ شارب ردولوی ہندوستان میں ہونے والے قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں میں گذشتہ 65 برسوں سے شرکت کر رہے ہیں۔ امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا، دبئی، پاکستان میں منعقد ہوئے پروگراموں اور سیمیناروں میں بھی برابر آپ کی شرکت رہی ہے۔ شارب صاحب مصر، لبنان، سیریااور کویت کے بھی علمی و ادبی سفر کر چکے ہیں ۔ اب تک شارب صاحب کی سولہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ کی متعدد کتابوں کے ایک سے زیادہ ایڈیشن آچکے ہیں خاص طور سے آپ کی کتاب” جدید اردو تنقید اصول و نظریات موجودہ اردو تنقید کی وہ اکلوتی کتاب ہے جس کے اب تک آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
پروفیسر شارب ردولوی متعدد قومی ایوارڈ سے سرفراز ہو چکے ہیں۔انہیں اتر پردیش گورنمنٹ کے سب سے اعلیٰ اعزاز” یش بھارتی” کے علاوہ غالب ایوارڈ دہلی، تنقید و تحقیق ایوارڈ اردو اکادمی دہلی ، مغربی بنگال اردو اکادمی نیشنل اوارڈ، مولانا ابوالکلام آزاد اوارڈ یوپی اردو اکادمی، اردو ہندی ساہتیہ اوارڈ اور لو ک مت سمان سے نوازا جا چکا ہے۔ وہ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی میں ریڈر رہے بعد میں سینٹر آف انڈین لینگویج جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدراآباد ، سینٹرل یونیورسٹی کشمیر ، جموں یونیورسٹی جموں، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ، برودان یونیورسٹی مغربی بنگال ،خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی لکھنؤ کے اردو شعبوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ کے عہدوں پر فائز رہے۔
لکھنؤ یونیورسٹی کا شعبہ اردو ملک کے قدیم اور عظیم شعبوں میں سے ایک ہے ۔یہی نہیں بلکہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے پوری دنیا میں دبستان لکھنؤ کو ہی معیار مانا جاتا ہے۔ اور اس معیار کو قائم رکھنے میں شعبہ اردو کے طلبا اور اساتذہ کا اہم رول رہا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال خود پروفیسر شارب ردولوی ہیں۔ جن کی کتابوں کو پڑھے بغیر کوئی طالب علم نہ ہندوستان میں ایم۔اے کر سکتا ہے اور ہندوستان کے باہر۔
مذکورہ اوصاف و خصوصیات کے پیش نظر شعبہ اردو لکھنؤ یونیورسٹی لکھنؤ اور اردو دوست انجمن، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ اور جملہ شاگردان شارب کے اشتراک و تعاون سے سہ روزہ بین الاقوامی سیمینار بعنوان “جشن شارب” 2 تا 4 دسمبر 2018 لکھنؤ میں منعقد کر رہا ہے جس میں شارب صاحب کے معاصرین ، احباب اور شاگردان عزیز شرکت فرما رہے ہیں۔ ہم ان کا استقبال کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس سیمینار کے بعد شارب شناسی کی راہیں متعین ہوں گی اور ان پر گفتگو کے دروازے کھلیں گے۔ واضح رہے کہ شعبہ اردو کو اس سیمینار کے انعقاد پر فخر ضرور ہے لیکن یہ قطعی کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں ہے اور نہ ہی سیمینار شارب ردولوی کے شایان شان ہے۔ ہاں ممکنہ وسائل کے تحت ایک معمولی سی کوشش ضرور ہے۔ ہم اس سیمینار کی کامیابی کے لئے دعا اور ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اردو کے تمام طلباو اساتذہ اور شہر لکھنؤ کے معززین کی شرکت اس سیمینار کو ضرور تاریخی بنائے گی۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ اس طرح کے جشن کے انعقاد کے پیچھے ہمیں اپنے چانسلر عزت مآب رام نائیک جی کی سرپرستی حاصل رہتی ہے۔ “چریویتی چریویتی” کا ان کا فلسفہ حیات نئی نسل کو ہمیشہ عزم و حوصلہ دیتا ہے۔ یہ سیمینار بھی اس روشن سلسلے کی ایک اہم ترین کڑی ہے۔ اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلبا و طالبات کو اس سیمینار سے یقیناََ ایک حوصلہ ملے گا۔ ہمارے وائس چانسلر پروفیسر ایس پی سنگھ اور اودھ نامہ اخبار کے ایڈیٹر سید وقار مہدی رضوی کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جن کے حوصلے مشعل راہ ہیں۔ وقار رضوی تو اپنے مشن کے آگے آنے والے تمام تر مسائل کو بحسن و خوبی حل کرنے کا خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ شہر لکھنؤ کی ادبی سرگرمیاں وقار رضوی کے بغیر ادھوری ہیں۔ جشن شارب کے انہماک میں بھی ان کا انہماک لائق صد ستائش و آفرین ہے۔
(صدر شعبہ اردو،لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ)

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular