Wednesday, May 8, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldجشن بھوک

جشن بھوک

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

تقدیس نقوی

چند دن قبل خبرآئی کہامیروں کے شہر کی غریبوں کی اک بستی میں کچھ کمسن بچیاں بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرگئیں اور کسی کو پتہ ہی نہ چلا. کسی کو بھلا پتہ بھی کیسے چلتا کئی دن سے بھوکی لاغر کم سن بچیوں کی نحیف آواز اخر کہاں تک جاسکتی تھی.بڑی خیر یہ ہوئ کہ ہاسپٹل کے ڈاکٹروں نے پولیس کو بلاکر اس کے بارے میں مطلع کردیا. ابھی تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ پولیس کو اطلاع دینے کی ہاسپٹل کی اس اسپیشل سروس کے چارجز ان مری ہوئی بچیوں کی ماں کو دئے گئے ہاسپٹل کے فائنل بل میں شامل کردئے گئے تھے یا نہیں.
اس اندوہناک خبر نے ہر صاحب دل کی انکھیں اشکبار کردیں اورہر صاحب اولاد کا دل ٹکڑے ٹکڑے کردیا. خبر نیشنل ٹی وی چینلوں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے زریعے برقی رفتار سے ملک کے کونے کونے میں پھیل گئئ جس کے رد عمل میں ریاستی حکومت کی پوری مشینری فوری حرکت میں آگئی اور اس سانحہ کی تحقیقات کے احکام بھی فوری جاری کردئے گئے. حکومت کا جو کام تھا اس نے بہت مستعدی سے انجام دیدیا.
گو کہ ایسی خبر لوگوں کے لئے کوئ نئی یا پہلی بار نہیں تھی مگر میڈیا کی مرہون منت متعلقہ بستی میںمتاثرین کے گھر پر لوگ اپنی ھمدردی کےاظہارکی غرض سے جوق در جوق جمع ہونے شروع ہوگئے.سب لوگ بچیوں کے والدین سے بذات خود مل کر اظہار ھمدردی کرنا چاہتے تھے مگر انھیں یہ معلوم ہوکر بہت افسوس ہوا کہ بچیوں کا والد پہلے ہی گھر چھوڑ کر جاچکا ہے اور ماں کی ذہنی کیفیت اس قابل نہیں ہے کہ اس سے کوئ رابطہ کیا جاسکے.
یہ جان کرکہبچیوں کی اموات غذاء کی قلت کے سبب ہوئی ہیں کچھپڑوسی اور بستی کے دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے لوگ اہنے ساتھ کھانا بھی لائے تھے.متاثرہ خاندان کے باقی ماندہ بھوکے افراد کو بروقت غذا پہنچانے کی کوشش میںان لوگوں میں اتنا جوش وخروش تھا کہ مجمع پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا. بے قابو مجمع کو کنٹرول کرنے کے لئے حالات کی حسساسیت کا اندازہ کرتے ہوئےپولیسبھی چشم ذدن میں وہاںپہنچ گئی. ایسے کٹھن وقت میں بے قابو ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لئے پولیس نے بھی بر وقت پہنچ کر اپنی مستعدی کا ثبوت دیدیا.
چند گھنٹوں کے اندر متاثرین کی بھوک کے تدارک کے لئےوہاں اتنی غذاء جمع ہوگئی کہ جسے پوری بستی سیر ہوکر کھا سکتی تھی.کیونکہ متاثرہ خاندان ایک شکستہ گھر کے کسی گوشہ میں قیام پذیر تھا اس لئے اسکے باہر کھلے میدان میں لوگ قطار در قطار کھڑے ہوگئے اور اندر جانے کے لئے اپنی اپنی باری کا انتظار کرنے لگے. کچھ لوگ قطار توڑ کر اگے جانے کی کوشش کرنے لگے تو پیچھے کھڑے ہوئے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور بتایا کہ وہ متاثرہ خاندان کے قریبی ہڑوسی ہیں اور اپنے بھوکے پڑوسی کو کھانا کھلانے کا سب سے پہلا حق اور فرض انکا ہے .اس سلسلے میں باہر والوں کی مدد ہر گز نہیں لی جاسکتی . یہ بستی کی عزت کا سوال ہے. ان میں سے کچھ نوجوان جوش میں بپھرے ہوئے دوسری قطار کے لوگوں کو للکار رہے تھے کہ خبردار اگر کسی نے پڑوسیوں سے پہلے گھر میں قدم رکھنے کی جرئت کی تو اچھا نہیں ہوگا.
مجمع کو بے قابو ہوتے دیکھ کر متعین پولیس افیسر نے رائے دی کہ اپ سب لوگ اپنا اپنا لایا ہوا کھانا پولیس کے وقتی طور سےلگائے گئے شامیانے میں جاکر رکھ دیں. جیسے ہی متاثرہ خاندان کریا کرم کرنے کے بعد واپس گھر پہنچے گا پولیس ان تک یہ کھانا پہنچادے گی. مشورہ معقول تھا مگراس کو ماننے کے لئے کوئ تیار نہ تھا. جس کی بظاہر ایک وجہ تو پولیس والوں کی وہ ندیدی نظریں تھیں کہ جو وہ اس کھانے پر شروع ہی سے گاڑے ہوئے تھے اور دوسری وجہلوگوں کا وہ انسانی جذبہ تھا کہ وہ بھوکوں کو اپنے ہاتھ سے خود کھانا کھلاکر زیادہ ثواب یا پن کمانا چاہتے تھے. اس طرح پڑوسیوں اور بستی کے دیگر مکینوں نے بھی اپنا حق ادا کردیا.
ابھی یہ مذاکرات جاری ہی تھے کہ میدان میں کاروں کا ایک لمبا قافلہ بلند آواز سے بجتے ہوئے ہورنس کے ساتھ آکر رکا. قافلے کے دونوں جانب موٹرسائیکلوں پر سوار نوجوان سیاسی حزب مخالف کے جھنڈے لگائے ہوئے ریاستی حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے. میدان کا ماحول چشم زدن میں بدل گیا اور ایسا لگنے لگا کہ جیسے یہاں ابھی حزب مخالف کا کوئ انتخابی جلسہ یا ریلی ہونے والی ہے. حالات بدلتے دیکھ کر پولیس والوں نے پہلے سے لگی قطاروں کو منتشر کرنا شروع کیا اور پھر آئے ہوئے قافلے کی کاروں سے اترتے ہوئے سیاسی نیتاوں کا خیرمقدم کرنے لگے.
کچھ ہی دیر میں متاثرین کے شکستہ گھر کے سامنے ہی ایک وقتی اسٹیج تیار کردیا گیا جس کو حزب مخالف کے جھنڈوں اور بینروں سے سجا دیا گیا. بینروں پر لکھا تھا ریاستی حکومت استعفی دوانسانی جانوں سے کھلواڑ نہیں چلے گی غریب کا خون رائگاں نہیں جائے گا وغیرہ وغیرہ.
پہلے سے آئے ہوئے بستی کے لوگوں کو اسٹیج کے سامنے فرش پر بٹھادیا گیا. ساتھ ہی ٹی وی چینلوں کے کیمرے بھی اسٹیج کے اردگرد آیستادہ کردئے گئےاور فوٹو گرافروں کی ایک بھیڑ وہاں اکھٹی ہوگئی. مشھور اخبارات کے صحافی اپنی رپورٹنگ کرنے کے لئے تیار تھے.تھوڑی ہی دیر میں وہاں پہنچے ہوئے سیاسی لیڈروں کی تقاریر کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا. سب سے پہلے مائیک پارٹی کے ریاستی صدر صاحب کے حوالے کیا گیا.وہ فرمانے لگے:
بھائیوں اور بہنوں اپ نے دیکھا اس نکمی ریاستی سرکار کی مجرمانہ لاپرواہی اور بے توجہگی کے سبب یہاں کچھ کم سن بچیوں کی کتنی قیمتی جانیں چلی گئیں. ان کا قصور کیا تھا کہ وہ آیک غریب اور پچھڑے طبقے سے تعلق رکھتی تھیں. یہ حکومت غریبوں کو سہولتیں پہنچانے کے دعوے تو بہت بڑے بڑے کرتی ہے مگر آج اسکی پول کھل چکی ہے. اب انکی یہ من مانی نہیں چلے گی.انھیں ابھی استعفی دینا ہوگا. آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں جہاں جہاں ہماری پارٹی کی حکومت ہے وہاں کوئ ایک شخص بھی بھوک سے نہیں مرتا. مرتا ہے تو بتائیے ؟”
تقریروں پر تالیوں کا شور بڑھتا رہا اور جلسے میں بستی سے مزید انے والےلوگوںکی تعداد بھی. بڑھتی بھیڑ کے پیش نظر کچھ ٹھیلے اور خوانچے والے بھی میدان کے اردگرد آکر کھڑے ہوگئے. کچھ رکشا والوں نے اس بھیڑ میں بھی اپنے گراہک ڈھونڈ لئے. غرضیکہپوری بستی میں چاروں طرف ایک میلے اور جشن کا سا سماں تھا.
اسٹیج پراب مائیک بستی کے ایک مقامی لیڈرکو دیدیا گیا جن کا تعلق حزب اختلاف ہی سے تھا. موصوف نے اپنی پرجوش تقریر سے سوتے ہوئے مجمع کو جگادیا:
میرے بستی باسیوں ہماری بچیوں کی موت کی ذمہ دار صرف یہ آپاہج حکومت ہے جسے اس جرم کے لئے کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا. اور یہ سب اس لئے ہوا ہے کہ یہ حکومت ہماری حالت سے بے خبر آنکھیں موندے سو رہی ہے.میں اپ سے پوچھتا ہوں کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ گھر گھر جاکے یہ معلوم کرے کہ وہاں کوئ بھوکا تو نہیں سورہا. یہ ہمارے خلاف میڈیا والوں کی بھی سازش ہے. اگر انکو پہلے سے یہ معلوم تھا کہ کچھ بھوکے لوگ یہاں مر رہے ہیں تو کیا وہ اس کی خبر ہم لوگوں کو نہیں کرسکتے تھے.ابھی ہمارے ملک پر ایسا برا وقت بھی نہیں ایا ہے کہ کوئ ہماری آنکھوں کے سامنے بھوک سے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان دیدے اور ہم تماشائ بنے دیکھتے رہیں.اگر میڈیا یا حکومت کا کوئ اہلکار بستی میں بروقت یہ آطلاع کرادیتا کہ یہاں ایک خاندان بھوک سے مرر رہا ہے تو ہم بستی والے ان بھوکوں کو کیا کھانا نہیں کھلا سکتے تھے اور انکی جان نہیں بچا سکتے تھے مگر یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا ہے اور حکومت کے ایما سے کیا گیا ہے . یہ بہت گہری سیاسی چال ہے کیونکہ ہماری بستی والے انکو ووٹ نہیں دیتے.”
اس تقریر ہر خوب تالیا ں بجیں اور پھر یہ اعلان کرایا گیا کہ حزب مخالف کی جانب سے ساری بستی والوں کے لئے آج اسی میدان میں کھانے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ جو وہ لوگ تقاریر کے بعد لے سکتے ہیں. کھانا بٹنے کی خبر بستی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور وہ لوگ جو گھروں میں بیٹھے تھے وہ بھی جلسہ گاہ میں بلا تا خیر کئے ہوئے پہنچ گئے . اسی دوران ریاستی صدر اپنے ایک ساتھی لیڈر سے کہتے سنے گئے: اس بار خیال رہے کہ کیمروں کا رخ تمہاری پلیٹ پر نہ ہو. پچھلی بار تمہاری وجہ سے پارٹی کو بہت خفت آٹھانا پڑی تھی. ہاں جس وقت میں کسی غریب کی پلیٹ میں کھانا پروسوں تو اس وقت ملک کے سارے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے کیمرے تیار رہنا چاہئے. کل کے سب اخبارات میں یہی خبر شہ سرخیوں میں ہونا چاہئے . حکومت کو نیچا دکھانے کا یہ سنہری موقعہ ہاتھ سے نہیں جانا چاہئے. سمجھ رہے ہو نا.”
ابھی انکی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسٹیج کے سامنے سے ایک اور کاروں کا قافلہ نمودار ہوگیا. اس بار کاروں سے ریاستی حکومت کے لیڈر اتر رہے تھے اور سب سے اگے سیکورٹی دستے میں گھرے حکومت کے ایک سینیر منسٹر چل رہے تھے. اس غیر متوقع صورت حال کے لئے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے حزب مخالف کے لیڈران اور پولیس بھی تیار نہ تھے.
کیونکہ اس سانحہ میں بھوک کے سبب لڑکیاں فوتہوئی تھیں اسلئے’کمیشن فار وومنس’ کا وفد بھی جاء وقوع پر پہنچ چکا تھا . وفد میں شامل خواتین نے بھی کچھ بینرز اٹھائے ہوئے تھے اور بازوؤں پر سیاہ پٹیاں بھی باندھی ہوئی تھیں. ان لوگوں نے منسٹر صاحب اورانکے ساتھیوں کو دیکھتے ہی سیاہ جھنڈے دکھانا شروع کردئے اور حکومت کے خلاف نعرہ بازی شروع ہوگئی. دوسری جانب سے صاحب اقتدار پارٹی کے ممبران نے بھی حکومت کی حمایت میں جوابی نعرے لگانا شروع کردئے.
اس تیزی سے بگڑتی صورت حال سے پولیس والے بھی گھبراگئے اور کوشش کرنے لگے کہ حزب مخالف والےلوگ اپنا ہروگرام جلد ختم کرکے یہاں سے پیک اپ کرلیں مگر وہ کہاں سننے والے تھے. ادھر حکومتی دستے نے اعلان کرادیا کہ یہاں دفعہ 144نافذ ہوچکی ہے اور کسی کو بھی یہاں اکھٹا ہونے اور ٹھہرنے کی اجازت نہ ہوگی.حکومتی احکامات کے مطابق پولیس نے اب لوگوں سے اپنے اپنے گھر واپس جانے کے لئے کہنا شروع کردیا.
شام کافی ڈھل چکی تھی.سارے بستی والے صبح سے بھوکے تھے. ادھر پولیس نے حزب مخالف کے زیر اہتمام لائے گئے کیٹرنگ سروس والوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا سارا کھانا واپس پیک کریںاور جلد از جلد بستی سے باہر نکل جائیں کیونکہ انھیں بستی کے بھوکے لوگوں سے لوٹ مار کا خدشہ تھا جس سے امن عامہ کی صورت حال بگڑ سکتی تھی.تھوڑی دیر بعد ہی کیٹرنگ سروس والا اپنا سارا کھانا اپنی پک اپمیں لیکر میدان سے بھاگا جا رہا تھا اور اسکے پیچھے پیچھے ساری بستی والے اس سے کھانا مانگتے ہوئے بھوکے پیاسے دوڑ رہے تھے. میدان میں ہر طرف اندھیرا پھیلتا جارہا تھا. سارے تنبو ‘شامیانے’ اسٹیج اکھڑ چکے تھے.خوانچے اور ٹھیلے والوں کا بھی کہیں کوئ پتہ نہ تھا.اب بستی کے اس میدان میں دور دور تک نہ کسی سیاسی پارٹی کا کوئ فرد نظر آرہا تھا اور نہ ہی کوئ پولیس والا. بس اگر وہاں کچھ لوگ باقی رہ گئے تھے تو وہ بھوکے لوگ تھے کہ جن کے گھروں میں آج بھی کچھ کھانے کو نہیں تھا. انکے گھروں میں بھی انکے بچے آج بھی بھوک سے تڑپ رہے تھے. بس انھیں بھی شاید اب اس بھوک سے چھٹکارہ پانے کے لئے اس لمحے کا انتظار تھا کہ جب یہاں کی حکومت’ سیاسی پارٹیوں اور پولیس کو کسی ہسپتال سے ان کے بھوک سے چھٹکارہ پائے جانے کی خبر دی جائیگی تاکہ بستی میں ایک بار پھر بھوک کا جشن منایا جاسکے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular