Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldجذبۂ دل

جذبۂ دل

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

غلام علی اخضر

آج کلاس روم میں بیٹھا بیٹھا بور ہورہاتھا۔ نہ جانے کیوں صبح سے ہی مزاج کے اطمینانستان میں پر آسیب کفرستان کا ساہنگامہ مچا ہوا تھا۔ اسی اثنا میں کلاس روم میں ایک ٹیچر پرویش کیے تو ہم سبھی اسٹوڈینٹ کھڑے ہوگئے۔ کلاس روم میں شورو غل ہو رہا تھا اب پورے کلاس روم پر سکوت کا بادل چھا گیا؛ جیسے سبھی اسٹوڈینٹ سیدھے سادے ،دوودھ کے دھوئے ہوئے اور فرشتہ صفت ہوں۔ پھر ٹیچرنے سبھی کو بیٹھ جانے کا حکم صادر فرمایا ۔ ہم اس اثنا میں کوئی چھیڑ خانی کیے بغیر ان کے حکم کو سرتسلیم خم کرتے ممنون مشکور ہوئے اور بیٹھ گئے۔ اب ٹیچر بہت الفت و محبت ، شوق و جذبات کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہم دل و جان ، عقل و خرد، فہم و فراست ، ہوش وحواس سے اور ذہن کو حاضر کرکے ان کا لکچر سننے کے لیے تیار ہوگئے۔ تب جاکر انھوں نے ہندوستان میں غزل کی روایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تمھیں معلوم ہے کہ اس روایت کا آغاز کس نے کیا ، ہم میں سے کسی نے جواب نہیں دیا ۔ اتنے میں ان کی نظر ایک اسٹوڈینٹ پر پڑی جو بغیر کاپی و کتاب کے تھا۔ انھوں نے کہا کہ تم نے کچھ نہیں لایا؟ ۔ اگر میں تم کو کوئی اہم بات بتائوں جسے تمھیں اپنے کاپی میں لکھ لینا چاہیے تو پھر تم کیا کرو گے، ہمیں (ٹیچر)معلوم ہے کہ پڑھائی کے میدان میں تم سب کی کیا بلندی ہے ، ہمیں تو امتحان کی کاپی چیک کرتے شرم آگئی اور افسوس بھی کہ ایم، اے میں آنے کے بعد بھی ، ان کا یہ حال ہے ۔ خدانخواستہ کل کو یہ ٹیچر ہوں گے تو کیا پڑھائیں گے۔ پھر انھوں نے اپنے موضوع کو دوہراتے ہوئے بتایا کہ وہ ’’سراج الدین علی خان آرزو‘‘ پھر انھوں نے اروشاعری کی مزاج کو سمجھنے کے لیے ’’وزیر آغا‘‘ کی کتاب ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘پر کچھ روشنی ڈالتے ہوے ، اس کے مطالعہ کے لیے تاکید کی۔ بعد اس کے؛ کلاسیکی ، جدید اورمعاصرین کی غزل پر روشنے ڈالتے ہوے ان کے درمیان فرق واضح فرمایا۔ کلاسیکی غزل قدیم غزل کو کہتے ہیں اور جدید غزل؛جس کا اسلوب و آہنگ جدید ہو ۔ معاصرین کو تو آپ خود سمجھتے ہیں۔ پھر انھوں کے کہا کہ موضوع اور اسلوب کسی بھی روایت کے تعین کرنے میںا ہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہاں!آپ حضرات کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ موضوعات تبدیل نہیں ہوتے بلکہ اسلوب بدلتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد کلاسیکی غزل کی روایت اور موضوعات پر انھوں نے بحث کی۔ وہ موضوعات یہ ہیں:
(۱)محبت۔(۲)طنزو مزاح۔(۳)رحم۔ (۴) شجاعت ۔( ۵)غیض وغضب۔(۶) نفرت (۷)حیرانگی۔ (۸)تعجب خیزی۔(۹)جذبۂ امن و سکون وغیرہ ۔ سنو! کلاسیکی غزل میں محبوب ہمیشہ ناکام و نامراد اور غم اٹھانے والا رہتا ہے۔محبوب کی معراج معشوق کے عشق میں قربان ہوجانا ہے، اسی دوران تصوف کا ایک اہم موضوع (وحدت الوجود)چھڑ گیا ، انھوں کہا کہ آپ لوگوں نے منصور حلاج کا واقعہ سنا ہو گا اور بہتوں نے پڑھا بھی ہوگا؛ کہ جب وہ خدا کے عشق میں غرق ہوگئے اور ’’انا الحق‘‘کی صدائیں بلند کرنے لگے تو علمائے ظواہر نے ان پر فتویٰ جاری کیا۔ جس پر انھیں سزا ہوئی اور انھوں نے اپنی جان قربان کردی۔ ایسے واقعات جو ظاہراً خلافِ شرع لگتے ہیں ، اللہ کے مقرب بندوں سے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک نام بایزید بسطامی کا بھی ہے۔ وحدت الوجود کی طرف داغ دہلوی کے اس شعر سے بھی انھوں اشارہ فرمایا ؎
سو بار تیرا دامن ہاتھوں میں میرے آیا
جب آنکھ کھلی ، دیکھا تو اپناہی گریباں تھا
بعد اس کے اور کچھ دیر ہمارے درمیان گفتگو رہی پھروہ رخصت ہوگئے۔ ان کے رخصت ہوتے ہی پھر پہلے جیسا سماں پورے کلاس روم میں چھا گیا۔ ہر طرف سے شورو غل کی صدائیں کانوں میں آکر ڈیرا ڈالنے لگیں۔ حالاں کہ ہم شور صاحب کے اس غاصبابہ قبضے سے راضی نہیں تھے ،مگر کربھی کیا سکتے تھے۔ ’’بس اللہ میاں کی گائے‘‘ بن کر تماشہ بیں بنے رہے۔ اور شور صاحب کو اٰل و اولادکے ساتھ خوب زمین پر ناجائز قبضہ کرکے پھلنے اور پھولنے کا موقع مل گیا، مگر آخر کب تک یہ سب ہوتا، ظالم کا ظلم و ستم تو کبھی نہ کبھی ختم ہوہی جاتا ہے ؛اور ایساہی ہوا۔ اقبالیات کے مجاہد اعظم ، فکر اقبال کے مبلغِ مکرم و معظم ومحترم آئے، تو کلاس روم میں ہر ایک کے اوپر سکتہ طاری ہوگیا گویا ایوان خرافات میں حق گوئی کا زلز لہ آگیا ہو۔ سب خاموش ہوگئے جیسے خاموش رہنے کا معجون کھا لیا ہو۔ خیر!ٹیچر جس کام کے لیے آئے تھے وہ کام انھوں نے شروع کیا اور تمام اسٹوڈینٹ ان کی طرف متوجہ ہوئے ۔ ’’شوق لکھنوی‘‘ کی مثنوی ’’زہر عشق‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوے انھوں نے یورپ کے مثنویوں سے تقابلی جائزہ پیش کیا اور بتایا کہ یہ مثنوی ایک المیہ مثنوی ہے ۔ جو اپنے آپ میں ایک لاجواب مثنوی ہے۔ اس مثنوی پر جن نقادوں نے بحث کی ہے وہ یہ ہیں:
عطاء اللہ پالوی، محمود الٰہی ،حنیف نقوی، گیان چند جین وغیرہ ۔ آگے یوں گویا ہوئے ؛کہ مثنوی ’’زہر عشق‘‘ اردو کی انتہائی عمدہ اوراعلیٰ درجے کی مثنوی ہے اور یہ مثنوی شوقؔکی خود طبع زاد ہے۔ اس میں شوق ؔ نے قدیم روایت کو توڑکر نئی روایت کی بنیاد ڈالی ہے اکثر مثنویوں میں عاشق معشوق کو پانے کے لیے سارے قیدو بند کی حدود کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے مگر اس مثنوی میں خود معشوقہ عاشق کو پانے کے لیے ایک مہان عورت کی بھومیکا نبھائی ہے ساتھ ہی اہم کردار بھی، جو آج کے عورتوں کے لیے درس عبرت بھی ہے۔ اس مثنوی کی مین کردار جو معشوقہ ہے اس کی نشاندہی ’’مہ جبیں ‘‘نام کی ایک عورت سے سب سے پہلے عطاء اللہ پالوی نے کیا اس کا اندازہ انھوں نے شعر میں لفظ’’ ماہ جبیں ‘‘کے استعمال سے کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بتانے کی بھی جرأت کی ہے کہ یہ کہانی خود شوقؔکی ذاتی کہانی ہے۔ بعد اس کے ؛ٹیچر نے اس مثنوی کی اہمیت پر روشنی ڈالی؛کہ مثنوی’’زہر عشق‘‘پیش کش ، منظر کشی، اور جذبات نگاری ہرطرح سے بے مثال ہے۔ ادبی دنیا کے اعلیٰ مثنویوں کی صف میں اس کا شمار ہے۔ تب ناچیز نے سوال کیا ۔ جب مثنوی اتنی خوبیوں کو اپنی دامن میں سمیٹی ہوئی ہے ،تو پھر ’’گلزار نسیم ‘‘ اور سحرالبیان ‘‘کی جیسی شہرت اس کوکیوں نہیں ملی ؟ہاں! یہ آپ کا سوال بجا ہے ۔ جواب یہ ہے کہ شوق کی یہ مثنوی (زہر عشق) ایک مشہور مثنوی ہونے کے ساتھ اور تمام خصوصیات کا مرقع ہونے کے باوجود وہ شہرت ؛جو ’’سحرالبیان‘‘ اور ’’گلزارنسیم‘‘ کے حصے میں آئی اس طرح کی اہمیت اور شہرت حاصل نہ ہونے کی جو سب سے خاص وجہ بتائی جاتی ہے وہ اس کی عریانیت ہے ۔ اس لیے محققین نے اس پر زیادہ نہیں لکھا ،جس وجہ سے ادبی دنیا میں اُن مثنویوں کی طرح اِسے شہرت حاصل نہ ہوئی۔ تو فوراً ہم نے کہا کہ یہ تو ناانصافی ہے اگر ایسا ہے تو! کیوں کہ ادب کے آدھے حصے کی بنیاد تو اسی پررکھی ہوئی ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ آپ حضرات کو اعتراض کرنے کا پورا پورا حق ہے ۔ اب آپ لوگ اس لائق بنیںکہ انصاف کریں-اللہ کرے کہ ان کی یہ بات ہم لوگوں کے حق میں صحیح ثابت ہو-ان کا وقت ختم ہوجانے کے بعد پھر وہ ہم لوگوں کے درمیان سے رخصت ہوگئے اور میں اپنے کچھ دستوں کے ساتھ کلاس روم سے باہر آگیا۔
اتنے میں انس بھائی آئے اور کہنے لگے کے چلیں کلاس روم میں ، میں نے کہاکوئی اہم کام ہے، کیا؟ نہیں ! آج میراBirth Dayہے۔ میں جانے کے لیے تیار نہ ہوا مگر ان کا اور دوستوں کا اصرار زور پکڑا، پھر چاند صاحب بول پڑے کہ دل جوئی کے لیے شرکت کرلیتے ہیں ،کہ اسی اثنا میں ایک کلاس ساتھی یہ کہہ کر مجھے راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ چلیے کچھ اس پر آپ تحریر فرمادیں گے۔ میں چلا اور ساتھ چاند بھائی اور دیگر احباب بھی۔ جب روم میں داخل ہوا تو دیکھا کہ کافی لڑکوں اور لڑکیوں کا ہجوم ہے۔ ایک ان میں سے کیمرہ مین بنا ہے جو سب کی تصویر کھینچ رہا ہے۔ لڑکے خوشی سے تصویر تو کھنچواہی رہے تھے ،ساتھ لڑکیاں بھی خوش مزاجی سے اپنی قدو قامت کو کیمرے کے حوالے کررہی تھیں۔ یہ لمحہ بڑا حسین وجمیل تھا۔ کیمرے کو بھی اپنے اوپر ناز تھا کہ آج نئے نئے چہرے میرے دامنِ فریب میں پھنس رہے ہیں۔ کچھ تو ان میں اس طرح خوشی کی اظہار کررہے تھے کہ ان کے خوشیوںکے اندازکو بیان کرنے لیے میرے پاس الفاظ کے وہ پیچ و خم نہیں ،جو کماحقۂ حق ادا کرسکیں، اس لیے میں اس کو بیان کرنے سے گریز کرتاہوں۔ ہاں اتنا تو کہہ سکتاہوکہ جیسے آج ان کی کامیابی کی معراج ہو،جس وجہ سے ان کی خوشی امنڈ امنڈ کر سیلاب کی طرح بہہ رہی ہے۔ میں سائڈ میںکھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا تھاا ور سب کی نظریں صاحب Birth Dayکی طرف لگی ہوئی تھیں ۔ اور میری نظر سب کی طرف تھی ،ساتھ ہی دل ودماغ میں داغؔ کا یہ شعر اچھل اچھل کرمشاعرہ سا ہنگامہ مچا رہا تھا ؎
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
اتنے میں کیا دیکھا کہ صاحب برتھ ڈے نے چاقو خوبصورت کیک کی گردن پر بغیر کچھ پرواہ کیے چلا دیا۔ آہ! بیچارہ کیک کا وہاں کوئی آہ و فغاں سننے والا نہ تھا ۔ سبھی سنگ دل بے مروت کسی کے جان کی پرواہ نہ کرنے والے موجود تھے۔ اُف! کیا گزرا ہوگا جب اس پر چاقو چلا ہو گا۔ بیچارہ کیک صاحب کے ان مشکلا ت میں ساتھ دینے کے بجائے سب تالی مار مارکرخوشی سے اپنے آپ کو شرابور کرکے محظوظ ہو رہے تھے۔اتنے میں کیا دیکھا کہ ایک نوجوان میری طرف بڑھا چلا آرہا ہے۔ اس کی دونوںآنکھوں سے آنسوں اس طرح جاری ہیں جیسے ’’ساون‘‘ ’’بھادو ‘‘ کی بارش میں گنگا جمناکا سنگم ہورہا ہو۔ میں اس کی دل جوئی کے لیے آگے بڑھ کر پوچھا۔ بھائی! آپ کون؟اور کیوں رو رو کے نڈھال ہورہے ہیں تو اس نے کہا: غلام علی جی! ’’عمر صاحب‘‘ہوںدیکھیے میرے پاس سے ایک اور سال چھن گیا ۔ میں دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہوں مگر حضرت انسا ن میری فکر کیے بغیر خوشی میں مبتلا ہیں۔ جب کہ ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ آخرت کے امتحان کی تیاری میں غفلت نہ برت کر لگن سے لگ جاتے اور اس دن کویاد کرتے جس دن سب لوگوں کاکچاچٹھا پیش ہوگا۔ ہاں یہ بات غور سے سن لیں کہ میں یہ باتیں اپنے پاس سے گڑھ کے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس پر اللہ کا پاک کلام کی آیت مبارکہ دال ہے ’’فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ و من یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ‘‘ جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی تو وہ بھی اس کو دِکھایا جائے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی بُرا عمل کیا ہوگا تو وہ بھی اس کو پیش کیا جائے گا۔میاںسنو!اس دال سے پیٹ میں ڈھکیلنے والی دال مت سمجھیو! بلکہ یہ دال دلیل و شاہدکے معنی میں ہے ۔خیر!کہنا یہ ہے کہ موت سے ایک قدم اور قریب آگئے ہو ۔ پھر یہ شعرسناتے ہوئے ہم سے رخصت ہوگئے ؎
دیوار حیات سے ایک اور اینٹ گرگئی
نادان کہتا ہے کہ برتھ ڈے مبارک ہو
ان کے رخصت ہونے کے بعد میں جوں ہی آگے بڑھا، کیا دیکھا کہ ایک ماہ جبیں، ماہ رخ، ماہ لقا جس کی دیدار ماہ طلعت ہو،جو عاشقوں کی زندگی کی روشنی کا ماہ کامل و ماہ تمام ہو۔ جس کی خوبصورتی کے چاند تارے طواف کرتے ہیں ۔ ہونٹ ایسی شرابی و گلابی کہ جیسے شراب و گلاب اس کے در کا غلام ہو۔ آنکھیں اس قدر پرکشش کہ غیر کی نگاہیں نہ ٹھہریں۔ زلف جیسے ناگن ، ہاتھ جیسے سخاوت کامرکز۔ میں ٹھہرا اور اس پری زاد کی خصوصیت کی تلاوت کرنے لگا۔ اتنے میں ناصح نصیحت کرنے آگئے میں نے ان کو کہا کہ میاں مجھے نصیحت نہ کرو۔ ہاں! داغ کا یہ شعر سنتے جائو ؎
کیوں کفر ہے دیدار صنم حضرت واعظ
اللہ دکھلاتا ہے بشر دیکھ رہے ہیں
لمحۂ دراز کے بعد جب دیدارِ صنم کی غشی سے ہوش میں آیا، تو دیکھا کہ وہ کسی اور سے تشنگیٔ عشق بجھارہی ہے اور میری طرف متوجہ تک نہ ہوئی ،اور اس کو میری کوئی پرواہ بھی نہیں ہے تو داغ کا یہ مصراع من ہی من میں پڑھنا شروع کیا ع
میں عاشق ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیے مجھ کو
٭٭٭
وہ تو وہ ہے ، تمھیں ہوجائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرے محبوبِ نظر تو دیکھو
جب صبر کا پیمانہ چھلکنے لگا میں نے سوچا کہ کیوں نہ اظہار کردوں جس سے زمین وآسمان کی سی دوری ختم ہوجائے ۔ اور میں ایک سچے عاشق کا فرض ادا کر دوں، مگر جوں ہی اظہار کرنا چاہا تومعاملہ کچھ یوں تھا جس کی منظر کشی احمد فراز کے اس شعر سے کیا جاتاہے ؎
تجھ سے کس طرح میں اظہارِ محبت کرتا
لفظ سوچا تو معانی نے بغاوت کردی
اتفاق سے آج اعظم بھائی طبیعت ناساز رہنے کی وجہ سے کالج نہیں آئے تھے۔غلام سرور بھائی بھی کسی وجہ سے کالج نہیں پہنچ سکے تھے اور عامر بھائی کلاس ختم ہونے کے بعدہی ایک استاذ کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھ چکے تھے۔ رہے چاند بھائی تو وہ کہیں اس وقت جاچکے تھے اور یہ سارے معاملے در پیش آرہے تھے ۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے اپنی راہ لی تو اس اثنامیں بجانب دہن سے حال دل یوں جاری ہوا ؎
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
میں بھی اپنی راہ کو چلا ۔ بس اسٹوپ پر پہنچ کر کچھ گم سم بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک چاند جیسی چہرے والی قدم رنجہ فرمائی ۔ میں دیکھ کر اس فکر میںپڑگیا کہ خدایا! یہ کیا قیامت ہے ! چاند زمین پر ہے۔ واہ! اس کی پیشانی جیسے حسن کی نمائش گاہ ہو ، آنکھیں ایسی دلکش Three Diکہ ہرطرف سے روبی کی نظر خوبی سے پُر نظر آتی ۔ چہرے پر ایسی مسکراہٹ کہ جسے دیکھ کر سارے غم کافور ہوجائیں۔ گویا مرنجا مرنج کی حقیقی تصویرتھی۔ میرے قریب آکر بیٹھ گئی ۔ تو دل ہی دل میں یہ بکواس کرنے لگا ؎
تم آئے تمھیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں
تمھارے ساتھ بھی کچھ دور جاکر دیکھ لیتا ہوں
نہ جانے ہر جگہ ناکامی ہی کیوں ہاتھ آرہی تھی۔ ہاں ! آتی بھی کیوںنہیں کہ قسمت صاحبہ نے تو یہ پہلے سے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ میاں! کچھ کرلو کوئی تیرے دامنِ فریب میں آنے والی نہیں۔ خیر! بہت مشکل سے اپنی منزل تک پہنچا ۔ سارا دن جو حال رہا فیض احمد فیضؔ کی شاعری کی زبانی حاضرہے ؎
غم عشق کتنا عجیب ہے
یہ جنوں سے کتنا قریب ہے
کبھی اشک پلکوں پہ رک گئے
کبھی پورا دریا بہا دیا
معذرت کے ساتھ اس شعر پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ؎
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہو سزا چاہتا ہوں
٭٭٭

7275989646

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular