Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldبے جان مورتیوں پر حکمراں پارٹی کے حملے

بے جان مورتیوں پر حکمراں پارٹی کے حملے

حفیظ نعمانی

 

الیکشن جیتنے اور ملک فتح کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تری پورہ ایک بہت چھوٹا صوبہ ہے آبادی بھی جو ہے اس کے رشتے ملک کے باقی صوبوں سے نہیں ملتے۔ وہاں 25 سال سے کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی ہم نہیں جانتے کہ لینن کے مجسمے وہاں کب اور کس نے لگائے؟ لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ کمیونسٹ ان کو وہی درجہ دیتے ہیں جو بت پرست اپنے مذہبی بزرگوں کو دیتے ہیں۔ یہ بات بھی مشہور ہے کہ کمیونسٹ لامذہب ہوتے ہیں۔ یہ بات یقین سے اس لئے نہیں کہی جاسکتی کہ ہم نے مذہب کے پابند کمیونسٹ بھی دیکھے ہیں۔ بہرحال وہ سب کچھ لینن اور مارکس کو مانتے ہیں۔ اگر ایسا بھی ہے تو ہندوستان جیسے ملک میں کسی کو کیوں اعتراض ہے جبکہ ملک میں ہر گلی ہر کنبہ اور ہر خاندان کا بھگوان الگ ہے؟
تری پورہ کے مقابلہ میں بنگال ایک ملک جیسا ہے وہاں 30 برس کے بعد ترنمول کانگریس نے کمیونسٹ حکومت کو ہرایا اور اپنی حکومت بنائی اس واقعہ کو سات سال کے قریب ہوئے ہیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کوئی ایک مورتی یا ایک عمارت یا جھنڈا کسی نے گرایا ہو۔ بات صرف یہ ہے کہ بی جے پی کے بڑے غنڈہ گردی کی سرپرستی کررہے ہیں۔ سبرامنیم سوامی جیسے بی جے پی کے بڑے جب کہیں گے کہ لینن ایسا تھا ویسا تھا اور یہ کرتا تھا وغیرہ تو جاہل بھیڑ بے قابو ہوگی۔ بات تو اچھی نہیں ہے لیکن کہنا پڑرہا ہے کہ وزیراعظم اس فتح پر مٹھائی کھلا رہے ہیں اور اسے اپنی فتح قرار دے رہے ہیں جبکہ وہ ان ریاستوں کے بھی وزیراعظم ہیں جہاں ابھی ان کی حکومت نہیں ہے۔
وزیراعظم کو جشن مناتا دیکھ کر ہی لینن کی مورتیاں گرائی گئیں اور اس کے ردّعمل میں تمل ناڈو کے سب سے بڑے لیڈر پیریار کی مورتی کے چہرہ پر حملہ کیا گیا تو اس کے جواب میں کلکتہ میں شیاما پرشاد مکھرجی کی مورتی کے ساتھ بھی وہی ہوا اور کچھ غنڈوں نے بابا صاحب امبیڈکر کی مورتی توڑ دی۔ یہ بات ایسی ہے کہ وزیرداخلہ ریاستوں کو دہلی میں بیٹھے بیٹھے نصیحت کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پورے ملک کو بھیڑ کنٹرول کررہی ہے۔ اور کہیں بھی بھیڑ پر نہ پولیس لاٹھی برساتی ہے اور نہ گولی چلاتی ہے اس لئے کہ پولیس کو کسی نے یہ بتا دیا ہے کہ یہ سب دہلی کے اشارہ پر ہورہا ہے۔
ہم تو پاک پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے مورتی بنانا اور لگانا ناقابل معافی جرم قرار دے دیا ہے یہی وجہ ہے کہ پورے ہندوستان میں نہ کسی مسلمان بادشاہ کی مورتی لگی ہے نہ کسی صوفی اور بزرگ کی۔ جو دنیا سے گیا وہ دو گز زمین میں سوگیا۔ کسی کو شوق ہوا تو اس کی قبر کو پختہ کرکے یادگار بنا دیا ورنہ دس سال کے بعد وہ عام زمین کا حصہ ہوگیا۔
جو لوگ مورتی پوجا کے قائل ہیں ان کے لئے مورتی بھگوان کا درجہ رکھتی ہے۔ تمل ناڈو کے لئے خاص طور پر ورنہ دوسرے علاقوں میں بھی پیریار کی حیثیت بھگوان کی ہے ان کی مورتی کو نقصان پہونچانے اور ان کی بے عزتی کرنے کی خبر نے وزیراعظم کی ہنسی کو بریک لگا دیا تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ پیریار کی بے عزتی کرنے کے بعد تمل ناڈو میں ووٹ تو کیا ملے گا گھسنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ تمل ناڈو میں پیریار کے زمانہ میں تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ راج گوپال آچاریہ تھے۔ پنڈت نہرو نے ان کے ذریعہ چاہا کہ تمل ناڈو میں بھی سرکاری کام ہندی میں ہونے لگے۔ پیریار نے کہا کہ یہ تلگو کا علاقہ ہے اگر نہرو جی ضد کریں گے تو ہم تلگو کے لئے الگ ملک بنالیں گے ۔ اور پھر اس کے بعد سے آج تک کوئی وہاں ہندی نہیں لاسکا۔ ان کے بعد اننادورائی نے قیادت سنبھالی تو وہ پیریار سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوئے اور یہ جو پارٹی اننا ڈی ایم کے کے نام سے ہے وہ اسی اننا دورائی سے نسبت کے لئے ہے۔
خبر کے مطابق و زیراعظم نریندر مودی نے ملک کے کچھ حصوں میں توڑ پھوڑ کے واقعات کی سخت مذمت کی ہے اور و زیر داخلہ سے کہا ہے کہ تمام صوبوں کو ہدایت دیں کہ اس طرح کے واقعات کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ ایک پرانی دھمکی بھی سنی گئی ہے کہ اگر کہیں مورتیوں کو گرایا جائے گا تو ڈی ایم اور ایس پی ذمہ دار ہوں گے۔ یہ ان مورتیوں کے لئے ہے جو بے جان ہیں اور اگر یہی بھیڑ ایک جاندار کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالے تو ڈی ایم اور ایس پی کیا تھانیدار بھی ذمہ دار نہیں ہوگا۔
جو لوگ صورت حال سے پوری طرح واقف ہیں وہ حیران ہیں کہ شمال مشرقی ریاستوں میں سے تین میں کھاتہ کھولنے کی اتنی خوشی وزیراعظم کیوں منا رہے ہیں اور ان کا خریدا ہوا میڈیا کیوں ڈھول بجا رہا ہے؟ تری پورہ نام کے جس صوبہ میں حکومت بنائی جارہی ہے اس کی آبادی شاید کل 35 لاکھ ہے۔ اور یہ آبادی لکھنؤ کے برابر ہے جو ایک شہر ہے ۔ میگھالیہ میں بی جے پی کو کل دو سیٹیں ملی ہیں اور کانگریس کو 21، رہا ناگالینڈ تو وہاں بھی بھگواپرچم اب نظر آئے گا۔ اس کامرانی پر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا تھا کہ وہ تین ریاستیں جہاں بی جے پی کا نام بھی نہیں تھا اب وہ جگہ جگہ نظر آئے گی۔ اور بس اس خبر کے بعد نہ دانت دکھانے کی ضرورت تھی اور نہ اڈوانی جی کو مٹھائی کھلانے کی۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular