Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldبڑا ہے دِل کا یہ رشتہ

بڑا ہے دِل کا یہ رشتہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

عبدالسمیع

دل کا رشتہ اٹوٹ ہوتا ہے۔ میرا رشتہ ڈاکٹر شارب صاحب اور شمیم آپا کے ساتھ دل کا ہے۔ میں یہ بات بہت ہی فخر سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ لوگوں کے ایک ہی ماں اور باپ ہوتے ہیں لیکن اللہ نے مجھے دو ماں اور دو باپ دیے۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کا سایہ ہم پر ہمیشہ قائم رکھے۔
شارب صاحب سے میری پہلی ملاقات 1972 میں دیال سنگھ کالج دہلی کی بی اے کی کلاس میں ہوئی۔ پہلی ملاقات میں ہی میں انھیں دیکھتا رہ گیاایسی متین شخصیت، اُس پر ان کا اپنائیت وشفقت سے بھرپور لہجہ۔ استادِمحترم نے روزِ اوّل سے ہی میرے دل ودماغ میں گھر کرلیا۔ مگر احترام نے مجھے کبھی میرے احساسات وجذبات کے اظہار کا موقع نہ دیا۔ جس کا سبب شارب صاحب کی شخصیت کا جلال وجمال تھا یعنی جتنے نرم گفتار اتنے ہی بارعب۔ کبھی ایک لفظ نہیں کہا مگر نہ جانے کیوں ان کے لیے دل میں اتنا احترام تھا کہ میں کچھ نہیں کہہ پایا۔ مگر آج اللہ نے مجھ میں نہ جانے کہاں سے یہ ہمت دے دی ہے کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کررہا ہوں شارب صاحب صرف میرے استاد ہی نہیں میری زندگی کے خاص رہنما ورہبر ہیں جنھوں نے مجھے بی اے سے لے کر آج تک ایسی قربت کا احساس کرایا جس کا بیان لفظوں میں کرنا ممکن نہیں ہے اور صرف شارب صاحب ہی نہیں شمیم آپا سے بھی ایسی شفقت ملی کہ جس نے عبدالسمیع کو زندگی کے نشیب وفراز سے گزرنے کا حوصلہ دیا۔ دونوں میرے لیے والدین کی طرح ہیں۔ جب بھی ملنے جاتا ایسا لگتا جیسے کچھ توانائی(Energy) ان سے مل رہی ہے۔ یہ سلسلہ طالب علمی کے زمانے سے شروع ہوا تھا۔ میں دہلی کا رہنے والا، والدین بھی دہلی میں موجود تھے مگر شارب صاحب اور شمیم آپا سے ایسا ناطہ جڑا کہ گھنٹوں سامنے رہنے پر بھی دل میں ایک تشنگی باقی رہتی تھی۔ بہت اچھا لگتا تھا ہمیں ان کے گھر جانا،ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اپنے ہی گھر جارہاہوں۔ وقت نکال کراکثر اُن کے یہاں پہنچ جاتا، دونوں ایسی خندہ پیشانی سے ملتے کہ دِل باغ باغ ہوجاتا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جو مشورے یہ دیتے تھے وہ بہت کارآمد تھے، زندگی کے اتار چڑھاؤ میں انھوں نے ساتھ دیا۔ ان کے مشوروں نے کامیابی کی راہ دکھائی۔
میرے Businessکیریئر کے شروعاتی دور میں ڈاکٹرصاحب اور شمیم آپا نے بہترین مشورے دیے جن پر عمل کرکے آج اس مقام پر پہنچا ہوں کہ دنیا میں لوگ مجھے جانتے ہیں اور میرا Businessاللہ کے فضل و کرم سے اور ڈاکٹرصاحب وشمیم آپا کی دعائوں سے ایسا پھل پھول رہاہے جیسے کسی کو والدین کی دعائیں لگ گئی ہوں۔میں آج آپ سب کے سامنے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اگر ڈاکٹرصاحب کے مفیدمشورے نہ ہوتے تو شاید آج میں جس مقام پر ہوں نہ ہوتا۔اورآج میں Angel Book Houseاور I.B.S.جیسی چار پرائیویٹ کمپنیز کا چیئرمین نہ ہوتا۔
ڈاکٹر صاحب صرف میرے Business کے معاون ہیںبلکہ میری ذاتی زندگی میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔ میری شادی، میرے بھائیوں بہنوںکی شادی میں شریک ہوکر انھوں نے بالکل گھروالوں کی طرح ہرکام میں میری مدد کی۔ (میری اہلیہ) شب نور کو اپنی بہو ہی سمجھا۔اورہمیشہ دونوں نے انہیںاپنی بے پناہ شفقت سے نوازا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب دہلی چھوڑ کر لکھنؤ چلے آئے، مگر ہمارا رشتہ نہیں بدلا۔ شعاع مجھے بھائی کہتی تھیں۔ جب اُن کی شادی ہوئی میں دبئی میںاپناBusiness Setکرنے کی جدوجہد میں مصروف تھا اس لیے باوجود کوشش کے شادی میںشریک نہ ہوپایا۔
ایک اور اہم بات جس کا اعتراف یہاں ضرور کرنا چاہوں گا کہ ڈاکٹر صاحب صرف میری تجارتی زندگی میں مددگار رہے بلکہ میری ذاتی وازدواجی زندگی کے آئیڈیل بھی رہے۔ کیونکہ شمیم آپا اور ڈاکٹر صاحب کا مزاج ایک دوسرے سے بالکل الگ تھا۔ اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے بڑی کامیابی سے سب کچھ manage کیا۔ مسلک الگ ہوتے ہوئے بھی دونوں کی محبت کی مثال ملنا بہت مشکل ہے، یہ مثالی جوڑامیرے لیے ایسا رہنما بن گیا جس کی رہبری نے میری ازدواجی زندگی کو گلزار بنادیا۔ میں آپا جان سے بہت frank تھا۔ وہ بہت سی باتیں بڑی کھل کے بتاتی تھیں۔ ایک مرتبہ بات ہورہی تھی کہ جب آپ نکاح کرکے ردولی گئیں تو وہاں آپ کے ساتھ کیا حالات پیش آئے جسے انہوں نے یوں بیان کیا:
’’کیاحالات پیش آئے۔ہم اپنے ہاں گھڑسواری کرتے ہوئے، یونیورسٹی سے نکل کرایک ماڈرن ماحول میںپرورش پائے ہوئے تھے۔برقع پہن کر رُدولی گئے اور وہ بھی ٹوپی والا سیدھا برقع۔‘‘
ایک خاص بات جو میں نے ڈاکٹر صاحب اور شمیم آپا سے سیکھی ہے وہ ہے ازدواجی زندگی ہی نہیں روز مرّہ کی زندگی میں Adjustکرتے ہوئے چلیں۔کیونکہ ڈاکٹرصاحب کے مطابق دنیا آپ کے حساب سے نہیں چلتی بلکہ آپ کو دنیا کے حساب سے چلنا پڑتاہے۔
میرے بچوں کی شادیاں ہوئیں تو آپا جان نے انھیں لائف کو adjust کرنے کا ہنر بتایا۔ بچوں کو بتایا کہ شادی کے بعد زندگی میں اتار چڑھاؤ، خوشی وغم سب آتے ہیں۔ adjustکرکے چلوگے تو زندگی خوش گوار ہوگی۔ زندگی میں adjustment میں نے ان دونوں میاں بیوی سے سیکھا۔
شعاع کے چلے جانے کے بعد بھی دونوں نے ہار نہیں مانی، ٹوٹے بھی، بکھرے بھی، مگرپھر علی سردار جعفری کے بقول ’ایک خواب اور‘ دیکھنے کے لیے کمربستہ ہوگئے، زندگی نے شعاع کے ساتھ ان سے سارے خوابوں کو چھیننا چاہا مگر انھوں نے ایک ’شعاع‘ سے ہزاروں شعاعیں پیدا کرلیں۔ جس کا نتیجہ آج آپ سب کے سامنے شعاع فاطمہ گرلس کالج ہے۔
شعاع فاطمہ کالج زمین کا ایک ٹکڑا تھا۔ انھوں نے بہت سے لوگوں سے مشورہ کیا کہ وہ یہاںاسکول کھولنا چاہتے ہیں۔ ہرشخص نے Retirement کی Age کہہ کرحوصلہ شکنی کی اور Retirement کے بعد آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ اسی دوران میرالکھنؤ آناہوا، زمین دیکھی، میں نے کہا میں آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ اللہ کا نام لے کر اسکول کی بنیاد رکھیں۔ دونوں کوبہت ڈھارس ہوئی، اسکول بنانے کے شروعاتی دنوں میں دونوںکو بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، دونوں پریشان بھی ہوئے مگر میں ان کو برابرحوصلہ دیتا رہا کہ آپ فکر نہ کریں۔ اسی طرح نہ جانے کیسے ہمارا رشتہ باپ بیٹے اور ماں بیٹے کا بن گیا۔ جب بھی لکھنؤ جاتا دونوںبے انتہا Relax ہوجاتے، ہم گھنٹوں ساتھ بیٹھ کر اسکول کی ترقی کے خواب بنتے اورمسئلے مسائل کو حل کرتے۔اور پھر وہی ہوا رفتہ رفتہ ٹیم بنتی گئی کچھ اور ڈاکٹرصاحب کے ہم درد ساتھ میں جڑتے گئے۔یعنی ہمت ِ مرداں مددِ خدا والی بات بالکل سچ ثابت ہوگئی۔ یہاں یہ کہنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی مشکل سے مشکل کام اگر نیک عزم کے ساتھ کیاجائے تو اللہ کامیابی ضرور دیتا ہے۔ یہ اس لیے کہ کام کے لیے یا Businessکے لیے ہمت ہو تو نہ Retirement کی عمر نہ سرمایہ آڑے آتا ہے۔
جب اسکول کا ایک ٹرسٹ بنایاگیا توشمیم آپا اس ٹرسٹ کی چیئرپرسن (Chair-Person) بنیں اور مجھے Vice Chairmanبنایاگیا۔اپنی علالت کے دوران بارہا مجھ سے کہا کہ عبدالسمیع تم Charimanبن جائو۔ کیونکہ میں دبئی اور دہلی میں قیام پذیر تھا اور اپنے Businessکی مصروفیت کی بنا÷پر یہ اہم فریضہ پوری طرح انجام نہیں دے سکتاتھا لیکن دل ہی دل میں اللہ سے دعا کرتاتھا اوراللہ نے میری دعا قبول فرمائی۔ وقار صاحب کی شکل میں ہمیںکالج ٹرسٹ کا روحِ رواں دے دیا۔ جس کے بعد مجھے، ڈاکٹر صاحب اور شمیم آپا کو اتنی راحت ہوئی جس کا بیان میں لفظوں میں نہیں کرسکتا۔ اورمجھے امید ہے کہ وقارصاحب اس پودے کو ہرابھرا رکھیں گے اوراس کی مزید شاخیں شہرکے دوسرے حصوں میں بھی جلد ہی کھولیں گے۔
’’میری اللہ سے دعا ہے کہ جوباغ ہم نے مل کرلگایا ہے، اسی طرح ہرا بھرا رہے۔اس کے پیچھے میری سوچ یہ تھی کہ یہ سلسلہ آپا جان اور ڈاکٹر صاحب کے غم کو کم کرے اور ان کی زندگی میں بہارہی بہار رہے۔ اور وہی ہوا بھی کہ آج بھی ڈاکٹر صاحب خود کوماشا÷اللہYoungسمجھتے ہیں بلکہ آج کے نوجوانوں سے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ میرا مقصد یہی تھا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ کے کرم سے میں اس میں کامیاب ہوں۔‘‘
اسکول آج کالج بن چکا ہے۔ بچوں کی تعداد بھی کافی بڑھ گئی ہے۔ آخر میںمیرا ایک مشورہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اور وقارصاحب کو شہر کے دوسرے علاقوں میں اس کی برانچیں کھولنی چاہیے، اور ایک نیا سلسلہ Professional Courses کا بھی شروع کرنا چاہیے جس سے یہاں کے طالب علم تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ ہنر بھی سیکھ سکیں۔ اور یہ میں اُسی حق سے کہہ رہا ہوں جس حق کو پورا کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب اور آپا جان نے میری زندگی میں بہاریں اورخوشیاں بھردیں۔ جس طرح انہوں نے تجارت کے پیشے میںمجھے ایک کامیاب زندگی کی راہ دکھائی، اسی طرح روزگار کے لیے Professional Courses ان بچوں کے لیے مفید ثابت ہوں گے اور پھرمیرے جیسے بہت سارے عبدالسمیع پیدا ہوں گے انشا÷ اللہ۔
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular