Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldباغِ فدک؟ ایک جواب اور اختلاف ختم

باغِ فدک؟ ایک جواب اور اختلاف ختم

ہم نے ہمیشہ کوشش کی کہ عالم اسلام میں اتحاد باقی رہے، اتحاد کو باقی رکھنے کے لئے اختلاف کی وجہ جاننا نہایت ضروری ہے۔ اس عمر تک پہونچنے کے بعد تمام لوگوں سے اختلاف سمجھنے کی کوشش کی جس میں ایک وجہ باغِ فدک بھی ہے جس کے بارے میں بار بار سوال کیا جاتا ہے۔ ہماری محدود وسعت نظر یہ کہتی ہے کہ اس کا جواب اگر آجائے تو شاید بہت سے اختلافات اپنے آپ ختم ہوجائیں۔
آج دختر رسولؐ جناب فاطمہ زہراؐ کی ولادت کی تاریخ ہے ان کے سبھی چاہنے والے یقینا خوش ہوں گے کیونکہ عالم اسلام کے سبھی فرقے جناب فاطمہ زہراؐ کو بیحد عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کیوں نہ دیکھیں عالم اسلام میں جن خواتین کے ذکر ہیں ان میں جناب فاطمہؐ کو انفرادیت حاصل ہے ۔ ایک خاتون کی زندگی میں تین ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ فخر کرسکتی ہے ایک تب جب وہ کسی کی بیٹی ہوتی ہے تو رسولؐ جیسا عظیم نہ کسی کو باپ ملا اور ملکہ عرب جناب خدیجہ جیسی کسی کو ماں ملی دوسرا فخر خاتون اپنے شوہر پر کرتی ہے تو حضرت علی ؑ جیسا ساقیٔ کوثر، باب العلم، شیر خدا… کسی کو نہیں ملا، تیسرا فخر ایک خاتون اپنے بچوں پر کرتی ہے تو یہ فخر بھی واحد اُن ہی کے حصے میں آیا جن کے بچے جوانانِ جنت ہوں وہ ماں کیوں فخر نہ کرے۔
جناب فاطمہؐ نہ ہوتیں تو رسولؐ کی سُنت مردوں کے لئے تو نمونۂ عمل بنتی لیکن عورتوں کیلئے نہیں یعنی رسولؐ کی رسالت میں بھی وہ شریک رہیں۔ تمام خواتین کو اپنے ایک جملے سے قیامت تک نصیحت دے دی کہ ایک عورت کی کامیابی اُس کے شوہر کی نظر میں کیا ہے۔ شادی کے دوسرے دن جب رسولؐ نے اپنے داماد حضرت علی ؑ سے اپنی بیٹی کے بارے میں پوچھا کہ علی تم نے فاطمہ کو کیسا پایا تو علی نے جواب دیا کہ اپنی عبادت میں مددگار۔ صرف اس ایک جملہ پر تمام عورتیں عمل کرلیں تو ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے۔
کون جناب فاطمہ؟ وہ فاطمہؐ جن کی ماں ملکہ عرب تھیں، عرب کا سارا کاروبار اُن ہی کی دولت سے چلتا تھا بڑے بڑے تاجر اُن ہی سے مال لیتے تھے، بیچتے تھے خود رسول اللہؐ بھی اُن ہی سے مال لے کر کاروبار کرتے تھے۔ ساری کی ساری دولت اُن کی ماں کی طرف سے تھی اور وہ ایک ایسی بیٹی تھیں جن کی صفات کی بنیاد پر خود رسولؐ اُن کی تعظیم کرتے تھے کیونکہ وہ صدیق ہی نہیں صادقہ بھی تھیں یعنی وہ سچ ہی نہیں بولتی تھیں بلکہ جو بول دیتی تھیں اللہ اُسی کو سچ کردیتا تھا۔
عید کے روز جب حضرت حسن ؑ اور حسین ؑ نے اپنی مادرِ گرامی سے کہا کہ کل عید ہے سب لوگ نئے کپڑے پہنیں گے ہمارے نئے کپڑے نہیں ہیں تو جناب فاطمہؐ نے کہا کہ کپڑے سلنے گئے ہیں کل درزی لے کر آئے گا اور عید کے روز جب جنت سے فرشتہ کپڑے لے کر آیا تو اس نے دق الباب کرنے کے بعد یہی کہا کہ درزی کپڑے لے کر آیا ہے۔ ہزاروں بار اُمت مسلمہ کی زبانی یہ واقعہ ہم سب نے سنا ہے اگر یہ واقعہ صحیح ہے، یقینا صحیح ہی ہوگا کیونکہ اگر صحیح نہ ہوتا تو 1400 سال سے مسلمانوں کے سبھی فرقے اسے ہر روز سننے کے بعد یوں خاموش نہ ہوتے۔ اس واقعہ سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سچ بولنے والے تو ہیں لیکن کوئی ایسا شاید نہیں ہوا کہ جو وہ بول دے وہ ہی سچ ہوجائے۔ جناب فاطمہؐ نے اگر کہہ دیا کہ کپڑے درزی کے یہاں ہیں تو اللہ کی طرف سے آنے والے فرشتے نے اپنے کو درزی ہی کہا، فرشتہ نہیں۔
یہ وہ ہیں جو ہم ہر روز اُمت مسلمہ کی زبانی سنتے ہیں لیکن اللہ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بھی جناب فاطمہؐ کی صداقت کی شہادت دی جسے مسلمان بنے رہنے کے لئے ہم سب پر لازم ہے۔ آیت مباہلہ میں اس کا ذکر ہے، جب رسولؐ نے نصاریٰ نجران کو مباہلہ کی دعوت دی اور کہا کہ تم اپنے نفسوں کو لائو، اپنے بچوں کو اور اپنی عورتوں کو لائو اور سب مل کر ایک دوسرے پر لعنت کریں۔ جواب میں رسولؐ نفسوں کی صورت میں صرف حضرت علی ؑ کو لے کر آئے ، بچوں کی صورت میں حسن ؑ اور حسین ؑ کو لے کر آئے اور عورتوں کی صورت میں صرف جناب فاطمہؐ زہرا کو لے کر آئے، اور جب ان سب کو لے کر رسولؐ اپنے ساتھ آگئے تو مقابلے پر آئے لوگوں نے یہ کہہ کر مقابلہ کرنے سے انکار کردیا کہ رسولؐ جن لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں یہ اتنے سچے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو بھی اشارہ کردیں تو پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دے۔
رسولؐ کی ایک ایسی اعلیٰ مرتبت بیٹی جس کی صداقت کی شہادت اللہ آیت مباہلہ کے ذریعے اپنی کتاب میں دیں اور عالم اسلام اُس واقعے کو سن سن کر جھوم اُٹھے جس میں اگر فاطمہ زہراؐ نے فرما دیا ہے کہ کل کپڑے درزی کے یہاں ہیں تو اللہ کی جنت سے آنے آلے فرشتے نے اپنے کو درزی ہی کہا فرشتہ نہیں۔ رسولؐ کی وفات کے بعد ایسا وقت کیسے آگیا جب رسولؐ کی یہی اعلیٰ مرتبت بیٹی جس کی ماں ملکہ عرب ہوں دربار میں اپنا حق طلب کررہی ہے اور اُمت مسلمہ اُن سے گواہی مانگ رہی ہے ۔ میں اپنی لاعلمی کی بنیاد پر یہی جانتا ہوں کہ گواہی کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں یقین نہ ہو۔
شہر کے بہت بڑے عالم، دانشور اسلامی تاریخ پر بہت گہری نظر رکھنے والے لکھنؤ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور اپنے شعبہ کے صدر ایک بار میرے آفس تشریف لائے یقینا وہ ہم سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور بے تکلف بھی۔ اسی بابت میں نے ہمت کرکے اُن کی خدمت میں باغِ فدک کے بارے میں جاننا چاہا تو انہوں نے بڑی شفقت سے، محبت سے تمام حوالوں سے سمجھانے کی کوشش کی۔ اُن کے سمجھانے کے بعد بس ہم نے یہ سوال کردیا کہ 1400 سال بعد آپ سب کچھ جانتے ہیں لیکن رسولؐ کی و فات کے فوراً بعد رسولؐ کی وہ بیٹی جو جنت میں عورتوں کی سردار ہے جس کا آیت مباہلہ میں ذکر ہے جس کے بچے جوانانِ جنت کے سردار ہیں جس کے شوہر کو ابھی آپ کے حساب سے خلافت ملنی ہے۔ ان میں سے کوئی کچھ نہ جانتا تھا جو آپ جانتے ہیں جبکہ ہم میں سے کوئی جنت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ میرا یہ سوال کرنا تھا کہ وہ فوراً اُٹھے اور چپ چاپ آفس سے چلے گئے، میرا سوال پھر وہیں کا وہیں رہ گیا۔
آج بھی میرا ایک یہ سوال آپ کے جواب کا منتظر ہے کہ آپ جس کے جو جنت کا دعویٰ نہیں کرسکتے، 1400 سال بعد بھی وہ سب کچھ جانتے ہیں جو رسولؐ کی وفات کے فوراً بعد رسولؐ کی بیٹی جو جنت میں عورتوں کی سردار ہے جس کا آیت مبالہ میں ذکر ہے جس کے بچے جوانانِ جنت کے سردار ہیں جس کا شوہر مسلمانوں کا خلیفہ ہے ان میں سے کوئی کچھ نہ جانتا تھا جو آپ جانتے ہیں؟
ہم نے ہمیشہ کوشش کی کہ عالم اسلام میں اتحاد باقی رہے، اتحاد کو باقی رکھنے کے لئے اختلاف کی وجہ جاننا نہایت ضروری ہے۔ اس عمر تک پہونچنے کے بعد تمام لوگوں سے اختلاف سمجھنے کی کوشش کی جس میں ایک وجہ باغِ فدک بھی ہے جس کے بارے میں بار بار سوال کیا جاتا ہے۔ ہماری محدود وسعت نظر یہ کہتی ہے کہ اس کا جواب اگر آجائے تو شاید بہت سے اختلافات اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔

9415018288

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular