“ایک مدت سے تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں”

0
948

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

محمد عباس دھالیوال،

اردو ادب میں جب ہم بیسویں صدی کے نمائندہ شعراء کا تذکرہ ہوتا ہے تو اردو میں پہلی بار گیان پیٹھ انعام حاصل کرنے والے فراق گورکھپوری کا نام سر فہرست نظر آتا ہے ۔ شاعری کے ساتھ ساتھ انہوں نے اردو زبان کے ذخیرہ کو بطور ادیب اور نقاد اپنی بیش قیمتی تخلیقات کے سے مالا مال کیا۔آپ 28اگست 1896کو گورکھپور اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔آپ کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔لیکن ادبی دنیا میں آپ فراق گورکھپوری کے نام سے ہی مشہور ہوئے۔
اپنی محنت و قابلیت کے چلتے فراق گورکھپوری کا انتخاب بطور پی سی ایس اور آئی سی ایس (انڑین سول سروس) کے لئے ہوا تھا۔لیکن اسی دوران مہاتما گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کی حمایت کے چلتے استعفی دے دیا۔جس کے نتیجے میں انہیں جیل جانا پڑا۔
اس کے بعد آپ نے الہ آباد یونیورسٹی میں بطور انگریزی لیکچرر کے اپنی خدمات انجام دیں۔ بے شک آپ انگریزی زبان کے معلم تھے لیکن اس کے باوجود جو آپ کو اردو زبان سے لگاؤ اور وابستگی تھی اس کے متعلق آپ اپنے ہی ایک شعر میں کچھ اس انداز میں اظہار خیال کرتے ہیں کہ:
میری گھٹی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زباں
جو بھی میں کہتا گیا حسن بیاں ہوتا گیا
آپ نے طلباء کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اپنے شعر کہنے کی راہ پر بھی گامزن رہے۔
مجموعہ کلام گل نغمہ پر آپ کو ہندوستان کا سب بڑا لٹریری انعام گیان پیٹھ ایوارڈ ملا۔
آپ نے آل انڈیا ریڈیو میں بطور پروڈیوسر اپنی بیش قیمت خدمات انجام دیں۔
اپنی ایک کتاب”اردو غزل گوئی” میں دیباچہ میں عہد حاضر کی غزل کی تصویر پیش کرتے ہوئے فراق گورکھپوری لکھتے ہیں کہ” اس دور کی غزل سنجیدہ اور ہموار ضرور ہے خیالات و جذبات میں صداقت ہ خلوص اور بسا اوقات جدت تو ضرور ملتی لیکن وجد آفرینی،کیفیت ،گھلاوٹ ،تاثیر ،ترنم،آفاقیت،گہرائی و بلندی نظر نہیں آتی۔شاعر کی پوری شخصیت کسی حقیقت میں تحلیل ہو جائے ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔سپردگی غزل کی جان ہے اور محویت غزل کا ایمان ہے۔اس دور کی غزل گوئی یہ دونوں چیزیں ذرا کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔،”اسی طرح ایک دوسری جگہ ترقی پسند تحریک کے دوران ہوئی شاعری کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ”ترقی پسند ادب کی تحریک نے کچھ شاعروں کوترقی پسند غزلیں لکھنے کی طرف مائل کیا۔ایسی غزلوں کا کامیاب تغزل کبھی کبھی نظر آتا ہے۔لیکن اس دور کی غزلوں میں بہت بڑی تعداد ایسے اشعار کی ملتی ہے جو اچھے بھی ہیں اور اس دور کے نظریات حیات اور مسائل حیات کی کامیاب ترجمانی بھی کرتے ہیں۔”
جب ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ ہم پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری کرتے ہوئے ذہن کو تسکین اور روح کو ایک تازگی دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ایک جگہ زندگی کی دشواری کا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
تمہیں کیوں کر بتائیں زندگی کو کیا سمجھتے ہیں
سمجھ لو سانس لینا خود کشی کر نا سمجھتے ہیں
زندگی کے تعلق سے اپنے مختلف تجربات و مشاہدات کا بیان اپنے الگ الگ شعر وں میں یوں کیا تھا۔
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
بہت پہلے سے آہٹ ان کی ہم پہچان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
اسی طرح ایک جگہ تغزل کی خوبصورتی دیکھیں کہ:
بھلا دیں ایک مدت کی جفائیں اس نے یہ کہہ کر
تجھے اپنا سمجھتے تھے تجھے اپنا سمجھتے ہیں
فراق اس گردش ایام سے کب کام نکلا ہے
سحر ہونے کو بھی ہم رات کٹ جانا سمجھتے ہیں
ایک مدت سے تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تمہیں ایسا بھی نہیں
فراق کو اپنی شاعری پر ناز تھا یہی وجہ ہے کہ وہ ایک جگہ خود کہتے ہیں کہ:
غالب و میر مصحفی
ہم بھی فراق کم نہیں
اسی طرح ایک دوسرے شعر میں فراق گورکھپوری کہتے ہیں کہ:
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصروں
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے
ایک اور شعر دیکھیں اپنے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
اک عمر کٹ گئی ہے تیرے انتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات
محبوب کے معصوم و دھوکو ں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
جو ان معصوم آنکھوں نے دیئے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں
کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں
زندگی تونے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ
ایک جگہ دوست سے شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
میں مدتوں جیا ہوں کسی دوست کے بغیر
اب تم ساتھ چھوڑ نے کو کہہ رہے ہو خیر
محبوب کی یاد کے تعلق سے فراق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
ایک مدت سے تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تمہیں ایسا بھی نہیں
اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں
کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں
ایک جگہ محبوب پر کسی بھی بات اعتبار نہ ہو نے کے باوجود کہتے ہیں کہ
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقین نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو تیرا انتظار کرنا تھا
ایک جگہ ہندوستان کے وجود میں آنے کے بارے میں معلومات فراہم کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراق
قافلے بستے گئے ہندوستان بنتا گیا
ایک جگہ عشق کے قدیم سلسلے کا بیان کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ:
سنتے ہیں عشق نام کے گزرنے ہیں اک بزرگ
ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں
روز ابد سے الجھی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
جو الجھی تھی آدم کے ہاتھوں
وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں
اس طرح ان بہت سے ایسے اشعار ہیں جو آج ضرب الامثل کے طور پر اپنی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔بطور شاعر انہوں نے اردو شاعری کی ہر صنف سخن جیسے کہ غزل، نظم، رباعی اور قطعہ سبھی میں طبع آزمائی کی ۔ اردو نظم کی ایک درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں ہیں ساتھ ہی اردو نثر کی بھی نصف درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں ہیں اس کے علاوہ فراق نے ہندی ادبی اصناف پر متعدد جلدیں تحریر کیں ہیں ۔ساتھ ہی انگریزی ادبی وثقافتی موضوعات پر چار کتابیں لکھ کر انگلش لٹریچر میں بھی اپنی نمایاں خدمات انجام دیں ہیں۔
اردو ادب کا یہ درخشندہ ستارہ فراق گورکھپور ی آخر کار لمبی علالت کے بعد 3 مارچ 1982ء کو 85 سال کی عمر میں نئی دہلی میں ہمیشہ ہمیش کے لئے اس فانی جہان کو الودع کہہ گیا۔انتقال کے بعد آپ کی میت الہ آباد لے جائی گئی جہاں دریائے گنگا و جمنا کے سنگم پر ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
فراق کی معروف تصانیف گل نغمہ ،گل رعنا ،مشعل ،روح کائنات، روپ ،شبستان، سر غم ،بزم زندگی رنگ شاعری
فراق کو ان کی ادبی خدمات کے بدلے میں مختلف مواقع پر درج ذیل اعزازات عطا کیے گئے ان میں سے۔1960: ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ1968: پدم بھوشن1968: سویت لینڈ نہرو ایوارڈ1969: گیان پیٹھ انعام، اردو شاعری میں پہلا گیان پیٹھ انعام 1981: غالب اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔
آخر میں ہم فراق ان کے ہی ایک شعر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ:
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصروں
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے۔
Phone.9855259650
ضضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here