Wednesday, May 1, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldایک ناقابل فراموش سانحہ

ایک ناقابل فراموش سانحہ

سکندر علی سکندر

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے ۔
9 اگست 1925 كا دن تھا سہارنپور سے لکھنؤ جانے والی ٹرین کے دوسرے درجے کے ڈبے میں چند نوجوان بیٹھے تھے ٹرین کا کوری اسٹیشن سے ایک ڈیڑھ میل بڑھی ہی تھی کی انقلابیوں نے ٹرین روک لی سبھی مسافروں کو سمجھا دیا گیا کہ وہ ڈریں نہیں ان کا مقصد صرف سرکاری خزانہ لوٹنا ہے یہ واقعہ کاکوری نامی جگہ پر پیش آیا اس لیے اسے کاکوری کانڈ کے نام سے جانا جاتا ہے اس کاکوری سانحہ سے انگریز حکمرانوں میں کھلبلی مچ گئی انہیں يقىن تھا کی یہ کام انقلابیوں کا ہے اس لئے انقلابیوں کو پکڑنے کے لئے جانچ شروع کی گئی شاه جہاں پور میں کچھ نوٹ پکڑے گئے رام پرساد بسمل کے ساتھ کل 22 انقلابیوں پر مقدمہ چلایا گیا اور سزا سنائی گئی کچھ کو کالا پانی کٹھور کارواس کے ساتھ هی رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خاں، راجندر لاهڑی اور روشن سنگھ کو سزائے موت دی گئی-
رام پرساد بسمل کو گورکھپور جیل میں 19 دسمبر کو موت کی سزا دی گئی جب سولی پر لے جانے والے آئےتو وہ اٹھ کر چل دیے اور چلتے ہوئے کہا —
مالک تیری رضا رہے اور تو ہی تو رہے
باقی نہ میں رہوں میری آرزو رہے
جب تک تن میں جان رگوں میں لہو رہے
تیرا ہی زکر یار تیری جستجو رہے
دار پر کھڑے ہوکر آپنے کہا میں برطانوی سامراج کا خاتمہ چاہتا ہوں پھر انہوں نے ایک شعر پڑھا —
اب نہ اہل ولولے ہیں اور نہ ارمانوں کی بھیڑ
ایک مٹ جانے کی حسرت اب دل بسمل میں ہے۔
جنگ آزادی میں حصہ لینے والے اشفاق اللہ خان شاه جہاں پور کے رہنے والے تھے انہوں نے تیراکی، گھڑسواری، کرکٹ، ہاکی اور بندوق چلانے میں کافی مہارت حاصل کیا تھا ۔
اشفاق اللہ خاں رام پرساد بسمل کے دوست تھے اور ایک شاعر بھی پھانسی کے کچھ گھنٹے قبل انہوں نے لکھا–
کچھ آرزو نہیں ہے ، ہے آرزو تو بس یہ
رکھ دے کوئی ذرا سی خاکِ وطن کفن میں-
19 دسمبر کا دن تھا فیض آباد ضلع کے جیل میں اشفاق اللہ بہت مسرت کے ساتھ قرآن شریف کا بستہ کاندھے پر ٹانگے ہوئے حاجیوں کی طرح کلام پاک پڑھتے ہوئے تختہ دار کے پاس گئے تخت کوچوما اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا–
میرے ہاتھ انسانی خون سے کبھی نہیں رنگے میرے اوپر جو الزام لگایا گیا ہے وہ غلط ہے خدا کے یہاں میرا انصاف ہوگا اس کے بعد ان کے گلے میں پھندہ پڑا اور وہ خدا کا نام لیتے ہوئے دنیا سے کوچ کرگئے –
ایک اور مجاہد آزادی ٹھاکر روشن سنگھ شاه جہاں پور کے نوادہ نامی گاؤں کے رہنے والے تھے وہ انگریزی زبان کا معمولی علم رکهتے تھے مگر اردو اور ہندی اچھی طرح جانتے تھے پھانسی کے 6 دن پہلے انہوں نے اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا —
میری موت کسی طرح بھی لائق افسوس نہیں میرا مکمل یقین ہے اس دنیا کے درد بھری زندگی کو ختم کرکے اب میں آرام کی زندگی جینے جا رہا ہوں ہمارے مقدس کتابوں میں لکھا ہے جو انسان دھرم یھدھ یعنی جہاد میں جان دیتا ہے اس کی رفتار وہی ہوتی ہے جو جنگل میں رہ کر عبادت کرنے والوں کی ہوتی ہے –
زندگی زندہ دلی کو جان اے روشن
ورنہ کتنے مرے اور پیدا ہوتے جاتے ہیں-
پھانسی کے دن روشن سنگھ تخت دار پر وطن کے قصیدے پڑھتے ہوئے ملک عدم کو راهی ہوئے-
ہمارے ملک کے ایسے تمام شہید بھارت کے آسمان میں حب وطن، قربانی، اور انقلاب کے ایسے ستارے ہیں جو صدیوں تک ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے-
رام پرساد بسمل اشفاق اللہ خاں ٹھاکر روشن سنگھ کے مذکورہ اشعار اردو ادب میں اہمیت کے حامل ہیں جب کبھی ان کے یہ اشعار پڑھے جاتے ہیں تو لوگوں کے اندر وطن اور اردو کے تئیں فرد محبت کی لہر دوڑ جاتی ہے –
9519902612

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular