Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldآج کا تخلیق کارخود کوتنقید کے دبائو سے آزاد کرانا چاہتا ہے

آج کا تخلیق کارخود کوتنقید کے دبائو سے آزاد کرانا چاہتا ہے

 

خواجہ معین الدین یونیورسٹی میںدوروزہ بین الاقوامی اردو کانفرنس کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر
ڈاکٹر ہارون رشید

لکھنؤ۔ خواجہ معین الدین اردو عربی فارسی یونیورسٹی اور مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ہیومنیٹیز اینڈ ٹکنالوجی،محمود آباد کے اشتراک سے ہونے والی دوروزہ بین الاقوامی اردو کانفرنس مولانا سعید الرحمن اعظمی کے دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔قومی کونسل،اردو اکادمی اور فخرالدین علی احمد کمیٹی کے خصوصی تعاون سے ہونے والی دو روزہ بین الاقوامی اردو کانفرنس کے دوسرے دن ’’موجودہ دور میںالیکٹرانک پرنٹ اور سوشل میڈیا(اردو کے  حوالے سے)’’یونیورسٹیز میں اردو تحقیق و تنقید کی صورت حال‘‘ اور معاصر ادب سمت و رفتار‘‘جیسے اہم موضوعات پر پرمغز مذاکرے ہوئے ۔مذاکرات میں ناقدین ادب، تخلیق کاروں اور صحافیوں نے حصہ لیا۔ صدارت کے فرائض پروفیسر شارب ردولوی اور نظامت کے فرائض پروفیسر شفیق اشرفی اور ڈاکٹر ثوبان سعید نے مشترکہ طور پر انجام دئے۔
افتتاحی تقریر میں شیخ الجامعہ پروفیسر ماہ رخ مرزا نے کہاکہ ہم تعلیمی ادارے کو ترقی کی راہوں پر تیزقدمی سے لے جاناچاہتے ہیں ۔ اس کے لئے وہ بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ بیرونی دانش گاہوں سے معاہدے ہو رہے ہیں۔ ان میں یوکے اور ایران کی دانش گاہیںشامل ہیں۔ انہوںنے کہاکہ انہوںنے اقلیتی فلاح وبہبود کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی سے مدلل اور پرزور مطالبہ کیاہے کہ اردو عربی فارسی یونیورسٹی کے طالبعلموں کو وظیفہ دیاجائے۔شیخ الجامعہ نے کہاکہ صلاحیتوں کوپیداکرنے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ اپنے معیار کو متواتر بڑھاتے رہیں۔
پہلامذاکرہ موجودہ دور میں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا اور اردو زبان کے موضوع پر ہوا۔ روز نامہ اودھ نامہ کے بانی وقار رضوی نے کہاکہ ابتدائی اردو صحافت تحریک کے طور پر تھی۔پہلے صحافت ایک مشن تھی آج ایک کاروبار ہے۔ آج اخبارکاکوئی مقصد نہیں ہے بلکہ اخبار نکالنا اور پیسہ کمانا اخبارکا مقصدہوگیا ہے۔اردو کے تعلق سے انھوں نے کہا کہ اردو جاننے والوں کو دوسرے علوم بھی سیکھنا چاہئیں۔جس شعبہ میں آپ جانا چاہتے ہوں اس کا بھی کچھ علم ہونا چاہئے۔جن اسکولوں میں آپ کے بچے پڑھتے ہیں وہاں اردو پڑھانے کا مطالبہ کیا جانا چاہئے ۔جس طرح سے لامارٹس میں اسٹوڈنٹس کے مطالبے پر اردو پڑھاے جانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ صحافی خان جیلانی علیگ نے اردو صحافت کے لئے اردو والوں کی بے رغبتی اور غیراردو طبقوںکے تعاون کی ستائش کی۔انھوں نے کہا کہ آج صرف اردو ہی پر یہ بات لاگو نہیں ہوتی کہ پیشہ بن گئی ہے بلکہ یہ بیماری ہر زبان کی صحافت میں آچکی ہے۔اور جب صحافت پیشہ بن گئی ہے تو بڑے گھرانوں کے اخبارات بڑھ رہے ہیں اور متوسط اخبارات گھٹ رہے ہیں یا مر رہے ہیں۔ روزنامہ آگ کے مدیر احمد ابراہیم علوی نے کہاکہ اخبار کسی کانہیں صرف قارئین کاہوتاہے۔اخبار میں قاری کی خواہشات کا احترام کیا جاتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ دنیا حسین ہے لیکن اخبارات اس چہرے کوکم ہی دکھاتے ہیں۔ان چیزوں کو زیادہ دکھاتے ہین جن سے دنیا سے نفرت اور بے زاری کا احساس پنپنے لگتا ہے۔انھوں نے اردو کتابوں کے بارے میں کہا کہ آج بھی کتابیں بکتی ہیں اور بہت بکتی ہیں لیکن ہمیں فروخت کرنے کا ہنر نہیں آتا۔انھوں نے اپنے اخبارا کے تعلق سے یہ بھی کہا کہ آج میرا اخبار مستند اور معتبر مانا جاتا ہے۔علی گڑھ سے تشریف لائے پروفیسر شافع قدوائی نے پوسٹ ٹرتھ زمانہ کی بات کی۔ انہوںنے کہاکہ سچ اب سچ نہیں ہے بلکہ یہ تشکیل وتعمیر کیاجانے لگاہے۔ سوشل میڈیا اس سمت میں تیزی سے بھاگ رہاہے۔ پروفیسر قدوائی نے کہاکہ دنیا ہردم بدل رہی ہے۔ اخبارات اس بدلتی ہوئی دنیا کو بروقت سامنے لانے کی اہلیت نہیںرکھتے۔ اخبارات کے ویب ایڈیشن کولمحہ بہ لمحہ اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔اردو اخبارات اس سمت میں پچھڑے ہوئے ہیں ان کے ای ایدیشن تو ہیں لیکن وہی ہیں جو کاغز پر ہیں اس طر ح سے وہ ان علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں اخبار نہیں پہونچ پاتا لیکن اگر اس کو اپڈیٹ بھی ر کھا جائے تو زیادہ فائدہ ہو گا۔اخبارات ختم ہو جائیں گے تو یہ خطرہ کتابوں پر بھی ہےلیکن تین چیزی کبھی ختم نہں ہوں گی ایک چمچ،دوسرے پہیہ اور تیسری کتاب۔انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں اخبارات کی اہمیت برھ رہی ہے میڈیا جو جمہوریت کاچوتھا ستون ہے پہلا ستون بن کے سامنے آ رہا ہے۔اردو صحافی عبید اللہ ناصر نے کہاکہ اردواخبارات تجارتی گھرانوں کے ہاتھ میں آگئے ہیں۔سرکاری اشتہارات ایک پالیسی کے تحت کارپوریٹ گھرانے کے اخبارات کو دئے جا رہے ہیں اس سے متوسط طبقے کے اخبارات کے وجود پر خطرہ منڈلانے لگاہے۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نےسیشن کی صدارت کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا اور خصوصی طور پر کمپیوٹر اورموبائل پراردو کی صحیح شکل رائج کرنے پرزور دیا۔ انہوںنے کہاکہ اردو کی کچھ آوازیں عربی اور فارسی میں نہیں ہیں لہٰذا اردو والوں کو اپنی آوازوں کے مطابق یونی کوڈ بنانے کی ضرورت ہے۔عارف نقوی نے کہا کہ سوشل میدیا پر جو اردو لکھی جا رہی ہے اس سے علمی زبان کے لئے ایک مسئلہ پیدا ہوا ہے اس کے لئےضروری ہے کہ ایک معیاری ڈکشنری ترتیب دی جائے
دوسرے سیشن میںاردوادب میں تخلیق وتنقید کی صورتحال اور معاصرادب کی سمت ورفتار کے موضوعات پرپروفیسر شارب ردولوی کی صدارت میں مشترکہ پینل مذاکرہ ہوا۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے کہاکہ پاکستان ہرچیز میں پچھڑاہواہے لیکن اردو تحقیق میں ہم سے آگے نظرآتاہے۔ ہمارے پاس وہاں سے جومقالے آرہے ہیں وہ بڑے معیاری ہیں ۔ اس کی اصل وجہ طلبہ کو خاطرخواہ اسکالرشپ اور روزگارکی گارنٹی ہے۔ پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہاکہ اساتذہ میں مادہ پرستی بڑھ گئی ہے وہ نئے نئے موضوعات پر لکھنے اور کتابیں چھپوانے کے بجائے کاراور بنگلے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ طالبعلم کوتحقیق سے پہلے موضوع کے تمام تصورات کواپنے ذہن میں صاف کرلیناچاہئے۔لکھنؤ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدرڈاکٹرعباس رضانیر نے ریاستی یونیورسٹیوں کے مسائل کواٹھایا۔ انہوںنے کہاکہ اس کی مثال دوشوہروں کی ایک زوجہ کی سی ہے۔ ہم پرسیاسی دبائو بھی رہتاہے ۔ڈاکٹر نیر نے کہا کہ ناقدین کاخوف ہمارے تخلیق کاروں پر بنارہتاہے ۔ انہوںنے معاصر ادب کے حوالے سے بہت اہم سوال بھی رکھا کہ کیا آج کا تخلیق کارتنقید کے دبائو سےخود کو آزاد کرانا چاہتا ہے۔کلکتہ سے آئیںڈاکٹر نصرت جہاں نے کہاکہ زمانہ تغیر پسند واقع ہوا ہے۔ تبدیلی اپنے ساتھ نئی دنیااور نئے مسائل بھی لاتی ہے۔تحریکوں اور نظریات کی جکڑبندیوں سے آزاد ہو کر آج انسانیت کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ دلت ادب میں ہماری رفتار ہندوستان کی دیگرعلاقائی زبانوں کے ادب سے سے سست ہے اور ہمیں اس سمت میں تیز رفتاری کامظاہرہ کرنا چاہئے۔ پروفیسر محمد کاظم(دہلی) نے کہاکہ ہمارے تخلیلق کار ادبی معیار کے بجائے مارکیٹ ویلیو کی طرف دیکھ رہے ہیں ان کے سامنے ہماری ثقافت ہمارا ماضی اب نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ صاحب الرائے ناقدین کوکسی تخلیق پرفیصلہ کرنے میں جلدبازی سے کام نہیں لیناچاہئے۔حوصلہ افزائی کے لئے تحریر میں آئے الفاظ کل سند سمجھے جائیں گے۔اس سے ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو گا کہ فی الواقع کون سی شاعری بڑی ہے اور کون سا افسانی بڑا ہے۔پروفیسر قاسم امام(ممبئی) نے کہاکہ ہمارے اندر بھی صارفیت پیر پسارنے لگی ہے۔ بازاراور گھر کافاصلہ ختم ہوتاجارہاہے۔ مذاکرے کے صدر پروفیسر شارب ردولوی نے پورے مذاکرے کاماحصل بیان کیا۔ انہوںنے کہاکہ یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں ہوناچاہئے کہ ہمارے یہاںتحقیق کامعیار گراہے۔ تحقیقی کاموں میں کھوئی ہوئی چیزوں کونظراندازکیاجارہاہے جبکہ تحقیق کامطلب ہی تلاش ہے اور تلاش کھوئی ہوئی چیزوں کی ہی ہوتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ تحقیق کے لئے موضوعات بھی نہیں رہ گئے ہیں۔ محنت کوئی نہیں کرنا چاہتا۔نہ اساتذہ اور نہ طلبہ۔۲۰۔۲۲ طلبہ کاایک نگراں ہر موضوع اور ہر طالب علم کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔معاصر ادب کے بارے میں انھوں نے کہا کہ جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس سے میں مطمئن ہوں۔وہ ایسا نہیں ہے کہ اس کی طرف دھئیان نہ دیا جائے۔ہم نے عوام سے جو رابطہ ۱۹۳۶میں جوڑا تھا اسے توڑنے کی کوشش کی گئی اور صرف اپنیات کی بات ہونے لگی لیکن اب ایسا نہیں ہے آج کہانی کی واپسی ہوئی ہے بیانیہ کی واپسی ہوئی ہےاور یہ ادب کے لئے ایک خوش آئند بات ہے۔ پروفیسر شارب نے کانفرنس کو کامیاب بتاتے ہوئے شیخ الجامعہ اور اساتذہ کو مبارکباد دی ۔
ظہرانے کے بعد تیسرا سیشن شروع ہوا ممبئی سےآئے جمیل گلریز اور ان کی ٹیم نے اپنے مخصوصڈرامائی انداز میں منٹو،پریم چند اور دیگرادیبوں کے افسانے سنائے اور سامعین کومسحور کیا۔
کانفرنس کی اختتامی تقریب کی صدارت مولانا سعید الرحمن اعظمی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء نے کی۔ مہمان اعزازی مولانا حسن ظہیر نے اردو زبان کے فروغ کے لئے کوشاں رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہاکہ اردو کو گھروں میں جگہ دی جانی چاہئے۔صدارتی کلمات میں مولانا سعید الرحمن اعظمی نے تعلیم کی اہمیت پرزور دیتے ہوئے کہاکہ انسان اورانسانیت بغیر علم کے پیدانہیں ہوسکتی ہے۔اللہ نے حضرت آدم کو تمام علوم سکھائے تھے اور اس درجہ پر انسان کو فائز کیا کہ فرشتے بھی اسے سجدہ کریں۔ عبادت کادرجہ بھی علم کے بعد ہی آتاہے۔تعلیم کے بغیر ہم اپنے خالق کو بھی پہچان نہیں سکتے۔ تعلیم منفی کام کرنے کی اجازت قطعی نہیں دیتی ہے۔ انہوںنے یونیورسٹی کی دن دونی رات چوگنی ترقی کے لئے دعاکی۔آخری مرحلہ میں کانفرنس میں شرکت کرنے والے اور ذمہ داریاں ادا کرنے والے سبھی افراد کو سرٹیفکیٹ تقسیم کے گئے۔اخیر میں وائس چانسلر پروفیسر ماہ رخ مرزا اور کانفرنس کے چیئرمین ڈاکٹرعمار رضوی نے تمام مہمانوں، صحافیوں، اساتذہ وطلباء کا شکریہ اداکیا۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular