Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldانگریزی کے نباتاتی نام:عربی، فارسی اورہندوستانی زبانوںسے ان کا رشتہ

انگریزی کے نباتاتی نام:عربی، فارسی اورہندوستانی زبانوںسے ان کا رشتہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

دنیا کی اہم زبانوں کے عروج وزوال کی کہانی نہایت سبق آموز ہے، جن زبانوں نے دوسرے علاقوں اورغیر زبانوں کے الفاظ بہ آسانی اور بے تکلف اپنا لئے وہ سائنس، معاشیات، تاریخ اوردیگر موضوعات کے اعتبار سے مالا مال ہو گئیں اورعوامی زبان بن کر زندگی کے ہر شعبہ پر چھاگئیں لیکن جن زبانوں میں جمود پیدا ہوگیا اور جوخارجی اثرات کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنے ہی الفاظ کے پیچ وخم سنوارتی رہیں وہ یا تو یکسر فراموش کردی گئیں یا پھر خانقاہوں درباروں اور دقیق ادبی تصنیفات میں قید ہو گئیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب عربی زبان الفاظ کے اعتبار سے بڑی مالدار زبان تھی، دنیا کی بیشتر اہم زبانوں کی طبی، سائنسی اور تاریخی تخلیقات کو بڑی خوبصورتی سے عربی میں منتقل کردیا گیا تھا۔لاطینی ، یونانی، سنسکرت، عبرافی ،حبشی وغیرہ کی اصطلاحات عربی میںکچھ اس طرح اپنا لی گئیں کے وہ اس کے زبان وادب کا دلفریب حصہ بن گئیں۔ نتیجہ یہ ہواکہ عربی زبان نے دنیا کو سائنسی علم کا وہ ادب مہیا کر دیا جس سے آج تک استفادہ کیاجارہاہے۔ پھر ایک دو ر وہ آیا جب فارسی زبان میں بھی عربی کی طرح وسعتیں پیدا کی گئیں اور وہ دنیاکی اہم زبان تصورکی جانے لگی۔ عربی اور فارسی کے اثرات جب ہندوستان پر مرتب ہونے لگے تو یہاں ایک نئی جاندار زبان نے جنم لیا، ابتداء میں تو اس کے کئی نام دئے گئے لیکن آخر کار اردو کہلائی۔ اس نئی زبان نے دنیا کی اہم زبانوں کے محاوراتی اور اصطلاحی الفاظ کو بڑی خوبصورتی سے اپنا لیا۔ عربی فارسی، ترکی، سنسکرت کے علاوہ بہت سی ہندوستانی زبانوں اور Dialectsکے الفاظ اردو کا سرمایہ بن گئے۔ اس طرح وہ ترقی کی منزلیں طے کرتی گئی اورعوام کے دلوںاور دماغوںپر راج کرنے لگی حتیٰ کہ وہ دور آیا جب انگریزی نے اپنا سکہ جمانا شروع کردیا۔ اور خواص وعوام نے انگریزی کو اپنانے میں نفع محسوس کیا۔ سرسیداور راجہ رام موہن رائے جیسی شخصیتوں نے انگریزی کی زبردست وکالت شروع کردی۔ ان کے خیال میں اس زبان کی وسعتیں لا محدود تھیں۔حقیقت بھی یہی تھی، انگریزی زبان میں دنیا کی تقریباً ہر اہم زبان کے الفاظ، نام، محاورات اورتشبیہات کو بڑی آسانی سے قبول کر لیا گیااور ان کی بنیاد پر نئی سائنسی اصطلاحات وضع کی جانے لگیں جو آسان بھی تھیں اورعام فہم بھی۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور اس میں انگریزی کی عالمی مقبولیت کا راز مضمر ہے۔ ہر سال انگریزی کی نئی ڈکشنریاں سیکڑوں غیر انگریزی الفاظ شامل کرتی ہیں۔ تماشہ، کرشمہ،ہنگامہ یہ سب اب انگریزی کے الفاظ ہیں۔ یوں تو عربی، فارسی، اردو ہندی کے ہزاروں الفاظ بتائے جا سکتے ہیں جو انگریزی میں اپنا لئے گئے ہیں لیکن زیر نظرمضمون میں صرف ان ناموں کا ذکر کیا جارہا ہے جن کا تعلق نباتات سے ہے اور جو ہندوستانی زبانوں سے عربی وفارسی میں منتقل ہو کر انگریزی نام بن گئے یا پھر عربی اور فارسی سے منتقل ہوکر ہندوستانی زبانوں میں بالعموم اور اردو ہندی میں بالخصوص آئے اور انگریزی میں اپنالئے گئے ۔کچھ ایسے بھی نباتاتی نام ہیںجولاطینی اور یونانی زبانوں سے عربی میںمنتقل ہوکرانگریزی میں اپنا لئے گئے۔ایسے ہی نباتاتی ناموں کی چندمثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
سب سے قبل ان تین الفاظ کا ذکر مناسب ہوگا جن کی بابت عالی مرتبت عالم دین مولانا سید سلیمان ندوی نے تحریر فرمایا کہ :
’’ہم ہندوستانیوںکے لئے یہ امر قابل فخر وافتخار ہے کہ ہماری جنت نشاں سر زمین کے تین الفاظ ایسے ہیں جنہوںنے قرآن میںجگہ پائی ہے۔ وہ ہیں زنجبیل، مِسک اورکافورـ۔’’ـــــــ
مولانا سید سلیمان ندوی کی رائے میں زنجبیل سنسکرت کے شر نجبیر سے وضع کردہ عربی لفظ ہے جس کے معنی سونٹھ (ادرک) کے ہیں۔اسی طرح سنسکرت لفظ مُشک کو عربی میں مِسک کہاگیا ۔ یہ ہرن کے پیٹ سے نکالی گئی خوشبو کا نام ہے۔ لفظ کافور کا ماخذ مولانا کی نظر میں ہندوستانی لفظ کرپور اور کپور ہے۔ اب دیکھئے یہ تینوں عربی کے الفاظ بڑی خوبصورتی سے انگریزی میں گویا چُرا لئے گئے یعنی زنجبیل کو Ginger اور Zingiber کہا گیا،مسک کو Muskاورکافور کو Camphorکا نام دیاگیا ۔
تمر عربی میں کھجور کو کہتے ہیں۔ ہندوستان کی املی سے جب عرب واقف ہوئے اوراس کا استعمال بڑے پیمانے پر مشروبات میںکرنے لگے تو اس کو تمر ہندی (تمر ہند) کا نام دیا۔ یہ لفظ انگریزی میں بہ آسانی Tamarindہوگیا۔ اس طرح آج ہندوستانی املی Tamarind ہے اور اس کا درخت Tamrindus Indica کہلاتا ہے۔ چمیلی کے پھول کو عربی میں یاسمین کہا جاتا ہے۔ یہ نام اردو اور فارسی میں بھی معروف ہے۔ انگریزی نے یاسمین کو اپنا کر Jasmineکردیا۔
مہندی کا اردو اور فارسی نام حناء ہے جب کہ عربی نام حنّاء ہے یہ نام جوں کا توں انگریزی میں Hinnaکے طور پر اپنا لیا گیا۔ انناس کو یوں توPineappleکہتے ہیں لیکن اس کا نباتاتی نام Ananas sativusرکھاگیا ہے۔ واضح رہے کہ ہندی لفظ انناس عربی کے عین الناس (اناناس) سے ماخوذ ہے جس کے معنی ناس کی آنکھ کے ہیں۔
تاڑی ایک ایسی دیسی شراب ہے جو خاص قسم کے تاڑ کے درختوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ انگریزی کے لئے تاڑی کاتلفظ یوں بھی مشکل تھا لہٰذا انگریزی میں اس کو Toddyکہا جانے لگا ۔Alcohol بہ معنی شراب بھی عربی لفظ الکحل ہے۔
قدیم دور میں گنے سے نکالی گئی شکرکو ہندوستان میں شر کرہ کہاجاتا تھا اور جب اس کو مزید صاف کیاجاتا تو کھانڈ کا نام دیا جاتا۔ حالانکہ اب صورت حال بالکل الٹی ہے کیونکہ آج کل کچی شکر کو کھانڈ اور صاف شکرکو شکر کہا جاتا ہے۔ بہر حال دسویں یا گیارہویں صدی میں ہندوستان کی شکر (شرکرہ) عرب جانے لگی جہاں اس کو سُکر کہا گیا۔ جب یہ سُکر عربوں کے ۔ توسط سے یورپ پہنچی تو Sugarکہلائی۔کھانڈ کو عربی میں قند سے تعبیر کیاگیا جسے انگریزی میں Candyکا نام دیا گیا۔ فی زمانہ عمدہ قسم کے شکر کے ٹکڑے کو Sugar Candy کہاجاتا ہے۔ آم کا اصل علاقہ مدراس بتا یاجاتا ہے جہاں اسکا نام منگے ہے اسی لئے اسے Mango کا نام دیا گیا۔
Aloesنام کی دوا آج ساری دنیا میں استعمال ہوتی ہے اس لفظ کاماخوذ بھی ایلوہ (اردو، ہندی،فارسی) اور الالوہ (عربی) الفاظ ہیں جو مصبر (صبر) اور گھنیکواڑ کے دوسرے نام ہیں۔
لوبان کی تاریخ بھی کافی دلچسپ ہے۔ پرانے زمانے میں ’’لبان‘‘ نام کا خوشبو دار گوندعرب کے علاقہ یمن سے ہندوستان لایا جاتا تھااور یہاں جنوبی ہند کی عبادت گاہوں میں دھونی کے طور پر استعمال ہوتاتھا اور عام زبان میں لبان کے بجائے لوبان کہلاتا تھا۔ انہی دنوں جاوا سے ایک دوسرا خوشبو دار گوند در آمد کیا جاتا تھا جو بازاروں میں عام طور سے دستیاب تھا۔ عرب تاجر اس کو خریدکر اپنے ملک لے جاتے اور مصر کے بازاروں میں لوبان جاوی کے نام سے بیچتے تھے۔لوبان جاوی جب یورپ لے جایا گیا تو وہاں بن جاوی (Banjave) ہوگیا، پھرکچھ عرصہ بعد Benjamin کہلایاجانے لگا۔ بعدمیں انگریزی زبان میں اس کو Benzoinکا مستقل نام دے دیا گیا۔ آج ساری دنیا میں لوبان جاوی Benzoin کے نام سے مشہور ہے اور یمن کا لوبان (لبان) Olibanumکہلاتا ہے۔
نیم کے درخت کو فارسی میں آزاد درخت کا نام دیا گیا ہے جو انگریزی میں بڑی آسانی سے Azadirachta بن گیا۔
ایک طویل فہرست ان نباتاتی ناموں کی مرتب کی جاسکتی ہے جو اب انگریزی زبان کے نام ہیں لیکن اگر تجزیہ کیاجائے توانکشاف ہوگا کہ ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح ہندوستانی یا عربی و فارسی زبانوں سے ہے۔ الفاظ کی یہ چوری انگریزی زبان کی طاقت ووسعت ہے نہ کہ کمزوری۔ذیل میں چند انگریزی کے نباتاتی ناموں کی فہرست پیش کی جاتی ہے جن کا ماخذ عربی، فارسی، اردو یا ہندی ہے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular